محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَيْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِيْلًا۱۵ وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْھُمَا۰ۚ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا۱۶
۱؎ اس آیت میں فاحشہ کی سزا کا ذکر ہے کہ اگرکوئی عورت فحش کا ارتکاب کرے اور ثابت ہوجائے تواسے گھرمیں بند کردو، تاکہ آئندہ فتنہ کی گنجائش نہ رہے اوراگرمرد برائی کا ارتکاب کرے تو اسے سزادو۔ تاآنکہ وہ توبہ کرلے۔پھر اس سے تعرض نہ کرو۔ان ہردو آیات کے مصداق ومحل میں اختلاف ہے ۔ جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد زانی مرد اورعورت ہے اور یہ حکم تقرر حد سے پہلے کا ہے۔ چنانچہ جب حد کا تقرر ہوا تو حضورﷺ نے فرمایا:
خُذُوْا عَنِّی قَدْجَعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً
کہ آؤ میں بتاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے فیصلہ کی سبیل بتا دی ہے ۔ اس صورت میں یہ حدیث آیت کی مخصص ہوجائے گی۔
ابومسلم کہتے ہیں یہ دونوں آیتیں تفاحش جنسی کے بیان میں ہیں۔ اس میں زنا کا ذکر نہیں۔ یعنی اگردو عورتیں مل کر ارتکاب فحش کریں اور شہادت ہو جائے تو پھر انھیں بطور سزا کے گھروں میں محبوس رکھا جائے اوراگرمرد شہوت جنسی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دی جائے مگر یہ تاویل گو چلتی ہوئی ہے لیکن درست نہیں۔اس لیے کہ حدیث میں توضیح آچکی ہے اور اس لیے بھی کہ زانیہ کے لیے تو گواہوں کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے تو ذرا سختی کے ساتھ تادیب کافی ہے۔
۲؎ فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمَا میں اخلاق کے اس دقیق نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بعض دفعہ حد سے زیادہ سزا اور ملامت ذوقِ گناہ کو اور بھڑکا دیتی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ مجرموں کے دل میں شدید احساس پیدا کر دیا جائے اور بس۔ جب یہ پیدا ہو جائے تو انھیں زیادہ تنگ نہ کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ خود بخود رک جاتے ہیں۔
{اَلْفَاحِشَۃَ}برائی۔زنا {اٰذُوْھَما} تکلیف دو۔ سزادو۔ مادہ ایذا۔{اَعْرِضُوْا} پیچھا چھوڑدو۔
اورجو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اورخدا کی حدوں سے بڑھے گا، اسے خدا آگ میں ڈالے گا۔ اس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوائی کا عذاب ہے۔(۱۴) اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں ان پر تم اپنے مسلمانوں میں سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگروہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو اپنے گھروں میں بند رکھو۔یہاں تک کہ ان کو موت اٹھالے۔ یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔۱؎(۱۵) اور جو تم میں سے دو مرد وہی کام کریں تو ان دونوں کو ایذا پہنچاؤ۔پھر اگر وہ توبہ کریں اور درست ہوجائیں تو ان کا خیال چھوڑ دو۔ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔۲؎(۱۶)
فاحشہ کی سزا
۱؎ اس آیت میں فاحشہ کی سزا کا ذکر ہے کہ اگرکوئی عورت فحش کا ارتکاب کرے اور ثابت ہوجائے تواسے گھرمیں بند کردو، تاکہ آئندہ فتنہ کی گنجائش نہ رہے اوراگرمرد برائی کا ارتکاب کرے تو اسے سزادو۔ تاآنکہ وہ توبہ کرلے۔پھر اس سے تعرض نہ کرو۔ان ہردو آیات کے مصداق ومحل میں اختلاف ہے ۔ جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد زانی مرد اورعورت ہے اور یہ حکم تقرر حد سے پہلے کا ہے۔ چنانچہ جب حد کا تقرر ہوا تو حضورﷺ نے فرمایا:
خُذُوْا عَنِّی قَدْجَعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً
کہ آؤ میں بتاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے فیصلہ کی سبیل بتا دی ہے ۔ اس صورت میں یہ حدیث آیت کی مخصص ہوجائے گی۔
ابومسلم کہتے ہیں یہ دونوں آیتیں تفاحش جنسی کے بیان میں ہیں۔ اس میں زنا کا ذکر نہیں۔ یعنی اگردو عورتیں مل کر ارتکاب فحش کریں اور شہادت ہو جائے تو پھر انھیں بطور سزا کے گھروں میں محبوس رکھا جائے اوراگرمرد شہوت جنسی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دی جائے مگر یہ تاویل گو چلتی ہوئی ہے لیکن درست نہیں۔اس لیے کہ حدیث میں توضیح آچکی ہے اور اس لیے بھی کہ زانیہ کے لیے تو گواہوں کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے تو ذرا سختی کے ساتھ تادیب کافی ہے۔
نفسیات اخلاق کا باریک نکتہ
۲؎ فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمَا میں اخلاق کے اس دقیق نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بعض دفعہ حد سے زیادہ سزا اور ملامت ذوقِ گناہ کو اور بھڑکا دیتی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ مجرموں کے دل میں شدید احساس پیدا کر دیا جائے اور بس۔ جب یہ پیدا ہو جائے تو انھیں زیادہ تنگ نہ کرنا چاہیے۔ اس طرح وہ خود بخود رک جاتے ہیں۔
حل لغات
{اَلْفَاحِشَۃَ}برائی۔زنا {اٰذُوْھَما} تکلیف دو۔ سزادو۔ مادہ ایذا۔{اَعْرِضُوْا} پیچھا چھوڑدو۔