- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
آج کل فیس بک پر تصوف کے حوالے سے بحث اپنے عروج پر ہے۔ تصوف کی باریکیاں اہل فن جانتے ہیں اور اسلام سے اس کے تعلق پر علماء ہی گفتگو کے مجاز ہیں۔ مجھے نہ تو علم الدین کا دعویٰ ہے اور نہ ہی تصوف سے بہت گہری شناسائی کا۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے مذاہبِ عالم کی تاریخ اور تقابلِ ادیان کے مطالعے کا شوق ضرور ہے۔ اسی حوالے سے کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔
ہمارے ہاں تصوف، راہ سلوک یا طریقت سے مراد وہ سلسلہ لیا جاتا ہے جسے عرف عام میں روحانیت کہتے ہیں۔ انگزیری میں اس کے لئے Asceticism کی اصطلاع رائج ہے۔ روحانیت سے مراد مقدس ہستیوں یا تصورات سے وابستگی، عقل اور حواس سے ماوریٰ روحانی تجربات و مشاہدات، مراقبہ، ترک دنیا ، زہد و ریاضت اور ضبط نفس پر مبنی افعال اور اعتقادات لئے جاتے ہیں۔ روحانیت کے تصورات آسمانی مذاہب جن میں یہودیت، مسیحیت اور اسلام شامل ہیں کے علاوہ مشرقی مذاہب خصوصا ہندومت، بدھ مت اور جین مت میں بھی راسخ ہیں۔ ان کے علاوہ بھی تقریباٗ ہر بت پرست اور مظاہر پرست مذہب میں بھی اس سے کچھ ملتے جلتے نظریات ضرور موجود ہیں۔ ان مختلف مذاہب کے روحانی لوگوں کی مشترکہ اقدار عموما ایک سی ہی ہوتی ہیں۔ البتہ اپنے اپنے مذہب کے زیر اثر مقدس شخصیات، زہد و عبادت کے طریقے اور روحانی تجربات کی نوعیت میں کچھ فرق ضرور دیکھائی دیتا ہے۔ مگر تمام مذاہب میں رائج روحانیت کا واحد مقصود مذہب کے قانونی پہلوؤں اور ظاہری مراسمِ عبادت سے آگے نکلتے ہوئے اپنی ذات میں ڈوب کر دل کا سکون تلاش کرنا بیان کیا جاتا ہے۔
برصغیر کے اندر مسلمانوں میں رائج تصوف کی ہندو مت کی روحانیت سے مماثلت حیرت زدہ کر دینے والی ہے۔ چلہ کشی، ترک دنیا اور ریاضت کے مقابلہ جوگ، دیانت اور تپیسا کا فلسفہ ہو، یا پھر غوث، قطب، نجیب، ابدال، ولی۔ فقیر اور درویش وغیرہ جیسے مختلف مراتب اور مناصب کے مقابلے پر رشی، منی، مہاتما، اوتار، سادھو، سنیاسی، یوی، گیانی، شاستری اور چتھرویدی جیسے مختلف مراتب اور مناصب کو لیا جائے، ہر طرف روحانیت کے بنیادی فلسفے کی ہم آہنگی بلکہ یک رنگی نظر آتی ہے۔
ہندو مذہب میں روحانیت کے طالب سادھو یا سنت کہلاتے ہیں جو نجات حاصل کرنے کے لیے دور جنگلوں اور غاروں میں رہتے ہیں۔ اپنے جسم کو ریاضتوں سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔ گرمی، سردی، بارش اور رتیلی زمینوں پر ننگے بدن رہنا اپنی ریاضتوں کا مقدس ترین عمل سمجھتے ہیں۔ جسمانی ریاضتوں کے ساتھ ہندو مت میں دماغی اور روحانی مشقتوں کو بھی نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، چنانچہ یہ لوگ تنہا شہر سے باہر غور وفکر میں مصروف رہتے ہیں۔ ان میں سے کجھ بھیک پر گزارہ کرتے ہوئے سیاحت کرتے ہیں، کچھ مادرزاد برہنہ رہتے اور کچھ صرف لنگوٹی باندھتے ہیں۔ ہندو معاشرے میں ان کی بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے یہاں تک کہ کئی فرقے ان کی باقاعدہ پوجا بھی کرتے ہیں۔
بدھ مت کے بانی گوتم بدھ نے اپنے مذہب کی تشکیل کا آغاز ہی روحانیت کی تلاش سے کیا تھا۔ اُن کے ہاں تو مذہب روحانی اور باطنی واردات کا نام ہے۔ بدھ مت میں باقاعدہ خانقاہی سلسلے ہیں۔ ان میں راہب اور راہبائیں ہوتی ہیں جو بھکشوؤں کہلاتے اور سینکڑوں قسم کے عہد و پیما ن نبھاتے ہیں، جس میں ہمیشہ کنوارا رہنے کا عہد بھی شامل ہے۔ یہ لوگ اپنا سر منڈاتے ہیں، مخصوص کپڑے پہنتے اور خانقاہوں میں اجتماعی صورت میں رہتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی مطالعے، مراقبے، عبادات اور عام لوگوں کی فلاح کےلیے رسومات ادا کرنے کے لیے وقف ہوتی ہے۔ بدھ مت کے عام پیروکار کے لئے بھکشوؤں کی خدمت نجات کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔
