• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتنے کے عہد میں عمل کا ثواب

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

پر فتن دور میں سنت نبوی پر کار بند رہنے کی فضیلت

سوال

سوال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے میری امت میں فساد بپا ہونے کے وقت بھی میری سنت کو تھام کر رکھا اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب ہے) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
اور اگر صحیح ہے تو پھر انسان کو سنت پر کار بند رہنے کیلئے کن کن کاموں کو بجا لانا چاہیے تا کہ سنت کو تھامنے والوں میں شمار ہو سکے؟ میں ایک عرب ملک میں رہائش پذیر ہوں اور صورت حال سب کے سامنے ہے۔۔ تو کیا صرف گناہوں سے دور رہنا اس کیلئے کافی ہوگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سنت نبوی ہی سفینۂِ نجات اور پر امن ساحل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت پر کار بند رہنے کی خوب ترغیب دلائی ہے اور اس معاملے میں کسی بھی کوتاہی سے دور رہنے کی تلقین کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اپناؤ نیز اسے انتہائی مضبوطی سے تھامے ہوئے دین میں شامل کیے جانے والے نت نئے امور سے بچو؛ کیونکہ ہر نیا عمل بدعت ہے، اور ہر بدعت محض گمراہی ہے) ابو داود (4607) اسے البانی نے صحیح ابو داد میں صحیح قرار دیا ہے۔

جس وقت شر و فساد کی بھر مار ہو، بدعات و فتنے پھوٹ رہے ہوں تو ایسی صورت حال میں سنت پر کار بند رہنے کا اجر زیادہ عظیم ہوگا، سنت پر عمل پیرا لوگوں کا مقام و مرتبہ اعلی و ارفع ہوگا، کیونکہ یہی لوگ اندھیر نگری کے وسط میں روشنی کے علمبردار ہیں اور اسی وجہ سے انہیں اجنبیت کی زندگی بھی گزارنی پڑتی ہے، نیز یہی افراد دیگر لوگوں کی پیدا شدہ خرابیوں کی اصلاح کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(بیشک اسلام ابتدا میں اجنبی تھا، اور عنقریب دوبارہ اجنبی ہو جائے گا، اس لیے اجنبی لوگوں کیلئے خوش خبری ہے) کہا گیا: اللہ کے رسول! یہ کون ہونگے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو لوگوں کے بگڑنے پر ان کی اصلاح کرتے ہیں)
اس روایت کو ابو عمرو الدانی نے "السنن الواردة في الفتن" (1/25) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "سلسلہ صحیحہ" (1273) میں صحیح کہا ہے، اور اس حدیث کی اصل صحیح مسلم (145)میں ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
(یقیناً تمہارے بعد صبر کے دن آئیں گے، ان دنوں میں صبر کا مطلب انگارے ہاتھ میں پکڑنے کے مترادف ہوگا، ان دنوں میں عمل پیرا شخص کو پچاس لوگوں کے برابر عمل کا ثواب ملے گا) -کچھ راویوں نے پچاس سے زیادہ کا بھی ذکر کیا ہے- تو انہوں کہا: "اللہ کے رسول! پچاس آدمی انہی میں سے ہونگے؟!" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر ثواب ملے گا)
اس روایت کو ابو داود: (4341) اور ترمذی: (3058) نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ (494) میں اسے صحیح قرار دیا ، کچھ روایات میں یہ الفاظ زیادہ ہیں : (یہ وہ لوگ ہونگے جو میری سنت کا احیا کرینگے اور لوگوں کو سکھائیں گے)

سنت پر عمل پیرا اور کار بندر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ درج ذیل امور بجا لائے جائیں:

1- فرائض و واجبات کی ادائیگی کی جائے اور گناہوں سے کنارہ کشی۔

2- عملی اور نظریاتی بدعات سے اجتناب۔

3- اپنی وسعت و طاقت کے مطابق سنتوں اور مستحبات پر عمل۔

4- لوگوں کو بھلائی کی دعوت اور حتی الامکان اصلاح کی کوشش۔

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ نے ایک تقریر بعنوان: "دینداری کی حقیقت" صفحہ: 10 میں ہے کہ:
"سنت نبوی ہمارے پاس مدوّن شکل میں موجود ہے، اور آسانی سے تلاش کرنے پر مل بھی جاتی ہے، اب ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم سنت کو تلاش کریں اور ملنے پر عمل بھی کریں، یہاں تک کہ ہم پر یہ قول صادق آئےکہ "فلاں بندہ ملتزم ہے" اور کسی مذاق اڑانے والے ، حقارت آمیز لہجہ اپنانے والے کی پرواہ بالکل نہ کریں۔

