• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا؟

حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ

حاصل کلام:
زبدۃ الکلمات مع ضمیمہ میں مندرجہ تحقیقات کا حاصل یہ ہے:
1۔نماز کے بعد اجتماعی دعا کا مروّجہ طریقہ بالاجماع بدعت ِقبیحہ ہے۔
2۔دعا بعد الفرائض میں رفع یدین نہیں، إلا ان يدعو أحيانا لحاجة خاصة (الا کہ کبھی کسی خاص ضرورت کے لئے ایسا کیا جائے)
3۔امام مالک اور امام طرطوشی اور ان دونوں کے اصحاب رحمہم اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر نماز کے بعد فارغ ہوتے ہی امام کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا لازم ہے۔
4۔عندالاحناف بھی امام کا فجر و عصر کے سوا نماز کے بعد تین بار استغفار اور دعا اللهم أنت السلام… الخ سے زیادہ دیر بیٹھنا مکروہ ہے۔ اس دعا میں نہ رفع یدین ہے، نہ اجتماعیت۔ امام و مقتدی ہر شخص بلا رفع یدین سراً وانفراداً یہ مختصر سی دعا مانگ کر سنتوں میں مشغول ہوجائے۔
فجر و عصر کے بعد اس شرط سے بیٹھنا جائز ہے کہ اوراد و اَدعیہ میں امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی رابطہ نہ رہے۔ نماز کے بعد کی دعا میں اجتماعیت بدعت ہے۔ امام ہو یا مقتدی ہرشخص اپنے طور پر انفراداً، سراً بلا رفع یدین دعا مانگے۔ فرض کے بعد کی دعا میں رفع یدین نہیں، البتہ کبھی کبھار کسی خاص ضرورت سے کوئی دعا مانگنا چاہے تو رفع یدین کرسکتا ہے مگر دوسروں کے سامنے التزام نہ کرے تاکہ کسی کو فرض کے بعد کی دعا میں رفع یدین کا شبہ نہ ہو۔
5۔نوافل کے بعد انفراداً ہاتھ اٹھا کر طویل دعا مسنون ہے۔
6۔دعا کے لئے اجتماع بدعت ہے، البتہ کسی دوسرے مقصد کے لئے اجتماع ہو تو اس میں اجتماعی دعا جائز ہے۔ والله الهادي إلی سبيل الرشاد وهو العاصم من المحدثات في الدهن والبدع والضلال (۹؍ ربیع الاوّل ۱۴۰۹ھ)
اس تالیف کے صفحات ۲۰ تا ۲۴ پر مذکورہ بالا فتویٰ کی موافقت اور تائید میں عصر حاضر اور ماضی قریب کے اکابر کی تحریرات بھی کلمۃ الجامع کے عنوان کے تحت پیش کی گئی ہیں۔
مندرجہ بالا فتویٰ مندرجہ ذیل آیاتِ مبارکہ کے بھی عین موافق معلوم ہوتا ہے :
’’اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً اِنَّهٗ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ‘‘ (الاعراف:۵۵) ’’ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخيَفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ‘‘ (الاعراف:۲۰۵)
امید ہے کہ آپ بھی مذکورہ بالا فتویٰ سے پوری طرح متفق ہوں گے۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس فتویٰ کو اپنے تائیدی نوٹ کے ساتھ دارالافتاء اور احکام و مسائل کے زیر عنوان بالترتیب ماہنامہ ’محدث‘ اور ہفت روزہ ’الاعتصام‘ کی قریبی اشاعت میں شائع کروا کر عوام کو اس بدعت کے چنگل سے نجات حاصل کرنے میں مدد ورہنمائی فرماکر ثوابِ دارین سے مستفید ہوں۔‘‘ (چوہدری محمد سرور،جوہرٹاؤن لاہور)
جزاک اللہ خیرا یا اخی!
 
Top