• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل تجارت-2: تمہید

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
پچھلا مضمون: فضائل تجارت-1:پہلی بات
==================

تمہید
ہر انسان کی جو چند بنیادی ضرورتیں ہیں ان میں خوراک، لباس او ر گھر شامل ہیں جن کا حصول مال ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ مال ہی کے ذریعے انسان اپنی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرسکتا ہے۔ مال ہی کے ذریعے سے دین و دنیا کے بہت سے کاموں میں سہولت حاصل ہوتی ہے۔ مال نہ صرف فرد بلکہ جماعت کے وجود کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے بلکہ فرد کے مقابلے میں جماعت کے حق میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ جس قوم کی اکثریت مالی طور پر مستحکم ہوگی وہ قوم ترقی کرے گی اور اقوام عالم میں اپنا مقام بنائے گی۔ اور جس قوم کی مالی حالت ناکارہ ہوگی وہ مفلوج اور ہاتھ پھیلانے والی ہوگی۔ جس معاشرے کے افراد میں غربت ہو گی تو اس کا مجموعہ بھی غربت کا شکار ہوگا جس کے نتیجے میں معاشرے کے وہ طبقے جیسے بوڑھے، معذور، بیوائیں اور یتیم ان لوگوں کے لیے بھی معاشرہ کچھ فراہم نہیں کرسکے گا۔ آتا ہے کہ قریب ہے کہ فقر انسان کو کفر میں مبتلا کر دے۔ یعنی غریبی میں انسان ان کاموں کو بھی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جو دین کے سراسر خلاف ہوتے ہیں۔ اسباب حیات جن کے حصول کا ذریعہ مال ہے یہ مسئلہ انسان کے لیے اس قدر اہم ہے کہ اس کے لیے وہ اپنے آپ کو معبودان باطل کے سامنے بھی جھکا دیتا ہے۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
ان الذين تعبدون من دون الله لا يملكون لكم رزقا فابتغوا عند الله الرزق (العنکبوت: 17)
ترجمہ: یقینا اﷲ تعالیٰ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے سو اﷲ تعالیٰ کے پاس سے رزق تلاش کرو
مال اس دنیا کے اسباب میں سے ہے اور اسباب کو اختیار کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔ یہ اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے جس سے کسی کو روگردانی کی اجازت نہیں ہے۔ سیدنا عمرؓ کا قول ہے:
’’تم میں سے کوئی طلب رزق کو ترک نہ کرے اور صرف دعا کرتا رہے کہ اے اللہ مجھے رزق دے جب کہ تم جانتے ہو کہ آسمان سے سونا چاندی نہیں برستا۔‘‘
یعنی طلب رزق میں اسباب اور محنت کا دخل ہے نری دعا یا وظیفے کافی نہیں ہیں۔ شریعت بھی انسان کو کسب مال کی کوشش پر ابھارتی ہے بلکہ فرمان رسول ﷺ نے اس کو فرض قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن عبداللہ بن مسعود ان النبی قال طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ (مشکوۃ المصابیح، کتاب البیع)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’حلال مال کا طلب کرنا دوسرے فرائض کی ادائیگی کے بعد فرض ہے۔‘‘
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ (الجمعۃ: 10)
ترجمہ: پس جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالی کے فضل (یعنی رزق) کو تلاش کرو
اور یہ کوئی صرف عام مسلمانوں کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ اللہ نے جن نبیوں کو بھیجا انہوں بھی اس فریضے کو نبھایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ ہر نبی علیہم السلام نے بکریاں چرائیں ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں۔ اللہ کے نبی داؤوؑ اپنی روزی زرہ بنا کر کماتے تھے۔ ایک نبیؑ بڑھئی تھے۔ حضرت موسیؑ کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے:
