- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
فتاویٰ جات: وسیلہ
فتویٰ نمبر : 13835
سیدنا علی رضی اللہ کی والدہ اور ان کیلئے انبیاء کے وسیلے سے دعاء
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال : ۔کیا یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد (رضی اللہ عنہما) کی وفات پر ’’بحق نبیک و الانبیاء الذین من قبلی‘‘ یعنی انبیاء کے وسیلے سے دعا مانگی تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روح بن صالح کی بیان کردہ ایک روایت میں آیا ہے:
’’حدثنا سفیان الثوری عن عاصم الاحول عن انس بن مالک قال:
لما ماتت فاطمة بنت اسد بن هاشم ام علی، دخل علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم فجلس عند راسها فقال: رحمک الله یا امی، کنت امی بعد امی، تجوعین و تشبعینی و تعرین و تکوسننی و تمنعین نفسک طیب الطعام و تطمعینی، تریدین بذلک وجه الله والدار الآخرة، ثم امر ان تغسل ثلاثا و ثلاثا، فلما بلغ الماء الذی فیه الکافور سکبه علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم بیده، ثم خلع رسول الله صلی الله علیه وسلم قمیصه فالبسه ایاه و کفنت فوقه، ثم دعا رسول الله صلی الله علیه وسلم اسامة بن زید و ابا ایوب الانصاری و عمر بن الخطاب و غلاما اسود لیحفروا فحفروا قبرها فلما یلغوا اللحمد حفره رسول الله صلی الله علیه وسلم بیده و اخرج ترابه بیده، فلما فرغ دخل رسول الله صلی الله علیه وسلم فاضجع فیه وقال:
الله الذی یحیی و یمیت و هو حی لایموت، اغفرلامی فاطمة بنت اسد و لقنها حجتها و وسع علیها مدخلها بحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی، فانک ارحم الراحمین، ثم کبر علیها اربعا، ثم ادخلوها القبر هو والعباس وابوبکر الصدیق رضی الله عنهم۔‘‘
ہمیں سفیان ثوری نے حدیث بیان کی، انھوں نے (عن کے ساتھ) عاصم الاحول سے، انھوں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے، انھوں نے فرمایا:
جب جناب علی رضی اللہ عنہ کی والدہ: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم (رضی اللہ عنہما) فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے پھر آپ ان کے سر کی طرف بیٹھ گئے تو فرمایا: اے میری ماں! اللہ تجھ پر رحم کرے، میری (حقیقی) ماں کے بعد تو میری ماں تھی، تو خود بھوکی رہتی اور مجھے خوب کھلاتی، تو کپڑے (چادر) کے بغیر سوتی اور مجھے کپڑا پہناتی، تو خود بہترین کھانا نہ کھاتی اور مجھے کھلاتی تھی، تمھارا مقصد اس (عمل) سے اللہ کی رضامندی اور آخرت کاگھر تھا۔
پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ انھیں تین، تین دفعہ غسل دیا جائے، پھر جب اس پانی کا وقت آیا جس میں کافور (ملائی جاتی) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے ان پر پانی بہایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر انھیں پہنا دی اور اسی پر انھیں کفن دیا گیا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید، ابو ایوب الانصاری، عمر بن الخطاب اور ایک کالے غلام کو بلایا تاکہ قبر تیار کریں پھر انھوں نے قبر کھودی، جب لحد تک پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے کھودا اور اپنے ہاتھ سے مٹی باہر نکالی پھر جب فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبر میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور فرمایا:
اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ زندہ جاوید ہے کبھی نہیں مرے گا۔
