• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فصل دوم : قرآن اور سنت میں لفظ "الرب" کے مفہوم اور گمراہ امتوں کے اس بارے میں تصورات اور ان کے ر

ٹائپسٹ

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
987
پوائنٹ
86
[JUSTIFY]فصل دوم : قرآن اور سنت میں لفظ "الرب" کے مفہوم اور گمراہ امتوں کے اس بارے میں تصورات اور ان کے رد کا بیان
۱ - قرآن اور سنت کی روشنی میں لفظ "الرب" کا مفہوم :
الرّبُّ در اصل : مصدر ربَّ يَرُبُّ سے لیا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے : "نشَّأ الشيءَ من حال إلى حال التمام" (کسی چیز کو ایک حالت سے بہتر حالت تک لیکر جانا) کہا جاتا ہے : "ربَّه وربَّاه وربَّبَهُ" (اس کا پالنے والا/نشونما کرنے والا ، اس نے پالا ، اسے پالا) لہذا لفظ)الرب( مصدر ہے جو فاعل کے لیے استعمال ہوتا ہے ، لہذا مطلقاً لفظ )الرب( اللہ تعالی کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے جو تمام مخلوقات کا پالنے والا ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الفاتحہ)
﴿ تمام جہانوں کا پالنے والا ﴾
﴿رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ﴾ (الشعراء: 26)
﴿ تمہارا اور تمہارے اگلے آباءواجداد کا رب ہے ﴾
یہ لفظ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کے لیے صرف بطور مضاف محدود انداز میں استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے "رب الدار" (گھر کا رب) یعنی مالکِ مکان ، اور "رب الفرس" یعنی( گھوڑے کا مالک) ، اسی اعتبار سے اللہ تعالی نے یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :
﴿اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ﴾ (یوسف: 42)
﴿ اپنے رب ) بادشاہ ( سے میرا ذکر بھی کردینا ، پھر اسے شیطان نے اپنے رب ) بادشاہ ( سے ذکر کرنا بھلادیا ﴾
اور فرمایا :
﴿قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ﴾ (یوسف: 50)
﴿ اپنے رب ) بادشاہ ( کے پاس واپس جا ﴾
﴿أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا﴾ (یوسف: 41)
﴿ تم دونوں میں سے ایک تو اپنے رب ) بادشاہ ( کو شراب پلانے پر مقرر ہو جائے گا ﴾
اور نبی اکرم (ﷺ) نے جس کا اونٹ گم ہوگیا ہو اس کے بارے میں فرمایا کہ: ‘‘حتى يجدها ربها’’ ( ) ( یہاں تک کہ اس کا رب ) مالک ( اسے ڈھونڈ نہ لے )
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ "الرب" کا اطلاق اللہ سبحانہ وتعالی پر بطور اسم ِمعرفہ اور اضافت دونوں کے اعتبار سے ہوتا ہے ، کہا جاتا ہے : "الرب" یا "رب العالمین" اور "رب الناس" لیکن اللہ تعالی کے سوا لفظ "الرب" صرف اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ، مثلاً: رب الدار یا رب المنزل)مالکِ مکان)، رب الابل )اونٹ کا مالک ( ۔
) رب العالمین (کا مطلب ہے: (ان تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا اور ان کا مالک ، اپنی نعمتوں کے ذریعہ اسی طرح رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے ان کی تربیت کرنے والا، ان کے احوال کی اصلاح کرنے والا اور ان کے اعمال کی جزاء دینے والا) ( ) ۔
علامہ ابن القیم  فرماتے ہیں :
‘‘فإنَّ الربوبية تقتضي أمر العباد ونهيهم ، وجزاء مُحسنهم بإحسانه ، ومُسيئهم بإساءته’’ ( ) ) ربوبیت کا تقاضا ہے کہ بندوں کو حکم دیا جائے اور منع کیا جائے ، نیکو کاروں کو نیکی کا بدلہ دیا جائے ، اور بدکاروں کو بدکاری کی سزا دی جائے( یہ ہے حقیقت ِربوبیت ۔
۲ - گمراہ امتوں کے تصورات میں لفظ "الرب" کا مفہوم :

اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا فرمایا اور ان کی فطرت میں توحید اور پیدا کرنے والے رب کی معرفت ودیعت فرمائی ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ﴾ (الروم: 30)
﴿پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں ، اللہ تعالی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنا نہیں ﴾
اور فرمایا :
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا﴾ (الاعراف: 172)
﴿ اور جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ﴾