جین مت کی اساس بھی روحانیت پر ہے۔ جین مت کے پیروکارو عدم تشدد اور ضبط نفس اور ریاضت کے ذریعہ نجات (موکش) حاصل کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔ ان کے ہاں روحانیت کے دو سلسلے ہیں ایک جو دگمبر یا دگامبر کہلاتے ہیں، یہ ہمیشہ عریاں رہتے ہیں۔ (برصغیر کے مسلمانوں کے ہاں بھی تصوف میں "نانگے پیر" کا تصور شاید یہیں سے آیا ہے) دوسرا سلسلہ شویت امبر یا اشویتامبر کہلاتا ہے جس کے سادھو ہمیشہ سفید لباس پہنتے ہیں۔ یہ اپنے منہ پر بھی ایک سفید کپڑا باندھے رکھتے ہیں۔ دونوں سلسوں کے فقیر پوری زندگی تجرد، نفس کشی اور ریاضت میں گزارتے ہیں۔
عیسائیت میں روحانیت، رہبانیت کے عنوان سے ملتی ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کا آغاز مصر سے ہوا تھا۔ جس کے بانی سینٹ اینتھنی
(St. Anthony) متوفی 350 ء کو پہلا مسیحی راہب قرار دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ شام و فلسطین اور افریقہ و یورپ میں پھیلتا چلا گیا۔ ترک دنیا، تجرد، نفس کشی، مجاہدے، مراقبے اور غلاظت پر مبنی اس تحریک کی ابتداء میں کلیساء سے آویزش چلی تاہم چھٹی صدی عیسوی میں اسے چرچ کے نظام میں باقاعدہ داخل کر دیا گیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ آج کی عیسائیت کا وجود ہی رہبانیت کے سہارے قائم ہے۔ کیوں کہ اب تمام تر عیسائی مذہبی پیشوا (فادر، نن پوپ) رہبانیت کے ادارے سے ہی آتے ہیں۔
یہودیت میں تصوف کی تحریک ہزاروں سال پرانی ہے جسے ’’قبالہ‘‘ کہتے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہودیت میں تصوف کا علم صرف سینہ با سینہ زبانی منتقل کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اُن کے ہاں بھی تصوف کا باقاعدہ لٹریچر بھی موجود ہے۔ اس سلسلے کی مشہور کتابیں’’ باہیر‘‘، ’’سفر راذیل‘‘، ’’حمالنح‘‘ اور’’ظہر‘‘ ہیں، جو تلمودی عہد میں لکھی گئی ہیں اور آج بھی یہ یہودی سلسلۂ تصوف ’’قبالہ‘‘ کی رہنما تصانیف مانی جاتی ہیں۔ حالیہ چند عشروں کے دوران ’’قبالہ‘‘ کی روایت صہیونی تحریک کے زور کی وجہ سے پس منظر میں جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن اب ایک بار پھر آتھوڈکس یہودیوں میں روحانیت کی طرف جھکاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ خصوصا امریکہ میں ’’قبالہ‘‘ کا احیاء دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسرائیل کے اندر بھی روحانیت پسندوں کے صہیونیوں سے حالیہ تصادم نے دنیا کے سامنے اسرائیل کی اندرونی کشمکش کو واضع کیا ہے۔
دور جدید میں جہاں سیکولرازم کے زیر اثر مذہب اور عقیدے کو انسان کی زندگی سے دیس نکالا دینے کی کوشش اپنے عروج پر ہے۔ اس کوشش کے نتیجے میں روحانیت(Asceticism) کی ایک نئی قسم متعارف کروائی جا رہی ہے، جسے غیر مذہبی روحانیت یا Non-Religious Spirituality کہا جاتا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ دور جدید کے انسان کا نیا مذہب ہے جو مذہبی عقیدے ، ظاہری شناخت، مراسم عبودیت سے ہٹ کر انسانیت کی اعلیٰ اقدار جیسے محبت، ہمدردی، رحم، درگزر اور باطنی اور ظاہری پہلوؤں سے انسان کو سکون اور آرام پہنچانے کا نام ہے۔ مذہب بیزار مبلغین اسے رنگ و نسل سے بلند ہوکر کائناتی اور آفاقی انسانوں کی تشکیل پر مبنی مذہب قرار دے رہے ہیں۔ جو عدم تشدد کا قائل ہے اور یوگا کی ریاضت سے سکون کے حصول کا خوائش مند بھی۔
