سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت
رسول اللہ ﷺ نے خیبر والے دن فرمایا:(( لأ عطین ھٰذہ الرایۃ غذاً رجلاً یفتح اللہ علٰی یدیہ، یحب اللہ ورسولہ و یحبہ اللہ ورسولہ ))
میں کل ضرور اُس آدمی کو یہ جھنڈا دوں گا، جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس ہے رسول (محمدﷺ) اس سے محبت کرتے ہیں۔
جب صبح ہوئی تو سب لوگ سویرے سویرے ہی رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئے،
ہر آدمی یہ چاہتا تھا کہ جھنڈا اسے ملے۔ آپ (ﷺ) نے پوچھا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا: یا رسول اللہ! وہ آنکھوں ہے درد میں مبتلا ہیں۔ آپ نے فرمایا: انھیں بلا لاؤ۔
جب (سیدنا) علی (رضی اللہ عنہ) آئے تو آپ (ﷺ) نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا تو وہ (فوراً) اس طرح ٹھیک ہو گئے جیسے کبھی بیمار ہی نہیں تھے۔ آپ (ﷺ) نے (سیدنا) علی (رضی اللہ عنہ) کو جھنڈا دیا اور فرمایا: اللہ کی قسم اگر تیری وجہ سے ایک آدمی بھی ہدایت پر آجائے تو تیرے لئے یہ مالِ غنیمت کے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
(صحیح البخاری:۲۹۴۲ وصحیح مسلم: ۲۴۰۶/۳۴)
اللہ تعالیٰ نے غزوۂ خیبر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا کتنا بلند مقام ہے کہ اللہ اور رسول ان سے محبت کرتے ہیں۔
مشہور جلیل القدر صحابی اور فاتح قادسیہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے علی (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:
(( أنت مني بمنزلۃ ھارون من موسیٰ، إلا أنہ لا نبي بعدي ))
تیری میرے ساتھ وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسیٰ (علیھم السلام) سے ہے إلا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
(البخاری:۳۷۰۶ و مسلم: ۲۴۰۴/۳۰)
اس حدیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن یاد رہے کہ اس کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات (اللہ) کی قسم ہے جس نے دانہ پھاڑا (فصل اُگائی) اور مخلوقات پیدا کیں، میرے ساتھ نبی امی ﷺ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میرے ( علی رضی اللہ عنہ کے) ساتھ محبت صرف مومن ہی کرے گا اور (مجھ سے) بغض صرف منافق ہی رکھے گا۔
(مسلم: ۷۸/۱۳۱)
معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مومنین محبت کرتے ہیں اور بغض کرنے والے منافق ہیں۔
تمام اہلِ سنت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور پیار کرتے ہیں۔
یاد رہے محبت کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کا درجہ بڑھا کر مشکل کشا اور حاجت روا بنا دے یا آپ کے عظیم الشان ساتھیوں اور صحابہ اکرام کو برا کہنا شروع کر دے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں خوب فرمایا ہے کہ
“میرے بارے میں دو (قسم کے) شخص ہلاک ہو جائیں گے (۱) غالی (اوپر محبت میں ناجائز ) افراط کرنے والا، اور (۲) بغض کرنے والا حجت باز“
(فضائل الصحابۃ للامام احمد ۵۷۱/۲ ح۹۶۴ إسنادہ حسن الحدیث: ۴ص۱۵)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ
“ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتیٰ کہ وہ میری (افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض رکھے گی حتیٰ کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہو گی“
(فضائل الصحابۃ ۵۶۵/۲ وإسنادہ صحیح، و کتاب السنۃ لابن ابی عاصم: ۹۸۳ وسندہ صحیح/ الحدیث:۴ص۱۵)
چونکہ ان دونوں اقوال کا تعلق غیب سے ہے لہٰذا یہ دونوں اقول حکماً مرفوع ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ باتیں بتائی ہوں گی۔ واللہ اعلم
معلوم ہوا کہ دو قسم کے گروہ ہلاک ہو جائیں گے:
(۱) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اندھا دھند محبت کر کے آپ کو خدا، مشکل کشا اور حاجت روا وغیرہ سمجھنے والے یا دوسرے صحابہ کو برا کہنے والے لوگ مثلاً غالی قسم کے روافض وغیرہ۔
(۲) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے لوگ مثلاً خوارج و نواصب وغیرہ۔
تنبیہ: حکیم فیض عالم صدیقی (ناصبی) وغیرہ نے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں جو گستاخیاں کی ہیں ان تمام سے اہلِ حدیث بری الذمہ ہیں۔
اہلِ حدیث کا ناصبیوں اور رافضیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہلِ حدیث کا راستہ کتاب و سنت والا راستہ ہے اور یہی اہلِ سنت ہیں۔
سیدنا امیر المومنین عمر رضی الہ عنہ نے فرمایا کہ
نبی ﷺ نے اس حالت میں وفات پائی کہ
