السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک بھائی کا سوال:
میں نے سنا ہے کہ جو غیر اللہ کی نیاز کھاتا ہے اسکی ٤٠ دن تک نماز قبول نہیں ہوتی.
کیا یہ درست بات ہے؟
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
غیر اللہ کے نام کا کھانا بہت سخت حرام ہے ، اس سے کم درجہ کے حرام کو کھانے پینے پر چالیس دن کی نماز قبول نہ ہونے کا فرمان مصطفی ﷺ
موجود ہے ،
* عن عبد الله بن عمرو رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"لا يشرب الخمر رجل من أمتي فيقبل الله منه صلاة أربعين يوما"
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : ”میری امت کا کوئی شخص شراب نہ پیئے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں کرے گا“ ))
أخرجه النسائى وصححه الألبانى.
** عن بعض أزواج النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال :"من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة" رواه مسلم.
اور جنان نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو کسی غیب دان کے پاس گیا اور اس سے سوال کیا ( اور اسکی تصدیق کی ) تو اسکی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہونگی ‘‘
** "والذي نفس محمد بيده إن العبد ليقذف اللقمة الحرام في جوفه ما يتقبل منه عمل أربعين يوماً" قال الألبانى ضعيف جدا.
اور سنداً ضعیف روایت میں ہے کہ :
لقمہ حرام کھانے والے کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی ‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ کھانا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 06 April 2016 09:43 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو جانور بہ نیت نذر غیر خدا ذبح کیا جائے ، اگر چہ بوقت ذبح بسم الله ا لله اكبر کہا' لیکن نیت نذر غیر خدا اور تقرب الی غیر اللہ کی ہے ' اس جانور کا گوشت کھانا شرع میں حلال ہے یانہیں ؟ اور اس کے کرنے والے پر کای حکم ہوگا؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نذر بغیر اللہ حرام قطعی ہے ۔ اس لیے کہ نذر عبادت ہے التزام عبادت غیر لازمہ سے' اور عبادت غیر خدا کی حرام ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے
﴿ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ﴾
اور بھی فرمایا ہے:
﴿وَقَضىٰ رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ﴾
اور حنفیہ کے مشہور محقق عالم علامہ ابن نجیم مصری نے بحر الرائق میں لکھا ہے :
وأما النذر الذي ينذره أكثر العوام على ما هو مشاهد كأن يكون لإنسان غائب أو مريض، أو له حاجة ضرورية فيأتي بعض الصلحاء فيجعل سترة على رأسه فيقول يا سيدي فلان إن رد غائبي، أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب كذا، أو من الفضة كذا، أو من الطعام كذا، أو من الماء كذا، أو من الشمع كذا، أو من الزيت كذا
فهذا النذر باطل بالاجماع لوجوه منها انه نذر للمخلوق والنذر للمخلوق لايجوز’لانه عبادة والعباد لاتكون للمخلوقّ ومنها ان المنذر له ميت ‘ والميت لايملك ومنها انه ظن ان الميت يتصرف في الامور دون ذلك كفر ّ انتهي
ترجمہ :
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اکثر لوگ جو نذر مانتے ہیں اور مشاہدے میں ہے کہ وہ کسی غائب انسان کے لیے ہوتی ہے یا مریض کے لیے یا کسی دوسری ضروری حاجت کے لیے۔ بعض لوگ نیک لوگوں کی قبروں پر آ کر اس کا غلاف سر پر رکھ کر کہتے ہیں اے میرے فلاں آقا ! اگر میرا غائب ہونے والا ساتھی واپس کر دیا گیا یا میرا مریض شفا یاب ہو گیا یا میری حاجت پوری کر دی گئی تو تیرے لیے اتنا سونا یا اتنی چاندی یا اتنا غلہ یا اس طرح کی پانی کی سبیل یا شمع جلاؤں گا یا اتنا تیل ڈالوں گا۔ یہ نذر بالاجماع باطل و حرام ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں :
➊ نہ نذر مخلوق کی ہے اور مخلوق کے لیے نذر ماننا جائز نہیں۔ اس لیے کہ یہ عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہوتی۔
➋ جس کے لیے نذر مانی جا رہی ہے وہ مردہ ہے اور مردہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔
➌ اگر نذر ماننے والے نے یہ یقین کیا کہ میت اللہ کے سوا متصرف الامور ہے تو اس کا یہ عقیدہ رکھنا کفر ہے۔“ [البحرالرائق 2/ 298]
↰ یہی بات فتاویٰ شامی [2/ 128] اور فتاویٰ عالمگیری [1/ 216] میں بھی موجو د ہے ؛
پس معلوم کرنا چاہیے کہ ذبح کرنا واسطے غیر خدا کے اور تقرب چاہنا اسی غیر خدا سے ۔ اگر چہ وقت ذبح کے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے حرام ہے ۔ اور گوشت اس کا نجس ' اور ذابح اس کا مرتد ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿إِنَّما حَرَّمَ عَلَيكُمُ المَيتَةَ وَالدَّمَ وَلَحمَ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيرِ اللَّهِ... ﴿١٧٣﴾... سورةالبقرة
ترجمہ :
اللہ تعالیٰ نے تم پر مردار خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا ہے اور ہر وہ چیز بھی جو غیر اللہ کے نام سے مشہور کردی جائے۔ ‘‘
امام فخر الدین رازی نے تحت آیۃ الکریمہ لکھا ہے :
قال ربیع بن انس وربیع بن زید: یعنی ماذکر علیه اسم غيرالله وهذا القول اولي لانه اشد مطابقة للفظ ’ قال العلماء لو ان مسلما ذبح ذبيحة وقصد بذبحة التقرب الي غيرالله صار مرتدا او ذبيحته مرتدّ انتهي
یعنی اس آیت کی تفسیر میں ربیع بن انس اور ربیع بن زید کہتے ہیں کہ یہاں مراد وہ چیز ہے جس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے ، اور علماء کہتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور ذبح کیا اور ذبح کی نیت غیراللہ کا تقرب تھا ، تو ذبح کرنے والا مرتد ہوگیا
اور ذبیحہ حرام ‘‘
مولانا شاہ عبدالعزیز تفسیر فتح العزیز میں فرماتے ہیں :
ہر کہ بذبح جانور تقرب الی اللہ نما ید ملعون است ، خواہ دروقت ذبح نام خدا گیر دیانے، زیر کہ چوں شہرت دادکہ ایں جانور برائے فلانے است ذکر نام خدا وقت ذبح فایدہ نہ کرو۔ چہ آں جانور منسوب بآں غیر گشت ، وخبثے درد پیدا گشت کہ زیادہ از خبث مردار است ' زیر اکہ مرادر بے ذکر نام خدا جان دادہاست ، وجان جانوراازاں غیر خدا قراروادہ کشتہ اند وآن عین شرک است ' وہر گاہ ایں خبث دروے سرایت کردویگر بذکر نام خدا حلال نمی گردد انتھی فتاوی اخراب میں مذکور ہےَ
وفي الذبح يشترط تجريد التسمية مع قصدالتقرب الي الله تعاليي وحده بالذبح ّ فان فات قصد التعظيم لله تعاليٰ في الذبح بان قصد يه التقرب مالي الآدمي لايحل وان ذكر التسمية
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ص157
محدث فتویٰ