محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
غیرمقلدین کو پُرخلوص دعوتِ فکر وعمل
کیا دین کو جاننے کے لئے صرف کتاب و سنت کافی ہیں؟
بلا شبہ کتاب و سنت اصل ہیں اس کا کوئی منکر نہیں ہے، مگر اس کے باوجود ہمیں اور آپ کو نہ صحابہ کرام سے استغناءہے نہ تابعین اور ائمہ دین اور فقہائے اسلام اور محدثین کرام سے، کتاب و سنت کا صحیح مفہوم معلوم کرنے کے لئے بہر حال ہمیں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے اور ان کے تفقہ و علم سے ہمیں کوئی چارہ نہیں ہے، جب ہم صحابہ کرام اور فقہائے اسلام کی رہنمائی کے بغیر اپنے سے کتاب و سنت کا معنی اور مفہوم متعین کریں گے تو بسا اوقات گمراہ ہو جائیں گے۔
صحابہ کرام اور تابعین و ائمہ دین اور فقہائے اسلام نے دین کو جس طرح سمجھا ہے اور اس کے بارے میں ان کی جو رہنمائی ہے وہی اصل دین ہے، کتاب و سنت سے جو مفہوم اور معنی ہم متعین کریں گے وہ دین نہیں کہلائے گا، بلکہ اگر اسلاف سے ہٹ کر ہم نے اپنی عقل سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی تو دین کا تماشا بن جائے گا، اور یہی وجہ ہے کہ امت کے تمام بڑوں نے دین کو اسلاف کے بیان و شرح کی روشنی میں سمجھنے کی عام مسلمین کو تلقین فرمائی ہے، ائمہ دین اور فقہائے اسلام اور محدثین کرام نے بھی صحابہ کرام کو دین کے بارے میں آپنا مقتدیٰ ماناہے اور انہوں نے کبھی اس کی جرأت نہ کی کہ صحابہ کرام کو دین کے بارے میں معیار قرار نہ دیں۔ صحابہ کرام و تابعین اور فقہائے اسلام یہ تمام امت کے وہ افراد ہیں کہ صحیح دین کیا ہے اسے سمجھنے کے لئے ان کی ضرورت ہے، ہم ان کی رہنمائی کے محتآج ہیں۔
ابن تمییہ رحمة اﷲ علیہ علم کا پہاڑ تھے مگر وہ بھی فرماتے ہیں کہ :
جو سنت، حدیث، اقوال صحابہ، اور اقوال تابعین وغیرہم سے باخبر نہ ہو گا وہ دین کو صحیح نہیں سمجھ سکتا، اس وجہ سے کہ سلف نے قران کی کیا تفسیر کی ہے اور خالص سنت کیا ہے اس کا علم انہیں وجوہ سے ہو گا“۔
(منہاح السنہ ج3 ص71)
جن لوگوں کو بخاری پڑھنے پڑھانے کا اتفاق ہے، انہیں معلوم ہے کہ امام بخاری رحمة اﷲ علیہ صحابہ کرام، تابعین، فقہاءو محدثین تمام کے اقوال ذکر کرتے ہیں اور ان سے شرعی مسئلہ ثابت کرتے ہیں،اگر ان حضرات کا قول و فعل حجت نہ ہوتا تو امام بخاری کو ان کے اقوال سے استدلال کرنے کی حآجت کیا تھی، وہ صرف قران کی آیت اور حدیث ذکر کر دیتے یہ کافی تھا، مگر امام بخاری کو وہ بات نہ سوجھی جو ان اہلحدیث حضرات کو سوجھی ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ انحضور ﷺ دو رکعت فجر سے پہلے اور دورکعت عصر کے بعد کبھی نہیں چھوڑتے تھے، اگر صرف حدیث ہی کو دیکھ کر کسی کو دین سیکھنا ہے تو وہ عصر بعد دو رکعت پڑھے، مگر امت میں کوئی اس کا قائل نہیں ہے، اس لئے کہ ہمیں صحابہ کرام سے معلوم ہوا کہ یہ انحضور ﷺ کی خصوصیت تھی اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جو لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے انہوں نے جب عصرکے بعد ان دو رکعتوں کا معمول بنآیا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو ان کے ساتھ سختی کرنی پڑی، شیخ الاسلام ابن تمییہ فرماتے ہیں :
قد کان عمر رضی اﷲ عنہ یعزر الناس علی الصلوٰة بعد العصر مع ان جماعة فعلوہ لماروی عن النبیﷺ انہ فعلہ وداوم علیہ لکن لما کان من خصائصہ ﷺ و کان النبی ﷺ قد نھی عن الصلوة بعد العصر حتی تغرب الشمس و بعد الفجر حتی تطلع الشمس کان عمر یضرب من فعل ھذہ الصلوٰة
(فتاوی ص168ج20)
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ عصرکے بعد نماز پڑھنے پر سزا دیتے تھے، حالانکہ ایک جماعت کا اس پر عمل رہا، ان کی دلیل تھی کہ نبی اکرمﷺ نے عصر بعد ( دو رکعت) نماز پر مداومت کی ہے، لیکن چونکہ یہ حضور اکرم ﷺ کی خصوصیت تھی اور آپ نے فجر اور عصرکے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا تھا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جو عصرکے بعد نماز پڑھتا تھا اس کو سزا دیتے تھے۔
