• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر مسلموں سے حسن سلوک کا حکم

علی محمد

مبتدی
شمولیت
مارچ 03، 2023
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
21
مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے راستے پر چلے جس سے اس کا ایمان مزید مضبوط اور دل ایمان پر ثابت قدم ہو جائے۔ اور اگر دل میں کچھ ایسے شکوک و شبہات آئیں جن سے شرعی احکامات کی سمجھ بوجھ میں رکاوٹ پیدا ہو اور انہیں کسی کے سامنے رکھے بغیر دور کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں اہل علم سے رجوع کرتے ہوئے سوال کرنا واجب ہو جاتا ہے؛ کیونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ: جس کے بغیر واجب کام سر انجام دینا ممکن نہ ہو تو وہ بھی واجب ہی ہوتا ہے۔
پھر اللہ تعالی نے بھی اہل علم سے استفسار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: اگر تمہیں علم نہیں ہے تو اہل ذکر سے پوچھ لو ۔[النحل: 43]
اس لیے اگر کوئی مسلمان اپنے دل میں آنے والے شکوک و شبہات کو زائل کرنے کے لیے اہل علم سے سوال کرے تو یہ اچھی بات ہے، سوال اس وقت قابل مذمت ہوتا ہے جب سوال محض تنگ کرنے کے لیے ہو یا شبہات پیدا کرنے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہو۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص سمجھنے اور حصولِ علم کے لیے سوال کرے، اپنی کم علمی ختم کرنے اور اپنے ذمے دینی فہم کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے سوال کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ایسے شخص کو سوال کرنے سے ہی سکون ملے گا۔
لیکن اگر کوئی شخص سوال سمجھنے یا سیکھنے کی غرض سے نہیں کرتا تو ایسے شخص کے سوالات تھوڑے ہوں یا زیادہ ہر دو صورت میں اس کے لیے سوال کرنا جائز ہی نہیں ہے۔" ختم شد
" التمهيد" (21 / 292)
اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو حق بات کی توفیق دے اور پھر حق پر ثابت قدم بنا دے۔
دوم:
اللہ تعالی نے ہمیں کفر اور اہل کفر سے اظہار براءت کا کرنے کا حکم دیا ہے:
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ
ترجمہ: تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ :’’ہم تم سے قطعی بیزار ہیں اور ان سے بھی جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو۔ ہم تمہارے (دین کے) منکر ہیں۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دشمنی اور بیر پیدا ہو چکا تاآنکہ تم اللہ اکیلے پر ایمان لے آؤ‘‘ [الممتحنہ: 4]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کا گروہ ہے۔ سن لو! اللہ کے گروہ والے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ [المجادلہ: 22]
ایک اور مقام پر فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
ترجمہ: اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ یہ سب ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم میں سے کسی نے ان کو دوست بنایا تو وہ بھی انہیں سے ہے۔ یقیناً اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔[المائدہ: 51]
دوسری جانب ایمان اور اہل ایمان سے دوستی کرنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَلا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی انداز سے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ راست کو پاسکو [آل عمران: 103]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (یقیناً ایمان کی مضبوط ترین کڑی یہ ہے کہ: تم اللہ کے لیے محبت کرو اور اللہ کے لیے ہی بغض رکھو۔) مسند احمد: (18524) اس حدیث کو مسند احمد کے محققین نے حسن قرار دیا ہے، اسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح الترغیب : (3030) میں حسن قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین چیزیں جس میں پائی گئیں تو اس نے ایمان کی مٹھاس پا لی: 1) اللہ اور اس کا رسول دیگر ہر چیز سے اس کے ہاں محبوب ہوں۔ 2) انسان کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے محبت کرے۔ 3) اور کفر میں واپس لوٹنا اس کے لیے ایسے ہی ناگوار ہو جیسے اس کے لیے آگ میں پھینکا جانا ناگوار ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (16) اور مسلم : (43) نے روایت کیا ہے۔
سوم:
مندرجہ بالا تحقیق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان اور کافروں میں سے کسی معین شخص کے ساتھ مسلمان کی فطری محبت نہ ہو ، اس محبت کی وجہ رشتہ داری، نسب، سسرالی رشتہ داری، یا صلہ رحمی یا حسن سلوک وغیرہ کچھ بھی ہو سکتی ، لیکن اس محبت کے ساتھ ساتھ کافر شخص کے دین سے اظہار براءت اور عداوت بھی قائم رہے۔
کیونکہ اللہ تعالی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ محبت ذکر کی ہے، حالانکہ ابو طالب مسلمان نہیں تھے؛ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْت ترجمہ: یقیناً آپ جس سے محبت کرتے ہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے۔ [القصص: 56] تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ محبت طبعی اور رشتہ داری کی وجہ سے تھی۔
دوسری جانب اللہ تعالی نے اہل کتاب کی لڑکیوں سے نکاح جائز قرار دیا ہے، حالانکہ نکاح خاوند اور بیوی کے درمیان محبت پیدا کرتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے بھی اس چیز کا تذکرہ کیا اور فرمایا: خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ترجمہ: اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جانوں سے جوڑے اس لیے بنائے کہ تم اس سے سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ [الروم: 21]
تو یہاں ذکر کردہ محبت فطری اور جبلی ہے ؛ بالکل ایسے ہی جیسے انسان کو کھانے، پینے اور لباس کی چاہت ہوتی ہے، لہذا یہ ممکن ہے کہ ایک ہی شخص سے دینی طور پر نفرت ہو جبکہ فطری طور پر محبت ہو؛ کیونکہ دونوں کے اسباب الگ الگ ہیں۔
اس کی مثال دوا جیسی ہے؛ کیونکہ دوا کو مریض پسند بھی کرتا ہے اور اس کے ذائقے سے نفرت بھی رکھتا ہے، لہذا ایک ہی دوا ایک اعتبار سے محبوب تو دوسرے اعتبار سے قابل نفرت ہے۔
چہارم:
جب ہمیں یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ ایک ہی شخص سے رشتہ داری ، یا کسی کی ہوئی بھلائی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے محبت کی جائے ، جبکہ اسی شخص کے کفر سے آپ اظہار براءت بھی کریں، یا اس سے دشمنی بھی رکھیں۔ ایسی صورت میں حقیقی امتحان اس وقت ہوتا ہے جب یہ دونوں اسباب محبت آپس مد مقابل آ جائیں۔
اسی لیے اللہ تعالی نے اہل ایمان کو خبردار کیا کہ طبعی محبت کو کسی صورت میں ایمانی محبت اور احکامِ شریعت پر ترجیح نہ دیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الإيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ * قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو پسند کریں تو انہیں بھی اپنا دوست نہ بناؤ اور تم میں سے جو شخص انہیں دوست بنائے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔ [23] (اے نبی! آپ مسلمانوں سے) کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں، اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا۔ [التوبہ: 23 - 24]
الشیخ سعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے ان آیات میں فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا یعنی: ایمان والو ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو، اور وہ یہاں یہ ہے کہ جو بھی ایمان لایا ہے اسی کو اپنا دوست بناؤ اور جو ایمان نہیں لایا اسے اپنا مخالف سمجھو۔ چنانچہ لا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ لہذا اپنے قریب ترین رشتہ دار چاہے باپ اور بھائی ہی کیوں نہیں ہیں انہیں بھی غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اپنا دوست نہ بناؤ تو غیروں کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ لہذا أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الإيمَانِ اگر وہ اپنی خوشی اور رضا مندی سے ایمان کی بجائے کفر پر قائم رہتے ہیں تو انہیں اپنا دوست نہیں بنانا۔ پھر فرمایا: وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ چنانچہ اگر پھر ان سے کوئی دوستی رکھے گا تو وہی ظالم ہے؛ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی جسارت کی اور اللہ کے دشمنوں کو اپنا دوست بنایا ہے، اور دوستی کی بنیاد محبت اور مدد پر ہوتی ہے، لہذا کافروں کو اپنا دوست بنانے کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ان کی باتوں کو اللہ تعالی کے احکامات پر فوقیت دے گا، ان سے تعلق کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تعلق پر ترجیح دے گا۔