سنتیں بسا اوقات واجبات سے تعلق رکھتی ہیں ، کبھی مستحبات سے اور کبھی آداب و اخلاقیات سے، چنانچہ مسلمان کو اجرو ثواب کی غرض سے اپنی استطاعت کے مطابق ہر سنت پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

اس سے معلوم ہوا کہ دیندار اصل میں وہ شخص ہے جو احادیث کو سننے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے اقدامات کرے، چاہے سنت کا تعلق مستحبات اور غیر ضروری امور سے ہی کیوں نہ ہو اسے عملی زندگی میں لانے کی سر توڑ کو شش کرے۔

آپکو دیندار شخص مسجد میں سب سے پہلے جاتا نظر آئے گا، اور اگر کوئی اس سے پہلے مسجد پہنچ جائے تو اس کی طبیعت پر گراں گزرے، دوسروں سے بڑھ چڑھ کر زیادہ سے زیادہ تلاوت اور ذکر کرے، مختلف قسم کی عبادات سر انجام دے، اور پوری جد و جہد اپنی عبادات کو سنت کے مطابق بنانے میں صرف کرے، اپنی عبادات میں کسی بدعت کو جگہ اس لیے نہ دے تا کہ اللہ کے ہاں اس کی عبادات قبول ہو سکیں؛ کیونکہ اگر عبادت قبول ہوگئی تو مسلمان کو رضائے الہی کا پروانہ مل جائے گا، ہم بھی اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمارے اعمال اللہ تعالی کے ہاں قبول ہوں، وہی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے" انتہی

شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ "المنتقى" (2/سوال نمبر:270) میں کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر کار بند رہنا واجب ہے، اس عمل پر آپکو اگر کوئی طعنے بھی سننے پڑیں تو اس کی پرواہ نہ کریں، اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا تعلق واجبات سے ہو تو پھر ان کی پابندی واجب ہو جائے گی، جبکہ مستحبات کی پابندی مستحب ہی رہے گی، اور اگر معاملہ تشدد تک پہنچ جائے تو آپ تشدد سے گریز کریں، اس لیے آپ میانہ روی اور اعتدال پسندی کی روش اختیار کرتے ہوئے غلو اور تشدد کے بغیر سنتوں پر عمل پیرا رہیں، اس کیلئے سستی اور زیادتی کا شکار مت ہوں، آپ اسی ڈگر پر گامزن رہیں۔

بہر حال آپ کو ان شاء اللہ ثواب ملے گا، اور آپ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے عمل پیرا رہیں" انتہی

دوم:

محترم سائل نے جس حدیث کے بارے میں استفسار کیا ہے کہ (جس شخص نے میری امت میں فساد بپا ہونے کے وقت بھی میری سنت کو تھام کر رکھا اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب ہے) تو یہ ضعیف حدیث ہے، صحیح نہیں ہے، اس بارے میں علمائے کرام کی درج ذیل گفتگو ملاحظہ کریں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے میری امت میں فساد بپا ہونے کے وقت بھی میری سنت کو تھام کر رکھا اس کیلئے شہید کا ثواب ہے)

اس روایت کو طبرانی نے "الأوسط" (2/31) اور طبرانی س ہی ابو نعیم نے "حلیۃ الأولياء" (8/200) میں بیان کیا ہے۔

اس حدیث کی سند میں دو علتیں ہیں:

1- اس حدیث کو عبد المجید بن عبد العزیز بن ابو رواد تنہا بیان کر رہا ہے، اور ایسا راوی تنہا بیان کرے تو قابل قبول نہیں ہوتا۔

2- اس روایت کی سند میں محمد بن صالح عذری مجہول ہے، ہیثمی رحمہ اللہ "مجمع الزوائد" (1/172) میں لکھتے ہیں کہ: "مجھے اس کے حالات زندگی کسی کے پاس نہیں ملے" اسی بنا پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ ضعیفہ (327) میں ضعیف قرار دیا ہے۔

ایک اور روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے میری امت میں فساد بپا ہونے کے وقت بھی میری سنت کو تھام کر رکھا اس کیلئے سو شہیدوں کا ثواب ہے)
اس روایت کو ابن عدی نے "الکامل" (2/327) میں بیان کیا ہے، اس کی سند سخت ضعیف ہے، اس میں حسن بن قتیبہ "متروک الحدیث" ہے، اس کے حالات زندگی "لسان المیزان" (2/246) میں دیکھیں، نیز البانی نے اسے سلسلہ ضعیفہ (326) میں ضعیف قرار دیا ہے۔

واللہ اعلم.

