• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو کس طرح اپنی نمازمکمل کرے ؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم بھائی @غفران صاحب نے (ان باکس ) میں سوال کیا ہے :
السلامُ علیکم : شیخِ محترم جس کسی انسان کی فرض نماز میں رکعت چھوٹ جائے تو وہ کس طرح اپنی نماز ادا کرے مہربانی کرکے رہنمائی کرے
ــــــــــــــــــــــــــ
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جب یاد آئے ، جتنی رکعتیں رہ گئی تھی ، انہیں پڑھ کر سجدہ سہو کرکے سلام پھیر دے ۔
جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ہے ۔
ـــــــــــــــــــ
سجدہ سہو کی صورتیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں بھول کر ایک رکعت کم پڑھی جائے تو کیا کیا جائے؟ پوری نماز دہرائی جائے یا صرف ایک رکعت پڑھی جائے نیز سجدہ سہو کی صورت کیا ہو گی ۔ حنفی حضرات ایک طرف سلام پھیر کر سجدے کرتے ہیں اور التحیات دوبارہ پڑھتے ہیں اس کی اصل کیا ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی آدمی بھول کر ایک رکعت کم پڑھ لے یا اسے پھر یاد آجائے کہ میں نے ایک رکعت کم پڑھی ہے تو اسے پوری نماز دہرانے کی بجائے ایک رکعت ہی ادا کرنی چاہئے

جیسا کہ صحیح مسلم۲/۸۷ پر سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصری کی نماز پڑھائی اور تین رکعت ادا کر کے سالم پھیر دیا پھر اپنے گھر چلے گئے پھر ایک شخص جسے خرباق کہا جاتا تھا اس نےر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر بتایا کہ نماز میں سہو واقع ہوا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں اپنی چادر کھینچے ہوئے لوگوں کے پاس آئے اور پوچھا :
((أصدق هذا قالوا نعم فصلى ركعة ثم سجد سجدتين ثم سلم))
'' کیا اس نے سچ کہا ہے صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے کہا ہاں ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت نماز دا کی پھر دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا ''۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی نماز ایک رکعت کم ہو گی اور اس نے تین رکعت ادا کر لی ہوں اگر چہ اس دوران کچھ باتیں بھی ہو چکی ہیوں تو وہ بقیہ ایک رکعت ہی ادا کر کے سلام پھیرے اور سجدہ سہو کرے۔
سجدہ سہو کے بارے میں دو قسم کی احادیث مروی ہیں ایک حدیث میں سلام سے قبل سجدہ سہو کا ذکر ہے اور ایک حدیث میں سلام کے بعد سجدہ سہو کا ذکر ہے جیسا کہ مسلم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ :
(( ثم يسجد سجدتين قبل أن يسلم.))
'' کہ پھر سلام سے قبل دو سہو کے سجدہ کرے ''۔
جس کا طریقہ یہ ہے کہ آخری قعدہ میں تشہد درود اور دُعا کے بعد االلہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائے پھر اٹھ کر بیٹھ جائے پھر سجدہ کرے سلام پھیر دے سلام سے قبل سجدہ سہو کا جو طریقہ ہے وہ متفق علیہ اور جودہ سہو سلام کے بعدمذکور ہے وہ متفق علیہ تو نہیں لیکن صحیح حدیث سے ثابت ہے اور جائز عمل ہے ۔
احناف کے ہاں جو سجدہ کا طریقہ معروف ہے کہ" التحیات عبدہ و رسوله" تک پڑھ کر ایک طرف سلام پھیرا جائے پھر پورا تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے ۔ یہ طرقیہ کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں اسکی کوئی اصل نہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


