• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاتحہ خلف الامام پر اس تحقیق کی مزید تحقیق درکار ہے -

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

فاتحہ خلف الامام پر اس تحقیق کی مزید تحقیق درکار ہے تا کہ باطل کا رد کیا جا سکے

یہ فیس بک پر شیہر کی گئی ہے

لنک

https://www.facebook.com/notes/799259303483773/?pnref=story


فاتحہ خلف الامام

فرقہ اہلحدیث نےامام کے پیچھے صلوٰۃ ادا کرتے ہوئے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت لازمی قرار دی ہے خواہ امام خفیہ یا باآواز بلند تلاوت کر رہا ہو۔اس بارے میں قرآن سے یہ بات ملتی ہے :

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٢٠٤؁


’’ اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘،
( الاعراف: ۲۰۴ )

قرآن کی اس آیت سے ایک واضح حکم سامنے آیا کہ قرآت قرآن کے وقت سامع خاموش رہے گا۔ اگر کوئی حدیث بظاہر کلام اللہ سے ٹکراتی محسوس ہو لیکن تو اس کی تطبیق اللہ کے لاریب حکم کے تحت کی جائے گی۔ اللہ کے اس حکم کے جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہو کوفرقہ اہلحدیث مشکوک بنانے کی کوشش کرتا ہے اور قرآن کی یہ آیت پیش کرتا ہے :

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ 26؀


’’ اور کافر کہتے ہیں کہ قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور شور مچایا کرو شاید کہ تم غالب آجاو ٔ ‘‘۔ ( فصلت : ۲۶ )

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی حدیث میں یہ نہیں بیان کیا گیا کہ یہ آیت اس آیت کے جواب میں نازل ہوئی ہے، اگر یہ آیت اس کے جواب میں بھی نازل ہوئی ہوتی جب بھی یہی قانون مانا جائے گا کہ جب بھی قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے یا غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔

یہی بات اللہ کے رسول محمد ﷺ نے بھی فرمائی : ۔ ۔ ۔ ۔ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا ’’ ۔۔۔ اور جب امام قرآت کرے تو تم خاموش رہو ‘‘ ( عن قتادہ ؓ ، مسلم ، کتاب الصلوٰۃ ، باب تشہد فی الصلوٰۃ )

حدیث سے یہ واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ کہ صلوٰۃ میں بھی یہی معاملہ ہے کہ جب امام قرآت کرے تو مقتدی خاموش رہے۔

یہاں اہلحدیث اپنا موقف بدل ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ قرآن کے علاوہ ہے۔ حیرت کی بات ہے قرآن کے علاوہ کیا ہے؟ قرآن کے علاوہ کوئی کتاب نازل ہوئی ہے کوئی صحیفہ ہے؟ لیکن ان کے بیان کے بر خلاف حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن ہی کا حصہ ہے۔نبیﷺ نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ


’’ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: القرآن جو کہ سورہ فاتحہ ہے اسی کو سبع مثانی اور قرآن عظیم کہتے ہیں۔‘‘


( بخاری، کتاب التفاسیر ، باب : اللہ تعالیٰ کا قول کہ بیشک ہم نے تم کو سات دہرائی جانے والی آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔)

عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّی قَالَ کُنْتُ أُصَلِّي فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُجِبْهُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي کُنْتُ أُصَلِّي قَالَ أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُعَلِّمُکَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نَخْرُجَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّکَ قُلْتَ لَأُعَلِّمَنَّکَ أَعْظَمَ سُورَةٍ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ


’’ابوسعید بن معلی سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں صلوٰہ ادا کر رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک فارغ ہوں، میں نے کہا یا رسول اللہ میں صلوٰہ ادا کر رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب بھی اللہ ورسول تمہیں پکاریں تو جواب جلد دو، فرمایا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک سورت بتلاؤں گا، جو قرآن مجید کی تمام سورتوں سے افضل ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، جب ہم باہر نکلنے لگے، تو میں نے درخواست کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا میں تمہیں قرآن کی سب سے زیادہ افضل سورت بتلاؤں گا، آپ نے فرمایا وہ سورت الحمد للہ رب العالمین ہے اسی کا نام سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے دی گئی۔


( بخاری، کتاب فضائل القرآن ، باب: فضیلت سورہ فاتحہ )

واضح ہوا کہ سورہ فاتحہ قرآن ہی کا حصہ ہے اور اس پر بھی اللہ کا وہی حکم نافذ ہوتا ہے جو قرآن کی دیگر سورتوں پر ہوتا ہے۔

اب ہم آتے ہیں نبی ﷺ کے اس حکم کی طرف کہ صلوٰۃمیں سورہ فاتحہ کا تلاوت لازمی ہے:

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ


’’ عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اس کی صلوٰۃ نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے ۔‘‘


