• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ کی بعض کتابوں پر تحقیقی نظر

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ کی بعض کتابوں پر تحقیقی نظر

حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ
رسول للہ ﷺ کی حدیث ہو یا صحابی کااثر ،سلف صالحین کی روایات ہوں یاکسی شخص کامنقول قول وفعل ہو،اہل سنت کےنزدیک ہر روایت ومنقول کےلیے متصل اور مقبول (صحیح وحسن) سند کاہونا ضروری ہے جیسا کہ مشہور امام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ نے فرمایا۔
"الاسناد من لدين ولو لا الاسناد لقال من شاءه ماشاءه" (مقدمہ صحیح مسلم ج1 ص 12 ترقیم دارالسلام)
سندیں (بیان کرنا) دین میں سے ہے اوراگر سندیں نہ ہوتیں تو ہر آدمی جو چاہتا کہہ دیتا
امام یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ نے فرمایا
’’لانتظرو الي الحديث ولكن انظرو الي الاسناد فان صح الاسناد والا فلا تغتر بالحديث اذا لم يصح الاسناد‘‘(الجامع الاخلاق الراوی وآداب السامع ج2 ص 102 )
حدیث نہ دیکھو بلکہ سنددیکھو پھر اگرسند صحیح ہوتو (ٹھیک ہے اور)اگر سند صحیح نہ ہوتو دھوکے میں نہ آنا
ضعیف اورمردود اور بے سند روایات کاہونا اور نہ ہونا برابر ہے جیسا کہ حافظ ان حبان نے فرمایا
لان ماروي الضعيف ومالم يرو في الحكم سيان (المجروحین لابن حبان ج1ص 328)
کیونکہ جو روایت ضعیف بیان کرے اورجس کی روایت ہی نہ ہو دونون حکم میں برابر ہیں
اہل سنت کے نزدیک قرآن مجید کےبعد صحیح بخاری اورصحیح مسلم کامقام اورصحیحین کی تمام مسند متصل مرفوع احادیث صحیح ہیں کیونکہ انہیں امت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے دیکھیئے ( اختصارعلوم الحدیث لابن کثیر ج1 ص128) اور مقدمہ ابن الصلاح (مع التقیید والایضاح ص41،42)
صحیحین کے علاوہ ہر کتاب کی روایت اورحوالہ صرف وہی مقبول ہے جس میں تین شرطیں ہوں
1۔صاحب کتاب ثقہ وصدوق عندجمہور المحدثین ہو
2۔کتاب مذکور اپنے مصنف (صاحب کتاب) سےثابت ہو۔
3۔صاحب کتاب سے آخری راوی یا قائل وفاعل تک سند متصل ومقبول (صحیح یاحسن) ہو۔
ان میں سے اگر ایک شرط بھی مفقود ہو توحوالہ بے کار ہے اور روایت مذکورہ مردود ہے اس تمہید کے بعد فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ قسم کی بعض کتابوں اور بعض فصول وابواب کاتحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے
نمبر1
فضائل ابي حنيفه واخباره و مناقبه کےنام سے ایک کتاب مکتبہ امدادیہ (مکہ مکرمہ) سے شائع کی گئی ہے ۔جسے ابوالقاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحی بن الحارث السعدی یعنی ابن ابی ابی العوام کی طرف سے منسوب کیاگیا ہے ۔اسے قاضی ابو عبداللہ محمد بن سلامہ بن جعفر القضاعی نے درج ذیل سند کے ساتھ راویت کیا ہے ۔
’’أنبأ القاضي ابوالعباس احمد بن محمد بن عبدالله بن أحمد بن يحي بن الحارث السعدي المعروف بابن ابي العوام قال حدثني ابوعبدالله محمد ابن عبدالله بن محمد قال حدثني ابي ابوالقاسم عبدالله بن محمد بن احمد بجميع هذا الكتاب قال……‘‘ (فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ ص 36،37)
اس کتاب کے مذکور ہ راویوں کے بارے میں مختصر اور جامع تحقیق درج ذیل ہے
ابوالعباس احمد بن محمد بن عبداللہ السعدی کاذکر ،اس کی وفات کے صدیوں بعد پیدا ہونے والے عبدالقادر قرشی حنفی نے کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