پھر جب حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت ہر چیز کی محبت سے مقدم ہونی چاہیے، اور ہر قسم کی محبت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کے تابع ہو تو اگلی آیت میں فرمایا: قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ کہہ دیجیے اگر تمہارے آباء ، تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی۔ یعنی یہاں پر نسب اور خونی رشتے ذکر فرمائے۔ پھر وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ تمہاری بیویاں اور عمومی رشتہ دار۔ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا تمہارے کمائے ہوئے مال و دولت جس کے لیے دن رات تم نے محنت کی ، یہاں کمائی ہوئی دولت کا بالخصوص تذکرہ اس لیے فرمایا کہ انسان کو اپنی کمائی بہت اچھی لگتی ہے؛ کیونکہ بغیر محنت سے کمائی ہوئی دولت پر انسان اتنا دھیان نہیں دیتا جتنا محنت سے کمائی ہوئی دولت پر دیتا ہے۔
وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا یعنی تمہارے تجارت میں خسارے کا ڈر رہتا ہے، اور اس تجارت میں ، سونا چاندی، برتن، اسلحہ، فرنیچر ، اناج ، کھیتی باڑی، اور جانوروں سمیت ہمہ قسم کی چیزوں کی تجارت شامل ہے۔
وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا یعنی انسان کے اپنے رہائشی مکانات جنہیں انسان نے اپنی سہولت اور خواہش کے مطابق بنایا ہوتا ہے ان کی پر شکوہ عمارت بڑی بھلی لگتی ہے، أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ اگر یہ سب چیزیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سمیت اللہ کی راہ میں جہاد سے بھی بھلی اور اچھی لگتی ہیں تو تم فاسق بھی ہو اور ظالم بھی۔ لہذا پھر فَتَرَبَّصُوا یعنی: تم ان نازل ہونے والے عذاب کا انتظار کرو، تا آں کہ: حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ اللہ تعالی اپنا فیصلہ کر دے اور جب اللہ تعالی فیصلہ کر دے تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔
اور یہ یاد رکھنا کہ: وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ کہ اللہ تعالی اپنی اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے والوں ، اللہ تعالی کی محبت کو دیگر چیزوں کی محبت سے کم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مذکورہ آیت کریمہ اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کے واجب ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے، اس آیت میں یہ بھی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو دیگر ہر چیز کی محبت سے بالا اور برتر رکھنا ہے، پھر یہاں یہ بھی ذکر ہو گیا کہ اگر کوئی شخص مذکورہ چیزوں کی محبت اللہ تعالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ رکھتا ہے تو اس کے لیے بہت ہی سخت وعید اور اللہ تعالی کی طرف سے ناراضی ہے۔
اس کی علامت یہ ہو گی کہ: جب کسی آدمی کے سامنے دو چیزیں رکھی جائیں، جن میں سے ایک اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی نیز اس چیز میں ذاتی خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جبکہ دوسری چیز کو ذاتی طور پر چاہتا ہے ۔ اور دوسری چیز اپنانے سے اللہ اور اس کے رسول کے ہاں محبوب چیز رہ جاتی ہے، یا اس میں کمی آ جاتی ہے، تو ایسا شخص اگر اپنی ذاتی خواہش والی چیز اپنائے تو اس سے واضح ہو جائے گا کہ وہ شخص ظالم بھی ہے اور اس نے وہ کام نہیں کیا جو اس پر کرنا لازم تھا۔" ختم شد