بشکریہ مہتاب عزیز
ہمارے ہاں تصوف، راہ سلوک یا طریقت سے مراد وہ سلسلہ لیا جاتا ہے جسے عرف عام میں روحانیت کہتے ہیں۔ انگزیری میں اس کے لئے Asceticism کی اصطلاع رائج ہے۔ روحانیت سے مراد مقدس ہستیوں یا تصورات سے وابستگی، عقل اور حواس سے ماوریٰ روحانی تجربات و مشاہدات، مراقبہ، ترک دنیا ، زہد و ریاضت اور ضبط نفس پر مبنی افعال اور اعتقادات لئے جاتے ہیں۔ روحانیت کے تصورات آسمانی مذاہب جن میں یہودیت، مسیحیت اور اسلام شامل ہیں کے علاوہ مشرقی مذاہب خصوصا ہندومت، بدھ مت اور جین مت میں بھی راسخ ہیں۔ ان کے علاوہ بھی تقریباٗ ہر بت پرست اور مظاہر پرست مذہب میں بھی اس سے کچھ ملتے جلتے نظریات ضرور موجود ہیں۔ ان مختلف مذاہب کے روحانی لوگوں کی مشترکہ اقدار عموما ایک سی ہی ہوتی ہیں۔ البتہ اپنے اپنے مذہب کے زیر اثر مقدس شخصیات، زہد و عبادت کے طریقے اور روحانی تجربات کی نوعیت میں کچھ فرق ضرور دیکھائی دیتا ہے۔ مگر تمام مذاہب میں رائج روحانیت کا واحد مقصود مذہب کے قانونی پہلوؤں اور ظاہری مراسمِ عبادت سے آگے نکلتے ہوئے اپنی ذات میں ڈوب کر دل کا سکون تلاش کرنا بیان کیا جاتا ہے۔
برصغیر کے اندر مسلمانوں میں رائج تصوف کی ہندو مت کی روحانیت سے مماثلت حیرت زدہ کر دینے والی ہے۔ چلہ کشی، ترک دنیا اور ریاضت کے مقابلہ جوگ، دیانت اور تپیسا کا فلسفہ ہو، یا پھر غوث، قطب، نجیب، ابدال، ولی۔ فقیر اور درویش وغیرہ جیسے مختلف مراتب اور مناصب کے مقابلے پر رشی، منی، مہاتما، اوتار، سادھو، سنیاسی، یوی، گیانی، شاستری اور چتھرویدی جیسے مختلف مراتب اور مناصب کو لیا جائے، ہر طرف روحانیت کے بنیادی فلسفے کی ہم آہنگی بلکہ یک رنگی نظر آتی ہے۔
ہندو مذہب میں روحانیت کے طالب سادھو یا سنت کہلاتے ہیں جو نجات حاصل کرنے کے لیے دور جنگلوں اور غاروں میں رہتے ہیں۔ اپنے جسم کو ریاضتوں سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔ گرمی، سردی، بارش اور رتیلی زمینوں پر ننگے بدن رہنا اپنی ریاضتوں کا مقدس ترین عمل سمجھتے ہیں۔ جسمانی ریاضتوں کے ساتھ ہندو مت میں دماغی اور روحانی مشقتوں کو بھی نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، چنانچہ یہ لوگ تنہا شہر سے باہر غور وفکر میں مصروف رہتے ہیں۔ ان میں سے کجھ بھیک پر گزارہ کرتے ہوئے سیاحت کرتے ہیں، کچھ مادرزاد برہنہ رہتے اور کچھ صرف لنگوٹی باندھتے ہیں۔ ہندو معاشرے میں ان کی بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے یہاں تک کہ کئی فرقے ان کی باقاعدہ پوجا بھی کرتے ہیں۔
بدھ مت کے بانی گوتم بدھ نے اپنے مذہب کی تشکیل کا آغاز ہی روحانیت کی تلاش سے کیا تھا۔ اُن کے ہاں تو مذہب روحانی اور باطنی واردات کا نام ہے۔ بدھ مت میں باقاعدہ خانقاہی سلسلے ہیں۔ ان میں راہب اور راہبائیں ہوتی ہیں جو بھکشوؤں کہلاتے اور سینکڑوں قسم کے عہد و پیما ن نبھاتے ہیں، جس میں ہمیشہ کنوارا رہنے کا عہد بھی شامل ہے۔ یہ لوگ اپنا سر منڈاتے ہیں، مخصوص کپڑے پہنتے اور خانقاہوں میں اجتماعی صورت میں رہتے ہیں۔ ان کی ساری زندگی مطالعے، مراقبے، عبادات اور عام لوگوں کی فلاح کےلیے رسومات ادا کرنے کے لیے وقف ہوتی ہے۔ بدھ مت کے عام پیروکار کے لئے بھکشوؤں کی خدمت نجات کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔
