آپ فی لحال یہ کام کریں جو آپ کے لائق ہے
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
جناب وضاحت آپ نے نہیں فرمائی کہ
’’ چالیس دن باوضو رہے ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ۔۔۔ حضور آپ چالیس دن کی بات کرتے ہیں یہاں تو سالوں بھر عشاء کے وضوء سے صبح کی نماز پڑھنے کے افسانے لکھے جاتے ہیں۔۔۔
خدارا خوف خدا پیدا کرو۔۔ کچھ سوج بوجھ پیدا کرو۔۔۔ اتنی بھی بےعقلی اور اندھا دھند اکابر پرستی بھلا ہوسکتی ہے۔۔۔ جتنی آپ لوگوں میں ہے؟ ۔۔۔۔جناب کچھ تو آنکھیں کھولو ۔۔۔ یا بس خیالوں کی دنیا میں ہی رہنے کے شوقین ہیں آپ لوگ ۔۔۔۔
’’ چالیس دن باوضو رہے ‘‘ یہ کونسی ایسی اعلیٰ ہستی ہے جناب۔۔۔
جس کو چالیس دن تک نہ نیند آئی اور نہ کچھ کھایا، نہ پیا، نہ بول وبراز کی حاجت ہوئی۔۔اور نہ ہی نیا وضوء کرکے نیکیوں میں اضافے کا خیال آیا۔۔۔۔ہے نا سوچنےوالی بات۔۔۔
جناب آپ نے اپنے الفاظ کی وضاحت کرنا گوارہ نہیں کرنا میں ہی کردیتا ہوں،۔۔۔
’’چالیس دن باوضو رہے‘‘ کا مطلب ہے کہ چالیس دنوں میں وضوء ٹوٹا ہی نہیں۔۔۔یعنی ایک دن وضوء کیا پھر وہی وضوء قائم رہا حتی کے چالیس دن گزر گئے۔۔۔سمجھ آگئی جناب ۔۔۔ اگر میں نے غلط لکھا ہے تو تنبیہ کر دینا۔۔۔اور پھر وضو کن چیزوں سے ٹوٹتا ہے اس بارے بھی آپ کو جانکاری ہوگی۔۔۔ اگر نہ ہو تو بتا دینا ۔۔۔ ان شاءاللہ وہ تمام اشیاء جن سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ان سے شناس کروا دی جائے گی۔۔۔
آپ نے شاید اس من گھڑت واقعہ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔۔
’’ شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرما کر دو رکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے۔”(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعالیٰ عليه، ص۱۶۴) ‘‘
چالیس سال عشاء کی نماز کےلیے کیئے گئے وضوء سے صبح کی نماز پڑھنا۔۔۔۔ ہم م م م م ۔۔۔ ہائے ناں قابل غور بات ۔۔۔۔
دونوں جگہ پہ آپ لوگوں نے ناچاہتے ہوئے بھی بزرگوں کی گستاخی کا ارتکاب کرچکے ہیں۔۔۔۔اور یہ گستاخی غلو کا نتیجہ ہے۔۔۔ کہ ان کو اتنا بھی علم نہیں تھا
حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ (ﷺ) ہر نماز کے لیے (نیا) وضو کیا کرتے تھے، لیکن (ہم نے دیکھا کہ) فتح مکہ کے موقع پر آپ نے تمام نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں اور موزوں پر مسح کیا۔ اِس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: آج آپ(ﷺ) نے وہ کام کیا ہے جو آپ (ﷺ) کبھی نہیں کیا کرتے تھے!۔ اس پر آپ (ﷺ) نے فرمایا: اے عمر () ! میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے۔(البانی،صحیح النسائی،رقم 133۔ صحیح الترمذی، رقم 61۔ دارمی، رقم 659)
من گھڑت واقعات سے پتہ نہیں آپ لوگ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ روز قیامت ہوگا۔۔۔الخ۔۔۔۔ اس آیت سے خود غور کرکے سمجھ لیں
وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
برادر ہماراجو کام ہے، ہم کررہے ہیں۔۔۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