"تيسر الكريم المنان" (332)
پنجم:
کافر سے لا تعلقی اور نفرت: کافر شخص کے نسب، یا علاقے، یا رنگت یا شکل کی وجہ سے نہیں ہوتی، بلکہ یہ صرف اس کے کفر کی وجہ سے اور اللہ کے دین سے مخالفت رکھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس لیے کافر سے لا تعلقی اور اسی کافر کے لیے ہدایت کی چاہت دونوں میں کوئی تصادم نہیں ہے، یہ دونوں چیزیں ایک شخص کے بارے میں رکھی جا سکتی ہیں، بلکہ یہی تو وہ رویہ اور برتاؤ ہے جو عمومی طور پر انبیائے کرام اپنے غیر مسلم امتیوں کے لیے اپنایا کرتے تھے، پھر یہ رویہ اللہ تعالی کے مومن بندے بھی اپنی اقوام کے بارے میں اپناتے آئے ہیں؛ حالانکہ یہی مومن بندے اپنی اقوام کے شرک سے بالکل لا تعلق اور بری ہوتے ہیں، اپنی قوم کے نظریات اور دین سے دور رہتے ہیں، ان کی قوم رسولوں کی تکذیب کرتی ہے لیکن یہ رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں ساتھ میں انہی کافروں کی ہدایت کے متمنی بھی ہوتے ہیں، اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کی قوم کے تمام غیر مسلم افراد بھی حلقہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اللہ کا دین قبول کر لیں۔
جیسے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دعا کیا کرتے تھے: (یا اللہ! اسلام کو ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے جو بھی تجھے محبوب ہو اس کے ذریعے غلبہ عطا فرما۔ ) ابن عمر رضی اللہ عنہ مزید کہتے ہیں کہ: تو اللہ تعالی کے ہاں ان دونوں میں سے عمر محبوب تھے۔ اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3681)نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح کہا ہے، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "مجھے ایسا لگا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ رہا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی ایسے نبی کی کیفیت ذکر کر رہے ہیں جسے ان کی قوم نے اتنا مارا کہ لہو لہان کر دیا، پھر اس نبی نے اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے کہا: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ یا اللہ! میری قوم کی بخشش فرما دے؛ کیونکہ انہیں علم نہیں ہے۔" اس حدیث کو امام بخاری: (3477) اور مسلم : (1792) نے روایت کیا ہے۔
آپ درج ذیل واقعہ بھی غور و خوض کے ساتھ پڑھیں اور آپ دیکھیں کہ کس طرح دینی نفرت ، ایمانی محبت میں بدل جاتی ہے، حتی کہ ایک کافر بھی اسی طرح کے جذبات رکھتا ہے کہ جیسے ہی وہ اللہ کے دین میں داخل ہو اور کفریہ نظریات چھوڑ دے تو وہ بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتا ہے:
چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نجد کی جانب گھوڑوں کا ایک دستہ روانہ کیا اور یہ دستہ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا لے آیا، صحابہ کرام نے اسے مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ رسی سے باندھ دیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم با ہر تشریف لائے اور پوچھا: (ثمامہ ! کیا ہے تمہارے پاس؟ )
ثمامہ نے کہا: محمد ! میرے پاس خیر ہے ، اور اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک شخص کو قتل کریں گے جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو احسان کا بدلہ چکانا بھی جانتا ہے۔ اور اگر آپ کو مال مطلوب ہے تو جتنا چاہیں مجھ سے تاوان طلب کر سکتے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں سے چلے آئے ، دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر پوچھا: (ثمامہ ! کیا ہے تمہارے پاس؟ )
ثمامہ نے کہا ، وہی جو میں پہلے کہہ چکا ہوں ، کہ اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو احسان کا بدلہ چکانا بھی جانتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم پھر چلے گئے ، تیسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا: (ثمامہ! کیا ہے تمہارے پاس؟)
ثمامہ نے کہا : وہی جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں !!
