مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
مدینہ روئے زمین کی مقدس سرزمین ہے ، اس کے مختلف اسماء ہیں مثلا طابہ، طیبہ، دار ، ایمان،دارہجرہ وغیرہ۔عام طور سے اس شہر کو مدینہ منورہ کے نام سے جانا جاتا ہے مگر اس کا استعمال سلف کے یہاں نہیں ملتا۔ جب ہم مدینہ منورہ کہتے ہیں تو اس سے تمام اسلامی ملک مراد لیا جائے گا کیونکہ اسلام نے ساری جگہوں کو روشن کردیا ، اس لئے ایک خاص وصف نبویہ سے مدینہ کومتصف کرنا بہترہے ۔اس کا پرانا نام یثرب ہے ، اب یہ نام لینا بھی منع ہے ۔
احادیث رسول کی روشنی میں مدینہ نبویہ کے بے شمار فضائل ہیں چند فضائل پیش خدمت ہیں ۔
٭مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے :والمدينةُ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون .(صحيح البخاري:1875)
ترجمہ: اور مدینہ ان کے لئے باعث خیروبرکت ہے اگر علم رکھتے ۔
٭یہ حرم پاک ہے : إنها حرَمٌ آمِنٌ(صحيح مسلم:1375)
ترجمہ: بے شک مدینہ امن والا حرم ہے ۔
٭فرشتوں کے ذریعہ طاعون اور دجال سے مدینے کی حفاظت: على أنقابِ المدينةِ ملائكةٌ ، لا يدخُلُها الطاعونُ ، ولا الدجالُ(صحيح البخاري:7133)
ترجمہ:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔
٭مدینے میں ایمان سمٹ جائے گا: إن الإيمانَ ليأْرِزُ إلى المدينةِ ، كما تأْرِزُ الحيةُ إلى جُحرِها.(صحيح البخاري:1876)
ترجمہ: مدینہ میں ایمان اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ جاتا ہے۔
٭مدینہ سے محبت کرناہے:اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّ(صحيح البخاري:1889)
ترجمہ: اے اللہ ! مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔
٭مدینہ میں مرنے والے کے لئے شفاعت نبوی : منِ استطاع أن يموتَ بالمدينةِ فلْيفعلْ فإني أشفعُ لمن ماتَ بها(السلسلة الصحيحة:6/1034)
ترجمہ: جو شخص مدینہ شریف میں رہے اور مدینے ہی میں اس کو موت آئے میں اس کی شفارش کروں گا۔
قابل صدرشک ہیں وہ لوگ جو مدینے میں ہیں یا اس کی زیارت پہ اللہ کی طرف سے بلائے گئے ۔ اس مبارک سرزمین پہ مسجد نبوی ﷺ ہے جسے آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے تعمیرکیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس مسجد کی زیارت کا حکم فرمایاہے : لا تُشَدُّ الرحالُ إلا إلى ثلاثةِ مساجدَ : مسجدِ الحرامِ، ومسجدِ الأقصَى، ومسجدي هذا(صحيح البخاري:1995)
ترجمہ: مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ( حصول ثواب کی نیت سے) کسی دوسری جگہ کا سفر مت کرو۔
گویا ثواب کی نیت سے دنیا کی صرف تین مساجد کی زیارت کرنا جائز ہے باقی مساجد اور مقبروں کی زیارت کرنا جائز نہیں۔
البتہ جولوگ مدینے میں مقیم ہوں یا کہیں سے بحیثیت زائر آئے ہوں تو ان کے لئے مسجد نبوی کی زیارت کے علاوہ مسجدقبا،بقیع الغرقد اور شہداء احد کی زیارت مشروع ہے ۔
مسجد نبوی : مسجد نبوی کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے حرم مکی کے علاوہ مسجد نبوی میں ایک وقت کی نماز دنیا کی دیگر مقامات میں چھے مہینے بیس دن سے برترہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :صلاةٌ في مسجدي هذا خيرٌ من ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ، إلا المسجدَ الحرامَ(صحيح البخاري:1190)
ترجمہ: میری اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے سوائے مسجد حرام کے ۔
اسے حرم مدنی بھی کہتے ہیں ۔ اس میں ایک جگہ ایسی ہے جو جنت کے باغوں میں سے ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما بين منبري وبيتي روضةٌ من رياضِ الجنةِ(صحيح مسلم:1390)
ترجمہ: میرے منبراور میرے گھر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔
مسجد نبوی کی زیارت کے آداب :
(1) مسجدنبوی میں داخل ہوتے وقت دایاں پیرآگے کریں اوریہ دعاپڑھیں : أَعوذُ باللهِ العَظيـم وَبِوَجْهِـهِ الكَرِيـم وَسُلْطـانِه القَديـم مِنَ الشّيْـطانِ الرَّجـيم، بِسْمِ اللَّهِ، وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولِ الله، اللّهُـمَّ افْتَـحْ لي أَبْوابَ رَحْمَتـِك.