لہذا اللہ تعالی کی ربوبیت کا اقرار اور اس کی طرف متوجہ ہونا ایک فطری معاملہ ہے ، جبکہ شرک غیر فطری اور بعد میں رونما ہونے والی چیز ہے ، اسی لیے نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : ‘‘كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه’’ (ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، عیسائی ، یا مجوسی بنادیتے ہیں)( ) اگر بندے کو اس کی فطرت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ لازماً توحید کی طرف جائے گا اور رسولوں کی وہ دعوت قبول کرے گا جو رسول لیکر آئے ، اور جس کے متعلق کتابیں نازل کی گئیں ، اور جس پرآیاتِ کونیہ )کائنات میں پھیلی نشانیاں(بھی دلالت کرتی ہیں ، لیکن (صحیح راہ سے) منحرف تربیت اور ملحد )بےدین( معاشرہ بچے کی سمت کو تبدیل کر دیتے ہیں ، اور بچے اپنے آباء و اجداد کی گمراہی اور انحراف میں پیروی کرتے ہیں ۔
حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے : ‘‘خلقت عبادي حنفاء ، فاجتالتهم الشياطين’’ ( ) (احمد ومسلم)( میں نے اپنے بندوں کو حنفاء (سچا، یکسو اور صحیح العقیدہ) پیدا کیا ہے ، پھر شیاطین نے ان پر حملہ کر کے انہیں گھیر لیا) یعنی : انہیں بتوں کی عبادت کی طرف راغب کردیا ، اور اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے ان بتوں کو رب تسلیم کر لیا ، تو پھر وہ گمراہی تفرقہ اور اختلاف میں پڑ گئے ، ہر ایک نے اپنا ایک مخصوص رب بنا ڈالا جس کی وہ عبادت کرتا ہے ، کیونکہ جب انہوں نے حقیقی رب کو چھوڑ دیا تو وہ باطل ارباب میں مبتلا کردیے گئے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ﴾ (یونس: 32)​
﴿ سو یہ ہے اللہ تعالی جو تمہارا رب ِحقیقی ہے ،
پھرحق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیاہے﴾
اور گمراہی کی در حقیقت کوئی حد یا انتہا نہیں ہوتی، اور اس میں لازماً ہر وہ شخص واقع ہوتا ہے جس نےاپنے رب ِحقیقی کو چھوڑ دیا ہو ، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ﴾ (یوسف: 39)
﴿ کیا متفرق کئی رب بہتر ہیں یا ایک اللہ زبردست طاقتور * اس کے سوا تم جن کی عبادت کر رہے ہو وہ سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لیے ہیں ، اللہ تعالی نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ﴾
ربوبیت میں شرک اس اعتبار سے کہ دو بالکل ایک جیسے خالق جو تمام صفات اور افعال میں ایک جیسے ہوں تو نا ممکن ہے ، لیکن ہاں بعض مشرکین کا یہ کہنا تھا کہ ان کے معبودوں کو جہان میں کچھ تصرف حاصل ہے، اور شیطان نے انہیں دھوکہ میں ڈال کر ان باطل معبودوں کی عبادت پر گامزن کردیا۔ در حقیقت شیطان ہر قوم کو اس کی عقل کے مطابق دھوکہ دیتا ہے ، ایک گروہ کو اس اعتبار سے عبادت کی دعوت دیتا ہے کہ وہ مردوں کی تعظیم کریں جن کے وہ مجسمے بناتے ہیں ، جیسا کے نوح علیہ السلام کی قوم نے کیا ، اور ایک گروہ نے بتوں کو ستاروں کی شکل میں لے لیا اور ان کے دعوی کے مطابق ان ستاروں کا جہان پر اثر ہوتا ہے ( )، پھر انہوں نے ان ستاروں کے لئے معبد خانے اور مجاور مقرر کر دیئے ۔
البتہ ان ستاروں کی عبادت میں ان کے درمیان اختلاف واقع ہوا : لہذا بعض نے سورج کی عبادت کی ، بعض نے چاند کی ، اور بعض نے ان کے علاوہ باقی ستاروں کی ، یہاں تک کہ انہوں نے ان ستاروں کےلئے ہیکل مقرر کردیئے ، ہر ستارے کے لئے ایک خاص ہیکل تھا۔ بعض آتش پرست تھےجو مجوس کہلاتےہیں۔ بعض گائے کی عبادت کرتے ہیں ، جیسا کہ ہندوستان میں ہوتا ہے۔ بعض فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ بعض درختوں اور پتھروں کی عبادت کرتے ہیں اور بعض قبروں اور مزارات کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ان لوگوں نے ان چیزوں میں ربوبیت کی کچھ خاصیتیں تصور کر لیں ہیں ۔
بعض کا یہ دعوی ہے کہ یہ بت غیر حاضر چیزوں کے قائم مقام ہیں ، ابن القیم نے فرمایا : ) ابتداء میں بت کو غیر حاضر معبود کی جگہ رکھا گیا تھا ، لہذا انہوں نے بت کو اس کی شکل و صورت اور ہیت کے مطابق بنایا تاکہ وہ اس کا قائم مقام ہوجائے ، اس لیے کہ کوئی بھی عقل رکھنے والا اپنے ہاتھ سے کسی لکڑی یا پتھر کو تراش کر اسے اپنا الہٰ اور معبود تصور نہیں کر سکتا… (( )
