• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرشتے اور جن؟

شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
94
جن آتشی مخلوق اور انسان مٹی ، کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں فرشتے قیاس بھی کرتے ہیں۔
میں نے کہا ہے کہ جن انسانوں سے پہلے پیدا کئے گئے ہیں شاید فرشتوں نے جنوں کے حالات کو دیکھ کر ایسا کہا ہو،اور یہ بھی ہو سکتا ہیں کہ انہوں نے لوح محفوظ میں لکھا ہوا پڑا ہو۔ (اللہ اعلم) سچ کیا ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔
دونوں بیانات ایک دوسرے کی نفی کر رہے ہیں۔ جو فرشتوں کا استاد تھا وہ ان کو دیکھ نہیں سکتا تھا۔
اس بات کا کہاں ذکر ہے کہ وہ فرشتوں کا استاد تھا؟
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
میں نے کہا ہے کہ جن انسانوں سے پہلے پیدا کئے گئے ہیں شاید فرشتوں نے جنوں کے حالات کو دیکھ کر ایسا کہا ہو،اور یہ بھی ہو سکتا ہیں کہ انہوں نے لوح محفوظ میں لکھا ہوا پڑا ہو۔ (اللہ اعلم) سچ کیا ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔

اس بات کا کہاں ذکر ہے کہ وہ فرشتوں کا استاد تھا؟
یہ فتوی دیکھیں۔
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/16693
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
8976: هل إبليس من الجن أو من الملائكة
السؤال :
هل إبليس ملك أم جني ؟ فإن كان ملكاً فكيف عصى الله والملائكة لا يعصون الله ؟ وإن كان جنياً فإن هذا يوضح أن له اختيار الطاعة أو المعصية. أرجو الإجابة.

تم النشر بتاريخ: 2000-05-10
الجواب :

الحمد لله

إبليس - لعنه الله - من الجن ، ولم يكن يوماً ملكاً من الملائكة ، ولا حتى طرفة عين ؛ فإن الملائكة خلق كرام لا يعصون الله ما أمرهم ويفعلون ما يؤمرون ، وقد جاء ذلك في النصوص القرآنية الصريحة التي تدل على أن إبليس من الجن وليس من الملائكة ، ومنها :



1- قال الله تعالى : ( وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُوا لآِدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلاً ) الكهف / 50 .

2- وقد بيّن الله تعالى أنه خَلَقَ الجن من النار ، قال تعالى : ( وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ ) الحجر/27 ، وقال : ( وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ ) الرحمن/15 . وجاء في الحديث الصحيح عن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " خُلِقَت الملائكة من نور ، وّخُلِقَ الجَّان من مارجٍ من نار ، وخُلِقَ آدم مما وُصِفَ لكم " رواه مسلم في صحيحه برقم 2996 ، ورواه أحمد برقم 24668 ، والبيهقي في السنن الكبرى برقم 18207 ، وابن حبان برقم 6155 .

فمن صفات الملائكة أنها خُلِقت من نور ، والجن خُلِق من نار ، وقد جاء في الآيات أن إبليس - لعنه الله - خُلِقَ من النار ، جاء ذلك على لسان إبليس لما سأله الله سبحانه وتعالى عن سبب رفضه السجود لآدم لمّا أمره الله بذلك ، فقال - لعنه الله -: ( قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ ) الأعراف/12 ، ص/76 ، فيدل هذا على أنه كان من الجن .

3- وقد وَصَفَ الله عز وجل الملائكة في كتابه الكريم ، فقال : ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ) التحريم /6 . وقال سبحانه : ( بَلْ عِبادٌ مُكْرَمون * لا يَسْبِقُوْنَهُ بالقَولِ وهُم بِأمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) الأنبياء / 26 -27 . وقال : ( وَلِلّهِ يَسجُدُ مَا فِي السَمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ والمَلاَئِكَةُ وَهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ * يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ) النحل / 49 -50 . فلا يمكن أن يعصي الملائكة ربهم لأنهم معصومون من الخطأ ومجبولون على الطاعة .