جین مت کی اساس بھی روحانیت پر ہے۔ جین مت کے پیروکارو عدم تشدد اور ضبط نفس اور ریاضت کے ذریعہ نجات (موکش) حاصل کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔ ان کے ہاں روحانیت کے دو سلسلے ہیں ایک جو دگمبر یا دگامبر کہلاتے ہیں، یہ ہمیشہ عریاں رہتے ہیں۔ (برصغیر کے مسلمانوں کے ہاں بھی تصوف میں "نانگے پیر" کا تصور شاید یہیں سے آیا ہے) دوسرا سلسلہ شویت امبر یا اشویتامبر کہلاتا ہے جس کے سادھو ہمیشہ سفید لباس پہنتے ہیں۔ یہ اپنے منہ پر بھی ایک سفید کپڑا باندھے رکھتے ہیں۔ دونوں سلسوں کے فقیر پوری زندگی تجرد، نفس کشی اور ریاضت میں گزارتے ہیں۔
عیسائیت میں روحانیت، رہبانیت کے عنوان سے ملتی ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں میں رہبانیت کا آغاز مصر سے ہوا تھا۔ جس کے بانی سینٹ اینتھنی
(St. Anthony) متوفی 350 ء کو پہلا مسیحی راہب قرار دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ شام و فلسطین اور افریقہ و یورپ میں پھیلتا چلا گیا۔ ترک دنیا، تجرد، نفس کشی، مجاہدے، مراقبے اور غلاظت پر مبنی اس تحریک کی ابتداء میں کلیساء سے آویزش چلی تاہم چھٹی صدی عیسوی میں اسے چرچ کے نظام میں باقاعدہ داخل کر دیا گیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ آج کی عیسائیت کا وجود ہی رہبانیت کے سہارے قائم ہے۔ کیوں کہ اب تمام تر عیسائی مذہبی پیشوا (فادر، نن پوپ) رہبانیت کے ادارے سے ہی آتے ہیں۔
یہودیت میں تصوف کی تحریک ہزاروں سال پرانی ہے جسے ’’قبالہ‘‘ کہتے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہودیت میں تصوف کا علم صرف سینہ با سینہ زبانی منتقل کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اُن کے ہاں بھی تصوف کا باقاعدہ لٹریچر بھی موجود ہے۔ اس سلسلے کی مشہور کتابیں’’ باہیر‘‘، ’’سفر راذیل‘‘، ’’حمالنح‘‘ اور’’ظہر‘‘ ہیں، جو تلمودی عہد میں لکھی گئی ہیں اور آج بھی یہ یہودی سلسلۂ تصوف ’’قبالہ‘‘ کی رہنما تصانیف مانی جاتی ہیں۔ حالیہ چند عشروں کے دوران ’’قبالہ‘‘ کی روایت صہیونی تحریک کے زور کی وجہ سے پس منظر میں جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن اب ایک بار پھر آتھوڈکس یہودیوں میں روحانیت کی طرف جھکاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ خصوصا امریکہ میں ’’قبالہ‘‘ کا احیاء دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسرائیل کے اندر بھی روحانیت پسندوں کے صہیونیوں سے حالیہ تصادم نے دنیا کے سامنے اسرائیل کی اندرونی کشمکش کو واضع کیا ہے۔
دور جدید میں جہاں سیکولرازم کے زیر اثر مذہب اور عقیدے کو انسان کی زندگی سے دیس نکالا دینے کی کوشش اپنے عروج پر ہے۔ اس کوشش کے نتیجے میں روحانیت(Asceticism) کی ایک نئی قسم متعارف کروائی جا رہی ہے، جسے غیر مذہبی روحانیت یا Non-Religious Spirituality کہا جاتا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ دور جدید کے انسان کا نیا مذہب ہے جو مذہبی عقیدے ، ظاہری شناخت، مراسم عبودیت سے ہٹ کر انسانیت کی اعلیٰ اقدار جیسے محبت، ہمدردی، رحم، درگزر اور باطنی اور ظاہری پہلوؤں سے انسان کو سکون اور آرام پہنچانے کا نام ہے۔ مذہب بیزار مبلغین اسے رنگ و نسل سے بلند ہوکر کائناتی اور آفاقی انسانوں کی تشکیل پر مبنی مذہب قرار دے رہے ہیں۔ جو عدم تشدد کا قائل ہے اور یوگا کی ریاضت سے سکون کے حصول کا خوائش مند بھی۔
بشکریہ مہتاب عزیز