(اے اللہ!) میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اس کی دلیل انھیں سمجھا دے، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے (وسیلے) سے ان کی قبر کو وسیع کردے، بے شک تو ارحم الراحمین ہے۔
پھر آپ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)، عباس اور ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہما (تینوں) نے اسے قبر میں اتار دیا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ۱۵۲/۱۔ ۱۵۳ ح۱۹۱، وقال: ’’تفروبہ روح بن صلاح‘‘ و عنہ ابو نعیم الاصبہانی فی حلیۃ الاولیء ۱۲۱/۳، و عندہ: یرحمک اللہ… الحمدللہ الذی یحیی…، وعنہ ابن الجوزی فی العلل المتناہیہ ۲۶۸/۱، ۲۶۹ ح۴۳۳)
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے و مردود ہے:
اول: اس کا راوی روح بن صلاح جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے۔
ابن عدی نے کہا: ’’وفی بعض حدیثہ نکرۃ‘‘
اور اس کی بعض حدیثوں میں منکر روایات ہیں۔ (الکامل ۱۰۰۶/۳، دوسرا نسخہ ۶۳/۴)
ابن یونس المصری نے کہا: ’’روت عنہ مناکیر‘‘ اس سے منکر روایتیں مروی ہیں۔ (تاریخ الغرباء بحوالہ لسان المیزان ۴۶۶/۲، دوسرا نسخہ ۱۱۰/۳)
امام دارقطنی نے کہا: ’’کان ضعیفا فی الحدیث، سکن مصر‘‘
وہ حدیث میں ضعیف تھا، مصر می رہتا تھا۔ (الموتلف و المختلف ۱۳۷۷/۳)
اابن ماکولا نے کہا: ’’ضعفوہ فی الحدیث‘‘ انھوں نے اسے حدیث میں ضعیف قرار دیا ہے۔ (الاکمال ۱۵/۵، باب شبابہ و شبانہ و سیابہ)
حافظ ذہبی نے کہا: ’’لہ مناکیر‘‘ اس کی منکر روایتیں ہیں۔ (تاریخ الاسلام ۱۶۰/۱۷)
ابن الجوزی نے روح بن صلاح کو اپنی کتاب المجروحین (۲۸۷/۱) میں ذکر کیا اور اس کی بیان کردہ حدیث مذکور کو ’’الاحادیث الواھیۃ‘‘ یعنی ضعیف احادیث میں ذکر کیا۔ (دیکھئے العلل المتاہیہ: ۴۳۳)
احمد بن محمد بن زکریا ب ابی عتاب ابوبکر الحافظ البغدادی، اخومیمون (متوفی ۲۹۶ھ) نے کہا: ہمارا اس پر اتفاق ہوا کہ مصر میں علی بن الحسن السامی، روح بن صلاح اور عبدالمنعم بن بشیر تینوں کی حدیثیں نہ لکھیں۔ (لسان المیزان ۲۱۳/۴۔ ۲۱۴، سوالات البرقانی الصغیر: ۲۰، بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ و سندہ صحیح)
ابن عدی، ابن یونس، دارقطنی، ابن ماکولا، ذہبی، ابن جوزی اور احمد بن محمد بن زکریا البغدادی (سات محدثین) کے مقابلے میں حافظ ابن حبان نے روح بن صلاح کو کتاب الثقات میں ذکر کیا۔ (۲۴۴/۸)
حاکم نے کہا: ’’ثقہ مامون، من اھل الشام‘‘ (سوالات مسعود بن علی السجزی: ۶۸، ص۹۸)
اور یعقوب بن سفیان الفارسی نے اس سے روایت لی۔ (موضح اوہام الجمع و التفریق للخطیب ۹۶/۲، و فیہ علی بن احمد بن ابراہیم البصری شیخ الخطیب)
مختصر یہ کہ جمہور علماء کی جرح کے مقابلے میں تین کی توثیق مردود ہے۔
دوم: روح بن صلاح (ضعیف) اگر بفرض محال ثقہ بھی ہوتا تو یہ سند سفیان ثوری (مدلس) کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
سفیان ثوری کے بارے میں محمد عباس رضوی بریلوی نے کہا:
’’یعنی سفیان مدلس ہے اور روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے اور اصول محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیرمقبول ہے جیسا کہ آگے ان شاء اللہ بیان ہوگا۔‘‘ (مناظرے ہی مناظرے ص۲۴۹)
امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس کے بارے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: ۶۷ ص۱۱۔۳۲
خلاصۃ التحقیق یہ ہے کہ سوال میں روایت مذکورہ غیر ثابت ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
نیز دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی (۳۲/۱۔ ۳۴ ح۲۳ وقال: ضعیف)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)۔۔۔شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ تعالی