(2)دورکعت نمازتحیۃ المسجدکی نیت سے پڑھیں ، اگریہ نمازریاض الجنۃ میں اداکریں تو زیادہ بہترہے اور خوب دعاکریں۔
(3) اس کے بعد رسول اکرم ﷺ پرنہایت ادب واحترام سے درودوسلام عرض کریں ، سلام کے لئے یہ الفاظ کہنا مسنون ہیں : (السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته , صلى الله عليك وجزاك عن أمتك خيرالجزاء) پھرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ پر "السلام علیک یاابابکر! ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،رضی اللہ عنک وجزاک عن امۃ محمد خیراً" اورحضرت عمررضی اللہ عنہ پر" السلام علیک یاعمربن الخطاب! ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،رضی اللہ عنک وجزاک عن امۃ محمد خیراً" کے ذریعہ سلام کہیں ۔
(4)عورتوں کے لئے بکثرت قبروں کی زیارت جائزنہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے لیکن کبھی کبھار زیارت کرسکتی ہیں ۔
(5) زائر ین کے لئے زیادہ سے زیادہ مسجد نبوی میں ٹھہرنا ، کثرت سے دعاواستغفار، ذکرواذکار، تلاوت قرآن اور دیگر نفلی عبادات واعمال صالحہ کرنا چاہئے۔
(6) مسجد سے نکلنے وقت یہ دعا پڑھیں: بسْـمِ اللَّـهِ وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ، اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم.
2/ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی مشکل کا سوال کرنایابیماری کی شفاکا سوال کرنایا اسی طرح کی دیگرچیزوں کا سوال کرنا جائزنہیں ہے ، یہ سب چیزین صرف اللہ تعالی سے مانگی جائیں گی ، گذرے ہوئے لوگوں سے مانگنااللہ کے ساتھ شرک اور غیراللہ کی عبادت کرناہے ۔
3/ بعض لوگ نبی کی قبرکی طرف کھڑ ے ہوکراورہاتھ اٹھاکر مستقل دعاکرتے ہیں یہ بھی خلاف سنت ہے ، مسنون یہ ہے کہ وہ قبلہ رخ ہوکر اللہ تعالی سے مانگے ۔
4/ اسی طرح آپ کی قبرکے پاس آوازبلندکرنا،دیرتک ٹھہرے رہنا، مخصوص دعا پڑھنا یا ہزارولاکھ مرتبہ درود پڑھ کر ہدیہ کرنا خلاف سنت ہے ۔
5/ بعض لوگ آپ پردرودوسلام بھیجتے وقت سینے پر یانیچے نمازکی طرح ہاتھ باندھ لیتے ہیں جوکہ خشوع وخضوع اورعبادت کی ہیئت ہے اوریہ صرف اللہ کے لئے بجاہے ۔
6/ موجودہ منبر نبی ﷺ کے دور کا نہیں ہے ،گرہوتا بھی تو اس سے برکت لینایا ریاض الجنۃ کے ستونوں سے برکت لینا اور بطور خاص ان کے پاس نماز کا قصد کرنا جائز نہیں ہے ۔
7/ نبی ﷺ کے متعلق دنیا کی طرح سلام کی آواز سننے یا سلام کے وقت روح لوٹائے جانے کا عقیدہ رکھنا غلط ہے ۔
بقیع الغرقد: جنت البقیع نام صحیح نہیں ہے ، حدیث میں اس کا نام بقیع الغرقد آیاہے ۔ یہ اہل مدینہ کا قبرستان ہے اس میں تقریبا دس ہزار انصار ومہاجرین اور ازواج مطہرات مدفون ہیں مگر مرورزمانہ اور خاص کر بغل سے بہنے والامہزورنامی نالہ کی وجہ سے معدودے چند کے کسی کی قبر کی پہچانی نہیں جاتی ۔بعض کتابوں میں بہت سی قبروں کی شناخت کی گئی ہے ، یہ سب اندازے پہ منحصر ہیں۔ قبریں تو مٹنی ہی ہیں کیونکہ اسلام نے قبروں کو اونچاکرنے ،اس پہ چراغان کرنے ، عمارت بنانے اور پختہ کرنے سے منع کیا ہے تاکہ اسے سجدہ گاہ نہ بنالیاجائے ۔
