زمین میں انسان بستے ہیں اسی لئے ان میں انسان کو رسول بناکر بھیجا گیا ہے ۔
تو اس سے یہ قاعدہ سمجھ میں آرہا ہے جس نوع کی مخلوق ہوگی اسی نوع سے رسول ہوگا۔ پھر جنوں کے رسول کسطرح سے ہونگے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
اللہ تعالی نے جنوں اور انسانوں میں سے نبوت و رسالت کی ذمہ داری صرف انسانوں ہی کو کیوں دی ؟
اسکی ایک وجہ تو آپ نے بتادی ، اور دوسری اہم وجہ جو بنیادی ہے ،
وہ ہے : اہلیت و صلاحیت ۔۔۔۔انسان کو مخلوق میں جو امتیازی مقام اور صلاحیتیں ودیعت ہیں ، نبوت و رسالت جیسا عظیم منصب انہی کا تقاضا کرتا ہے ،
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (سورۃ الاسراء 70)
بلاشبہ ! ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا کی اور بحر و بر میں انھیں سواری مہیا کی، کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں اور جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے کثیر مخلوق پر نمایاں فوقیت دی۔ ‘‘
اسی ۔۔ تکریم و فضیلت ۔۔ کا تقاضا ہے کہ جن ھدایت و رہنمائی کے معاملے میں انسانوں کے تابع ہوں ،
ورنہ تفضیل کی بجائے برابری و مساوات ثابت ہوگی ،
دیکھئے پیغام وحی کی اطاعت و بجاآوری میں دونوں ایک ساتھ مخاطب و جوابدہ ہیں ،
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا ۔۔۔۔الخ
اللہ ان سے فرمائے گا :'' اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے ہاں تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کرتے اور آج کے دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے ؟
[الأنعام: 130]
لیکن منصب نبوت و رسالت صرف انسانوں کو ملا ۔
سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے درجات رفیعہ بیان کرتے ہوئے رب العزت فرماتا ہے :
(وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ ) العنكبوت/27
اور ہم نے انھیں اسحاق اور (اسحاق سے) یعقوب عطا کیے اور انہی کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ ‘‘
اسی لئے علماء نے تصریح کی ہے کہ : نبوت صرف انسانوں ہی کو ملی ، جنوں وغیرہ کو نہیں ،
امام قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
يقول القرطبي رحمه الله :
" وإنما الرسل من الإنس دون الجن " انتهى. " )الجامع لأحكام القرآن " (17/163)
یعنی رسول صرف انسانوں میں سے ہی آئے ، جنوں سے نہیں ‘‘
اور سورہ احقاف میں فرمایا :
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (29)
اور (وہ واقعہ بھی یاد کیجئے) جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو آپ کی طرف لے آئے تھے جو قرآن سن رہے تھے۔ جب وہ اس مقام پر آپہنچے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے : خاموش ہوجاؤ۔ پھر جب قرآن پڑھا جاچکا تو وہ ڈرانے والے بن کر اپنی قوم کے پاس واپس آئے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
" وقد استدل بهذه الآية على أنه في الجن نُذُرٌ ، وليس فيهم رسل ، ولا شك أن الجن لم يبعث الله منهم رسولا – ثم استدل لذلك بالآيات السابقة - " انتهى.
" تفسير القرآن العظيم " (7/302)
اس آیت سے اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ :
جنوں میں خبردار کرنے والے اور نذیر تو تھے لیکن رسول نہیں تھے ،اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اللہ نے جنوں میں سے کوئی رسول مبعوث نہیں کیا ‘‘
جمہور مفسرین و علماء کا یہی قول ہے
وهذا القول هو الذي قرره جمهور المفسرين في كتبهم .
ينظر : " مفاتيح الغيب " (13/160)، " تفسير البيضاوي " (2/453)، " البحر المحيط " (4/225)، " زاد المسير " (3/125)، " أضواء البيان " (1/493) .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