مظاہر امیر
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 15، 2016
- پیغامات
- 1,427
- ری ایکشن اسکور
- 411
- پوائنٹ
- 190
فضائل اعمال ميں ضعيف احاديث كے متعلق ہمارا موقف
ايسى حديث جس ميں كسى فضيلت يا دعا پر ابھارا گيا ہو ليكن اس كى سند ضعيف ہو كے بارہ ميں علماء كرام كا موقف كيا ہے، برائے مہربانى اس كے متعلق ہم جواب چاہتے ہيں ؟
الحمد للہ:
فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء اس پر عمل كرنے كو كچھ شروط كے ساتھ جائز قرار ديتے ہيں، اور بعض علماء اس پر عمل كرنے سے منع كرتے ہيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعيف حديث پر عمل كرنے كى شروط كا خلاصہ بيان كيا ہے جو درج ذيل ہے:
1 - ضعيف زيادہ شديد نہ ہو، اس ليے كسى ايسى حديث پر عمل نہيں كيا جائيگا جسے كسى ايك كذاب يا متہم بالكذب يا فحش غلط راوى نے انفرادى طور پر بيان كيا ہو.
2 - وہ حديث معمول بہ اصول كے تحت مندرج ہو.
3 - اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اس كے ثابت ہونے كا اعتقاد نہ ركھا جائے، بلكہ احتياط كا اعتقاد ہو.
ضعيف حديث پر عمل كرنے كا معنى يہ نہيں كہ كسى ضعيف حديث ميں آنے كى بنا پر ہم اس عبادت كو مستحب قرار ديں، كيونكہ كسى بھى عالم دين نے ايسا نہيں كہا ـ جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام ميں آگے آئيگا ـ بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ جب كسى شرعى دليل سے كوئى معين عبادت كا استحباب ثابت ہو مثلا قيام الليل اور پھر قيام الليل كى فضيلت ميں كوئى ضعيف حديث آ جائے تو اس ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اس پر عمل كا معنى يہ ہے كہ لوگوں اس عبادت كى ترغيب دلانے كے ليے يہ حديث روايت كى جائے، اور اميد ركھى جائے كہ ضعيف حديث ميں وارد شدہ ثواب عمل كرنے والے كو ملےگا كيونكہ اس حالت ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے سے اس پر كوئى شرعى ممانعت مرتب نہيں ہوتى، مثلا كسى ايسى عبادت كو مستحب كہنا جو شريعت ميں ثابت نہيں، بلكہ اگر اسے يہ اجروثواب حاصل ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شريعت ميں ان ضعيف احاديث پر جو نہ تو صحيح اور نہ ہى حسن ہوں اعتماد كرنا جائز نہيں، ليكن احمد بن حنبل وغيرہ دوسرے علماء نے فضائل اعمال ميں حديث روايت كرنا جائز قرار ديا ہے جبكہ اس كے متعلق يہ معلوم ہے كہ وہ جھوٹ نہيں، يہ اس ليے كہ جب عمل كے متعلق يہ معلوم ہو كہ وہ شرعى دليل كے ساتھ مشروع ہے، اور ايسى حديث روايت كى جس كے متعلق اسے علم نہ ہو كہ وہ جھوٹ ہے تو ثواب كا حق ہونا جائز ہے.
آئمہ ميں سے كسى نے بھى يہ نہيں كہا كہ كسى ضعيف حديث كى بنا پر كوئى چيز واجب يا مستحب قرار دى جائے، جو بھى ايسا كہتا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى... جس كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ جھوٹ نہيں اسے ترغيب و ترھيب ميں روايت كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں جس كے متعلق اس مجھول الحال كے علاوہ كسى اور دليل كى بنا پر علم ہو كہ اللہ تعالى نے اس ميں رغبت دلائى ہے، يا اس سے ڈرايا ہو. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 1 / 250 ).
اور ابو بكر بن العربى نے ضعيف حديث پر مطلقا عدم جواز كا كہا ہے، نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں اس پر عمل ہو سكتا ہے.
ديكھيں: تدريب الراوى ( 1 / 252 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مقدمہ كتاب: صحيح الترغيب و الترھيب ( 1 / 47 - 67 ).
فضائل اعمال وغيرہ ميں جو احاديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہيں ان پر عمل كر كے ضعيف حديث سے استغناء ہے.
اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ وہ ضعيف اور صحيح حديث كو پہچانے، اور صرف صحيح حديث پر ہى عمل كرے.
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
Last edited by a moderator: