حافظ عبدالسلام فیصل
مبتدی
- شمولیت
- اگست 12، 2014
- پیغامات
- 8
- ری ایکشن اسکور
- 3
- پوائنٹ
- 3
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔
(قادری +عمران ،کو آرڈینیشن) :::: پاکستان اور مشرق وسطہ کے حالات اور قیامت کی نشانیاں::::
اللہ کا قرآن ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔۔
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ
اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔۔(سورۃ الانفال : آیت نمبر 25)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالی نے اپنی تفسیر " احسن البیان " میں لکھا ہے کہ : -
"""اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام و خاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ اراضی و سماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک اور بد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
یا بعض احادیث میں امر بالمعروف و نہی ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، مراد ہے۔""""
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"""اگرچہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر نازل ہوئی تھی لیکن
اس کا حکم عام و تمام مسلمانوں پر پے کیونکہ اللہ کے نبی ص فتنوں سے ڈرا کرتے تھے ۔۔۔۔ """
"""علامہ آلوسی اپنی تفسیر "روح المعانی " میں لکھتے ہیں ۔۔۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فتنوں کی تمام تر اقسام کا روح نما ہونا لازم ہے ۔۔
جیسے " نیکی کا حکم کرنے رکنا اور برائی کی حوصلہ افزائی کرنا ، آپس میں شدید قسم کے حالات اور اختلافات کا رو نما ہو جانا ، بدعتوں کے ظہور پر ان کی روک تھام کا نہ ہونا ہے ۔"""
محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ نے " صحیح بخاری ، کتاب الفتن " میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فرمان نقل کیا ہے ۔۔۔
(یتقا رب الزمان ، ویقل العمل ، و یلقی الشح ،و تکثر او قال :تظھر الفتن )
ترجمہ: زمانہ سکڑ جائے گا ، عمل کم ہو جائے گا ، بخل عام ہو جائے گا اور فتنے زیادہ ہو جائیں گے ۔۔۔""
ابھی جو حالات ملک پاکستان کے ہیں ۔۔۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کا غائر نظر سے جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ دور واقعی فتنوں کا دور ہے ۔۔۔
اس وقت دھوکہ بازی ، بد دیانتی اور قتل و غارت عراج پر ہے ۔۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ کفار اس وقت سلیبی جنگوں کا آغاز کر چکے ہیں لیکن ہمارے حکمران اس دوربینی سے خالی ہیں ۔۔۔۔
میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان نقل کرتا ہوں ۔۔۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔۔۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ::
"" خروج دجال سے پہلے دھوکہ بازی عام ہو جائے گی ، سچے کی تکذیب اور جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی ، امانت دار خائن بن جائیں گے ، خیانت دار کے پاس امانت رکھی جائے گی ، اور ان کے (حکومتی معاملات میں ) رویبضہ دخل اندازی کرے گا ۔" پوچھا گیا کہ یہ "رویبضہ کون ہے : "فرمایا: جو امور عامہ میں باتیں کرے گا (یعنی نا اہل کو اہل بنا دے گا )
(ابن ماجہ ، حدیث نمبر 4085، سلسلہ صحیحہ ، کتاب الفتن وغیرہ )
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"" قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ ذلیل کمینے لوگ ، نیک شریف لوگوں پر غالب آ جائیں گے ۔ " کیوں ابن مسعود تم نے یہ بات میرے محبوب سے سنی ہے ، فرمایا : کعبہ کے رب کی قسم """
صحیح البخاری ، کتاب الرقاق ، باب رفع الامانۃ 6497)
آج امت نے کن لوگوں کو اپنا فیصلہ کرنے والا ، اپنے معاملات کا مقتدر کر دیا ہے ،۔۔۔
اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے 1400 سال پہلے جو ارشادات
کیے تھے وہ حق اور سچ ہیں ۔۔ آج یہ لوگ " منتخب امراء کے خلاف" احتجاج کی شکل میں خروج کر رہے ہیں اور لوگوں کو اکسا کر قتل و حرج کی دعوت دے رہے ہیں ۔۔ یہ کیسے لیڈر ہیں کیا (نعوذ باللہ من ذالک ) یہ نبوت کے درجہ کو پہنچ گئے ۔
کہ اگر یہ قتل کر دیے جائیں تو ان کے قاتلوں کو ان کے مریدین قتل کریں ۔۔
خلافت و امارت کن لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ۔۔۔۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کی ۔۔
یا رسول اللہ ﷺ قیامت کب آئے گی ۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"" جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو ،
اس نے کہا : امانت کے ضائع ہونے سے کیا مراد ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا :
"" جب معاملات نا اہل لوگوں کی سپرد کر دیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو ""
(صحیح البخاری ، کتاب الرقائق ؛ 6496)
کیا آج عوام نے واقعی میں اللہ اور اس کے رسول کے داعیوں کو معاملات میں امیر منتخب کر دیا ہے ۔ ایسے لوگ جو پکے مشرک ، بدعتی اور کذاب ہیں ان کو ہم لوگوں نے اپنا انقلابی لیڈر بنا لیا ہے ۔ جو بے پردگی اور بے حیائی کو عام کر رہے ہیں ۔۔۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔۔۔
"" قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ لوگوں میں سب سے خوش بخت اور نیک اسے سمجھا جائے گا جو سب سے زیادہ بد بخت اور بد بخت کا بیٹا ہو گا """
( رواہ ترمذی : 2209)
لیجیے ! آج ہماری عوام کا بھی یہ حال ہو چکا کہ ہم نےاپنا فیصل اپنا حاکم اس شخص کو چن لیا ہے ۔۔۔ جو رسول اللہ ﷺ کا گستاخ ہے ۔۔۔
اللہ کے دین کا فہم نہیں رکھتا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ
کو معاملات میں اپنا حاکم تسلیم نہیں کرتا ۔۔۔۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں،
ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (۶۵)
پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔(النساء )
لیکن ہماری عوام اس وقت اس آیت کا مصداق بنی ہے ۔۔۔۔
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ
کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں
وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (۵۰)
یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ
اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ (١) یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (٢)
وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (۵۱)
تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔(المائدہ )
کیا ہمارے حکمرانوں نے اور ان لیڈروں نے جو اس وقت انقلاب اور آزادی کی باتیں کر رہے ہیں ان باتوں کو اپنا رکھا ہے جو وہ کر رہے ہیں ۔۔۔۔
یعنی کھلم کھلا قتل عام ، فساد اور حرج کی دعوت دینا ۔۔۔۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
" قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہ کرو گے ،
اور اپنی تلواروں کے ساتھ آپس میں جنگ کرو گے ، اور تم میں سے بد ترین تمہاری دنیا کے وارث ہو جائیں گے ، ( ترمذی : 2170)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
""" اگر تمہاری عمریں لمبی ہوئیں تم ایسے لوگ دیکھو گے جو اللہ کی لعنت اور غیظ و غضب میں زندگی گزاریں گے ۔ اور ان کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی طرح کے ڈنڈے ہوں گے """
( مسلم ، کتاب الجنۃ " باب النار یدخلھا الجبارون فی الجنۃ یدخلھا الضعفاء
حدیث نمبر 2857)
آج کا لیڈر انقلابی لیڈر کیا کر رہا ہے ۔ کیا یہ اس وقت اپنے امام کو قتل کرنے کے در پے نہیں ہیں ۔ کیا ان کے جوانوں کے ہاتھ میں بیلوں کی دموں جیسے ڈنڈے نہیں ہیں ، کیایہ اللہ کی لعنت میں زندگی بسر نہیں کر رہے ۔۔۔۔