4- وكون إبليس ليس من الملائكة فإنه ليس مجبراً على الطاعة ، وله الاختيار ، كما لنا نحن البشر ، قال تعالى : ( إناّ هديناه السبيل إما شاكراً وإما كفوراً ) ، وأيضاً فإن هناك المسلمين والكافرين من الجن ؛ جاء في الآيات من سورة الجن : ( قل أوحي إلي أنه استمع نفرٌ من الجنّ فقالوا إنّا سمعنا قرآناً عجباً * يهدِي إلى الرُّشد فآمنّا به ولن نُشرِك برنا أحداً ) الجن / 1-2 . وجاء في نفس السورة على لسان الجن : ( وأنّا لمّا سمعنا الهدى آمنّا به فمن يُؤمن بربه فلا يخاف بخساً ولا رَهَقاً * وأنّا منّا المسلمون ومنّا القاسطون .. ) الآيات .

قال ابن كثير رحمه الله في تفسيره : ( قال الحسن البصري : " ما كان إبليس من الملائكة طرفة عين ، وإنه لأصل الجن ، كما أن آدم عليه السلام أصل البشر " رواه الطبري بإسناد صحيح ) ج3/ 89 .

وقد قال بعض العلماء إن إبليس ملَكٌ من الملائكة ، وأنه طاووس الملائكة ، وأنه كان من أكثر الملائكة اجتهاداً في العبادة .. إلى غير ذلك من الروايات التي معظمها من الإسرائيليات ، ومنها ما يُخالِف النصوص الصريحة في القرآن الكريم ..

وقد قال ابن كثير مبيّناً ذلك : " وقد روي في هذا آثار كثيرة عن السلف ، وغالبها من الإسرائيليات - التي تُنْقَلُ لِيُنْظَرَ فيها - والله أعلم بحال كثير منها ، ومنها ما قد يُقْطَعُ بكذِبِهِ لمُخَالَفَتِهِ للحقّ الذي بأيدينا ، وفي القرآن أخبار غنية عن كل ما عداه من الأخبار المتقدمة ؛ لأنها لا تكاد تخلو من تبديل وزيادة ونقصان ، وقد وضع فيها أشياء كثيرة ، وليس لهم من الحفاظ المتقنين الذي ينفون عنها تحريف الغالين وانتحال المبطلين كما لهذه الأمة من الأئمة والعلماء والسادة والأتقياء والبررة والنجباء من الجهابذة النقاد والحفاظ الجياد الذين دَوّنوا الحديث وحرروه وبينوا صحيحه من حسنه من ضعيفه من منكره وموضوعه ومتروكه ومكذوبه وعرفوا الوضاعين والكذابين والمجهولين وغير ذلك من أصناف الرجال كل ذلك صيانة للجناب النبوي والمقام المحمدي خاتم الرسل وسيد البشر صلى الله عليه وسلم أن ينسب إليه كذب أو يحدث عنه بما ليس منه فرضي الله عنهم وأرضاهم وجعل جنات الفردوس مأواهم " تفسير القرآن العظيم ج 3/90 . والله تعالى أعلم .

الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
انہوں نے اعتراض نہیں کیا تھا، تعجب کے طور پر پوچھا تھا۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں "ا تجعل فیہا من یفسد فیہا" یعنی "کیا آپ دنیا میں ایسے شخص کو بنا رہے ہیں جو اس میں فساد پیدا کرے گا؟"
بھائی میرا سوال تو یہی ہے کہ فرشتے تو وہ مخلوق ہیں جو صرف آرڈر پر عمل کر تے ہیں ۔ استعجاب کیوں؟
اس کی انسان کو بھی اجازت نہیں دی گئی کہ اللہ رب العزت کے کسی حکم پر اعتراض کریں یا تعجب کا اظہار کریں کہ ایسا کیوں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بھائی میرا سوال تو یہی ہے کہ فرشتے تو وہ مخلوق ہیں جو صرف آرڈر پر عمل کر تے ہیں ۔ استعجاب کیوں؟
اس کی انسان کو بھی اجازت نہیں دی گئی کہ اللہ رب العزت کے کسی حکم پر اعتراض کریں یا تعجب کا اظہار کریں کہ ایسا کیوں۔
ایک ہوتا ہے آرڈر پر عمل کرنا اور ایک ہوتا ہے کسی چیز کی مصلحت نہ جاننے کی وجہ سے اس پر تعجب ہونا۔ اگر اعتراض ہو تو وہ منع ہے۔
مثال کے طور پر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اللہ پاک نے لال بیگ کو کیوں پیدا کیا ہے؟ یا مچھر سے کیا کام لیتے ہیں؟ یہ ایک تعجب ہے۔ اگر آپ اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ "یا اللہ یہ کیسے کیڑے آپ نے پیدا فرمائے ہیں جو کسی کام کے معلوم نہیں ہوتے؟" اور آپ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ پاک آپ کو ان کی مصلحت بتا دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن اگر آپ کہتے ہیں "یا اللہ یہ کیا بے فائدہ اور فضول کیڑے بنا دیے ہیں؟" اور مقصد اعتراض کرنا ہے تو یہ جائز نہیں۔

فرشتوں میں سمجھ ہے جبھی تو اللہ پاک نے حضرت آدمؑ کے ساتھ ان کے سامنے بھی تمام کائنات کی چیزوں کو رکھا تھا اور کہا تھا کہ ان کے نام بتاؤ۔ اگر وہ صرف جانور ہوتے تو وہ کیا سوچتے اور کیا جواب دیتے؟ اس لیے وہ سوچ بھی سکتے ہیں اور سمجھ بھی سکتے ہیں اور اس سوچ سمجھ کے مطابق فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔
انسان میں دو قوتیں مزید ہیں جو فرشتوں میں نہیں ہیں: قوت شہوانیہ اور قوت غضبیہ
قوت شہوانیہ اسے چیزوں کو پسند کرنے، ان کے بارے میں ترجیح اور اختیار کا عمل کرنے اور ان کی طرف جانے پر مجبور کرتی ہے۔ اور قوت غضبانیہ انسان کو غم و غصہ دلاتی ہے اور اس کا جوش بڑھاتی ہے۔ فرشتوں میں یہ نہیں ہیں۔ اس لیے انہیں جو کام اللہ پاک نے دیے ہیں وہ آرڈر کے مطابق وہی کرتے رہتے ہیں کیوں کہ قوت شہوانیہ کے نہ ہونے سے انہیں کسی اور چیز کی طرف میلان ہی نہیں ہوتا اور قوت غضبانیہ کے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نہ اکتاہٹ ہوتی ہے اور نہ ہی ایک جیسا کام کرنے سے غصہ آتا ہے۔
انسان اسی لیے ان سے زیادہ مکرم ہے کہ اسے ان قوتوں پر قابو کرنا ہے اور انہیں یہ نہیں کرنا۔ جو محنت زیادہ کرتا ہے اللہ کی راہ میں اس کا اکرام زیادہ ہوتا ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
کچھ دن قبل اس موضوع پر ایک مقالہ لکھنے کا اتفاق ہوا تھا. آج یاد تازہ ہو گئی. کئی باتیں نئی بھی سامنے آئیں.
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
السلام علیکم