حضور اکرمﷺ سے کہیں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ نے عصر کے بعد دو رکعتوں کو اپنی خصوصیت فرمایا ہو،مگر جوصحابہ کرام حضور اکرم ﷺ سے بہت قریب تھے ان کو یہ معلوم رہا کرتا تھا کہ آپ کا کون ساکام محض اپنے لئے ہے اور کون ساکام تمام امت کے لئے ہے۔ اس لئے ان صحابہ کرام کی رہنمائی کے بغیر صحیح سنت کا علم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
ایک دوسری مثال لیجئے بخاری و مسلم کی صحیح روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ لیس علے المسلم فی فرسہ ولا عبدہ صدقة یعنی مسلمان کے گھوڑے اور اس کے غلام میں زکوٰة نہیں ہے۔
اس حدیث کا ظاہر مفہوم ہے کہ مسلمان کے پاس کسی طرح کے گھوڑے اور غلام ہوں اس میں زکوٰة واجب نہ ہو گی، اگر کوئی صرف حدیث کو دیکھے گا تو اس کا یہی مذہب ہونا چاہئے، مگر ظاہریہ کے علاوہ کسی نے حدیث کا یہ مطلب نہیں لیا ہے بلکہ جمہور اہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ اگر یہ گھوڑے اور غلام تجارت کے لئے ہوں گے تو اس میں زکوٰة واجب ہو گی، خود غیر مقلد عالم مولانا عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں کہ :ان زکوة التجارة ثابتة بالاجماع....فیخص بہ عموم ھذا الحدیث۔
(تحفہ ص7ج2)
یعنی گھوڑے اور غلام اگر تجارت کے لئے ہوں تو ان کی زکوٰة اجماع سے ثابت ہے، پس اجماع سے حدیث عام کا مفہوم خاص کیا جائے گا۔
دیکھا آپ نے حدیث عام تھی مگر اس کو اجماع سے خاص کرنا پڑا، اجماع نہ کتاب اﷲ ہے اور نہ سنت یہ صحابہ کرام و تابعین وغیرہم کا قول و عمل کے اتفاق کا نام ہے۔
اگر صحابہ کرام کا دین میں اور دین کی تشریح و توضیح میں کوئی مقام نہیں ہے صرف کتاب و سنت ہر شخص کے لئے کافی ہیں تو انحضورﷺکا یہ ارشاد معاذ اﷲ لغو ہے، آپﷺ فرماتے ہیں۔اقتدوابالذین بعدی ابی بکر و عمر یعنی میرے بعد جو دو انے والے ہیں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر تم لوگ ان کی پیروی کرو، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو آپ مستقل امت کا مقتدیٰ فرما کر ان کی پیروی و اقتدا کا حکم فرما رہے ہیں علیکم بسنتی و سنة الخلفاءالراشدین فرما کر آپ نے تمام خلفائے راشدین کی سنت کو مستقل دین بتلا کر ان کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا ہے، اگر خلفائے راشدین کا دین میں کوئی مقام نہیں تو آپ کا یہ ارشاد کیوں؟
جن کی نگاہ کتاب و سنت پر ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام اور مجتہدین فقہاءکی رہنمائی کے بغیرکتاب و سنت کو سمجھا نہیں جا سکتا اور نہ پورے و مکمل دین پر عمل کرنا ممکن ہے، صحابہ کرام اور تابعین و ائمہ دین و فقہائے کرام کو ساقط قرار دے کر دین پر ایسا ہی عمل ہو گا جیسا کہ اہل قران کا عمل دین پر ہوتا ہے۔
جب آدمی خودرائی پر اتا ہے اور صرف اپنی عقل پر بھروسہ کرتا ہے تو اس کا مزاج کیسا بن جاتا ہے اور اس کی زبان سے کیا کچھ نکلتا ہے، اس کی ایک مثال سنئے :
مرنے کے بعد مومن اور کافر کی حالت الگ الگ ہوتی ہے، نبی اور غیر نبی کی حالت میں زمین و اسمان کا فرق ہوتا ہے، یہ بات مسلم ہے کسی مسلمان کا اس میں اختلاف نہ ہونا چاہئے۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی غیر مقلدین کے بہت بڑے امام ہیں جب انہوں نے غیر مقلدیت کے ذہن سے اس مسئلہ پر غور کیا اور صحابہ کرام و تابعین اور ائمہ دین اور فقہائے امت کو بیچ سے نکال کر اس بارے میں سوچا تو اب ان کی رائے اور سوچ یہ تھی، فرماتے ہیں :
”وجملہ اموات از مومنین و کفار از حصول علم و شعور و ادراک و سماع و عرض اعمال دروجواب برزائر برابر اند تخصیص بانبیاءو صلحاءنیست“
(دلیل الطالب ص886)