ج2ص542
محدث فتویٰ
فتویٰ نمبر : 13835
سیدنا علی رضی اللہ کی والدہ اور ان کیلئے انبیاء کے وسیلے سے دعاء
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال : ۔کیا یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد (رضی اللہ عنہما) کی وفات پر ’’بحق نبیک و الانبیاء الذین من قبلی‘‘ یعنی انبیاء کے وسیلے سے دعا مانگی تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روح بن صالح کی بیان کردہ ایک روایت میں آیا ہے:
’’حدثنا سفیان الثوری عن عاصم الاحول عن انس بن مالک قال:
لما ماتت فاطمة بنت اسد بن هاشم ام علی، دخل علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم فجلس عند راسها فقال: رحمک الله یا امی، کنت امی بعد امی، تجوعین و تشبعینی و تعرین و تکوسننی و تمنعین نفسک طیب الطعام و تطمعینی، تریدین بذلک وجه الله والدار الآخرة، ثم امر ان تغسل ثلاثا و ثلاثا، فلما بلغ الماء الذی فیه الکافور سکبه علیها رسول الله صلی الله علیه وسلم بیده، ثم خلع رسول الله صلی الله علیه وسلم قمیصه فالبسه ایاه و کفنت فوقه، ثم دعا رسول الله صلی الله علیه وسلم اسامة بن زید و ابا ایوب الانصاری و عمر بن الخطاب و غلاما اسود لیحفروا فحفروا قبرها فلما یلغوا اللحمد حفره رسول الله صلی الله علیه وسلم بیده و اخرج ترابه بیده، فلما فرغ دخل رسول الله صلی الله علیه وسلم فاضجع فیه وقال:
الله الذی یحیی و یمیت و هو حی لایموت، اغفرلامی فاطمة بنت اسد و لقنها حجتها و وسع علیها مدخلها بحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی، فانک ارحم الراحمین، ثم کبر علیها اربعا، ثم ادخلوها القبر هو والعباس وابوبکر الصدیق رضی الله عنهم۔‘‘
ہمیں سفیان ثوری نے حدیث بیان کی، انھوں نے (عن کے ساتھ) عاصم الاحول سے، انھوں نے انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے، انھوں نے فرمایا:
جب جناب علی رضی اللہ عنہ کی والدہ: فاطمہ بنت اسد بن ہاشم (رضی اللہ عنہما) فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے پھر آپ ان کے سر کی طرف بیٹھ گئے تو فرمایا: اے میری ماں! اللہ تجھ پر رحم کرے، میری (حقیقی) ماں کے بعد تو میری ماں تھی، تو خود بھوکی رہتی اور مجھے خوب کھلاتی، تو کپڑے (چادر) کے بغیر سوتی اور مجھے کپڑا پہناتی، تو خود بہترین کھانا نہ کھاتی اور مجھے کھلاتی تھی، تمھارا مقصد اس (عمل) سے اللہ کی رضامندی اور آخرت کاگھر تھا۔
پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ انھیں تین، تین دفعہ غسل دیا جائے، پھر جب اس پانی کا وقت آیا جس میں کافور (ملائی جاتی) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے ان پر پانی بہایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص اتار کر انھیں پہنا دی اور اسی پر انھیں کفن دیا گیا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید، ابو ایوب الانصاری، عمر بن الخطاب اور ایک کالے غلام کو بلایا تاکہ قبر تیار کریں پھر انھوں نے قبر کھودی، جب لحد تک پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے کھودا اور اپنے ہاتھ سے مٹی باہر نکالی پھر جب فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبر میں داخل ہوکر لیٹ گئے اور فرمایا:
اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ زندہ جاوید ہے کبھی نہیں مرے گا۔
(اے اللہ!) میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اس کی دلیل انھیں سمجھا دے، اپنے نبی اور مجھ سے پہلے نبیوں کے (وسیلے) سے ان کی قبر کو وسیع کردے، بے شک تو ارحم الراحمین ہے۔
