محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
فرقہ پرستی سے کیسے بچیں - اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟
امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :
( میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے یا انکی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جاۓ کا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے )
اور عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :( ہمیشہ ہی میری امت میں سے ایک گروہ حق پر قائم رہے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )
اور مغیرۃ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :( میری امت میں ایک قوم لوگوں پر غالب رہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )
ان مندرجہ بالا احادیث سے چند ایک امور اخذ کیۓ جا سکتے ہیں :اور عمران بن حصین رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :( میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا ، حتی ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائ کرگا )
اور امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ گروہ مومن لوگوں کی انواع میں پیھلا ہوا ہے : ان میں سے کچھ تو بہادری کے ساتھ لڑنے والے ہیں ، اور ان میں سے فقھاء بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں محدثین بھی ہیں ، اور ان میں عابدوزاھد لوگ بھی ہیں ، اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں اور بھی انواع ہیں ۔اور بہت سارے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ طائفہ منصورہ سے مراد اھل حدیث ہیں ۔
ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ ميرى رائے ہے، اور جو كوئى بھى ميرى رائے سے اچھى اور بہتر رائے لائے ہم اسے قبول كرينگے "
اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں تو ايك بشر ہوں غلطى بھى كرتا ہوں اور صحيح بھى اس ليے ميرا قول كتاب و سنت پر پيش كرو "
اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب حديث صحيح ہو تو ميرا قول ديوار پر پٹخ دو، اور دليل راہ ميں پڑى ہوئى ديكھو تو ميرا قول وہى ہے "
اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك كى تقليد كرو، اور نہ شافعى اور ثورى كى، اور اس طرح تعليم حاصل كرو جس طرح ہم نے تعليم حاصل كى ہے "
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" اپنے دين ميں تم آدميوں كى تقليد مت كرو، كيونكہ ان سے غلطى ہو سكتى ہے "
اس ليے كسى كے ليے بھى كسى معين امام كى تقليد كرنا صحيح نہيں جو اپنے اقوال سے باہر نہ جاتا ہو، بلكہ اس پر واجب ہے كہ اسے لے جو حق كے موافق ہو چاہے وہ اس كے امام سے ہو يا كسى اور سے ملے "
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" لوگوں ميں سے كسى شخص پر كسى ايك شخص كى بعينہ تقليد كرنا صحيح نہيں كہ جو وہ حكم دے اور جس سے منع كرے اور جسے مستحب كہے اس كى مانى جائے، يہ حق صرف رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہے، اب تك مسلمان علماء كرام سے دريافت كرتے رہتے ہيں، كبھى اس كى اور كبھى اس كى بات مان ليتے اور تقليد كرتے ہيں.
جب مقلد كسى مسئلہ ميں تقليد كر رہا ہے اور وہ اسے اپنے دين ميں زيادہ صحيح ديكھتا، يا قول كو زيادہ راجح سمجھتا ہے تو يہ جمہور علماء كے اتفاق سے جائز ہے، اسے كسى نے بھى حرام نہيں كہا، نہ تو امام ابو حنيفہ، اور نہ ہى مالك اور شافعى اور احمد رحمہم اللہ نے"
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 382 ).
اور شيخ علامہ سليمان بن عبد اللہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بلكہ مومن پر حتماً فرض ہے كہ جب اسے كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم پہنچے اور اس كے معنى كا علم ہو جائے چاہے وہ كسى بھى چيز ميں ہو اس پر عمل كرے، چاہے وہ كسى كے بھى مخالف ہو، ہمارے پروردگا تبارك و تعالى اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہى حكم ديا ہے، اور سب علاقوں كے علماء اس پر متفق ہيں، صرف وہ جاہل قسم كے مقلدين اور خشك لوگ، اور اس طرح كے لوگ اہل علم ميں شامل نہيں ہوتے "
اس کے ساتھ ساتھ سلف کا فہم بھی ضروری ہے کیوں وہ کہ قرآن و احادیث کے چشم دید گواہ ہیں انکے متفقہ مسائل بھی قابل غور ہیں اور یہ اصول بھی فہم سلف کے حجت ہونے کی دلیل ہے : الراوی ادری بروایتہ من غیرہفرقہ پرستی سے کیسے بچیں - اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟
3702 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
فرقہ پرستی سے کیسے بچیں - اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟الحمد للہ:مسلمان پر یہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ طائفہ منصورہ اھل سنت والجماعت میں شامل ہوکر سلف صالحین کی اتباع کرتے ہوۓ حق پر چلے اور عمل کرے ،د
اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور ان كى حديث اور حكم كو مكمل تسليم كرنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى قسم اٹھا كر كہا ہے كہ جس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سنى اور پھر اسے قبول نہ كيا بلكہ رد كر ديا تو اس ميں ايمان كى رتى بھى نہيں ہے.اس كا مصداق اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).
اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.اللہ تعالى كا ارشاد ہے:
{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }النساء ( 65 ).
امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے " انتہى
اور سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا " انتہى
ديكھيں: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 ).
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:اور علامہ ابن وزير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كا علم ہوتے ہوئے حديث كا انكار كرنا صريحا كفر ہے " انتہى
ديكھيں: العواصم والقواصم ( 2 / 274 ).
امام شافعى رحمہ اللہ اس موضوع كے متعلق كچھ علمى اصول بيان جو كہ ان كي مختلف كتب ميں بہت زيادہ بيان ہے كے بعد ہمارے ليے اپنا فيصلہ ذكر كرتے ہيں جس ميں كچھ ہم نے يہاں نقل كيا وہ فردى اجتھاد يا ان كا شخصى مذہب نہيں، بلكہ وہ ايسا اصول ہے جس پر اس سے قبل اہل علم بھى متفق اور جمع ہيں امام شافعى كہتے ہيں:امام شافعى رحمہ اللہ كون امام شافعى جو كہ علم و ايمان ميں ايك اونچا مرتبہ ركھتے ہيں، جنہوں نے علم اصول فقہ ميں پہلى كتاب تصنيف كى ان كا كہنا ہے:
" جب حديث كو ثقات راوى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كريں تو يہ اس كا ثبوت ہے "
ديكھيں: كتاب الام كے ضمن ميں اختلاف الحديث ( 10 / 107 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" صدق اور كذب حديث كا استدلال مخبر يعنى خبر دينے والے كے صدق پر ہوتا ہے، مگر قليل سى خاص حديث ميں "
ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1099 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" مسلمان عدول ہيں: وہ اپنے آپ ميں عدول اور صحيح الامر ہيں.... اور ان كا اپنے متعلق خبر دينے اور ان كا نام صحيح سلامتى پر ہے، حتى كہ ہم ان كے فعل اس كا استدلال كريں جو اس كى مخالفت كرتا ہو، تو ہم اس خاص خيال كريں جس ميں ان كے فعل نے اس كى مخالفت كى ہے جو ان پر واجب ہوتا تھا "
ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1029 - 1030 ) اور كتاب الام ( 8 / 518 - 519 ).
امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كو رد كيا تو وہ ہلاكت كے كنارے پر ہے " انتہى
اور حسن بن على بربھارى كہتے ہيں:
" جب تم كسى شخص كو حديث و اثار ميں طعن كرتے سنو، يا پھر وہ آثار كو رد كرتا يا آثار يعنى احاديث كے علاوہ كچھ اور چاہتا ہو تو آپ اس كے اسلام ميں تہمت لگا سكتے ہيں، اور آپ اسے بلاشك و شبہ بدعتى اور صاحب ہوى و خواہشات سمجھ سكتے ہيں.
اور جب آپ سنيں كہ كسى شخص كے پاس حديث آتى ہے تو وہ حديث نہيں چاہتا بلكہ قرآن چاہتا ہے، تو آپ اس ميں شك نہ كريں كہ وہ زنديق ہے، آپ اس كے پاس سے اٹھ جائيں اور اسے چھوڑ ديں " انتہى
ديكھيں: شرح السنۃ ( 113 - 119 ) اختصار كے ساتھ.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے جو بيان كيا ہے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے ہم اس كا معنى جانتے ہوں يا نہ جانيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صادق المصدوق ہيں، اس ليے جو بھى كتاب و سنت ميں آيا ہے ہر مومن شخص كے ليے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے وہ اس كا معنى نہ بھى سمجھتا ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 3 / 41 ).