یعنی تمام مرد ے عام اس کے کہ وہ مومن ہوں یا کافر علم و شعور ادراک سننے اعمال کے پیش ہونے اور زیارت کنندہ کے سلام کا جواب دینے میں برابر اور یکساں ہیں اس میں حضرات انبیاءعلیہم السلام اور صلحاءکی کوئی تخصیص نہیں۔
بھلا بتلایئے کہ مرنے کے بعد کیا کافر کا شعور و علم اور انبیاءعلیہم السلام کا شعور و علم برابر ہے، کیا یہ بات کسی مسلمان کی زبان سے نکل سکتی ہے، کیا قبر میں جس طرح انبیاءعلیہم السلام سنتے ہیں کافر کا بھی سننا اسی طرح سے ہوتا ہو گا۔
ذرا کسی حدیث کا غیر مقلدین اتہ پتہ بتلائیں جس سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہو۔نواب صاحب مرحوم سے ایسی شدید لغزش محض اس بنا پر ہوئی کہ انہوں نے دین کو اسلاف سے سمجھنے کے بجائے اپنی رائے سے سمجھنے کی کوشش کی، میرے نزدیک کسی بھی مسلمان کے لئے یہ نہایت خطرناک بات ہے کہ اس میں اسلاف کی عدم تقلید اور ان کےعلم و فہم سے بیزاری کا جرثومہ پیدا ہو جائے۔آجکل غیر مقلدین کا نوجوان طبقہ سلفیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے امت کے نوجوانوں کو اسلاف ہی سے بدظن کر رہا ہے ، یہ وقت حاضر کا بہت بڑا فتنہ ہے، اﷲ اس کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے، اور ہمیں صحابہ کرام و تابعین ، عظام، ائمہ دین، فقہائے امت اور محدثین کے راستہ پر گامزن رکھے انہیں کا ہمیں متبع و مقلد بنائے اور انہیں علم و فہم کی روشنی میں ہمیں دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، تقلید میں دین و ایمان کی سلامتی ہے عدم تقلید کا راستہ نہایت خطرناک ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذاہب اربعہ کے مدون ہو جانے کے بعد ساری امت نے اسی تقلید کے راستہ کو اختیار کیا ہے، ہمارے اور آپ کے بھی دین کی سلامتی کا واحد ذریعہ اور خصوصا اس زمانہ میں بھی تقلید اور اسلاف پر اعتماد ہے۔
(مولانا ابوبکر غازی پوری)
مسلمان اہلحدیث بھائی اور بہنوں کیلئے دعوت فکر
مسلمان اہلحدیث بہنوو بھائیو آپ کے اکابرین امت مسلمہ سے ہٹ کر آپ کومرزا غلام احمدکے اعمال پر چلا رہے ہیں۔
ان کے بےشمار اعمال میں سے چند عمل ملاحظہ ہوں۔ بحوالہ مرزائیوں کی مشہور فتاوی کی کتاب فتاوی احمدیہ:
مسئلہ نمبر۱:ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک کہنا-(فتاوی احمدیہ جلد 1ص33)
مسئلہ نمبر ۲:نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھنا- (فتاوی احمدیہ جلد 1ص33)
مسئلہ نمبر۳ :فاتحہ خلف الامام کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص34)
مسئلہ نمبر ۴:رفع یدین کے بارے میں حتی لقی اﷲ پیش کرنا۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص34)
مسئلہ نمبر ۵:امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ علیہ کو تابعی ہونے کا انکار کرنا ۔ (فتاوی احمدیہ ص8)
مسئلہ نمبر۶:اٹھ تراویح پڑھنا بیس تراویح نہ پڑھنا ۔ (فتاوی احمدیہ جلد 1ص176)
مسئلہ نمبر۷ :فرض نماز کے بعد دعا کو بدعت کہنا ۔ (فتاوی احمدیہ جلد 1ص26)
مسئلہ نمبر۸:نماز جنازہ جہری (یعنی بلند) اواز میں پڑھنا۔
مسئلہ نمبر۹:سوتی جرابوں پر مسح جائز ہے۔(فتاوی احمدیہ جلد 1ص37)
غور کیجئے:
مسلمان اہلحدیث بہنوں و بھائیوں کو دعوت فکر ہے کہ آپ اہلحدیث اورسنی علماءدونوں کے دلائل سن کر اور سمجھ کر پھر فیصلہ کریں۔
یعنی صرف ایک مسلک والوں کے دلائل سن کر اس پر عمل کرنا شروع کر دینا کوئی عقلمندی اور دیانتداری نہیں۔ایسے تو پھر (اﷲحفاظت فرمائے)قادیانی بھی اپنے عقائد بتا کر تمہیں پھسلا دے گا۔
مقلدین کو پُرخلوص دعوتِ فکر!!!
فرمانِ باری ہے:
''اے ایمان والو! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرو اور اولی الامر (امراء یا اہل علم) کی بھی، پس اگر تمہارا کسی شے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ زیادہ بہتر اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔'' سورة النساء: ٥٩
حدیث کی اہمیت مقلد کی نظر میں !!!
قرآن کی اہمیت مقلد کی نظر میں !!!