پھر آپ نے ان پرچار تکبیریں کہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)، عباس اور ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہما (تینوں) نے اسے قبر میں اتار دیا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ۱۵۲/۱۔ ۱۵۳ ح۱۹۱، وقال: ’’تفروبہ روح بن صلاح‘‘ و عنہ ابو نعیم الاصبہانی فی حلیۃ الاولیء ۱۲۱/۳، و عندہ: یرحمک اللہ… الحمدللہ الذی یحیی…، وعنہ ابن الجوزی فی العلل المتناہیہ ۲۶۸/۱، ۲۶۹ ح۴۳۳)
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے و مردود ہے:
اول: اس کا راوی روح بن صلاح جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے۔
ابن عدی نے کہا: ’’وفی بعض حدیثہ نکرۃ‘‘
اور اس کی بعض حدیثوں میں منکر روایات ہیں۔ (الکامل ۱۰۰۶/۳، دوسرا نسخہ ۶۳/۴)
ابن یونس المصری نے کہا: ’’روت عنہ مناکیر‘‘ اس سے منکر روایتیں مروی ہیں۔ (تاریخ الغرباء بحوالہ لسان المیزان ۴۶۶/۲، دوسرا نسخہ ۱۱۰/۳)
امام دارقطنی نے کہا: ’’کان ضعیفا فی الحدیث، سکن مصر‘‘
وہ حدیث میں ضعیف تھا، مصر می رہتا تھا۔ (الموتلف و المختلف ۱۳۷۷/۳)
اابن ماکولا نے کہا: ’’ضعفوہ فی الحدیث‘‘ انھوں نے اسے حدیث میں ضعیف قرار دیا ہے۔ (الاکمال ۱۵/۵، باب شبابہ و شبانہ و سیابہ)
حافظ ذہبی نے کہا: ’’لہ مناکیر‘‘ اس کی منکر روایتیں ہیں۔ (تاریخ الاسلام ۱۶۰/۱۷)
ابن الجوزی نے روح بن صلاح کو اپنی کتاب المجروحین (۲۸۷/۱) میں ذکر کیا اور اس کی بیان کردہ حدیث مذکور کو ’’الاحادیث الواھیۃ‘‘ یعنی ضعیف احادیث میں ذکر کیا۔ (دیکھئے العلل المتاہیہ: ۴۳۳)
احمد بن محمد بن زکریا ب ابی عتاب ابوبکر الحافظ البغدادی، اخومیمون (متوفی ۲۹۶ھ) نے کہا: ہمارا اس پر اتفاق ہوا کہ مصر میں علی بن الحسن السامی، روح بن صلاح اور عبدالمنعم بن بشیر تینوں کی حدیثیں نہ لکھیں۔ (لسان المیزان ۲۱۳/۴۔ ۲۱۴، سوالات البرقانی الصغیر: ۲۰، بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ و سندہ صحیح)
ابن عدی، ابن یونس، دارقطنی، ابن ماکولا، ذہبی، ابن جوزی اور احمد بن محمد بن زکریا البغدادی (سات محدثین) کے مقابلے میں حافظ ابن حبان نے روح بن صلاح کو کتاب الثقات میں ذکر کیا۔ (۲۴۴/۸)
حاکم نے کہا: ’’ثقہ مامون، من اھل الشام‘‘ (سوالات مسعود بن علی السجزی: ۶۸، ص۹۸)
اور یعقوب بن سفیان الفارسی نے اس سے روایت لی۔ (موضح اوہام الجمع و التفریق للخطیب ۹۶/۲، و فیہ علی بن احمد بن ابراہیم البصری شیخ الخطیب)
مختصر یہ کہ جمہور علماء کی جرح کے مقابلے میں تین کی توثیق مردود ہے۔
دوم: روح بن صلاح (ضعیف) اگر بفرض محال ثقہ بھی ہوتا تو یہ سند سفیان ثوری (مدلس) کی تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔
سفیان ثوری کے بارے میں محمد عباس رضوی بریلوی نے کہا:
’’یعنی سفیان مدلس ہے اور روایت انہوں نے عاصم بن کلیب سے عن کے ساتھ کی ہے اور اصول محدثین کے تحت مدلس کا عنعنہ غیرمقبول ہے جیسا کہ آگے ان شاء اللہ بیان ہوگا۔‘‘ (مناظرے ہی مناظرے ص۲۴۹)
امام سفیان ثوریؒ کی تدلیس کے بارے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: ۶۷ ص۱۱۔۳۲
خلاصۃ التحقیق یہ ہے کہ سوال میں روایت مذکورہ غیر ثابت ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
نیز دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ للالبانی (۳۲/۱۔ ۳۴ ح۲۳ وقال: ضعیف)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)۔۔۔شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ تعالی
ج2ص542
محدث فتویٰ
Last edited: