کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
نمبر8:
قرآن کریم کی دورِ صدیقی میں تدوین کا واقعہ خود اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت اوّلا حافظہ کے ذریعے ہوئی۔ چنانچہ جب تک حفاظِ قرآن کی بڑی تعداد موجود رہی، صحابہ کرام حفاظت ِقرآن سے مطمئن رہے۔ جب جنگ ِیمامہ میں تقریباً۷۰۰ حفاظ قرآن صحابہ کی شہادت پر حضرت عمر ؓبن خطاب کو حفاظت ِقرآن کی فکر دامن گیر ہوئی توانہوں نے خلیفہ اوّل کو تدوین قرآن کا مشورہ دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل جلیل القدر صحابہ کرام حفاظِ قرآن کی کثرت کی و جہ سے مطمئن تھے اور وہ حفاظت سینوں میں تھی، کتابت میں نہیں۔
قرآن کریم کی دورِ صدیقی میں تدوین کا واقعہ خود اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت اوّلا حافظہ کے ذریعے ہوئی۔ چنانچہ جب تک حفاظِ قرآن کی بڑی تعداد موجود رہی، صحابہ کرام حفاظت ِقرآن سے مطمئن رہے۔ جب جنگ ِیمامہ میں تقریباً۷۰۰ حفاظ قرآن صحابہ کی شہادت پر حضرت عمر ؓبن خطاب کو حفاظت ِقرآن کی فکر دامن گیر ہوئی توانہوں نے خلیفہ اوّل کو تدوین قرآن کا مشورہ دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل جلیل القدر صحابہ کرام حفاظِ قرآن کی کثرت کی و جہ سے مطمئن تھے اور وہ حفاظت سینوں میں تھی، کتابت میں نہیں۔
لہٰذا اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دورِ نبوی میں نہ صرف حدیث بلکہ قرآن بھی بین الدفتین تدوین نہ ہوا تھا بلکہ دونوں کو اوپر بیان کردہ وضاحت کی رو سے آنے والے ادوار میں احاطہ تحریر میں لایا گیا جو اس دور کے ایک سادہ، جامع اور معمول بہ طریقہ سے تھی۔منکرین حدیث کا قرآن وسنت کی تدوین پر عدمِ اعتماد والا اعتراض دراصل فن تحریر کے موجودہ ارتقا اور یورپی علوم کے طریقہ حفاظت سے مرعوب ہونے کا شاخسانہ ہے، جس میں زمانوں کے بدلتے ہوئے حالات کی رعایت نہیں رکھی گئی۔ہمارے ذہن میں کتابت والے یہ مغالطے اس لئے جنم لیتے ہیں کہ ہم اس دور کو اپنی موجودہ عادات پر قیاس کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں چونکہ معانی کے اوپر دلالت کرنے والے الفاظ کی زیادہ حفاظت مطلوب تھی، اس لئے اس کے باقاعدہ حفظ اور تلاوت کو تعبدی امر قرار دیا گیا۔ جبکہ حدیث میں اصل شے اُسوئہ رسو ل یعنی مرادِ ربانی ہے، جن کو سنت ِرسول کی روایت کرنے والے صحابہ کرام کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔اسی لئے احادیث کی نسبت اور گنتی راوی صحابی کے اعتبار سے ہوتی ہے یعنی اُسوئہ رسول کی خبر دینے والا صحابی ہی ہوتا ہے۔نوٹ
یعنی قرآن کو براہ راست نسبت تو اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے لیکن اس کے پہلے راوی اور قاری رسول کریم ا ہیں۔ اس طرح حدیث کی براہِ راست نسبت محمد رسول اللہﷺ کی طرف ہوتی ہے لیکن اس کی خبر اور روایت چونکہ صحابہ کرام سے چلتی ہے، اسلئے تعامل رسول ہونے کے باوجود سوائے اَوراد ووظائف کے وہ کلام یا خبر صحابہ ہی کی و جہ سے ’حدیث‘ کہلاتی ہے۔