بقیع الغرقد کی زیارت کے وقت شرعی آداب ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب میرے یہاں رات بسر کرتے تو رات کے آخری پہر بقیع جاتے اور یہ دعا پڑھتے :
السلام عليكم دارَ قومٍ مؤمنين . وأتاكم ما تُوعدون غدًا . مُؤجَّلون . وإنا ، إن شاء الله ، بكم لاحقون . اللهمَّ ! اغفِرْ لأهلِ بقيعِ الغَرْقدِ (صحيح مسلم:974)
ہم بھی یہ دعا پڑھیں ، اس کے علاوہ بھی میت کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرسکتے ہیں۔ مگر دھیان رہے کہ اہل قبر کے وسیلے سے دعاکرنا،قبروں کے پاس تعظیماہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، اسے سجدہ یا طواف کرنا،وہاں نوحہ کرنا،قبر والے کے لئے یاقبرکی طرف توجہ کرکے نمازپڑھنا،بطورتبرک قبرکی مٹی اٹھانا یا قبروں اور دیوارقبرستان کو چومناچاٹنا اور اہل قبور کے ایصال ثواب کے واسطے درود،سورہ فاتحہ، چاروں قل، سورہ یسین اور سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا ،یہ سارے امور ناجائز ہیں،اس لئے ہمیں ان کاموں سے ہرحال میں بچنا ہے ۔
مسجد قبا: نبی ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت اس مسجد کو بنایاتھا ۔اس کی بھی بڑی فضیلت وارد ہے ۔ چند احادیث دیکھیں ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ، رَاكِباً وَمَاشِياً، فَيُصَلِّي فِيهِ رَكْعَتَيْنِ(صحيح مسلم:1399)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ پیدل یا سوار ہو کر قباء تشریف لاتے اور دو رکعت (نماز نفل) ادا کرتے۔
وَعَنْ سَهْل بن حُنَيْفٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ ثمَّ أَتَى مَسْجِدَ قُبَاءَ فَصَلَّى فِيهِ صَلاَةً كَانَ لَهُ كَأَجْرِ عُمْرَةٍ(صحيح ابن ماجه:1168)
ترجمہ: حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا اور پھرمسجد قباء میں آکر نماز ادا کی تو اسے ایک عمرہ کا ثواب ملے گا۔
ان احادیث کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ہفتہ کے دن ہو یا جس فرصت ملے گھر سے وضو کرکے آئیں اور مسجد قبا میں نماز ادا کریں تاکہ عمرہ کے برابر ثواب پاسکیں ۔ نماز کے علاوہ اس مسجد میں دیگر کسی مخصوص عبادت کا ذکر نہیں ملتا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ اہل مدینہ یا زائرین مدینہ کے علاوہ کسی دوسرے مقام سے صرف مسجد قبا کی زیارت پہ آنا مشروع نہیں ہے ۔