( بخاری، کتاب اذان باب : تمام صلوٰۃ میں خواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔)

اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ صلوٰہ میں سورہ فاتحہ کی تلاوت لازمی ہے۔ انفرادی صلوٰۃ میں اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوتا، اسی طرح ایسی صلوٰۃ جس میں امام خفیہ تلاوت کررہا ہو وہاں بھی کوئی کوئی ٹکراو نہیں ہوتا لیکن جب امام جہری یعنی با آواز بلند تلاوت کر رہا ہو تو قرآن کا حکم سامنے آجاتا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ قرآن کا حکم لاریب ہے دنیا کا کوئی قول و حکم اللہ کی بات کو نہیں بدل سکتا۔ پھر اب نبیﷺ کا اس حکم پر عمل کیسے ہوگا۔ ابو ہریرہ ؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ


’’ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جس نے صلوٰۃ ادا کی اور ام القرآن نہیں پڑھی تو اس کی صلوٰۃ ناقص ہے، نبیﷺ نے تین مرتبہ یہی ادا فرمایا۔ تو ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ کہا : اپنے دل میں پڑھو ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
( مسلم ، کتاب الصلوٰہ، باب : ہر رکعت میں فاتحہ ۔ ۔ ۔ ۔ )

واضح ہوگیا کہ امام پیچھے سورہ فاتحہ قرآت و تلاوت نہیں کرنی بلکہ اپنے دل میں پڑھ لے۔ قرآت کے معنی منہ کے مخارج سے اس کی ادائیگی ہے لیکن صحابی ؓ نے اس دل میں پڑھنے کا بتایا یعنی منہ سے قرآت نہیں کرو بلکہ دل میں اس پر غور و فکر کرنا ہے۔

عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنْ الْقِرَائَةِ مَعَ الْإِمَامِ فَقَالَ لَا قِرَائَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْئٍ


’’ عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا امام کے ساتھ قرأت کرنی چاہئے تو فرمایا کہ امام کے ساتھ قرأت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
( مسلم ، کتاب المساجد، باب: سجدہ تلاوت )

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّی رَکْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا وَرَائَ الْإِمَامِ


’’جابر بن عبداللہ ؓفرماتے ہیں جس شخص نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی تو گویا اس نے صلوٰہ نہیں ادا کی مگر جب امام کے پیچھے ہو۔
‘‘ ( موطا امام مالک : کتاب الصلوٰۃ ، باب : سورہ فاتحہ کی فضیلت )

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ کَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَائَةُ الْإِمَامِ وَإِذَا صَلَّی وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ قَالَ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ


’’نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جب کوئی پوچھتا کہ سورت فاتحہ پڑھی جائے امام کے پیچھے تو جواب دیتے کہ جب کوئی تم میں سے صلوٰۃ ادا کرے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے کہا نافع ن کہا کہ اور عبداللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے ۔‘‘
( موطا امام مالک ،باب: سورہ فاتحہ امام کے پیچھے نہ پڑھنے کا بیان )

عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ کَانَ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا لَا يَجْهَرُ فِيهِ الْإِمَامُ بِالْقِرَائَةِ


’’ عروہ بن زبیر سری ( خاموش تلاوت والی)صلواٰۃ میں امام پیچھے سورہ فاتحہ پڑھتے تھے ۔‘‘


( موطا امام مالک ،ایضا)

صحابہ کرام ؓ کے عمل سے مسئلہ مکمل طور پر واضح ہوگیا کہ امام کےپیچھے سور فاتحہ کی تلاوت نہیں کرنی۔

فرقہ اہلحدیث اسی حوالے سے نبیﷺ کے ایک اور عمل کا بھی انکار کرتے ہیں :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِکَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ


’’ابو ہریرہ ؓ سے ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لئے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی تو اس کے اگلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘


( بخاری، کتاب اذان ، امام کا بلند آواز سے آمین کہنا ۔ ۔ ۔)

بقول فرقہ اہلحدیث کے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا لازم ہے۔ اب کیا مقتدی امام سے پہلے ہی سورہ فاتحہ پڑھے لےگا کہ اس کی آمین کیساتھ ہی آمین کہے۔ اگر پہلے ہی پڑھ لے گا تو امام سے سبقت لے گیا جس کے لئے نبیﷺ نے منع فرمایا اور بڑی سخت وعید سنائی ہے، اور اگر بعد میں پڑھتا ہے تو امام کے آمین کیساتھ آمیں کیسے کہے گا ؟ کیا اپنی سورہ فاتحہ ختم کرنے سے پہلے ہی ’’ آمین ‘‘ کہہ دے گا؟ الغرض واضح طور پر یہ عمل قرآن اور نبیﷺ کے احکامات کا انکار لگتا ہے۔

