• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل اعمال میں ضعیف احادیث

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190

فضائل اعمال ميں ضعيف احاديث كے متعلق ہمارا موقف


ايسى حديث جس ميں كسى فضيلت يا دعا پر ابھارا گيا ہو ليكن اس كى سند ضعيف ہو كے بارہ ميں علماء كرام كا موقف كيا ہے، برائے مہربانى اس كے متعلق ہم جواب چاہتے ہيں ؟
الحمد للہ:
فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء اس پر عمل كرنے كو كچھ شروط كے ساتھ جائز قرار ديتے ہيں، اور بعض علماء اس پر عمل كرنے سے منع كرتے ہيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعيف حديث پر عمل كرنے كى شروط كا خلاصہ بيان كيا ہے جو درج ذيل ہے:
1 - ضعيف زيادہ شديد نہ ہو، اس ليے كسى ايسى حديث پر عمل نہيں كيا جائيگا جسے كسى ايك كذاب يا متہم بالكذب يا فحش غلط راوى نے انفرادى طور پر بيان كيا ہو.
2 - وہ حديث معمول بہ اصول كے تحت مندرج ہو.
3 - اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اس كے ثابت ہونے كا اعتقاد نہ ركھا جائے، بلكہ احتياط كا اعتقاد ہو.
ضعيف حديث پر عمل كرنے كا معنى يہ نہيں كہ كسى ضعيف حديث ميں آنے كى بنا پر ہم اس عبادت كو مستحب قرار ديں، كيونكہ كسى بھى عالم دين نے ايسا نہيں كہا ـ جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام ميں آگے آئيگا ـ بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ جب كسى شرعى دليل سے كوئى معين عبادت كا استحباب ثابت ہو مثلا قيام الليل اور پھر قيام الليل كى فضيلت ميں كوئى ضعيف حديث آ جائے تو اس ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اس پر عمل كا معنى يہ ہے كہ لوگوں اس عبادت كى ترغيب دلانے كے ليے يہ حديث روايت كى جائے، اور اميد ركھى جائے كہ ضعيف حديث ميں وارد شدہ ثواب عمل كرنے والے كو ملےگا كيونكہ اس حالت ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے سے اس پر كوئى شرعى ممانعت مرتب نہيں ہوتى، مثلا كسى ايسى عبادت كو مستحب كہنا جو شريعت ميں ثابت نہيں، بلكہ اگر اسے يہ اجروثواب حاصل ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شريعت ميں ان ضعيف احاديث پر جو نہ تو صحيح اور نہ ہى حسن ہوں اعتماد كرنا جائز نہيں، ليكن احمد بن حنبل وغيرہ دوسرے علماء نے فضائل اعمال ميں حديث روايت كرنا جائز قرار ديا ہے جبكہ اس كے متعلق يہ معلوم ہے كہ وہ جھوٹ نہيں، يہ اس ليے كہ جب عمل كے متعلق يہ معلوم ہو كہ وہ شرعى دليل كے ساتھ مشروع ہے، اور ايسى حديث روايت كى جس كے متعلق اسے علم نہ ہو كہ وہ جھوٹ ہے تو ثواب كا حق ہونا جائز ہے.
آئمہ ميں سے كسى نے بھى يہ نہيں كہا كہ كسى ضعيف حديث كى بنا پر كوئى چيز واجب يا مستحب قرار دى جائے، جو بھى ايسا كہتا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى... جس كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ جھوٹ نہيں اسے ترغيب و ترھيب ميں روايت كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں جس كے متعلق اس مجھول الحال كے علاوہ كسى اور دليل كى بنا پر علم ہو كہ اللہ تعالى نے اس ميں رغبت دلائى ہے، يا اس سے ڈرايا ہو. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 1 / 250 ).
اور ابو بكر بن العربى نے ضعيف حديث پر مطلقا عدم جواز كا كہا ہے، نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں اس پر عمل ہو سكتا ہے.
ديكھيں: تدريب الراوى ( 1 / 252 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مقدمہ كتاب: صحيح الترغيب و الترھيب ( 1 / 47 - 67 ).
فضائل اعمال وغيرہ ميں جو احاديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہيں ان پر عمل كر كے ضعيف حديث سے استغناء ہے.
اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ وہ ضعيف اور صحيح حديث كو پہچانے، اور صرف صحيح حديث پر ہى عمل كرے.
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
جزاک اللہ خیر

کوئی بھائی علامات قیامت کے متعلق ضعیف احادیث کو روایت کرنے پر علماء کا فتوی بھیج سکتا ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاک اللہ خیر
کوئی بھائی علامات قیامت کے متعلق ضعیف احادیث کو روایت کرنے پر علماء کا فتوی بھیج سکتا ہے؟
علامات قیامت والی احادیث بھی ’ فضائل اعمال ‘ اور ’ ترغیب و ترہیب ‘ والی روایات کی طرح ہی ہیں ، یا ان سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ، لہذا ضعیف احادیث سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
جب فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب کا تذکرہ ہوتا ہے ، تو ساتھ ایک اور لفظ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے ( رقاق ) یعنی ایسی احادیث جن سے رقت طاری ہوتی ہے ،دل نرم ہوتا ہے ، علامات قیامت کی احادیث کے مضامین بھی اسی نوع کے ہیں ۔
صحیح بخاری کی ’ کتاب الرقاق ‘ حال ہی میں مستقل اردو ترجمہ و فوائد کے ساتھ شائع ہوئی ہے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@محمد افضل رضوی صاحب! ان اسکین صفحات کی جس عبارت سے آپ کا مدعا ہے اس عبارت کو دم تحریر میں لائیں ، اور اس پر اپنا مدعا بیان بھی فرمائیں!
نیز یہ بھی بتلا دیں کہ آپ ''فضائل اعمال'' کسے سمجھتے ہیں؟
 
شمولیت
جنوری 13، 2017
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
63
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@محمد افضل رضوی صاحب! ان اسکین صفحات کی جس عبارت سے آپ کا مدعا ہے اس عبارت کو دم تحریر میں لائیں ، اور اس پر اپنا مدعا بیان بھی فرمائیں!
نیز یہ بھی بتلا دیں کہ آپ ''فضائل اعمال'' کسے سمجھتے ہیں؟
حیرت ہے آپ لوگوں پہ۔۔۔
بے کارسوالات کرنا شروع ہوگئے۔۔
میں نے کوئی اعتراض کیا ؟
یا کیا میری بات موضوع سے ہٹ کے ہے؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی جان آپ تو خفا ہو گئے!
ہم نے تو یہ عرض کیا ہے کہ آپ صرف اسکین صفحہ لگانے پر قناعت نہ کریں، اسے دم تحریر میں بھی لائیں!
یعنی کہ جو عبارت آپ پیش کرنا چاہتے ہیں اسے یونیکوڈ میں تحریر فرمائیں! اور اگر اس پر آپ کوئی نکتہ بیان کرنا چاہتے ہیں تو اسے بیان فرمادیں!
اور سوال تو میں نے ایک ہی رکھا ہے کہ آپ ''فضائل اعمال'' کسے سمجھتے ہیں! اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
 
Top