محدث فتویٰ

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جز اکاللہ شیخ لیکن میرا سوال یہ تھا کے جماعت شروع ہوئی اور وہ دوسری یہ تیسری رکعت میں شریک ہوا تو وہ آگے کی نماز کس طرح پڑے کیا اُسکو سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور بھی سورہ پڑنی پڑےگی یہ صرف سورہ فاتحہ کافی ہو جائیگی
مسبوق نے جو رکعتیں امام کے ساتھ پائی ہیں کیا یہ اس کی پہلی شمار کی جائیں گی یا آخری ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسبوق نے جو رکعتیں امام کے ساتھ پائی ہیں کیا یہ اس کی پہلی شمار کی جائیں گی یا آخری ؟ مثال کے طور پر اگر چار رکعت والی نماز میں سے دو رکعتیں فوت ہو گئی ہوں تو کیا وہ فوت شدہ دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے علاوہ کوئی اور سورت پڑھے گا۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بات یہ ہے کہ امام کے ساتھ مسبوق کو جتنی رکعتیں ملی ہیں وہ اس کی پہلی اور جنہیں وہ بعد میں قضا کرے گا وہ اس کی آخری شمار کی جائیں گی اور یہی حکم تمام نمازوں کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جب نماز کھڑی ہو جائے تو سکون ووقار کے ساتھ چلو جو ملے اسے پڑھ لو۔
اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔(متفق علیہ)
بنابریں چار رکعت والی نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں اور مغرب کی تیسری رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پر اکتفاء کرنا مستحب ہے جیسا کہ صحیحین میں ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت بھی پڑھتے تھے اور پہلی رکعت کی قرآءت دوسری کی بہ نسبت لمبی ہوتی تھی اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔
لیکن اگر کبھی کبھار ظہر کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت پڑھ لی جائے تو بھی درست ہے صحیح مسلم میں ابو خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دورکعتوں میں الم تنزیل السجدہ کے بقدر اور آخری دورکعتوں میں اس کی آدھی مقدار نیز عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی آخری دو رکعتوں کے بقدر اور عصر کی آخری دورکعتوں میں اس کی آدھی مقدار تلاوت کرتے تھے۔
لیکن یہ حدیث اس بات پر محمول کی جائے گی کہ آپ ایسا کبھی کبھار کرتے تھے۔تاکہ دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق ہو جائے واللہ ولی التوفیق۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم @اسحاق سلفی صاحب اگر کوئی شخص انفراداً فرض نماز پڑھتے ہوئے غلطی سے یا ارادتاً سورت فاتحہ کے ساتھ دوسری کوئی سورت ملا لے تو اس کے کیا احکام ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم @اسحاق سلفی صاحب اگر کوئی شخص انفراداً فرض نماز پڑھتے ہوئے غلطی سے یا ارادتاً سورت فاتحہ کے ساتھ دوسری کوئی سورت ملا لے تو اس کے کیا احکام ہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمادیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انفراداً یا بحیثیت امام نماز پڑھتے ہوئے فرض کی پہلی دو میں تو فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت ملانی ہوتی ہے ، یہ تو آپ جانتے ہی ہیں ؛
اور فرض کی تیسری ،چوتھی رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ کے بعد بھی پڑھنا ثابت ہے
صحیح مسلم اور دیگر کتب میں واضح حدیث مبارکہ ہے :
عن أبي سعيد الخدري، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ في صلاة الظهر في الركعتين الأوليين في كل ركعة قدر ثلاثين آية، وفي الأخريين قدر خمس عشرة آية أو قال نصف ذلك - وفي العصر في الركعتين الأوليين في كل ركعة قدر قراءة خمس عشرة آية وفي الأخريين قدر نصف ذلك "
ترجمہ:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں تیس آیتوں کے برابر قرأت کرتے تھے اور پچھلی دو رکعتوں میں پندرہ آیتوں کے برابر یا یوں کہا اس کا آدھا۔ اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ہر رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر اور پچھلی دو رکعتوں میں اس کا آدھا۔ (صحیح مسلم ،باب القراءۃ فی الظھر والعصر )
اور مؤطا امام مالکؒ اور دیگر کئی کتب حدیث میں ثابت ہے کہ :
عن أبي عبد الله الصنابحي قال: قدمت المدينة في خلافة أبي بكر الصديق فصليت وراءه المغرب " فقرأ في الركعتين الأوليين بأم القرآن، وسورة: سورة من قصار المفصل، ثم قام في الثالثة، فدنوت منه حتى إن ثيابي لتكاد أن تمس ثيابه. فسمعته قرأ بأم القرآن وبهذه الآية {ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ هديتنا، وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب} [آل عمران: 8] "

