- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
زبان کواحتیاط سے استعمال کرنے کی تاکید کتاب اور سنت دونوں میں کی گئی ہے۔شرعی اعتبار سے جو حکم زبان کا ہے وہی تحریر کا بھی ہے بلکہ تحریر کا معاملہ کچھ زیادہ ہی حساس اور نازک ہے کیوں کہ زبان سے نکلی ہوئی بات فضا میں تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہے جب کہ تحریر باقی رہتی ہے اور عرصے تک اس کے اثرات دل ودماغ کواپنی گرفت میں لیے رہتے ہیں۔اسلامی قانون کی اگر بات کریں تو اس میں بعض غیر ذمہ دارانہ نوعیت کی باتوں پر سزائیں مقرر ہیں اور کسی کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کے لیے ایک مسلمان کوسوبار سوچنا پڑتا ہے۔اسوہ رسول علی صاحبہاالصلوة والتسلیم میں بکثرت ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپ نے حتی الامکان غلطی پر تنبیہ کرنے کے لیے متعلقہ افراد کا نام لینے سے احتراز کیا ہے۔اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اسلام دل آزاری کوپسند نہیں کرتا اور بہ حیثیت انسان کے ہر ایک کی تعظیم وتکریم بجالانے کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک داعی کو حکم ہے کہ وہ شیریں اور نرم زبان کا استعمال کرے۔مخاطبین کے مسلمات سے دلائل فراہم کرے تاکہ انھیں اجنبیت نہ محسوس ہو اور دل سے نکلی ہوئی بات ان کے سینے میں اتر جائے۔خیرخواہی اور بھلائی کا جذبہ صادق ہو تو سامعین پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو کچھ کہا جارہا ہے ہماری بھلائی کے لیے کہا جارہا ہے۔ضروری نہیں کہ مخاطب اس کی بات سوفیصد تسلیم کرلے،وہ اپنے بعض تحفظات رکھتا ہے اور اپنے پراعتماد اہل علم سے تبادلہ خیال بھی کرتا ہے۔افکار ونظریات اور مسلک ومشرب سے دست بردار ہوجانا آسان نہیں ہے اس کے لیے مہینوں اور برسوں لگتے ہیں۔یہاں امتی کی بات تو جانے دیں خودانبیائے کرام علیہم السلام کو اپنی باتیں دوسروں کے دل ودماغ میں اتارنے میں برسوں لگتے ہیں جب کہ وہ خصوصی نصرت الٰہی سے سرفراز ہوتے ہیں۔
برصغیر میں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔اس میں اہل سنت کی اکثریت ہے اور اہل سنت میں حنفی،شافعی اور اہل حدیث سبھی شامل ہیں۔حنفی اور شافعی خاص فقہ کے پابند ہیں اور اپنے ائمہ کی تقلید واتباع کووہ ضروری سمجھتے ہیں۔ احناف دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ایک گروہ خود کو دیوبندی اور دوسرا خود کو بریلوی کہتا ہے۔ان مسالک میں نقطہائے نظر کے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک والوں کواپنی مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ بعض مساجد پر مسالک کے بورڈ بھی آویزاں ہیں اور یہ بھی صراحت ہے کہ دوسرے مسلک والے اس مسجد میں داخل ہونے کی جرأ ت نہ کریں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ان مسالک میں ایمان اوراسلام کا مسئلہ بھی زیر بحث ہے۔عام طور پر بریلوی فرقہ کے علماء دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کوخارج ازاسلام سمجھتے ہیں اوراپنے عوام کو بھی یہی باتیں دینی جلسوں اور کتب ورسائل میں بتاتے ہیں۔ان کے برعکس دیوبندی اوراہل حدیث حضرات ان کو مسلمان سمجھتے ہیں اوران کے ساتھ مسلمانوں جیسابرتاوٴ کرتے ہیں۔اپنی مسجدوں میں انھیں آنے سے نہیں روکتے اور نہ ان سے رشتے ناطے منقطع کرتے ہیں۔بعض دیوبندی اور اہل حدیث علما کی طرف سے بھی ان کے خلاف تحریریں آئی ہیں اور آتی رہتی ہیں جن میں ان کے عقیدہ کے حوالہ سے ان کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا سوال اٹھایا جاتا ہے لیکن اس طرح کی تحریروں کو دیوبندی اور اہل حدیث عوام وخواص کوئی اہمیت نہیں دیتے اور نہ اس کا کوئی اثر قبول کرتے ہیں۔