شہداء احد : مدینہ میں احد نام کاایک پہاڑ ہے اس کے دامن میں ہجرت کے تیسرے سال مسلمانوں اور قریش کے درمیان لڑائی ہوئی جو غزوہ احد کے نام سے مشہور ہے ۔ اس غزوہ میں ستر صحابہ کرام (64 انصاری ،6 مہاجر) شہید ہوئے ۔انہیں اسی پہاڑی دامن میں دفن کیاگیا ۔ شہدائے احد میں سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب، مصعب بن عمیر، عبد اللہ بن حجش، جابربن عبداللہ بن عمروبن حرام،عمروبن جموح،سعد بن ربیع،خارجہ بن زید،نعمان بن مالک اور عبدہ بن حسحاس رضی اللہ عنہم قابل ذکرہیں۔
امام طبری ؒ لکھتے ہیں کہ میدان احد میں قبلے کی طرف شہدائے احد کی قبریں ہیں ، ان میں سے کوئی قبر معلوم نہیں سوائے حمزہ رضی اللہ عنہ کے ۔
شہدائےاحد کی زیارت اسی طرح کریں جیسے بقیع الغرقد کے تحت لکھا ہے ۔ جن باتوں سے منع کیا گیا ہے یہاں بھی ان باتوں سے گریزکریں اور یہ بات ذہن میں بٹھائیں کہ جبل احد پہ چڑھنا کوئی عبادت نہیں
ہے نہ ہی وہاں کے درختوں ،پتھروں اور غاروں میں کپڑے اور دھاگے باندھیں خواہ کسی نیت سے ہو۔
(2) آپ کو اللہ تعالی نے شہر نبی ﷺکی زیارت کا موقع عطا کیا۔ اس پہ اللہ کا شکربجالائیں ساتھ ہی نبی ﷺ سے ساری کائنات سے زیادہ حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرنے کا عزم مصمم کریں ۔ آپ ﷺ سے محبت ایمان کا حصہ ہے ۔ محبت کی علامات میں سے ہے کہ آپ ﷺ کی سنت کا علم حاصل کیاجائے ، اس پہ عمل کیاجائے اور دوسروں تک اس کو پہنچایا جائے ۔ اس مضمون کے ذریعہ زیارت کے جو آداب معلوم ہوئے اس پہ عمل کرنا اور اسے پھیلانا بھی حب نبی ﷺ میں داخل ہے ۔
(3) اللہ کے یہاں کسی بھی عمل کی قبولیت کے لئے تین شرطیں ہیں ، ہمیشہ انہیں ذہن میں رکھیں۔
پہلی شرط نیت کا خالص ہونا:نبی ﷺکا فرمان ہے :بے شک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔ (بخاری)
دوسری شرط عقیدہ توحید کا ہونا:یعنی عمل کرنے والے کا اگر عقیدہ درست نہیں تو نیک عمل بھی قبول نہیں ہوتا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورة الانعام ٨٨ )
ترجمہ:اور اگر بالفرض {انبیاء عليهم السلام } بهی شرک کرتے تو ان کے بهی کیے ہوئے تمام اعمال ضائع کر دیئے جاتے۔
تیسری شرط عمل کا سنت کے مطابق ہونا: کیونکہ جو عمل نبی ﷺ کے سنت کے مطابق نہ ہو وہ بھی برباد کردیا جاتاہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہورد(بخاری)
ترجمہ: وہ عمل جس پر میرا حکم نہیں ، مردود ہے۔
احادیث رسول کی روشنی میں مدینہ نبویہ کے بے شمار فضائل ہیں چند فضائل پیش خدمت ہیں ۔
٭مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے :والمدينةُ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون .(صحيح البخاري:1875)
ترجمہ: اور مدینہ ان کے لئے باعث خیروبرکت ہے اگر علم رکھتے ۔
٭یہ حرم پاک ہے : إنها حرَمٌ آمِنٌ(صحيح مسلم:1375)
ترجمہ: بے شک مدینہ امن والا حرم ہے ۔
٭فرشتوں کے ذریعہ طاعون اور دجال سے مدینے کی حفاظت: على أنقابِ المدينةِ ملائكةٌ ، لا يدخُلُها الطاعونُ ، ولا الدجالُ(صحيح البخاري:7133)
ترجمہ:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔
٭مدینے میں ایمان سمٹ جائے گا: إن الإيمانَ ليأْرِزُ إلى المدينةِ ، كما تأْرِزُ الحيةُ إلى جُحرِها.(صحيح البخاري:1876)
ترجمہ: مدینہ میں ایمان اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ جاتا ہے۔
٭مدینہ سے محبت کرناہے:اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّ(صحيح البخاري:1889)
ترجمہ: اے اللہ ! مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔
٭مدینہ میں مرنے والے کے لئے شفاعت نبوی : منِ استطاع أن يموتَ بالمدينةِ فلْيفعلْ فإني أشفعُ لمن ماتَ بها(السلسلة الصحيحة:6/1034)
ترجمہ: جو شخص مدینہ شریف میں رہے اور مدینے ہی میں اس کو موت آئے میں اس کی شفارش کروں گا۔
قابل صدرشک ہیں وہ لوگ جو مدینے میں ہیں یا اس کی زیارت پہ اللہ کی طرف سے بلائے گئے ۔ اس مبارک سرزمین پہ مسجد نبوی ﷺ ہے جسے آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے تعمیرکیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس مسجد کی زیارت کا حکم فرمایاہے : لا تُشَدُّ الرحالُ إلا إلى ثلاثةِ مساجدَ : مسجدِ الحرامِ، ومسجدِ الأقصَى، ومسجدي هذا(صحيح البخاري:1995)
ترجمہ: مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ( حصول ثواب کی نیت سے) کسی دوسری جگہ کا سفر مت کرو۔
گویا ثواب کی نیت سے دنیا کی صرف تین مساجد کی زیارت کرنا جائز ہے باقی مساجد اور مقبروں کی زیارت کرنا جائز نہیں۔
البتہ جولوگ مدینے میں مقیم ہوں یا کہیں سے بحیثیت زائر آئے ہوں تو ان کے لئے مسجد نبوی کی زیارت کے علاوہ مسجدقبا،بقیع الغرقد اور شہداء احد کی زیارت مشروع ہے ۔
مسجد نبوی : مسجد نبوی کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے حرم مکی کے علاوہ مسجد نبوی میں ایک وقت کی نماز دنیا کی دیگر مقامات میں چھے مہینے بیس دن سے برترہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :صلاةٌ في مسجدي هذا خيرٌ من ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ، إلا المسجدَ الحرامَ(صحيح البخاري:1190)
ترجمہ: میری اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے سوائے مسجد حرام کے ۔
اسے حرم مدنی بھی کہتے ہیں ۔ اس میں ایک جگہ ایسی ہے جو جنت کے باغوں میں سے ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما بين منبري وبيتي روضةٌ من رياضِ الجنةِ(صحيح مسلم:1390)
ترجمہ: میرے منبراور میرے گھر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔
مسجد نبوی کی زیارت کے آداب :
(1) مسجدنبوی میں داخل ہوتے وقت دایاں پیرآگے کریں اوریہ دعاپڑھیں : أَعوذُ باللهِ العَظيـم وَبِوَجْهِـهِ الكَرِيـم وَسُلْطـانِه القَديـم مِنَ الشّيْـطانِ الرَّجـيم، بِسْمِ اللَّهِ، وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولِ الله، اللّهُـمَّ افْتَـحْ لي أَبْوابَ رَحْمَتـِك.