بس ! اللہ ہمیں ان فتنوں سے محفوظ رکھے ،،،،،،،
عبدالسلام فیصل
(قادری +عمران ،کو آرڈینیشن) :::: پاکستان اور مشرق وسطہ کے حالات اور قیامت کی نشانیاں::::
اللہ کا قرآن ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔۔
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ
اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔۔(سورۃ الانفال : آیت نمبر 25)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالی نے اپنی تفسیر " احسن البیان " میں لکھا ہے کہ : -
"""اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام و خاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ اراضی و سماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک اور بد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
یا بعض احادیث میں امر بالمعروف و نہی ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، مراد ہے۔""""
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"""اگرچہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر نازل ہوئی تھی لیکن
اس کا حکم عام و تمام مسلمانوں پر پے کیونکہ اللہ کے نبی ص فتنوں سے ڈرا کرتے تھے ۔۔۔۔ """
"""علامہ آلوسی اپنی تفسیر "روح المعانی " میں لکھتے ہیں ۔۔۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فتنوں کی تمام تر اقسام کا روح نما ہونا لازم ہے ۔۔
جیسے " نیکی کا حکم کرنے رکنا اور برائی کی حوصلہ افزائی کرنا ، آپس میں شدید قسم کے حالات اور اختلافات کا رو نما ہو جانا ، بدعتوں کے ظہور پر ان کی روک تھام کا نہ ہونا ہے ۔"""
محمد بن اسماعیل البخاری رحمۃ اللہ علیہ نے " صحیح بخاری ، کتاب الفتن " میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فرمان نقل کیا ہے ۔۔۔
(یتقا رب الزمان ، ویقل العمل ، و یلقی الشح ،و تکثر او قال :تظھر الفتن )
ترجمہ: زمانہ سکڑ جائے گا ، عمل کم ہو جائے گا ، بخل عام ہو جائے گا اور فتنے زیادہ ہو جائیں گے ۔۔۔""
ابھی جو حالات ملک پاکستان کے ہیں ۔۔۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کا غائر نظر سے جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ دور واقعی فتنوں کا دور ہے ۔۔۔
اس وقت دھوکہ بازی ، بد دیانتی اور قتل و غارت عراج پر ہے ۔۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ کفار اس وقت سلیبی جنگوں کا آغاز کر چکے ہیں لیکن ہمارے حکمران اس دوربینی سے خالی ہیں ۔۔۔۔
میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان نقل کرتا ہوں ۔۔۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔۔۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ::
"" خروج دجال سے پہلے دھوکہ بازی عام ہو جائے گی ، سچے کی تکذیب اور جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی ، امانت دار خائن بن جائیں گے ، خیانت دار کے پاس امانت رکھی جائے گی ، اور ان کے (حکومتی معاملات میں ) رویبضہ دخل اندازی کرے گا ۔" پوچھا گیا کہ یہ "رویبضہ کون ہے : "فرمایا: جو امور عامہ میں باتیں کرے گا (یعنی نا اہل کو اہل بنا دے گا )
(ابن ماجہ ، حدیث نمبر 4085، سلسلہ صحیحہ ، کتاب الفتن وغیرہ )
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"" قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ ذلیل کمینے لوگ ، نیک شریف لوگوں پر غالب آ جائیں گے ۔ " کیوں ابن مسعود تم نے یہ بات میرے محبوب سے سنی ہے ، فرمایا : کعبہ کے رب کی قسم """
صحیح البخاری ، کتاب الرقاق ، باب رفع الامانۃ 6497)
آج امت نے کن لوگوں کو اپنا فیصلہ کرنے والا ، اپنے معاملات کا مقتدر کر دیا ہے ،۔۔۔
اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے 1400 سال پہلے جو ارشادات