فرقہ اہلحدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی ان تمام باتوں کا رد کرتے ہوئے اسے لازمی قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل میں یہ روایت پیش کرتے ہیں:

عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ کُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَائَةُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَعَلَّکُمْ تَقْرَئُونَ خَلْفَ إِمَامِکُمْ قُلْنَا نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا


عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صلوٰۃ فجر ادا کررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرأت شروع کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہو گیا ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوٰۃ سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہاں: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ایسا نہ کرو سوائے سورہ فاتحہ کے علاوہ ۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیرصلوٰۃنہیں ہوتی۔‘‘


( ابو داؤد، صلوٰہ کا بیان ، صلوٰہ میں قرآت فرض ہونے کا بیان )

موطا امام مالک میں اسی متن کی ایک روایت ملتی ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ فَقَالَ هَلْ قَرَأَ مَعِي مِنْکُمْ أَحَدٌ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ فَانْتَهَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


’’ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن جہری ( بلند آواز )صلوٰۃ س فارغ ہوئے ،پھر فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ کلام اللہ پڑھا تھا ؟ ایک شخص بول اٹھا کہ ہاں میں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔فرمایا جب ہی میں کہتا تھا اپنے دل میں کیا ہوا ہے مجھ سے کلام اللہ چھینا جاتا ہے ۔ کہا ابن شہاب یا ابوہریرہ نے تب لوگوں نے قرآت کرنا بند کردی جہری صلوٰۃ میں جب سے یہ بات سنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔‘‘


( موطا امام مالک، باب: سورہ فاتحہ امام کے پیچھے نہ پڑھنے کا بیان )

ابوداؤد کی بیان کردہ روایت کو البانی نےضعیف قرار دیا ہے ۔ ایک ضعیف روایت کی بنیاد پر قرآن و احادیث صحیحہ کے متفقہ عمل کو رد کردینا کیساطرز عمل ہے؟
 

ارشد

رکن
شمولیت
دسمبر 20، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
لیکن جب امام جہری یعنی با آواز بلند تلاوت کر رہا ہو تو قرآن کا حکم سامنے آجاتا ہے ) کہ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے)ے

پھر تو فجر کی سنت کا ادا کرنا فرض نماز کی جماعت(جب قرآن تلاوت کیا جارہا ہو)کے وقت اس حکم سے بری کیسے ہوگا ۔۔؟
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
میری سمجھ میں ایک بات یہ نہیں آرہی ہے کہ تقلید نے بعض علماء کے ذہن و دماغ پراس طرح پردہ ڈالدیا ہے کہ وہ حقیقت فہمی اور حقیقت پسندی سے کافی دور ہوگئے ہیں ۔ آخر انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ آیت ۔ واذا قری القرآن ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز میں سورہ فاتحہ کو لازم قرار دیا ہے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے معنی و مفہوم کو نہیں سمجھا تھا؟یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا الزام آجائیگا کہ آیت کے مفہوم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سمجھا سمجھا تو تقلیدی ذہن کے علماء نے جن کا مشن سنت کی مخالفت ہے۔ کوئی شخص مذکورہ آیت کی تفسیر ی روایت کو دیکھ لے تو اس پر یہ عیاں ہو جائیگا کہ اس آیت کا تعلق سورہ فاتحہ سے مطلق نہیں ہے۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
ایک جواب تو "جوش" نے دے دیا ہے ۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جب کوئی پوچھتا کہ سورت فاتحہ پڑھی جائے امام کے پیچھے تو جواب دیتے کہ جب کوئی تم میں سے صلوٰۃ ادا کرے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے کہا نافع ن کہا کہ اور عبداللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے
۔‘ دوئم یہ ہے کہ حدیث رسول (جو سنداًصحیح ہو اور صریح ہو) کے مقابلے میں کسی صحابی کا انفرادی قول وعمل قبول نہیں کیا جائے گا ۔ مثلاً حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیوی کے بوسہ لینے پر وضو ٹوٹنے کے قائل تھے ۔ جبکہ یہاں پر احناف حضرات نے بھی اس کے خلاف قول لیا ہے ۔ یعنی وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں ۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ اس میں کہاگیا ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کے لیے کافی ہے ۔ تو یہ بات ذہن نشین کرلے کہ ایک عام قراءت ہے اور دوئم خاص " فاتحہ خلف الامام " ہے ۔
فاتحہ ، قراءت سے خاص ہے ، اس کو خاص کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں ۔ یہ خود ہی ہمارے نبی علیہ السلام نے خاص کیا ہے ۔
عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔ ( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 )
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔
واضح ہے کہ عمومی قراءت نہیں کرنی چاہئیے اور جہر بھی نہیں کرنی چاہئیے ۔
اور فاتحہ پڑھنی لازمی ہے اس پر امر موجود ہے ۔ اوروہ بھی آہستہ آواز سے ۔
اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک حکم دے اور نبی علیہ السلام اس کے خلاف کرے ۔
یہ بات الگ ہے کہ کسی کاذہن اس کی حقیقت کو نہ پہچان سکے ۔
یا پھر نفس میں خباثت کی وجہ سے قصداً اختلاف کو ہوا دے ۔