جناب ابو عبداللہ صنابحی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں اس وقتآیا جب سیدناابوبکررضی اللہ عنہ خلیفہ تھے مجھے ان کی امامت میں نماز مغرب پڑھنے کا شرف ملا ۔ تو پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور ایک سورت مفصل کو چھوٹی سورتوں میں سے پڑھی پھر جب تیسری رکعت کے واسطے کھڑے ہوئے تو میں نزدیک ہو گیا ان کے یہاں تک کہ میرے کپڑے قریب تھے کہ چھو جائیں ان کے کپڑوں سے تو انہوں نے سورت فاتحہ اور اس آیت کو پڑھا (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ) 3۔ ال عمران : 8)
(موطا ،باب القراءة في المغرب والعشاء )
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
صحیح البخاری باب القراءۃ فی الفجر کی ایک روایت میں آیا که هر نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے گی جن میں نبی صلی الله علیه وسلم نے همیں قرآن سنایا تها هم بهی تمهیں ان میں سنائیں گے اور جن نمازوں میں آپ نے آهسته قراءت کی هم بهی ان میں آهسته هی قراءت کریں گے اور اگر کوئی سورۃ فاتحه سے زیاده قراءت نه کرے تو وه کافی هوگی اور زیاده کر لے تو بهتر هے.
یه روایت حکم مرفوع هے. کما ذکر حافظ لابن حجر و مولف عمدۃ القاری
(صحیح البخاری ح ۷۷۲.)
لهذا اگر کوئی سورۃ فاتحه پر اکتفا کر لے تب بهی صحیح هے اور اگر کوئی سورۃ فاتحه کے ساتھ کپھ اور بهی پڑھ لے تب بهی بهتر هے.
والله اعلم.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
صحیح بات یہ ہے کہ امام کے ساتھ مسبوق کو جتنی رکعتیں ملی ہیں وہ اس کی پہلی اور جنہیں وہ بعد میں قضا کرے گا وہ اس کی آخری شمار کی جائیں گی اور یہی حکم تمام نمازوں کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جب نماز کھڑی ہو جائے تو سکون ووقار کے ساتھ چلو جو ملے اسے پڑھ لو۔
اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔(متفق علیہ)
اس بات کے تعین (کہ یہ پہلی ہیں یا بعد کی) کی کیوں ضرورت پیش آ رہی ہے؟
جو حدیث آپ لکھ رہے ہیں اس سے تو یہی عندیہ ملتا ہے کہ اسے بعد والی ملیں ہیں اور اس کی پہلے والی رہ گئیں ہیں۔ تو تکمیل رہنے والوں کی ہی ہوگی۔
ایک صاحب کی وڈیو دیکھنے میں آئی کہ وہ احناف کے مسبوق کی نماز کی ادائیگی کو اٹی نماز پڑھنے کے ساتھ تشبیہہ دے رہا تھا۔ آپ ہی نے لکھا کہ؛
فرض کی تیسری ،چوتھی رکعت میں بھی سورۃ فاتحہ کے بعد بھی پڑھنا ثابت ہے
پھر جب تیسری رکعت کے واسطے کھڑے ہوئے تو میں نزدیک ہو گیا ان کے یہاں تک کہ میرے کپڑے قریب تھے کہ چھو جائیں ان کے کپڑوں سے تو انہوں نے سورت فاتحہ اور اس آیت کو پڑھا (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ) 3۔ ال عمران : 8)
(موطا ،باب القراءة في المغرب والعشاء )
احناف، رہی ہوئی رکعات میں، سورت فاتحہ کے ساتھ سورت بھی ملاتے ہیں۔
جب یہ ثابت شدہ عمل ہے تو اس میں کیوں خواہ مخواہ اختلاف کیا جاتا ہے؟ آپ اس سب کے بعد لکھ رہے ہیں؛

بنابریں چار رکعت والی نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں اور مغرب کی تیسری رکعت میں صرف سورۃ فاتحہ پر اکتفاء کرنا مستحب ہے
 
Top