محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
ایک بات تو واضح ہے کہ اللہ تعالى كے سارے نام توقيفى ہيں اور اس پر تمام علما کا اتفاق بھی ہے يعنى ان ناموں كے متعلق جو كچھ قرآن و سنت ميں وارد ہے اسى پر موقوف ركھا جائے گا اس ميں نہ تو كمى كى جائے گى اور نہ ہى اس سے زيادہ كيا جائے گالھذا اللہ تعالى كو صرف ایسے ناموں سے موسوم كيا جائے گا جن سے اللہ تعالى نے خود كو موسوم كيا ہے يا پھر رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا اطلاق اللہ تعالى پر كيا ہو، كيونكہ انسانی عقل ان اسماء كا ادراك نہيں كر سكتى جن كا اللہ تعالى مستحق ہے لھذا نص پر اكتفا كرنا اور اسے نص پر ہى موقوف ركھنا واجب اور ضرورى ہے اور فرمان بارى تعالى اس میں ایک واضح قاعدہ دے رہا ہے:اور جس بات كى تجھے خبر ہى نہ ہو اس كے پيچھے مت پڑ كيونكہ كان اور آنكھ اور دل ان سب ميں سے ہر ايك سے پوچھ گچھ كى جانے والى ہے} الاسراء ( 36 ).
اور قرآن مجيد ميں ياسنت نبويہ ميں جو كچھ صرف بطور خبر وارد ہے وہ اس طرح كہ اس كے ساتھ اللہ تعالى كا موسوم كرنا وارد نہيں تو اس كے ساتھ اللہ تعالى كو موسوم كرنا صحيح نہيں، يہ اس ليے كہ اللہ تعالى كى كچھ صفات كا تعلق افعال كے ساتھ ہے، اور اللہ تعالى كے افعال كى كوئى انتھاء نہيں جس طرح اس كے اقوال كى كوئى انتہاء نہيں.
اس كى مثال يہ ہے كہ: اللہ تعالى كى صفات فعليہ ميں " المجيئ، الاتيان، الاخذ، الامساك، البطش،" يہ سارى صفات فعليہ ہيں اس كے علاوہ بھى كئي ايك فعلى صفات ہيں جن كا شمار كرنا ممكن نہيں، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:{اور تيرا پروردگار آئے گا} الفجر ( 22 )
اور ايك مقام پر فرمايا:{اور اس نے آسمان كو تھام ركھا ہے كہ كہيں وہ اس كے حكم كے بغير زمين پر نہ آ گرے} الحج ( 65 ).
اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:{بلا شبہ تيرے رب كى پكڑ بہت سخت اور شديد ہے}البروج ( 12 ).
لھذا ہم اللہ تعالى كو ان صفات سے تو موصوف كريں گے جس طرح يہ نصوص ميں وارد ہيں اسى طرح ركھيں گے اور ان كے ساتھ اللہ تعالى كو موسوم كرتے ہوئے اس كے يہ نام نہيں ركھيں گےاور يہ نہيں كہيں گے كہ اس كے ناموں ميں" الجائى" اور " الآتى" اور " الآخذ" اور" الممسك" اور" الباطش" وغيرہ شامل ہيں، اگرچہ ہميں اس كى خبر دى گئى ہے اور ہم اس كے ساتھ اسے متصف بھى كرتے ہيں.
اور قرآن مجيد ميں ياسنت نبويہ ميں جو كچھ صرف بطور خبر وارد ہے وہ اس طرح كہ اس كے ساتھ اللہ تعالى كا موسوم كرنا وارد نہيں تو اس كے ساتھ اللہ تعالى كو موسوم كرنا صحيح نہيں، يہ اس ليے كہ اللہ تعالى كى كچھ صفات كا تعلق افعال كے ساتھ ہے، اور اللہ تعالى كے افعال كى كوئى انتھاء نہيں جس طرح اس كے اقوال كى كوئى انتہاء نہيں.
اس كى مثال يہ ہے كہ: اللہ تعالى كى صفات فعليہ ميں " المجيئ، الاتيان، الاخذ، الامساك، البطش،" يہ سارى صفات فعليہ ہيں اس كے علاوہ بھى كئي ايك فعلى صفات ہيں جن كا شمار كرنا ممكن نہيں، جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:{اور تيرا پروردگار آئے گا} الفجر ( 22 )
اور ايك مقام پر فرمايا:{اور اس نے آسمان كو تھام ركھا ہے كہ كہيں وہ اس كے حكم كے بغير زمين پر نہ آ گرے} الحج ( 65 ).
اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:{بلا شبہ تيرے رب كى پكڑ بہت سخت اور شديد ہے}البروج ( 12 ).
لھذا ہم اللہ تعالى كو ان صفات سے تو موصوف كريں گے جس طرح يہ نصوص ميں وارد ہيں اسى طرح ركھيں گے اور ان كے ساتھ اللہ تعالى كو موسوم كرتے ہوئے اس كے يہ نام نہيں ركھيں گےاور يہ نہيں كہيں گے كہ اس كے ناموں ميں" الجائى" اور " الآتى" اور " الآخذ" اور" الممسك" اور" الباطش" وغيرہ شامل ہيں، اگرچہ ہميں اس كى خبر دى گئى ہے اور ہم اس كے ساتھ اسے متصف بھى كرتے ہيں.