(2)دورکعت نمازتحیۃ المسجدکی نیت سے پڑھیں ، اگریہ نمازریاض الجنۃ میں اداکریں تو زیادہ بہترہے اور خوب دعاکریں۔
(3) اس کے بعد رسول اکرم ﷺ پرنہایت ادب واحترام سے درودوسلام عرض کریں ، سلام کے لئے یہ الفاظ کہنا مسنون ہیں : (السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته , صلى الله عليك وجزاك عن أمتك خيرالجزاء) پھرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ پر "السلام علیک یاابابکر! ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،رضی اللہ عنک وجزاک عن امۃ محمد خیراً" اورحضرت عمررضی اللہ عنہ پر" السلام علیک یاعمربن الخطاب! ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،رضی اللہ عنک وجزاک عن امۃ محمد خیراً" کے ذریعہ سلام کہیں ۔
(4)عورتوں کے لئے بکثرت قبروں کی زیارت جائزنہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے لیکن کبھی کبھار زیارت کرسکتی ہیں ۔
(5) زائر ین کے لئے زیادہ سے زیادہ مسجد نبوی میں ٹھہرنا ، کثرت سے دعاواستغفار، ذکرواذکار، تلاوت قرآن اور دیگر نفلی عبادات واعمال صالحہ کرنا چاہئے۔
(6) مسجد سے نکلنے وقت یہ دعا پڑھیں: بسْـمِ اللَّـهِ وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ، اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم.
مسجدنبوی کی زیارت کرنے والوں کے لئے تنبیہات
1/حجرہ نبوی کی کھڑکیوں اورمسجدکے دیواروں کوبرکت کی نیت سے چھونایابوسہ لینایاطواف کرناجائزنہیں ہے بلکہ یہ سب بدعت والے اعمال ہیں ۔2/ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی مشکل کا سوال کرنایابیماری کی شفاکا سوال کرنایا اسی طرح کی دیگرچیزوں کا سوال کرنا جائزنہیں ہے ، یہ سب چیزین صرف اللہ تعالی سے مانگی جائیں گی ، گذرے ہوئے لوگوں سے مانگنااللہ کے ساتھ شرک اور غیراللہ کی عبادت کرناہے ۔
3/ بعض لوگ نبی کی قبرکی طرف کھڑ ے ہوکراورہاتھ اٹھاکر مستقل دعاکرتے ہیں یہ بھی خلاف سنت ہے ، مسنون یہ ہے کہ وہ قبلہ رخ ہوکر اللہ تعالی سے مانگے ۔
4/ اسی طرح آپ کی قبرکے پاس آوازبلندکرنا،دیرتک ٹھہرے رہنا، مخصوص دعا پڑھنا یا ہزارولاکھ مرتبہ درود پڑھ کر ہدیہ کرنا خلاف سنت ہے ۔
5/ بعض لوگ آپ پردرودوسلام بھیجتے وقت سینے پر یانیچے نمازکی طرح ہاتھ باندھ لیتے ہیں جوکہ خشوع وخضوع اورعبادت کی ہیئت ہے اوریہ صرف اللہ کے لئے بجاہے ۔
6/ موجودہ منبر نبی ﷺ کے دور کا نہیں ہے ،گرہوتا بھی تو اس سے برکت لینایا ریاض الجنۃ کے ستونوں سے برکت لینا اور بطور خاص ان کے پاس نماز کا قصد کرنا جائز نہیں ہے ۔
7/ نبی ﷺ کے متعلق دنیا کی طرح سلام کی آواز سننے یا سلام کے وقت روح لوٹائے جانے کا عقیدہ رکھنا غلط ہے ۔