قاعدہ یاد رکھنا چاہئیے اس میں اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑائے جاسکتے ہیں ۔
مثلاً إنما حرم عليكم الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن الله غفور رحيم
“اللہ کی طرف سے تم پر حرام ہے ۔ میتہ (مردار) ، خون ، سور ۔اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الآخر”

کیا میتہ میں مچھلی داخل ہے یا نہیں ؟
آج تک کسی نے مچھلی کو ذبح کیا ہے ؟ یا اس پر کوئی امر یا ترغیب ہے ؟
فما جوابکم فہو جوابنا۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
روزانہ کی پانچ فرض نمازوں میں سترہ (17) رکعت فرض ہیں۔۔ان سترہ رکعات میں سے صرف چھ (6 ) رکعات میں امام جہری قراءت کرتا ہے
باقی (11 ) رکعات میں مقتدی کیلئے قرآن کا کیاحکم ہے ؟؟؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
روزانہ کی پانچ فرض نمازوں میں سترہ (17) رکعت فرض ہیں۔۔ان سترہ رکعات میں سے صرف چھ (6 ) رکعات میں امام جہری قراءت کرتا ہے
باقی (11 ) رکعات میں مقتدی کیلئے قرآن کا کیاحکم ہے ؟؟؟
(1) حدثنی ابراھیم ،ثنا ابوتوبۃ عن ابی اسحاق الفزاری قال قال الاوزاعی انا لاننقم علی ابی حنیفۃ الرای ، کلنانری، انمانقم علیہ، انہ یذکر لہ الحدیث عن رسول اللہﷺ فیفتی بخلافہ (اسنادہ صحیح) (کتاب السنۃ جلد اول ، ص 607)

ترجمہ: امام اوزاعی ؒ نے کہا بیشک ہم قیاس کی وجہ سے ابو حنیفہ کو برا نہیں سمجھتے ہم سارے قیاس کرتے ہیں ہم اس لیے اسے برا سمجھتے ہیں کہ اس سے حدیث بیان کی جاتی ہے تو اس کے الٹ فتویٰ دیا ہے۔

سند کی تحقیق:
1۔ ابراھیم بن سعید الجوھری ابو اسحاق الطبری نزیل بغداد ثقہ حافظ (تقريب التهذيب ص 20)
2۔ ابوتوبۃ : ھو ربیع بن نافع ابو توبۃ الحلبی نزیل طرسوس ثقۃ حجۃ عابد (تقريب التهذيب ص 101)
3۔ ابو اسحاق الفزاری: ھو ابراھیم بن محمد بن حارث بن اسماء بن خارجہ بن حفص بن حذیفہ الفزاری الامام ابو اسحاق ثقۃ حافظ لہ تصانیف (تقريب التهذيب ص 22) وانظر ایضا ص


(1) حدثني هارون بن سفيان حدثني أسود بن سالم قال كنت مع أبي بكر بن عياش في مسجد بني أسيد مما يلي القبلة فسأله رجل من مسألة فقال رجل قال أبو حنيفة كذا وكذا فقال أبو بكر بن عياش سود الله وجه أبي حنيفة ووجه من يقول بهذا. (اسناد حسن) (کتاب السنۃ جلد اول ص 222 اخرجہ خطیب تاریخ بغداد جلد 13 ص 435 بسلسلہ صحیح عن عباس بن صالح عن اسود بیحوہ)

ترجمہ: اسود بن سالمؒ نے کہا میں امام ابوبکر بن عیاشؒ کے ساتھ بنی اسید کی مسجد میں تھا پس ایک آدمی نے مسئلے کے بارے میں ان سے (ابو بکر بن عیاشؒ سے ) پوچھا پس اس آدمی نے کہا کہ ابو حنیفہ ایسے ایسے کہتا ہے (اس مسئلے میں) تو امام ابوبکر بن عیاشؒ نے کہا اللہ ابو حنیفہ کا چہرہ سیاہ کرے۔ اور اس شخص کا چہرہ جو اس کے ساتھ کہتا ہے (یعنی ابو حنیفہ کے اس مسئلے کے مطابق)

سند کی تحقیق:
1۔ ھارون بن سفیان حسن درجے کا راوی ہے (کتاب السنۃ جلد اول حدیث 270)
2۔ اسود بن سالم ثقۃ (تاریخ بغداد جلد 7 ص 35 وکتاب الثقات جلد 8 ص
 
Top