عن عتبة بن المنذر يقول كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقرا طسم حتى اذا بلغ قصة موسى قال ‏ ان موسى صلى الله عليه وسلم اجر نفسه ثماني سنين او عشرا على عفة فرجه وطعام بطنه ‏(سنن ابن ماجہ)
ترجمہ: حضرت عتبہ بن منذرؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے آپ ﷺ نے سورۃ طسم تلاوت فرمائی، جب آپ ﷺ حضرت موسیؑ کے قصے پر پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’موسیؑ نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کے لیے اور پیٹ کی پرورش کے لیے اپنے آپ کو سات یا دس سال تک ملازمت میں دیے رکھا۔‘‘
قرآن پاک نے مال کو زندگی کی بقا کا ذریعہ بتایا ہے جو اس بات کی اہمیت بتانے کے لیے کافی ہے کہ فرد یا امت کی اجتماعی ترقی کے لیے مال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 5 میں آیا ہے:
ولا تؤتوا السفهاء اموالكم التي جعل الله لكم قياما
ترجمہ: اور تم وہ مال، جس کو اللہ نے تمہارے لیے قیام و بقا کا ذریعہ بنایا ہے، نادانوں کے حوالے نہ کرو
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کے بہت سے احکامات مال سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسلام کے چوتھے رکن زکوۃ کی ادائیگی مال ہی کی بنیاد پر ہے۔ اسلام کا پانچواں رکن یعنی حج بھی مال ہی سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح بہت سے کفارات بھی مال سے جڑے ہوئے ہیں۔ وراثت کے احکامات بھی مال ہی کی تقسیم کے لیے ہیں۔ جہاد کا فرض بھی مال کے ساتھ ہی وابستہ ہے اس لیے کہ اس کو کرنے کے لیے اسباب کا ہونا لازمی امر ہے جو مال ہی کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔ اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری اُس ملک کے رہنے والوں پر ڈالی گئی ہے۔ اگر مال نہیں ہو گا تو اس ملک کا دفاع بھی کمزور ہوگا اور دشمنوں کو دخل دراندازی کا موقع ملے گا۔ فرمان باری تعالی ہے:
واعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم (الانفال: 60)
ترجمہ: اور تیار رکھو ان کے (مقابلے کے) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے (تاکہ) تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو
نماز قائم کرنے کا فريضہ بھی مال ہی کے ذریعے سے ادا ہوگا اس لیے کہ مساجد کی تعمیر اور ان کو آباد رکھنے کے لیے بھی مال کی ضرورت پڑتی ہے۔ تعلیم کے لیے بھی مال کی ضرورت ہے۔ دعوت و تبلیغ کا فريضہ انجام دینے کے لیے بھی مال ہی درکار ہے۔ مال کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ دو اسلامی حدود (سزا) چوری اور راہزنی کا تعلق بھی مال ہی سے ہے۔ یہ شدید سزائیں اس لیے رکھی گئی ہیں کہ لوگوں کے مال چوروں اور راہزنوں سے محفوظ رہیں۔ جس معاشرے میں مال کی حفاظت کے انتظامات ہوں گے تو وہ معاشرہ مالی طور پر ترقی کرسکے گا۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو اس معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا جس کے نتیجے میں معاشرہ غربت کا شکار ہو جائے گا۔
ہمارے اس دور میں اقتصادیات کا میدان بہت ہی گرم ہے۔ فرد ہو یا ملک کسب مال ہی بنیادی مقصد بنا ہوا ہے۔ بلکہ آج کے دور میں اقتصادیات ہی اصل جنگ بن گئی ہے۔ جنگ کی بجائے اقتصادی پابندیاں ہی کسی ملک کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات اشد ضروری ہے کہ اسلامی ممالک اقتصادی طور پر خود مختار ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں اقتصادی سرگرمیاں پورے عروج پر ہوں تاکہ وہ بحیثیت مجموعی اپنی آزادی اور خودداری کا سودا کرنے کے بجائے عزت و وقار سے اپنے فیصلے کرسکیں۔
(جاری ہے)​
 
Top