بقیع الغرقد: جنت البقیع نام صحیح نہیں ہے ، حدیث میں اس کا نام بقیع الغرقد آیاہے ۔ یہ اہل مدینہ کا قبرستان ہے اس میں تقریبا دس ہزار انصار ومہاجرین اور ازواج مطہرات مدفون ہیں مگر مرورزمانہ اور خاص کر بغل سے بہنے والامہزورنامی نالہ کی وجہ سے معدودے چند کے کسی کی قبر کی پہچانی نہیں جاتی ۔بعض کتابوں میں بہت سی قبروں کی شناخت کی گئی ہے ، یہ سب اندازے پہ منحصر ہیں۔ قبریں تو مٹنی ہی ہیں کیونکہ اسلام نے قبروں کو اونچاکرنے ،اس پہ چراغان کرنے ، عمارت بنانے اور پختہ کرنے سے منع کیا ہے تاکہ اسے سجدہ گاہ نہ بنالیاجائے ۔
بقیع الغرقد کی زیارت کے وقت شرعی آداب ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب میرے یہاں رات بسر کرتے تو رات کے آخری پہر بقیع جاتے اور یہ دعا پڑھتے :
السلام عليكم دارَ قومٍ مؤمنين . وأتاكم ما تُوعدون غدًا . مُؤجَّلون . وإنا ، إن شاء الله ، بكم لاحقون . اللهمَّ ! اغفِرْ لأهلِ بقيعِ الغَرْقدِ (صحيح مسلم:974)
ہم بھی یہ دعا پڑھیں ، اس کے علاوہ بھی میت کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرسکتے ہیں۔ مگر دھیان رہے کہ اہل قبر کے وسیلے سے دعاکرنا،قبروں کے پاس تعظیماہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، اسے سجدہ یا طواف کرنا،وہاں نوحہ کرنا،قبر والے کے لئے یاقبرکی طرف توجہ کرکے نمازپڑھنا،بطورتبرک قبرکی مٹی اٹھانا یا قبروں اور دیوارقبرستان کو چومناچاٹنا اور اہل قبور کے ایصال ثواب کے واسطے درود،سورہ فاتحہ، چاروں قل، سورہ یسین اور سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا ،یہ سارے امور ناجائز ہیں،اس لئے ہمیں ان کاموں سے ہرحال میں بچنا ہے ۔
مسجد قبا: نبی ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت اس مسجد کو بنایاتھا ۔اس کی بھی بڑی فضیلت وارد ہے ۔ چند احادیث دیکھیں ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ، رَاكِباً وَمَاشِياً، فَيُصَلِّي فِيهِ رَكْعَتَيْنِ(صحيح مسلم:1399)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ پیدل یا سوار ہو کر قباء تشریف لاتے اور دو رکعت (نماز نفل) ادا کرتے۔
وَعَنْ سَهْل بن حُنَيْفٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ ثمَّ أَتَى مَسْجِدَ قُبَاءَ فَصَلَّى فِيهِ صَلاَةً كَانَ لَهُ كَأَجْرِ عُمْرَةٍ(صحيح ابن ماجه:1168)
ترجمہ: حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا اور پھرمسجد قباء میں آکر نماز ادا کی تو اسے ایک عمرہ کا ثواب ملے گا۔
ان احادیث کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ہفتہ کے دن ہو یا جس فرصت ملے گھر سے وضو کرکے آئیں اور مسجد قبا میں نماز ادا کریں تاکہ عمرہ کے برابر ثواب پاسکیں ۔ نماز کے علاوہ اس مسجد میں دیگر کسی مخصوص عبادت کا ذکر نہیں ملتا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ اہل مدینہ یا زائرین مدینہ کے علاوہ کسی دوسرے مقام سے صرف مسجد قبا کی زیارت پہ آنا مشروع نہیں ہے ۔