اسی رواداری اور شرافت کا نتیجہ ہے کہ تمام تر اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود مابین المسالک شادی بیاہ کا سلسلہ جاری ہے ،لوگ ایک دوسرے کے یہاں آتے جاتے اور مل کر کاروبار کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے سب ایک دوسرے کااحترام کرتے ہیں۔باہم ملتے جلتے رہنے ہی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو صراط مستقیم مل جاتا ہے اوروہ توحید کو سمجھنے لگتے ہیں اور پھرآہستہ آہستہ مظاہر شرک وبدعت سے خود کو اور اپنے اہل خانہ کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اہل حدیث کے نام سے جو گروہ یہاں پایا جاتا ہے،اس کی حیثیت مسلک اور فرقہ کی نہیں ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس سے نسبت رکھنے والے بعض لوگ اسے مسلک اور فرقہ بنانے پر مصر ہیں۔اکابر علمائے اہل حدیث سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی،مولانا حافظ عبداللہ غازیپوری،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانا شمس الحق عظیم آبادی،مولاناعبدالرحمن مبارکپوری،مولانا نذیر احمد املوی، مولانا محمداسماعیل گوجرانوالہ،مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہم اللہ کی تحریریں آج بھی موجود ہیں۔وہ اپنے موقف کودلائل وبراہین سے واضح کرتے ہیں،فریق مخالف کے نقطہ نظر کی کمزوری بیان کرتے ہیں لیکن طعن وتشنیع،الزام تراشی اور یاوہ گوئی نہیں کرتے اور نہ ان کی تحریروں میں شیخی اور تعلیّ پائی جاتی ہے۔ان بزرگوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ صدیوں سے مسلمان فقہی مکاتب فکر میں جکڑا ہوا ہے،تقلید کواس نے ایک دینی ضرورت سمجھ لیا ہے اور اسے یہ بتادیا گیا ہے کہ کتاب وسنت ہی کے دائرے میں رہ کر یہ مسائل فقہ ترتیب پائے ہیں لہٰذاان کی پیروی عین اللہ اوراس کے رسول کی پیروی ہے۔
ہمارے بعض اہل علم نے فقہ حنفی،جماعت اسلامی،تبلیغی جماعت اور ندوی مشرب اور خانوادہ کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔جماعت کے رسائل وجرائد میں ان کے خلاف مضامین لکھے اور کتابیں تصنیف کیں۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کب تک یہ جاری رہے گا۔اس فہرست میں ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر ذاکر نائک دوناموں کا مزیداضافہ ہوگیا ہے۔ہزاروں صفحات پر مشتمل یہ تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مسائل بڑے حساس نوعیت کے ہیں اور جب تک ان پر گفتگو نہیں کی جائے گی دین اور علم کا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔تصفیہ اور تزکیہ کا یہ عمل ہماری منصبی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو ہم موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ادا کررہے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا اور غور کیا ہے کہ اس ادھیڑ بن میں ہمارے اپنے عوام کا کیا حال ہوا،ہماری علمی شناخت کی وقعت کیا رہ گئی اور ہم اس وسیع ملک میں کس حد تک اللہ کے دین کی دعوت اس کے بندوں تک پہنچارہے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کررہے ہیں اور اپنے دل کو جھوٹی تسلی دینے کے لیے دوسروں پر اینٹ پتھر برسارہے ہیں۔