آپ (ﷺ) علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد (بن ابی وقاص) اور عبدالرحمٰن (بن عوف رضی اللہ عنہم اجمعین) سے راضی تھے۔
(البخاری:۳۷۰۰)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جب یہ آیت
{ نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ } ہم اپنی اولاد لے آئیں اور تم اپنی اولاد لے آؤ (آل عمران:۶۱) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنھم) کو بلایا۔
پھر فرمایا:
(( اللھم ھٰؤلاء أھلي ))
اے اللہ! یہ میرے اہل (اہلِ بیت) ہیں۔
(صحیح مسلم: ۲۴۰۴/۳۲ و دارالسلام: ۶۲۲۰)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
نبی ﷺ نے چادر کے نیچے فاطمہ، حسن، حسین اور علی (رضی اللہ عنھم) کو داخل کر کے فرمایا:
{ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْـرًا }
اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اے اہلِ بیت تم سے نجاست دور کر دے اور تمھیں خوب پاک و طاہر کر دے۔
[الاحزاب:۳۳] (صحیح مسلم:۲۴۲۴)
ان صحیح احادیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہے۔ یاد رہے کہ امہات المومنین بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“ نساءہ من أھل بیتہ “ آپ کی بیویاں آپ کے اہلِ بیت میں سے ہیں۔
(صحیح مسلم: ۲۴۰۸ و دارالسلام: ۶۲۲۵)
عمومِ قرآن بھی اسی کا مؤید ہے۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(( إن علیاً مني وأنا منہ وھو ولي کل مؤمن ))
بےشک علی مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی ہیں۔
(الترمذی: ۳۷۱۲ وإسنادہ حسن)
یعنی رسول اللہ ﷺ علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ ہر مومن علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی ﷺ نے فرمایا:
((من کنت مولاہ فعلي مولاہ ))جس کا میں مولیٰ ہوں تو علی اس کے مولیٰ ہیں۔
(الترمذی:۳۷۱۳ وسندہ صحیح )
نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(( أنت أخونا و مولانا ))
تو ہمارا بھائی اور مولیٰ ہیں۔
(البخاری:۲۶۹۹)
آپ ﷺ نے سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
(( ھٰذا مني وأنا منہ )) یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
(صحیح مسلم: ۲۴۷۲/۳۱ و دارالسلام:۶۳۵۸)
بعض روافض کا حدیثِ ولایت سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافتِ بلافصل کا دعویٰ کرنا ان دلائل سابقہ و دیگر دلائل کی رُد سے باطل ہے۔
ایک دفعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے تو
نبی کریم ﷺ نے آپ کےلئے دُعا فرمائی:
(( اللھم عافہ أو اشفہ )) اے اللہ اسے عافیت یا شفا عطا فرما۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں اس کے بعد کبھی بیمار نہیں ہوا۔
(سُنن الترمذی: ۳۵۶۴ وقال: “ھٰذا حدیث حسن صحیح” وإسنادہ حسن)
مشہور تابعی ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے آپ (امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ) کو منبر پر کھڑے دیکھا۔ آپ کا سر اور داڑھی سفید تھی۔
(کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی۶۲۱/۲ وسندہ صحیح، تاریخ دمشق۱۷/۴۵ مصنف عبدالرزاق ۱۸۸/۳، ۱۸۹ ح۵۲۶۷)
اس سے معلوم ہوا کہ بالوں کو مہندی یا سرخ رنگ لگانا واجب (فرض) نہیں ہے۔
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:“ ارقبوا محمداً ﷺ في أھل بیتہ “
(سیدنا) محمد ﷺ کی رضا مندی آپ کے اہلِ بیت (کی محبت) میں تلاش کرو۔
(البخاری:۳۷۱۳)
یعنی جو شخص سیدنا علی، سیدنا حسین، سیدنا حسن اور تمام اصحابۂ اکرام سے محبت کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ نبی کریم ﷺ کا ساتھی ہو گا۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“ أول من أسلم علي “ سب سے پہلے علی(رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے تھے۔
ابراہیم نخعی (تابعی صغیر) نے صحابئ رسول کے اس قول کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے
ابوبکر الصدیق (رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے تھے۔
(الترمذی:۳۷۳۵ وقال: “ھٰذا حدیث حسن صحیح” وسندہ صحیح)
یعنی بچوں میں سب سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے اور مردوں میں سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے مسلمان ہوئے تھے۔
واللہ اعلم
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ “أول من أسلم علي رضي اللہ عنہ”
سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تھے۔
(معجم الصحابۃ للبغوی ج۴ص۳۵۷ج۱۸۱۰ وسندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ“ کرنا نتحدث أن أفضل (أقصیٰ) أھل المدینۃ علي بن أبي طالب “
ہم باتیں کرتے تھے کہ اہلِ مدینہ میں سب سے افضل (اقصیٰ) علی بن ابی طالب ہیں۔
(فضائل الصحابۃ للامام احمد۶۰۴/۲ح۱۰۳۳ وسندہ صحیح)
غزوۂ خیبر کے موقع پر مرحب یہودی کی للکار کا جواب دیتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“أنا الذي سمتني أمي حیدرۃ “ میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے، میں وہ ( حیدر/شیر ) ہوں۔
(صحیح مسلم:۱۸۰۷ و دارالسلام:۴۷۸)
پھر آپ نے مرحب یہودی کو قتل کر دیا اور فتح خیبر آپ کے ہاتھ پر ہوئی،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر (رضی اللہ عنھم) حراء (پہاڑ) پر تھے کہ وہ
(زلزلے کی وجہ سے) ہلنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رک جا، اس وقت تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید (ہی) کھڑے ہیں۔
(صحیح مسلم:۴۱۷ و دارالسلام:۲۶۴۷)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(( من آذی علیاً فقد آذاني ))
جس نے علی (رضی اللہ عنہ) کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔
( فضائل الصحابۃ/زیادات القطیعی:۱۰۷۸ وسندہ حسن ولہ شاہد عند ابن حبان، الموارد:۲۲۰۲ والحاکم۱۲۳/۳ وصححہ ووافقہ الذہبی)
ایک دفعہ (بعض) لوگوں نے (سیدنا) علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا:(( أیھا الناس لا تشکوا علیاً فو اللہ إنہ لأخشن في ذات اللہ أو في سبیل اللہ ))
لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم بےشک وہ اللہ کی ذات یا اللہ کے راستے میں بہت زیادہ خشیت (خوف) رکھتے ہیں۔
(مسند احمد ۸۶/۳ والحاکم۱۳۴/۳ وصححہ ووافقہ الذہبی وسندہ حسن)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے اُمید ہے کہ میں ، عثمان، طلحہ اور زبیر (رضی اللہ عنھم) ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کا ذکر اللہ نے (قرآن مجید میں) کیا ہے۔ { وَنَزَعْنَا مَا فِىْ صُدُوْرِهِـمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِيْنَ } (الحجر:۴۷)
اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ہم اسے نکال دیں گے اور وہ چارپائیوں پر، بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
( فضائل الصحابۃ/زیادات القطیعی:۱۰۵۷ وسندہ صحیح)
ابو اسحاق السبیعی فرماتے ہیں:
“ رأیت علیاً…… ضخم اللحیۃ “ میں نے علی (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا آپ کی بڑی اور گھنی داڑھی تھی۔
(طبقات ابن سعد۲۵/۳ وسندہ صحیح، یونس بن ابی اسحاق بري من التدلیس)
امام اہلِ سنت: احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے تھے:
“ ماجاء لأحد من أصحاب رسول اللہ ﷺ من الفضائل ماجاء لعلي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ “
جتنے فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے (احادیث میں) آئے ہیں اتنے فضائل کسی دوسرے صحابی کے نہیں آئے۔
(مستدرک الحاکم۱۰۸،۱۰۷/۳ح۴۵۷۲ وسندہ حسن)
مختصر یہ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بدری، من السابقین الاولین، امیر المومنین خلیفۂ راشد اور خلیفۂ چہارم تھے۔ آپ کے فضائل بےشمار ہیں جن کے احاطے کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہے۔
امام ابوبکر محمد بن الحسین للآجری رحمہ اللہ (متوفی ۳۶۰ھ) فرماتے ہیں:
“ جان لو، اللہ ہم اور تم پر رحم کرے، بےشک اللہ کریم نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اعلیٰ فضیلت عطا فرمائی۔ خیر میں آپ کی پیش قدمیاں عظیم ہیں اور آپ کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ آپ عظیم فضیلت والے ہیں۔ آپ جلیل القدر، عالی مرتبہ اور بڑی شان والے ہیں۔
آپ رسول اللہ ﷺ کے بھائی اور چچا زاد، حسن و حسین کے ابا، مسلمانوں کے مردِ میدان،
رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرنے والے، ہم پلہ لوگوں سے لڑنے والے، امام عادل زاہد، دنیا سے بے نیاز (اور) آخرت کے طلب گار، متبع حق، باطل سے دور اور ہر بہترین اخلاق والے ہیں۔
اللہ و رسول آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں۔
آپ ایسے انسان ہے کہ آپ سے متقی اور مومن ہی محبت کرتا ہے اور آپ سے صرف منافق بدنصیب ہی بغض رکھتا ہے۔
عقل، علم، بردباری اور ادب کا خزانہ ہیں،
رضی اللہ عنہ “
(الشریعۃ ص۷۱۵،۷۱۴)
اے اللہ! ہمارے دلوں کو سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی اور تمام صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے۔
آمین
[الحدیث:۱۸،۱۷]