شہداء احد : مدینہ میں احد نام کاایک پہاڑ ہے اس کے دامن میں ہجرت کے تیسرے سال مسلمانوں اور قریش کے درمیان لڑائی ہوئی جو غزوہ احد کے نام سے مشہور ہے ۔ اس غزوہ میں ستر صحابہ کرام (64 انصاری ،6 مہاجر) شہید ہوئے ۔انہیں اسی پہاڑی دامن میں دفن کیاگیا ۔ شہدائے احد میں سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب، مصعب بن عمیر، عبد اللہ بن حجش، جابربن عبداللہ بن عمروبن حرام،عمروبن جموح،سعد بن ربیع،خارجہ بن زید،نعمان بن مالک اور عبدہ بن حسحاس رضی اللہ عنہم قابل ذکرہیں۔
امام طبری ؒ لکھتے ہیں کہ میدان احد میں قبلے کی طرف شہدائے احد کی قبریں ہیں ، ان میں سے کوئی قبر معلوم نہیں سوائے حمزہ رضی اللہ عنہ کے ۔
شہدائےاحد کی زیارت اسی طرح کریں جیسے بقیع الغرقد کے تحت لکھا ہے ۔ جن باتوں سے منع کیا گیا ہے یہاں بھی ان باتوں سے گریزکریں اور یہ بات ذہن میں بٹھائیں کہ جبل احد پہ چڑھنا کوئی عبادت نہیں
ہے نہ ہی وہاں کے درختوں ،پتھروں اور غاروں میں کپڑے اور دھاگے باندھیں خواہ کسی نیت سے ہو۔
زائرین کے لئے تین اہم نصیحتیں
(1)مذکورہ بالا مقامات مقدسہ یعنی مسجد نبوی ،نبی ﷺکی قبرمبارک،حضرت عمروابوبکررضی اللہ عنہماکی قبروں،ریاض الجنۃ،مسجدقبا،بقیع قبرستان اور قبرستان شہداءاحد کے علاوہ مدینہ کے دیگر مقامات کی ثواب کی نیت سے زیارت کرنا شرعا جائز نہیں ہے خواہ مساجدہوں مثلا مساجدسبعہ،مسجدجبل احد،مسجدقبلتین،مسجدجمعہ یا مساجدعیدگاہ وغیرہ خواہ کوئی تاریخی مقام مثلا میدان بدریابئرروحاء جسے بدعتیوں نے بئرشفا نام دے رکھاہے ۔اس لئے اپنا وقت اور روپیہ پیسہ فضول خرچ کرنے سے بہتر ہے کسی مسکین کو صدقہ کردیں۔ (2) آپ کو اللہ تعالی نے شہر نبی ﷺکی زیارت کا موقع عطا کیا۔ اس پہ اللہ کا شکربجالائیں ساتھ ہی نبی ﷺ سے ساری کائنات سے زیادہ حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرنے کا عزم مصمم کریں ۔ آپ ﷺ سے محبت ایمان کا حصہ ہے ۔ محبت کی علامات میں سے ہے کہ آپ ﷺ کی سنت کا علم حاصل کیاجائے ، اس پہ عمل کیاجائے اور دوسروں تک اس کو پہنچایا جائے ۔ اس مضمون کے ذریعہ زیارت کے جو آداب معلوم ہوئے اس پہ عمل کرنا اور اسے پھیلانا بھی حب نبی ﷺ میں داخل ہے ۔
(3) اللہ کے یہاں کسی بھی عمل کی قبولیت کے لئے تین شرطیں ہیں ، ہمیشہ انہیں ذہن میں رکھیں۔
پہلی شرط نیت کا خالص ہونا:نبی ﷺکا فرمان ہے :بے شک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔ (بخاری)
دوسری شرط عقیدہ توحید کا ہونا:یعنی عمل کرنے والے کا اگر عقیدہ درست نہیں تو نیک عمل بھی قبول نہیں ہوتا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (سورة الانعام ٨٨ )
ترجمہ:اور اگر بالفرض {انبیاء عليهم السلام } بهی شرک کرتے تو ان کے بهی کیے ہوئے تمام اعمال ضائع کر دیئے جاتے۔
تیسری شرط عمل کا سنت کے مطابق ہونا: کیونکہ جو عمل نبی ﷺ کے سنت کے مطابق نہ ہو وہ بھی برباد کردیا جاتاہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہورد(بخاری)
ترجمہ: وہ عمل جس پر میرا حکم نہیں ، مردود ہے۔
تحریر: مقبول احمد سلفی
دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد شمال الطائف(مسرہ)
دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد شمال الطائف(مسرہ)