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ثمامہ کو چھوڑ دو ۔
رسی کھول دی گئی تو وہ مسجد نبوی سے قریب ایک باغ میں گئے اور غسل کر کے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور پڑھا: { أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ }
اور کہا اے محمد ! اللہ کی قسم روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ میرے لئے برا نہیں تھا لیکن آج آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ میرے لئے محبوب نہیں ہے ۔!!
اللہ کی قسم! کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مجھے برا نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا دین مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ اور عزیز ہے ۔ !!
اللہ کی قسم ! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا مجھے نہیں لگتا تھا لیکن آج آپ کا شہر میر ا سب سے زیادہ محبوب شہر ہے ۔!!
آپ کے سواروں نے مجھے پکڑا تو میں عمرے کا ارادہ کر چکا تھا ۔ اب آپ کا کیا حکم ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بشارت دی اور عمر ہ ادا کرنے کا حکم دیا ۔ ۔۔" اس حدیث کو امام بخاری: (4372) اور مسلم : (1764) نے روایت کیا ہے۔
ششم:
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ: مذکورہ دونوں چیزوں کو یکجا جمع کرنا کہ انسان شرک اور مشرکوں سے دور بھی رہے اور اللہ کے لیے ساری مخلوق کے لیے دل میں ترس بھی ہو، ان کے مومن ہونے کی خواہش دل میں رکھیں، اور سب کے دین الہی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہنا در حقیقت اس امت کے بہترین امت ہونے کا سب سے بڑا سبب بھی ہے، اللہ تعالی نے اس امت کی مدح سرائی بھی اسی وصف کے ساتھ فرمائی، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فرمانِ باری تعالی : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ [ترجمہ: تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہے۔] کی تفسیر میں کہتے ہیں: تم لوگوں کے لیے بہترین اس طرح ہو کہ تم انہیں گردنوں سے پابند سلاسل کر کے لاتے ہو اور وہ پھر اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔
صحیح بخاری: (4557)
آپ قرآن کریم میں اس نیک اور مومن بندے کے واقعے پر بھی غور کریں کہ انہوں نے اپنی کافر ، ناشکری اور منکر قوم کے ساتھ کیسا برتاؤ رکھا؛ ان کی ہدایت کے لیے کتنی کوششیں کیں، پوری قوم نے اسے بھی دھتکارا اور اس کی دعوت کو بھی پس پشت ڈال دیا، پھر اسی پھر بس نہیں بلکہ آخر کار اسے قتل بھی کر دیا ، لیکن یہ مومن اپنی اسی ڈگر پر گامزن رہا، آخری وقت تک ان کے لیے خیر اور ہدایت کا امیدوار تھا، بلکہ جان دینے کے بعد بھی اپنی قوم کے لیے فکر مند رہا!؟
اس مومن بندے کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَاقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ (20) اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ (21) وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (22) أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ (23) إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (24) إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ (25) قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَالَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ (26) بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ
ترجمہ: اس وقت شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا : میری قوم کے لوگو! ان رسولوں کی پیروی اختیار کر لو ۔ [20] ایسے رسولوں کی اتباع کرو جو تم سے کچھ اجر نہیں مانگتے اور وہ خود بھی راہ راست پر ہیں۔ [21] اور میں اس ہستی کی کیوں نہ عبادت کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور تم (سب) کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ [22] کیا میں اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنالوں کہ اگر رحمٰن مجھے کوئی تکلیف دینا چاہے تو نہ ان کی سفارش میرے کسی کام آئے اور نہ ہی وہ خود مجھے چھڑا سکیں؟ [23] تب تو یقیناً میں واضح گمراہی میں گر جاؤں گا۔ [24]بلا شبہ میں تو تمہارے پالنے والے پر ایمان لا چکا ہوں، میری بات غور سے سنو [25] (آخر جب اسے قتل کر ڈالا گیا تو) اسے کہا گیا کہ ''جنت میں داخل ہو جاؤ'' وہ کہنے لگا : '' کاش میری قوم کو علم ہو جاتا ۔ [26] کہ میرے پروردگار نے مجھے بخش دیا اور مجھے معززین میں شامل کر دیا ۔ [یس: 20 - 27]
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب یہ مومن اپنی قوم کو دعوت دے رہا تھا تو وہ اس پر سنگ باری کر رہے تھے، اور یہ مومن اپنے رب سے دعا کر رہا تھا: اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي، فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ یا اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما؛ یقیناً یہ نہیں جانتے۔
اس کی قوم مسلسل ان پر مسلسل سنگ باری کرتی رہی اور وہ بھی آگے سے یہی دعا دیتے رہے، تا آں کہ قوم نے انہیں قتل کر دیا۔ اللہ تعالی اس مومن پر رحم فرمائے۔"
تفسیر ابن کثیر: (6/571)
اسی طرح آپ آل فرعون میں سے ایمان لانے والے شخص کی کیفیت پر بھی غور و فکر کریں کہ وہ اپنی قوم کی بد اعمالیوں سے بالکل الگ تھلگ تھے، بلکہ مسلسل انہیں راہ نجات کی دعوت بھی دیتے رہے، حالانکہ ان کی قوم سخت گیر تھی، کفر، تکذیب اور انکار کوٹ کوٹ کر ان میں بھرا ہوا تھا، ان کا پورا واقعہ سورت غافر میں موجود ہے، بلکہ اس سورت کو سورت المؤمن بھی اسی شخص کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔
ایسے ہی صحیح بخاری: (3231) اور صحیح مسلم: (1795) میں سیدنا عروہ سے مروی ہے کہ انہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ ایک بار انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: کیا آپ کی زندگی میں غزوہ احد سے بڑھ کر بھی کوئی سنگین دن آیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہاری قوم کی طرف سے میں نے بہت سی مصیبتیں جھیلی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے ( طائف کے سردار ) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنی دعوت پیش کی تھی۔ لیکن اس نے ( اسلام کو قبول نہیں کیا اور ) میری دعوت کو رد کر دیا ۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ حالت میں جدھر رخ ہوا اسی جانب چل پڑا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا ، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا ، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبرئیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے جواب دیا ہے وہ بھی سن چکا ۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس فرشتے کو حکم دے دیں ۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی کہ آپ جو چاہیں ( اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ وں میں انہیں پیس کر رکھ دوں۔
تونبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو صرف اللہ تعالی کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔!!)
اللہ تعالی نے بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔[الانبیاء: 107]
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں اللہ تعالی نے یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنایا ہے، یعنی تمام جہانوں پر رحمت کرنے کے لیے انہیں مبعوث فرمایا ہے، لہذا اگر کوئی شخص اس رحمت کو قبول کر لے اور اس نعمت کا شکر ادا کرے تو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گا، اور جو اس رحمت کو مسترد کرتے ہوئے اس کا انکار کر دے تو وہ دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں نامراد ہو گا۔۔۔
امام مسلم اپنی کتاب صحیح مسلم میں کہتے ہیں۔۔۔: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا: مشرکوں کے خلاف بد دعا کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے رحمت کرتے ہوئے اللہ نے بھیجا ہے۔)" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (5 / 385)
ہفتم:
ہمیں امید ہے کہ جواب کی تفصیلات میں کافی وافی وضاحت موجود ہے، نیز یہ بھی ہے کہ جب آپ مسلمانوں کے متعلق ان کی انفرادی یا اجتماعی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو دونوں میں یہی چیزیں بڑی آسانی سے مل جائیں گی۔