يأتي ابوه وعبدالله جده من بيت العلماء الفضلاء (الجواہر المضیئہ ج 1ص 106)
اس کے باپ (محمد بن عبداللہ )اور اس کے دادا (عبداللہ بن محمد) کا ذکر (آگے) آئے گأ علماء وفضلاء کےگھر میں سے۔
عرض ہے کہ علماء وفضلاء کے گھر میں سے ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ شخص ثقہ یا صدوق ہے مثلا ظفر احمد تھانوی دیوبندی کا بیٹا عمر احمد عثمانی منکر حدیث تھا اور اشفاق الرحمن کاندھلوی کا بیٹا حبیب الرحمن کاندھلوی بھی منکرحدیث اور ساقط العدالت تھا۔
عبدالقادر قرشی حنفی نے کسی مجہول سے نقل کیا ہے کہ اس نے حاکم بامراللہ (رافضی زندیق) کے سامنے ابن ابی العوام کےبارے میں کہا ’’ثقة صدوق ‘‘(الجواہر المضیئہ ج 1 ص 107)
عرض ہے کہ اس کاقائل مجہول ہے لہذا یہ توثیق مردود ہے۔
عبدالقادر قرشی نے بتایا کہ (اسماعیلی رافضی حکمران) حاکم بامراللہ نےاسے مصر کاقاضی بنایا تھا ۔(الجواہر المضیئہ ج1 ص 107)
عرض ہے کہ یہ توثیق نہیں بلکہ زبردست جرح ہے ۔
حاکم بامراللہ بادشاہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نےلکھا ہے
’’العبيدي المصري الرافضي بل الاسماعيلي الزنديق المدعي الربوبية‘‘(سیر اعلام النبلاء ج5 ص 173)
عبیدی مصری رافضی بلکہ اسماعیلی زندیق ،وہ رب ہونے کا دعوای کرتا تھا۔
حافظ ذہبی نے مزید فرمایا
’’وكان شيطانا مريدا جبارا عنيدا كثير التلون سفاكا للدماء حبيث النحلة كان فرعون زمانه‘‘ (سیر اعلام النبلاء ج5 ص 174)
وہ سرکش شیطان ،متکبرحق کامخالف ہٹ دھرم ،بڑے رنگ بدلنے والا ،سفاکی سے (بے گناہوں کے ) خون بہانے والا ،خبیث عقیدے والا اپنےزمانے کا فرعون تھا۔
ابن ابی العوام کی توثیق کسی قابل اعتماد محدث نےنہیں کی اور فرعون وقت ،شیطان مرید اور کافر زندیق کے قاضی ہونے کی روسے وہ مجروح اور ساقط العدالت ہے۔
فرعون وقت کے قاضی ابن ابی العوام کا باپ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بن محمد بالکل مجہول ہے۔کسی کتاب میں اس کی کوئی توثیق موجود نہیں بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ عبدالقادر قرشی نے ابن ابی العوام کے ذکر میں یہ وعدہ کیا کہ وہ آگے اس کا ذکر کریں گے مگر انہوں نے اس وعدے کی خلاف ورزی کی اور آگے جاکر اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
3۔ابوالقاسم عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحی بن الحارث کو عبدالقادر قرشی نے مختصر ذکر کیا مگر کوئی توثیق نقل نہیں کی۔(الجواہر المضیئہ ج1 ص272)
یعنی یہ شخص بھی مجہول ہے نیز دیکھئے یمن کےمشہور عالم شیخ عبدالرحمن بن یحی المعلمی المکی رحمہ اللہ کی کتاب ’’طلیعۃ التنکیل ص 27،28‘‘ اور ’’التنکیل ج1 ص 27‘‘
اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ’’فضائل ابی حنیفہ و اخبارہ و مناقبہ ‘‘ نامی کتاب غیر ثابت ہونے کی وجہ سے مردود ہے ،لہذا اس کتاب کاکوئی حوالہ بھی قابل اعتماد نہیں ہے الا یہ کہ کسی دوسری مستند کتاب میں صحیح سند سے ثابت ہو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر2:
ابوالمؤید موفق بن احمد المکی الخوارزمی اخطب خوارزم کی کتاب ’’ مناقب الامام ابی حنیفہ ‘‘ مکتبہ اسلامہ میزان مارکیٹ کوئٹہ سے شائع شدہ ہے
اس کے مصنف موفق بن احمد کی کوئی توثیق کسی معتبر محدث سے ثابت نہیں ہے بلکہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی روایات پرجرح کی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے ۔ان شاءاللہ