کیے تھے وہ حق اور سچ ہیں ۔۔ آج یہ لوگ " منتخب امراء کے خلاف" احتجاج کی شکل میں خروج کر رہے ہیں اور لوگوں کو اکسا کر قتل و حرج کی دعوت دے رہے ہیں ۔۔ یہ کیسے لیڈر ہیں کیا (نعوذ باللہ من ذالک ) یہ نبوت کے درجہ کو پہنچ گئے ۔
کہ اگر یہ قتل کر دیے جائیں تو ان کے قاتلوں کو ان کے مریدین قتل کریں ۔۔
خلافت و امارت کن لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ۔۔۔۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کی ۔۔
یا رسول اللہ ﷺ قیامت کب آئے گی ۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"" جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو ،
اس نے کہا : امانت کے ضائع ہونے سے کیا مراد ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا :
"" جب معاملات نا اہل لوگوں کی سپرد کر دیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو ""
(صحیح البخاری ، کتاب الرقائق ؛ 6496)
کیا آج عوام نے واقعی میں اللہ اور اس کے رسول کے داعیوں کو معاملات میں امیر منتخب کر دیا ہے ۔ ایسے لوگ جو پکے مشرک ، بدعتی اور کذاب ہیں ان کو ہم لوگوں نے اپنا انقلابی لیڈر بنا لیا ہے ۔ جو بے پردگی اور بے حیائی کو عام کر رہے ہیں ۔۔۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔۔۔
"" قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ لوگوں میں سب سے خوش بخت اور نیک اسے سمجھا جائے گا جو سب سے زیادہ بد بخت اور بد بخت کا بیٹا ہو گا """
( رواہ ترمذی : 2209)
لیجیے ! آج ہماری عوام کا بھی یہ حال ہو چکا کہ ہم نےاپنا فیصل اپنا حاکم اس شخص کو چن لیا ہے ۔۔۔ جو رسول اللہ ﷺ کا گستاخ ہے ۔۔۔
اللہ کے دین کا فہم نہیں رکھتا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ
کو معاملات میں اپنا حاکم تسلیم نہیں کرتا ۔۔۔۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں،
ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (۶۵)
پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔(النساء )
لیکن ہماری عوام اس وقت اس آیت کا مصداق بنی ہے ۔۔۔۔
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ
کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں
وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (۵۰)
یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ
اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ (١) یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (٢)
وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (۵۱)
تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔(المائدہ )
کیا ہمارے حکمرانوں نے اور ان لیڈروں نے جو اس وقت انقلاب اور آزادی کی باتیں کر رہے ہیں ان باتوں کو اپنا رکھا ہے جو وہ کر رہے ہیں ۔۔۔۔
یعنی کھلم کھلا قتل عام ، فساد اور حرج کی دعوت دینا ۔۔۔۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
" قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہ کرو گے ،
اور اپنی تلواروں کے ساتھ آپس میں جنگ کرو گے ، اور تم میں سے بد ترین تمہاری دنیا کے وارث ہو جائیں گے ، ( ترمذی : 2170)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
""" اگر تمہاری عمریں لمبی ہوئیں تم ایسے لوگ دیکھو گے جو اللہ کی لعنت اور غیظ و غضب میں زندگی گزاریں گے ۔ اور ان کے ہاتھوں میں بیلوں کی دموں کی طرح کے ڈنڈے ہوں گے """
( مسلم ، کتاب الجنۃ " باب النار یدخلھا الجبارون فی الجنۃ یدخلھا الضعفاء
حدیث نمبر 2857)
آج کا لیڈر انقلابی لیڈر کیا کر رہا ہے ۔ کیا یہ اس وقت اپنے امام کو قتل کرنے کے در پے نہیں ہیں ۔ کیا ان کے جوانوں کے ہاتھ میں بیلوں کی دموں جیسے ڈنڈے نہیں ہیں ، کیایہ اللہ کی لعنت میں زندگی بسر نہیں کر رہے ۔۔۔۔
بس ! اللہ ہمیں ان فتنوں سے محفوظ رکھے ،،،،،،،
عبدالسلام فیصل