• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل اعمال میں ضعیف احادیث

ابوعمر

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
66
ری ایکشن اسکور
358
پوائنٹ
71
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا ضعیف راویات، فضائل اعمال میں حجت ہیں اور اس سلسلے میں محدثین کی رائے کیا ہے؟ اس کا مدلل جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں؟ جزاک اللہ و احسن الجزاء

فی امان اللہ
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ ضعیف روایات کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا یا نہیں ۔ لیکن اس بارہ میں حق اور درست موقف یہی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ یہی مسلک امام بخاری , امام مسلم , یحیى بن معین , اور ابو بکر ابن العربی رحمہم اللہ کا ہے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ عارضۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ امام مسلم نے جو دلائل صحیح مسلم کے مقدمہ میں دیے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ضعیف روایات ترغیب و ترہیب میں بھی پیش نہیں کی جاسکتیں ۔ اسی طرح امام ابن حزم رحمہ اللہ الفصل فی الأھواء والملل والنحل میں فرماتے ہیں : بعض اہل اسلام غافل یا مجہول یا کاذب راوی کی روایت کو قبول کر لیتے ہیں حالانکہ ہمارے نزدیک ضعیف روایت کو قبول کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اسکی تایید حلال ہے ۔
اس ضمن میں کچھ دلائل پیش خدمت ہیں :
۱۔ اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ احکام شرعیہ خمسہ یعنی وجوب , ندب , اباحت , کراہت , تحریم میں ضعیف روایات قابل اعتبار نہیں ہیں جب اس بات پر اتفاق ہے تو نتیجتًا یہ بات بھی متفق علیہ عند اہل العلم بن جاتی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات قبول نہیں ہیں !!!!
کیونکہ
ندب و استحباب میں فضیلت ہی تو ہوتی ہے !!! , تو جب فضیلت ہی ثابت نہ ہوئی تو فضائل اعمال بھی ثابت نہ ہوئے ....!!! خوب سمجھ لیں ۔
۲۔ اعمال و احکام میں ضعیف روایات کے قبول نہ ہونے پر تمام تر اہل علم اتفاق رکھتے ہیں اور کتاب وسنت سے اس کے دلائل دیتے ہیں ۔ ان دلائل کے عموم میں فضائل اعمال بھی داخل اور شامل ہیں ۔ جب فضائل اعمال بھی ان دلائل کے عموم میں شامل ہیں تو انہیں مستثنى قرار دینے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے ۔ جبکہ اس استثناء کے لیے کتاب وسنت سے آج تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکی ۔ جبکہ صحیح مسلم کے مقدمہ میں امام مسلم نے ان روایات کے مردود ہونے کے بہت سے دلائل دیے ہیں ۔
۳۔ ضعیف روایت کے پایہ ثبوت تک پہنچنے میں شبہ ہوتا ہے , یعنی یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا قول یا عمل ہے , اور اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً [الإسراء : 36]

جس چیز کا تمہیں علم نہیں اسکے پیچھے نہ پڑو , یقنا سماعت وبصارت و دل , سب کے بارہ میں سوال کیا جائے گا۔
اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ ( صحيح مسلم كتاب المساقاة باب أخذ الحلال وترك الشبهات حــ 1599 )

یقنا حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے مابین کچھ مشتبہ امور ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے تو جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت محفوظ کر لی اور جو شبہات میں داخل ہوگیا تو وہ حرام میں ہی داخل ہوگیا , اس شخص کی طرح جو اپنی بکریوں کو (غیر) کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے تو قریب ہے کہ (اسکی بکریاں اس دوسرے شخص کی ) اس چراگاہ میں چلی جائیں , خبر داد ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے ہے اور اللہ کی چراگاہ اسکے حرام کردہ امور ہیں ۔
چونکہ ضعیف روایت میں شبہ ہوتا ہے لہذا اس پر عمل کرنا اس حدیث کی رو سے حرام میں واقع ہونا ہے ۔!!!!!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ رفیق بھائی جان۔
 