ایک اور سوال ذہن میں آیا ہے ۔ مشرکین مکہ کے اس اعتراض پر کہ خدا نے کسی فرشتے کو رسول بنا کر کیوں نہیں بھیجا تو قران میں جواب ہے زمین میں انسان بستے ہیں اسی لئے ان میں انسان کو رسول بناکر بھیجا گیا ہے ۔
تو اس سے یہ قاعدہ سمجھ میں آرہا ہے جس نوع کی مخلوق ہوگی اسی نوع سے رسول ہوگا۔ پھر جنوں کے رسول کسطرح سے ہونگے؟
برائے مہربانی اس اشکال کا جواب دیں۔
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
زمین میں انسان بستے ہیں اسی لئے ان میں انسان کو رسول بناکر بھیجا گیا ہے ۔
تو اس سے یہ قاعدہ سمجھ میں آرہا ہے جس نوع کی مخلوق ہوگی اسی نوع سے رسول ہوگا۔ پھر جنوں کے رسول کسطرح سے ہونگے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
اللہ تعالی نے جنوں اور انسانوں میں سے نبوت و رسالت کی ذمہ داری صرف انسانوں ہی کو کیوں دی ؟
اسکی ایک وجہ تو آپ نے بتادی ، اور دوسری اہم وجہ جو بنیادی ہے ،
وہ ہے : اہلیت و صلاحیت ۔۔۔۔انسان کو مخلوق میں جو امتیازی مقام اور صلاحیتیں ودیعت ہیں ، نبوت و رسالت جیسا عظیم منصب انہی کا تقاضا کرتا ہے ،
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (سورۃ الاسراء 70)
بلاشبہ ! ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا کی اور بحر و بر میں انھیں سواری مہیا کی، کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں اور جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے کثیر مخلوق پر نمایاں فوقیت دی۔ ‘‘
اسی ۔۔ تکریم و فضیلت ۔۔ کا تقاضا ہے کہ جن ھدایت و رہنمائی کے معاملے میں انسانوں کے تابع ہوں ،
ورنہ تفضیل کی بجائے برابری و مساوات ثابت ہوگی ،
دیکھئے پیغام وحی کی اطاعت و بجاآوری میں دونوں ایک ساتھ مخاطب و جوابدہ ہیں ،
يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلَى أَنْفُسِنَا ۔۔۔۔الخ
اللہ ان سے فرمائے گا :'' اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے ہاں تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کرتے اور آج کے دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے ؟
[الأنعام: 130]
لیکن منصب نبوت و رسالت صرف انسانوں کو ملا ۔
سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے درجات رفیعہ بیان کرتے ہوئے رب العزت فرماتا ہے :
(وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ ) العنكبوت/27
اور ہم نے انھیں اسحاق اور (اسحاق سے) یعقوب عطا کیے اور انہی کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ ‘‘

اسی لئے علماء نے تصریح کی ہے کہ : نبوت صرف انسانوں ہی کو ملی ، جنوں وغیرہ کو نہیں ،
امام قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
يقول القرطبي رحمه الله :
" وإنما الرسل من الإنس دون الجن " انتهى. " )الجامع لأحكام القرآن " (17/163)

یعنی رسول صرف انسانوں میں سے ہی آئے ، جنوں سے نہیں ‘‘
اور سورہ احقاف میں فرمایا :
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (29)
اور (وہ واقعہ بھی یاد کیجئے) جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو آپ کی طرف لے آئے تھے جو قرآن سن رہے تھے۔ جب وہ اس مقام پر آپہنچے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے : خاموش ہوجاؤ۔ پھر جب قرآن پڑھا جاچکا تو وہ ڈرانے والے بن کر اپنی قوم کے پاس واپس آئے۔​
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
" وقد استدل بهذه الآية على أنه في الجن نُذُرٌ ، وليس فيهم رسل ، ولا شك أن الجن لم يبعث الله منهم رسولا – ثم استدل لذلك بالآيات السابقة - " انتهى.
" تفسير القرآن العظيم " (7/302)

اس آیت سے اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ :
جنوں میں خبردار کرنے والے اور نذیر تو تھے لیکن رسول نہیں تھے ،اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اللہ نے جنوں میں سے کوئی رسول مبعوث نہیں کیا ‘‘
جمہور مفسرین و علماء کا یہی قول ہے
وهذا القول هو الذي قرره جمهور المفسرين في كتبهم .
ينظر : " مفاتيح الغيب " (13/160)، " تفسير البيضاوي " (2/453)، " البحر المحيط " (4/225)، " زاد المسير " (3/125)، " أضواء البيان " (1/493) .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top