عینک پہننے کا شوق آپ کی جماعت کو زیادہ ہے راقم الحروف معاملات کو کھلی آنکھ سے دیکھنازیادہ پسند کرتاہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب ابن خلدون کی عبارت پر بحث نہیں ہوگی اورقیل وقال کا دروازہ کھل جائے گا تب بحث کے کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے کا امید نہیں ہے۔ ابن خلدون نے اس خدشہ کااظہار کیاہے کہ اگر اجتہاد کا دروازہ چوپٹ ہرایک کیلئے کھول دیاگیاتو پھراس میدان میں ایسے اشخاص بھی داخل ہوں گے جواس کے اہل نہیں ہیں اورنتیجہ کیاہوگا وہ اندازہ لگانامشکل نہیں ہے۔
(١)
اوریہ کوئی نظربات نہیں ہے جب عالم اسلام کو سیاسی طورپر ضعف ہوا اورآزادی کی ہواچلی اور پھر اجتہاد کرنے اورتقلید سے باہر نکلنے کی تحریک نے زورپکڑا تواسی وقت تجدد کی تحریکوں نے بھی زور پکڑا اوراس کا نتیجہ ہم ہرآئے دن دیکھ رہے ہیں کہ ہرشخص اپنی ایسی تحقیقات پیش کررہاہے جس کو نہ قرآن سے مس ہے نہ حدیث سے تعلق اورنہ اسلاف سے کوئی ربط۔
(٢)
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کے نزدیک اجتہاد کے شرائط بہت نرم اورڈھیلے ڈھالے ہیں
(٣) اس لئے مجتہدین تھوک کے حساب سے تیار ہوتے ہیں زبیرعلی زئی مجتہد، توصیف الرحمن مجتہد اورطالب الرحمن صاحبان مجتہد اورہرشخص جو درس نظامی سے فارغ ہو وہ مجتہد
ہربوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
لیکن دیگر جمہور علمائ اس کے قائل نہیں ان کے یہاں اجتہاد کی شرائط بڑی کڑی ہیں اورکچھ ہی اشخاص اس کسوٹی پر پورااترتے ہیں۔
(٤)
تحریک عدم تقلید یاغیرمقلدیت سے فتنہ پھیلاہے اورتجدد کی تحریکوں کو اس سے تقویت ملی ہے اس میں کوئی شک نہیں آج جب کوئی شخص اپنے کسی ایسے رائے کا اظہار کرتاہے جس کو کتاب وسنت اوراسلاف سے ربط نہیں اوراس کو ٹوکاجاتاہے تویہی جواب آتاہے کہ ہم ماضی کے علماء کے مقلد نہیں ہیں ۔ اپنی رائے کااظہار ہماراحق ہے وغیرذٌک
(٥)
تویہ فتنوں کے تعلق سے بات تھی جس کے اندیشہ کا بجاطورپر ابن خلدون نے اظہار کیا اورجوہماری آنکھون کے سامنے وقوع پذیر ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوگیاکہ مانگے کے اجالے اورفتنے کا الزام دونوں کے درمیان ربط قراردے کر ائمہ مجتہدین کو بھی بیچ میں کھڑاکرناغلط ہے۔
جہاں تک مانگے کے اجالے کی بھی بات ہے تو یہ میری نگاہ میں کم ازکم غلط نہیں ۔
بات بنیادی صرف اتنی ہے کہ دیوبندیوں نے کوئی ایسااجتہاد نہیں کیاہے جس پر کسی نہ کسیی حیثیت سے فقہاءے احناف نے کلام نہ کیاہو۔ میرے علم اورمطالعہ کی حد تک ۔ لہذا یہ اعتراض ہی غلط ہوجاتاہے کہ اہل حدیث نے وہ کون سااجتہاد کیاہے جسے دیوبندیوں نے محض اس بناء پر اجتہاد نہیں کیاہو کہ وہ اجتہاد کے درکے کھلے ہونے کے مدعی نہیں ہیں۔
ائمہ اہل حدیث حضرات جوکچھ اجتہاد کرچکے ہیں اس سے ہمیں فی الحال سروکار نہیں ۔ سروکار توہمیں برصغیر کے اہل حدیث حضرات سے ہے کہ ان کے اجتہادات کے نمونے توپیش کئے جائیں جس سے لگے کہ ان میں مجتہدانہ شان نمایاں ہے۔ اوردیگر اہل علم بھی اس کو اجتہاد تسلیم کریں۔
میں نے توشیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین صاحب سے لے کر نواب صدیق حسن خان اورمولانا اسماعیل سلفی اوردیگر بزرگان اہل حدیث کی نگارشات اور’’تحریرات‘‘کا مطالعہ کیا لیکن اجتہاد کی شان کہیں بھی لگی نہیں۔ شاید یہ میری کوتاہی ہوگی ۔ یاہوسکتاہے کہ ان حضرات کی وہ تحریریں جن میں شان اجتہاد نمایاں ہومیری نگاہوں سے نہ گزری ہوں ان تحریروں کا حوالہ دے دیں۔
اگران حضرات کی تحریروں میں شان اجتہاد اوراجتہادانہ ملکہ مجھے نظرآیاتواسی لمحہ میں اپنی بات کے غلط ہونے کا اعتراف کرلوں گا اوریہ کہنے میں مجھے کوئی باک اورجھجک نہیں ہوگی کہ میں غلط تھا اورشاکر محمود صاحب درست تھے۔
(٦)
میں نے تحقیق کی جس شاہراہ پر چلناقبول کیاہے اپنے لئے اسی کی وجہ سے میں مسلک اہل حدیث یاغیرمقلدیت سے ہٹ کر حنفیوں سے قریب ہوا
(٧)۔ اگرکل مجھے لگے کہ علمی اورتحقیقی طورپر مسلک اہل حدیث زیادہ بہتر ہے تواس کوبھی قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی ۔ والسلام