کردری حنفی نے موفق بن احمد کے بارے میں لکھا ہے
’’المعتزلي القائل بتفضيل علي علي كل الصحابة‘‘ (مناقب الکردری ج 1 ص 88)
یعنی یہ شخص رافضی اور معتزلی تھا ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں اس نے ایک کتاب لکھی جس میں موضوع روایات ہیں۔دیکھیئے منہاج السنۃ النبویۃ لابن تیمیہ ج 3 ص 10 اور المنتقی من منہاج السنۃ للذہبی ص 312
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ علمائے حدیث میں سے نہیں اور نہ اس فن میں اس کی طرف کبھی رجوع کیاجاتا ہے ۔(منہاج السنۃ ج 3 ص 10)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا
اس کی کتاب فضائل علی میں نے دیکھی ہے اس میں انتہائی کمزور روایتیں بہت زیادہ ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج 39 ص 327)
لہذا ایسے شخص کو (معتزلیوں کا )علامہ ،ادیب فصیح اور مفوہ کہہ دینے سے اس کی توثیق ثابت نہیں ہوجاتی نیز دیکھئے المنتقی من منہاج السنۃ للذہبی ص 312
مختصر عرض ہے کہ موفق بن احمد معتزلی اور رافضی ہونے کی وجہ سے مجروح ہے لہذا اس کی ساری کی ساری کتاب ناقابل اعتماد ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر3
محمد بن محمد بن شہاب الکردری صاحب البزازیہ کی کتاب ’’مناقب ابی حنیفہ‘‘ بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہے ۔اس کتاب میں محدثین کے طرز پرمکمل سندیں لکھنے کا التزام نہیں کیا گیا بلکہ بغیر سند کے کرمانی ،مرغینانی اور سلامی وغیرہم سے بے سروپا روایتیں جمع کردی گئی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر4
محمد بن یوسف الصالحیی الدمشقی الشافعی کی کتاب ’’عقود الجمان في مناقب الامام الاعظم ابي حنيفة النعمان‘‘ کو مکتبہ الایمان السمانیہ (المدینۃ المنورۃ) سے شائع کیا گیا ہے اور یہ ساری کتاب متصل اسانید کی بغیر یعنی بغیر سند کے ہے ،لہذا ناقابل اعتمادد ہے اور مردود ہے
تنبیہ
اس ناقابل اعتماد کتاب کااردو میں ترجمہ بھی چھپا ہوا ہے۔۔!!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر5:
احمد بن حجرالہیتمی المکی کی کتاب
’’الخيرات الحسان في مناقب الامام الاعظم ابي حنيفة النعمان‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت (لبنان) سے مطبوع ہے اور ساری کی ساری بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتماد اور مردود ہے
سرفراز خاں صفدر دیوبندی نے لکھا ہے :
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے استدلال میں ان کے اثر کی کوئی سند نقل نہیں کی اور بے سند بات حجت نہیں ہوسکتی۔‘‘(احسن الکلام ج 1 ص 327)
غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے ۔
’’ اور جو روایت بلاسند مذکور ہو وہ حجت نہیں ہے‘‘(شرح صحیح مسلم ج1 ص 511)
عرض ہے کہ
جب بے سند اور بلاسند بات حجت نہیں تو پھر آپ یہ بےس ند کتابیں کیوں اٹھائے پھرتےہیں اور کیوں ان کےحوالے پیش کرتے ہیں ۔؟؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر6:
جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی کی کتاب ’’ تبييض الصحيفة في مناقب الامام ابي حنيفة‘‘بھی بےسند کتابوں میں سے ہے ،لہذا اس کاہر حوالہ ناقابل اعتماد اور مردود ہے الا یہ کہ دوسری کسی مستند کتاب میں مقبول سند سےثابت ہوجائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر7:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا رسالہ ’’مناقب الامام ابي حنيفة وصاحبة ابي يوسف ومحمد بن الحسن‘‘ اور ان کی دوسری کتابوں مثلا سیر اعلام النبلاء وغیرہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،قاضی ابویوسف رحمہ اللہ اور ابن فرقدشیبانی وغیرہم کے بارے میں روایات بے سند ہونے کیوجہ سے ناقابل اعتماد ہیں لہذا اصل کتابوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر8:
حافظ ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمن المزی الشامی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تهذيب الكمال ‘‘ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حالات میں بعض روایات بلاسند ہیں اور بعض کی سندیں موجود ہیں ،لہذا کتاب مذکور کے ہر قول اور ہر روایت کی تحقیق ضروری ہے اور بغیر تحقیق کے اس کتاب کا حوالہ دینا مرجوح اور ناقابل اعتماد ہے مثلا اس کتاب میں امام صاحب کے بارے میں ’’رأي انس بن مالك‘‘والا قول بلاسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
تفصیل کےلیے یہ کتاب ’’الاسانيد الصحيحة في اخبارالامام ابي حنيفة (ص 54تاص 80)‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر9:
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تهذيب التهذيب‘‘ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ساری روایات بے سند ہیں ،لہذا کتاب مذکور کے ہر قول اور ہر حوالے کی تحقیق ضروری ہے،اگر دوسری کسی باسند کتا ب میں روایت مذکورہ صحیح ثابت ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کتاب کا بغیر تحقیق کے نرا حوالہ دے دینا غلط اور ناقابل اعتماد ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
نمبر10:
ابوعبداللہ حسین بن علی الصیمری کی کتاب ’’أخبار ابي حنيفة واصحابه‘‘ مکتبہ عزیزیہ ملتان سے مطبوع ہے۔
صیمری سچے تھے اور کتاب مذکور میں سندیں موجود ہیں۔،لیکن اس کتاب کی عام روایات ضعیف ،مجروح اور کذاب راویوں سے مروی ہیں مثلا۔:
1۔احمد بن عطیہ الحمانی (کذاب) دیکھیئے الکامل لابن عدی ج1 ص202
2۔شاذان المروزی (کذاب) دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل ج8ص 480
3۔ابوالحسن علی بن الحسن الرازی (ضعیف) دیکھیئے تاریخ بغداد ج11 ص 388
4۔ابوعبیداللہ محمد بن عمران بن موسی المرزبانی (ضعیف) تاریخ بغداد ج 3 ص 135
5۔عبداللہ بن محمد بن ابراہیم الحلوانی ابوالقاسم الشاہد ابن الثلاج (کذاب یضع الحدیث) دیکھیئے تاریخ بغداد ص 10 ص 136
6۔محمد بن شجاع الثلجی (کذاب) دیکھیئے الکامل لابن عدی ج6 ص 2293
7۔ابوعبد اللہ احمد بن محمد بن علی الصیرفی :ابن الابنوسی (ضعیف) دیکھیئے تاریخ بغداد ج5 ص 29
8۔حامد بن آدم(مجروح) دیکھیئے احوال الرجال للجوزجانی 381
9۔خارجہ بن مصعب (متروک ) دیکھیئے تقریب التہذیب 1612
10۔حسن بن زیاد اللؤلؤی (کذاب) دیکھیئے تاریخ یحی بن معین (روایۃ الدوری 1765
اس کتاب میں بہت سے مجہول راویوں کی روایات بھی درج ہیں مثلا عمربن اسحاق بن ابراہیم (ص89) مجہول ہے مختصر یہ کہ صرف صیمری کی کتاب کاحوالہ دے دینا کافی نہیں بلکہ سند کی مکمل تحقیق کرکے صحیح ثابت ہوجانے کے بعد ہی حوالہ دینا چاہیے ورنہ ایسے حوالوں کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
 
Top