لیکن ہم اس بات کی بھی دعوت دیں گے کہ یہ دونوں چیزیں کس پیارے انداز میں سورت ممتحنہ کے آغاز میں جمع کی گئی ہیں کہ سب سے پہلے شرک اور مشرکوں سے بالکل اظہار براءت ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ کافروں کے ہدایت پر آنے سے مایوس مت ہوں، عین ممکن ہے کہ یہ سب لوگ اللہ کے دین میں آ جائیں، اور پھر یہ عداوت ایمانی محبت میں تبدیل ہو جائے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (1) إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ (2) لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (3) قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (5) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (6) عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً وَاللَّهُ قَدِيرٌ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (7) لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کی طرف محبت کی طرح ڈالتے ہو۔ حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے وہ اس کا انکار کر چکے ہیں۔ وہ رسول کو اور خود تمہیں بھی اس بنا پر جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ اب اگر تم (برائے فتح مکہ) میری راہ میں جہاد اور میری رضا جوئی کی خاطر نکلے ہو تو خفیہ طور پر انہیں دوستی کا نامہ و پیام بھیجتے ہو؟ حالانکہ جو کچھ تم چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو میں اسے خوب جانتا ہوں۔ اور تم میں سے جو بھی ایسا کام کرے وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ۔ [1] اگر وہ تمہیں پالیں تو تمہارے دشمن بن جائیں اور برے ارادوں سے تم پر دست درازی اور زبان درازی کریں۔ اور یہ چاہیں کہ تم (پھر) کافر بن جاؤ۔ [2] قیامت کے دن نہ تمہارے رشتے ناطے کچھ فائدہ دیں گے اور نہ تمہاری اولاد۔ وہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھتا ہے۔ [3] تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ :’’ہم تم سے قطعی بیزار ہیں اور ان سے بھی جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو۔ ہم تمہارے (دین کے) منکر ہیں۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دشمنی اور بیر پیدا ہو چکا تاآنکہ تم اللہ اکیلے پر ایمان لے آؤ‘‘ مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا : (اس سے مستثنیٰ ہے) کہ میں تیرے لئے (اللہ سے) معافی کی درخواست کروں گا حالانکہ میں تیرے لیے اللہ کے سامنے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا ۔’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا اور تیری طرف ہی رجوع کیا اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔‘‘ [4] ’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں کافروں (کے مظالم) کا تختہ مشق نہ بنانا۔ اور اے ہمارے رب! ہمیں معاف فرما دے۔ بیشک تو ہی زبردست ہے، حکمت والا ہے‘‘ [5] انہیں لوگوں میں تمہارے لئے ایک اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہو اور جو کوئی سرتابی کرے تو بلاشبہ اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں محمود ہے۔ [6] کچھ بعید نہیں کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان دوستی پیدا کر دے جن سے تم عداوت رکھتے ہو۔ اور اللہ بڑی قدرتوں والا ہے، اور وہ بہت بخشنے والا ہے رحم کرنے والا ہے۔ [7] اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جو نہ تم سے دین کے بارے میں لڑے اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالے؛ اس بات سے کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو۔ اللہ تو یقیناً انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ [8] اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی، اس بات سے کہ تم انہیں دوست بناؤ۔ اور جو انہیں دوست بنائے تو ایسے لوگ ظالم ہیں۔ [الممتحنہ: 1 - 9]
ہمیں امید ہے کہ ہم آپ کے ذہن میں آنے والے اشکال کا جواب دینے میں کامیاب رہے ہیں، تاہم اگر پھر بھی آپ کے پاس کوئی پہلو تشنہ رہ گیا ہے ، یا آپ کے ذہن میں کوئی بات ہے جس کے بارے میں جواب میں بات نہیں کر سکے تو ہم آپ کو ہر وقت رابطے میں رہنے پر خوش آمدید کہیں گے، اور دین کے متعلق کسی بھی چیز کی تلاش میں معاون ہوں گے۔
واللہ اعلم
ماخذ: الاسلام سوال و جواب​
 
Last edited:
Top