ابوعمر

رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
66
ری ایکشن اسکور
358
پوائنٹ
71
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ ضعیف روایات کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا یا نہیں ۔ لیکن اس بارہ میں حق اور درست موقف یہی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ یہی مسلک امام بخاری , امام مسلم , یحیى بن معین , اور ابو بکر ابن العربی رحمہم اللہ کا ہے۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ عارضۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ امام مسلم نے جو دلائل صحیح مسلم کے مقدمہ میں دیے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ضعیف روایات ترغیب و ترہیب میں بھی پیش نہیں کی جاسکتیں ۔ اسی طرح امام ابن حزم رحمہ اللہ الفصل فی الأھواء والملل والنحل میں فرماتے ہیں : بعض اہل اسلام غافل یا مجہول یا کاذب راوی کی روایت کو قبول کر لیتے ہیں حالانکہ ہمارے نزدیک ضعیف روایت کو قبول کرنا حلال نہیں ہے اور نہ اسکی تایید حلال ہے ۔
اس ضمن میں کچھ دلائل پیش خدمت ہیں :
۱۔ اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ احکام شرعیہ خمسہ یعنی وجوب , ندب , اباحت , کراہت , تحریم میں ضعیف روایات قابل اعتبار نہیں ہیں جب اس بات پر اتفاق ہے تو نتیجتًا یہ بات بھی متفق علیہ عند اہل العلم بن جاتی ہے کہ فضائل اعمال میں بھی ضعیف روایات قبول نہیں ہیں !!!!
کیونکہ
ندب و استحباب میں فضیلت ہی تو ہوتی ہے !!! , تو جب فضیلت ہی ثابت نہ ہوئی تو فضائل اعمال بھی ثابت نہ ہوئے ....!!! خوب سمجھ لیں ۔
۲۔ اعمال و احکام میں ضعیف روایات کے قبول نہ ہونے پر تمام تر اہل علم اتفاق رکھتے ہیں اور کتاب وسنت سے اس کے دلائل دیتے ہیں ۔ ان دلائل کے عموم میں فضائل اعمال بھی داخل اور شامل ہیں ۔ جب فضائل اعمال بھی ان دلائل کے عموم میں شامل ہیں تو انہیں مستثنى قرار دینے کے لیے مستقل دلیل کی ضرورت ہے ۔ جبکہ اس استثناء کے لیے کتاب وسنت سے آج تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکی ۔ جبکہ صحیح مسلم کے مقدمہ میں امام مسلم نے ان روایات کے مردود ہونے کے بہت سے دلائل دیے ہیں ۔
۳۔ ضعیف روایت کے پایہ ثبوت تک پہنچنے میں شبہ ہوتا ہے , یعنی یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا قول یا عمل ہے , اور اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً [الإسراء : 36]

جس چیز کا تمہیں علم نہیں اسکے پیچھے نہ پڑو , یقنا سماعت وبصارت و دل , سب کے بارہ میں سوال کیا جائے گا۔
اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ ( صحيح مسلم كتاب المساقاة باب أخذ الحلال وترك الشبهات حــ 1599 )

یقنا حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے مابین کچھ مشتبہ امور ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے تو جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت محفوظ کر لی اور جو شبہات میں داخل ہوگیا تو وہ حرام میں ہی داخل ہوگیا , اس شخص کی طرح جو اپنی بکریوں کو (غیر) کی چراگاہ کے ارد گرد چراتا ہے تو قریب ہے کہ (اسکی بکریاں اس دوسرے شخص کی ) اس چراگاہ میں چلی جائیں , خبر داد ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے ہے اور اللہ کی چراگاہ اسکے حرام کردہ امور ہیں ۔
چونکہ ضعیف روایت میں شبہ ہوتا ہے لہذا اس پر عمل کرنا اس حدیث کی رو سے حرام میں واقع ہونا ہے ۔!!!!!
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جزاک اللہ! رفیق طاہر بھائی
 
Top