ایک طویل عرصے سے کاروبار دعوت جس طریقہ سے انجام پارہا ہے ،اس کاسب سے مضر پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ہمارے مقررین اورسامعین دونوں کو صرف منفی باتوں کا چسکا لگ گیا ہے۔خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی کہنے کی بیماری نے ہمارے ذہنوں کو بڑی حد تک آلودہ کردیا ہے۔ہمیں طعن وتشنیع اور تبرا بازی کے الفاظ وکلمات سے خصوصی دل چسپی ہوگئی ہے۔ کتاب وسنت کی باتیں کرتے کرتے ہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ کبھی ان کو مکمل پڑھنا اور سمجھنا بھی چاہیے۔احتساب کیجیے اور بتائیے کہ ہماری کتنی مجلسوں اور مسجدوں میں عوام کو کتب ستہ میں سے کوئی کتاب مکمل سنائی گئی،اسی طرح کہاں کہاں مکمل قرآن کادرس ومطالعہ ہوا۔اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ جگہ جگہ چند جاہلوں نے تنظیم اور جماعت کے نام پر اپنے اپنے اڈے بنالیے ہیں اور وہ علمائے دین کو ہرکارے کی طرح استعمال کرتے ہیں اور پھر اچھے اور برے کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ یہ خود کووعظ ونصیحت سے بہت اونچا تصور کرتے ہیں بلکہ عالم یاداعی تقریر کررہا ہوتا ہے تو دعوت وتبلیغ کے یہ خود ساختہ چمپئن کہیں کنارے محو گفتگو ہوتے ہیں یا حاضری کا رجسٹر لیے یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کون آیااور کون نہیں آیا۔
ہم جس دور میں جی رہے ہیں،وہ ذہنی اور فکری آزادی کا دور کہلاتا ہے۔مذہبی آزادی اتنی ہے کہ انسان جس مذہب پر چاہے آزادی سے اظہار خیال کرسکتا ہے۔حکومتیں اس کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔مذہبی اعتبارسے سیکولر کہی جانے والی حکومتوں میں یہ آزادی کچھ زیادہ ہی ہے۔یہاں صرف یہ خیال رکھاجاتا ہے کہ امن عامہ میں خلل واقع نہ ہو،کسی کی تحریر وتقریر سے عوام میں فساد نہ برپا ہو ۔جوبات کہی جائے سلیقے سے کہی جائے اور دلائل وبرہان کی زبان استعمال کی جائے۔ یہاں غیرت وحمیت کے نام پر بے جا اچھل کود مچانے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ نشانہ غلط ہوجائے گا بلکہ بسااوقات اس کی زدمیں خود کہنے والاآجائے گا اور جن کو تقویت پہنچانے کے لیے وہ یہ باتیں کہہ رہا تھا،ان کو حقیقت میں نقصان پہنچادے گا۔
دین اسلام میں دعوت وتبلیغ کے اصول وضابطے ہیں جوقرآن کریم کی متعددآیات اور احادیث رسول سے مستنبط ہیں۔کیا یہ اصول صرف پڑھنے کے لیے ہیں یاان کو تحریر وتقریر میں برتنا بھی ضروری ہے۔جو بات ہم بھونڈے انداز میں کہہ کر اہل علم کے ذوق لطیف کو گندہ کررہے ہیں،اسی کوشرافت اور مہذب انداز میں بھی کہا جاسکتا ہے۔جس مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر سنگ باری کررہے ہیں،اس کو پھولوں میں سجاکر بھی پیش کیاجاسکتا ہے لیکن ایساکرنے کے لیے ذرا محنت درکار ہے،کچھ حوالے تلاش کرنے ہیں،قلم کے پھکڑپن کو لگام دینا ہے۔برصغیر میں سلفی داعیان اسلام نے یہی طریقہ کاراختیار کیا ہے۔غیر ذمہ دارانہ تحریریں ان کی ہوتی ہیں جو باطل پر ہوتے ہیں،جن کاموقف کمزور ہوتا ہے،جن کے پاس مضبوط دلائل نہیں ہوتے اور جو دشنام طرازی کرکے اپنی بات منواناچاہتے ہیں۔سلفی نقطہ نظر کو بحمداللہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس کاہر عقیدہ،ہر فقہی مسئلہ اور ہر نقطہ نظر کتاب وسنت اور آثارسلف سے مدلل ہے۔مراجع ومصادر سے تعلق رکھیے،زیادہ پریشانی نہیں ہوگی لیکن یہاں اس تیزرفتار دنیا میں کسے فرصت ہے کہ لکھنے کے لیے ذرادیر ٹھہر جائے۔کام جب بیانیہ اسلوب اور پھکڑپنے سے چل جاتا ہو، جاہلوں کی ایک ٹیم ایسی تحریروں کو پڑھ کر زبان کے چٹخارے لینے کے لیے موجود ہو توپاپڑ بیلنے کی ضرورت کیا ہے۔