محمد صالح المنجد

.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

درجة حديث:(من أحيا سنتي عند فساد أمتي له أجر مئة شهيد).

السؤال : ما صحة حديث:"من أحيا سنتي عند فساد أمتي له أجر مئة شهيد".

ـــــــــــــــــــــــــــــ

الحمد لله.

هذا اللفظ لا وجود له وإنما ورد بلفظ"المتمسك..".

وهو ضعيف جدا روي من ثلاث طرق :

-الأولى عن أبي هريرة رضي الله عنه ورواها كل من أبي نعيم في (الحلية) والطبراني في (الأوسط) بسند واحد:" حدثنا محمد بن أحمد بن أبي خيثمة ، قال : ثنا محمد بن صالح العدوي , قال : ثنا عبد المجيد بن عبد العزيز ، عن أبيه ، عن عطاء ، عن أبي هريرة ، قال : قال النبي ﷺ : " المتمسك بسنتي عند فساد أمتي له أجر شهيد ". وقال بعدها:" لم يرو هذا الحديث عن عطاء إلا عبد العزيز بن أبي رواد ، وتفرد به : ابنه عبد المجيد ".

قلت : والسند ساقط لجهالة محمد بن صالح العدوي ذاك، فلم أجد له ترجمة. وعبد المجيد بن عبد العزيز العتكي كان صاحب بدعة لذا تركوه والصحيح انه صدوق رغم خطئه الكبير. ووالده كثير الوهم، قال ابن حبان:" يرى الإرجاء وكان ممن غلب عليه التقشف حتى كان لا يدري ما يحدث به فروى عن نافع أشياء لا يشك من الحديث صناعته إذا سمعها أنها موضوعة كان يحدث بها توهما لا تعمدا ومن حدث على الحسبان وروى على التوهم حتى كثر ذلك منه سقط الاحتجاج به وإن كان فاضلا في نفسه".

-الطريق الثاني عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه رواها عنه ابن بطة في (الإبانة الكبرى) مرسلة ومتصلة قال:" أبو عمر حمزة بن القاسم الهاشمي خطيب جامع المنصور ، قال : حدثنا حنبل بن إسحاق ، قال : حدثنا أحمد بن يونس ، قال : حدثني شريح ، عن يحيى ، عن عمر ، أنه قال : قال رسول الله ﷺ : " المتمسك بسنتي عند فساد أمتي له أجر خمسين شهيدا".

قلت : آفة الإسناد شريح بن هانئ الحارثي مجهول لا أعلم له ترجمة وكذا قال ابن حجر.

-الطريق الثالث: عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، وقد رواها من طريقه ابن بشران في (أماليه)، والحسن بن العاطر في (فتيا وجوابها) والبيهقي في (الزهد الكبير):" أخبرنا أبو الحسين بن بشران ، أنبأنا أبو أحمد حمزة بن محمد بن العباس ، حدثنا عبد الله بن روح ، حدثنا الحسن بن قتيبة ، حدثنا عبد الخالق بن المنذر ، عن ابن أبي نجيح ، عن مجاهد ، عن ابن عباس رضي الله عنه , عن النبي , قال : قال ﷺ : " من تمسك بسنتي عند فساد أمتي فله أجر مائة شهيد ".

وآفة السند هنا الحسن بن قتيبة الخزاعي تركوا حديثه، قال الدارقطني:" متروك الحديث". وقال الذهبي :"هالك". وعبد الخالق بن المنذر قال الذهبي:" لا يعرف". وانا لم اجد له ترجمة.

ويغني عن هذا قوله صلى الله عليه وسلم:"إن من ورائكم أيام الصبر ، الصبر فيه مثل قبض على الجمر ، للعامل فيهم مثل أجر خمسين رجلا يعملون مثل عمله ، - وزادني غيره - قالوا يا رسول الله أجر خمسين منهم ؟! قال : أجر خمسين منكم". (حسن رواه أبو داود).

وعن حبيب بن سباع قال: "تغدينا مع رسول الله ﷺ ومعنا أبو عبيدة بن الجراح فقال: يا رسول الله , هل أحد خير منا؟. أسلمنا معك، وجاهدنا معك. فقال رسول الله ﷺ: نعم،قوم يكونون من بعدكم، يؤمنون بي ولم يروني".(صحيح رواه أحمد. وصححه الألباني).

والله الموفق.

ذ.قاسم اكحيلات: درجة حديث:(من أحيا سنتي عند فساد أمتي له أجر مئة شهيد).
http://www.kacemkhailat.com/2017/05/blog-post_23.html?m=1

.
 
Top