السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ کتابت کی غلطی ہی معلوم ہوتی ہے!
کیونکہ جس لفظ کا اضافہ ہوا ہے، وہ
''إن'' کا عمومی استعمال تاکید کے لئے ہوتا ہے،
اس سے آیت کے حکم اور مفہوم میں فرق نہیں آتا،
اور نیچے ترجمہ بھی پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ ترجمہ میں حرف تاکید یعنی
''ان'' کا مفہوم شامل نہیں!
مزید کے قرآن میں الذین سے قبل کئی جگہ
''إن'' کا تاکید کے لئے آیا ہے!
مثلاً :
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (سورة البقرة 06)
بے شک جو لوگ انکار کر چکے ہیں برابر ہے انہیں تو ڈرائے یا نہ ڈرائے وہ ایمان نہیں لائیں گے (ترجمہ احمد علی لاہوری)
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لانے کے (ترجمہ فتح محمد جالندھری)
اس ترجمہ میں دیکھیں، کہ ایک ترجمہ میں تاکید کا مفہوم ترجمہ میں شامل ہے، جبکہ دوسرے میں تاکید کا مفہوم ترجمہ میں شامل نہیں!
لیکن دونوں تراجم میں آیت کا حکم و مفہوم ایک ہی ہے!
یعنی کہ اس ''إن'' کےحرف سے مفہوم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو رہی، تو اس حرف کو دانستہ کسی مقصد کے لئے شامل کرنا بعید از قیاس ہے!
دوم کہ قرآن مجید میں (شاملہ کی سرچ کے مطابق) 84 بار ''إِنَّ الَّذِينَ'' کے الفاظ آئے ہیں، لہٰذا کاتب کے قلم کا ''الَّذِينَ'' کے جگہ ''إِنَّ الَّذِينَ'' کو سبقت لے جانا قرین از قیاس ہے!
شیوخ سے التماس ہے کہ کہ کوئی خطا ہو تو اصلاح فرمائیں! جزاک اللہ ۔