گزشتہ پندر ہ بیس سالوں سے مسلسل ایسی تحریریں ہمارے اپنوں کے قلم سے نکل رہی ہیں۔عوام کی سادہ لوحی ہے کہ وہ ایسی تحریروں کو سلفیت کا ترجمان سمجھتے ہیں۔یہ ہرگزسلفیت کی ترجمانی نہیں ہے بلکہ اسے بدنام کیا جارہا ہے،اس کی علمی شناخت ختم کی جارہی ہے،اس کو ہلکااور بے وزن کیا جارہا ہے۔دوسروں کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ سلفیوں کوبات کرنے اور سنجیدہ تحریر لکھنے کی بھی تمیز نہیں رہی۔پوری جماعت کے وقار کو داوٴ پر لگانے والی یہ غیر ذمہ دارانہ تحریریں ہی ہیں کہ ہم آہستہ آہستہ تمام ملی اداروں سے رخصت کیے جاچکے ہیں۔ہمارے کچھ مخلصین کواس کا شدید صدمہ ہے اوروہ اپنے کرب کااظہار کرتے ہیں۔یہ شکایتیں بجا ہیں لیکن یہاں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں ہمارے علماء کون سا رویہ اپنائے ہوئے تھے کہ ان کی نمائندگی ہر جگہ ضروری خیال کی جاتی تھی،ان کااحترام کیا جاتا تھا اور دعوت نامے کے ذریعے ان کو شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔آج اگر حالت تبدیل ہوئی ہے تواس کی دو ہی وجہیں ہوسکتی ہیں یا تو ہمارے اسلاف غیرت وحمیت والی سلفیت کے ترجمان نہیں تھے،ان کی تحریروں اور تقریروں میں مداہنت پائی جاتی تھی یا ہم اسلاف کی روش سے دور ہوگئے ہیں۔دوسری بات ہی زیادہ سچی معلوم ہوتی ہے۔
تاریخ اہل حدیث،سیرة البخاری،حسن البیان،الارشاد الی سبیل الرشاد،اہل حدیث کامذہب ،تحریک آزادی فکراورشاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی اوراہل حدیث وسیاست وغیرہ کتابیں ہمارے بزرگوں نے لکھی ہیں۔ان میں وہ ساری باتیں موجود ہیں جوہم چاہتے ہیں اور جن پر ہماری دعوت کی بنیاد کھڑی ہے لیکن یہ کتابیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں ،اہل علم ان سے رجوع کرتے ہیں اور ان کے اقتباسات اپنی تحریروں میں نقل کرتے ہیں۔کیاان کتابوں میں مداہنت برتی گئی ہے یامخالفین کے ساتھ کوئی رعایت کی گئی ہے۔اگرایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو ہم اسی راہ پر آج کیوں چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ غیر ذمہ دارانہ تحریریں کم علمی،مطالعہ کی محدودیت اور ذہن وفکر کی بے اعتدالی کی دلیل ہیں۔ان کو پذیرائی عوام کی بے عملی نے بخشی ہے۔کئی برسوں سے ہم اپنے عوام سے یہی کہہ رہے ہیں کہ تہتر فرقوں میں جس فرقہ کو جنت ملے گی،وہ صرف تم ہو،ماانا علیہ واصحابی کا تمغہ تمھارے لیے ہے،نجات کے لیے صرف عقیدہ کی درستگی شرط ہے،دیگر اعمال اضافی چیزیں ہیں،کرلیا تو ٹھیک ورنہ کوئی حرج نہیں ہے۔بے عمل عوام کے سامنے یہ غیر ذمہ دارانہ باتیں ان کو جری کررہی ہیں اور بلکہ وہ جری ہوچکے ہیں۔بات یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ دوسرے فرقہ کے لوگوں کو جہنمی اوراپنے فرقہ کے لوگوں کو جنتی قرار دینے والے مقرر کی تقریر میں ہمارے عوام کو مزہ آتا ہے اور وہ خوشی سے جھومتے ہیں۔ایسے مقررین کو ہزاروں روپے نذرانہ پیش کرکے اسٹیج دیتے ہیں اور محفل قوالی کی طرح پوری رات واہ واہ کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی مقرراگران کی بداعمالیوں،کوتاہیوں اور کمزوریوں کا ذکر کردے تو چہرے سوج جاتے ہیں اورماتھے پر شکن آجاتی ہے اور وہیں یہ فیصلہ کرلیا جاتا ہے کہ آیندہ ان صاحب کو دعوت نہیں دینی ہے۔
ہندوستان میں اہل حدیث جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس کے فکر ونظر کاقبلہ درست ہے۔یہ اس ملک میں اسلام کی صحیح ترجمان ہے۔اللہ کے لیے اس جماعت کوداعی بنائیں، علم وعمل میں ممتاز بنائیں،مکمل اسلام کی اسے تفہیم کرائیں، عقیدہ اور عبادت میں جس طرح اس کاذہن صاف اور کھلا ہوا ہے،اسی طرح اسے معیشت، معاشرت اورسیاست میں کتاب وسنت اور منہج سلف کا متبع بنائیں۔ ہندوستان میں ذات برادری کی جو جاہلیت پائی جاتی ہے،اس سے اس کو محفوظ کریں،شیخی اور تعلّی مومنانہ شان کے خلاف ہے،اس کے اندر سے یہ برائیاں دور کریں۔اسے سنجیدہ، باوقار،مہذب اور سلیقہ مند بنائیں۔بڑی جدوجہد کے بعد یہ گروہ وجود میں آیا ہے، اس کو یوں ضائع نہ کریں۔اس کو بہت بڑے بڑے کام انجام دینے ہیں،اسے اس کا فرض منصبی یاددلائیں۔سلفیت کی اصل خدمت یہی ہے۔کیا ہم یہ خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہیں؟