جیسا کہ قدیم وموجودہ قبرپرست یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ مردہ لوگ ان کے لیے شفاعت کریں گے ، اور اللہ تعالی کے حضور ان کی حاجتیں پوری کرنے کے لیے سفارش کریں گے ، اور کہا کرتے ہیں :
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى﴾ (الزمر: 3)
﴿ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ) بزرگ ( اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں ﴾
﴿وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ﴾ (یونس: 18)
﴿ اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ﴾
اس کے علاوہ بعض مشرکینِ عرب اور نصاری نے اپنے معبودوں کے بارے میں یہ تصور قائم کر رکھا ہے کہ یہ اللہ تعالی کی اولاد ہیں ، لہذا مشرکینِ عرب نے فرشتوں کی عبادت یہ سمجھ کر کی کہ یہ فرشتے اللہ تعالی کی بیٹیاں ہیں ، اور نصاری نے مسیح علیہ السلام کی عبادت یہ سمجھ کر کی کہ وہ اللہ تعالی کے بیٹے ہیں ۔
۳ - ان باطل تصورات کا رد :
اللہ تعالی نے ان تمام باطل تصورات کا مندرجہ ذیل دلائل سے رد فرمایا ہے :
أ - بت پرستوں کا رد اس فرمان سے :
﴿أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى﴾ (النجم: 19-20)
﴿ کیا تم نے لات اور عزی کو دیکھا * اور ان کے علاوہ تیسرےمنات کو ﴾
آیت کا مطلب جیسا کہ علامہ قرطبی نے فرمایا : ( کیا تم نے ان معبودات کو دیکھا ! کیا یہ کسی قسم کا فائدہ یا نقصان پہنچاسکتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کے شریک ہوں ؟ کیا انہوں نے اپنا دفاع کیا جب رسول اللہ (ﷺ) اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو توڑ دیا اور منہدم کردیا ؟)
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْتَدْعُونَ أَوْ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ﴾ (الشعراء: 69-74)
﴿ انہیں ابراہیم کا واقعہ بھی سنادو * جبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو ؟ * انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی ، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں * آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وہ سنتے بھی ہیں ؟ * یا تمہیں نفع نقصان بھی پہنچاسکتے ہیں؟ * انہوں نے کہا یہ ) ہم کچھ نہیں جانتے ( ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا ﴾
گویا انہوں نے اس بات کا اقرار اور اعتراف کر لیا کہ یہ بت نہ تو پکار سن سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچاسکتے ہیں ، بلکہ انہوں نے ان بتوں کی عبادت محض اپنے آباء و اجداد کی تقلید میں کی ، جس سے واضح ہوگیا کہ تقلید اور اندہی پیروی باطل حجت ہے ۔
ب - ستارے ، سورج اور چاند کی عبادت کرنے والوں کا رد کرتے ہوئے فرمایا :
﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ﴾ (الاعراف: 54)
﴿ اور(اللہ تعالی نے) سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں ﴾​
اور فرمایا :
﴿وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾(الفصلت: 37)
﴿ اور دن رات اور سورج چاند بھی ) اسی کی ( نشانیوں میں سے ہیں ، تم سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ سجدہ اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ، اگر تمہیں اسی کی عبادت کرنی ہے تو ﴾
ج - جنہوں نے فرشتوں کی اور مسیح علیہ السلام کی عبادت اس اعتبار سے کی کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں، ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا :
﴿مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ﴾ (المؤمنون: 91)
﴿ نہ تو اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ﴾
اور فرمایا :
﴿أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ﴾ (الانعام: 101)
﴿ اللہ تعالی کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے حالانکہ اس کی کوئی بیوی تو ہے نہیں ﴾
اور فرمایا :
﴿لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (الاخلاص: 3)
﴿ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا * اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ﴾
[/JUSTIFY]
 
Top