• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضَائلِ صحَابہ رضی اللہ عنھم (صحیح روایات کی روشنی میں)

شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
خلفائے راشدین سے محبت


مشہور صحابی سیدنا ابو عبدالرحمٰن سفینہ رضی اللہ عنہ، مولیٰ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( خلافة النبوة ثلاثون سنة، ثم يؤتي الله الملك أو ملكه من يشاء ))


خلافتِ نبوت تیس سال رہے گی، پھر اللہ جسے چاہے گا اپنا ملک عطا فرمائے گا۔

(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ باب فی الخلفاء ح۴۶۴۶ وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن [۲۲۲۶]
ابن حبان [الإحسان:۶۹۴۳/۶۹۰۴] اور احمد بن حنبل [السنۃ للخلال:۶۳۲] نےصحیح کہا ہے۔ نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث:۸(ص۱۱)
اس حدیث کے روای سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد کو خلفائے راشدین کی تعداد گن کر سمجھائی۔
(۱) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو سال
(۲) عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دس سال
(۳) عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال
(۴) اور علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کے چھ سال ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “ خلافت کے بارے میں سفینہ کی (بیان کردہ) حدیث صحیح ہے اور میں خلفاء (راشدین کی تعداد) کے بارے میں اس حدیث کا قائل ہوں “
(جامع العلم فصّلہ ۲۲۵/۶، الحدیث:۸ ص۱۲)

سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
“ صلّى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم،
ثم أقبل علينا، فوعظنا موعظةً بليغة ذرفت منھا العيون ووجلت منھا القلوب،
قال قائل: يا رسول الله! كأن هٰذه موعظة مودع، فماذا تعھد إلينا ؟

فقال: (( أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة، وإن عبدا حبشي، فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافاً كثيراً، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المھديين الراشدين تمسكوا بھا وعضوا عليھا بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الامور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة ))

ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف رخ کر کے انتہائی فصیح و بلیغ وعظ فرمایا جس سے ( ہمارے ) دل دہل گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کسی نے کہا:


یا رسول اللہ ! گویا یہ الوداع کہنے والے کا وعظ ہے،
آپ ہمیں کیا (حکم) ارشاد فرماتے ہیں ؟
آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اگر حبشی بھی تمھارا امیر بن جائے تو (اس کا حکم) سننا اور اطاعت کرنا۔

کیونکہ میرے بعد جو شخص زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ پس میری سنت اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو مظبوطی سے سے، دانتوں کے ساتھ پکڑ لینا اور محدثات سے بچنا کیونکہ (دین میں ) ہر محدث بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
( سنن ابی داؤد: ۴۶۰۷ واسنادہ صحیح )
اسے ترمذی (۲۶۷۶) ابن حبان (موارد:۱۰۲) حاکم ( المستدرک ۹۵/۱، ۹۶ )
اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
اس صحیح حدیث میں جن خلفائے راشدین کی سنت کو مظبوطی کے ساتھ پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں سیدنا ابوبکر الصدیق، سیدنا عمر الفاروق،
سیدنا عثمان ذوالنورین اور سیدنا علی مرتضٰی رضی اللہ عنہم مراد ہیں۔
ان میں سے پہلے دو نبی ﷺ کے سسر اور دوسرے دو داماد ہیں۔ پہلے دونوں خلفائے راشدین میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سابق الایمان اور افضل بعد رسول اللہ ﷺ علَی الاطلاق ہیں۔
پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نمبر ہے۔
دوسرے دونوں خلفائے راشدین میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی دو بیٹیوں کے شوہر ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ہیں۔

ابو الحسن الاشعری (متوفی ۳۲۴ھ) فرماتے ہیں:
“ وندین اللہ بأن الأئمۃ الأربعۃ خلفاء راشدون مھدیون فضلاء لا یوازیھم فی الفضل غیر ھم “
اور ہمارا یہ مذہب ہے کہ ائمۂ اربعہ (ابوبکر و عمر و عثمان و علی ) خلفائے راشدین مہدیین ہیں۔
یہ سب ( دوسروں سے ) افضل تھے، دوسرا کوئی (اُمتی) فضیلت میں ان کے برابر نہیں۔
( الابانة عن اصول الدیانہ ص ۶۰ فقرہ:۲۹ دوسرا نسخہ ص۱۱)
ابو جعفر الطحاوی (متوفی ۳۲۱ھ) کی طرف منسوب کتاب عقیدۂ طحاویہ میں بھی انہی خلفاء کو خلفائے راشدین قرار دیا گیا ہے۔
دیکھئے شرح عقیدہ طحاویہ تحقیق الشیخ الالبانی (ص۵۳۳۔۵۴۸)
ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ان خلفائے راشدین اور تمام صحاۂ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت رکھیں۔

تنبیہ: صحیح مسلم کے بعض نسخوں میں
“ عَن أبي ریحانۃ عَن سفینہ “ کی سند سے بیان کردہ ایک حدیث کے بعد لکھا ہوا ہے کہ
“ قال: وقد کان کبر وما کنت أئق بحدیثہ “
اس نے کہا: اور وہ بوڑھا ہو گیا تھا اور میں اس کی حدیث پر اعتماد نہیں کرتا تھا۔
(دری نسخہ ج ۱ ص ۱۴۹ ح ۳۴۶ ومع شرح النووی ج ۴ ص ۹ و فتح المسلم ج ۳ ص۱۶۴)
جبکہ حافظ ابن حجر کے طرزِ عمل اور ابن خلفون کے قول سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ
“ ھو أبو ریحانۃ “ وہ ابو ریحانہ (عبداللہ بن مطر ) ہے۔
دیکھئے تہذیب التہذیب( ج ۶ ص ۴۵،۳۴ ) اور یہی بات راجح ہے، یعنی اسماعیل بن ابراہیم(عرف ابن علیہ) کے نزدیک ابو ریحانہ عبداللہ بن مطر بوڑھا ہو گیا تھا اور وہ (ابن علیہ) اس (ابو ریحانہ) پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔
یاد رہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک ابو ریحانہ موثق ہے لہٰذا وہ حسن الحدیث ہے۔
والحمدللہ
وما علینا إلا البلاغ

[الحدیث:۳]
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت


سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
میں نے نبیﷺ سے پوچھا:
"آپ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ کے ابا (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے۔ میں نے پوچھا ان کے بعد کس سے زیادہ محبت کرتے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ سے۔
( صحیح بخاری:٣٦٦٢ و صحیح مسلم:٢٣٨٤)

محمد بن علی بن ابی طالب عرف محمد بن الحنفیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
میں نے اپنے ابا (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: نبیﷺ کے بعد کون سا آدمی سب سے بہتر( افضل) ہے؟ انہوں نے فرمایا: ابوبکر(رضی اللہ عنہ) میں نے کہا: پھر ان کے بعد کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: عمر(رضی اللہ عنہ )
(صحیح بخاری:٣٦٧١)

سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ارشادِ باری تعالی ہے:

إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا

اگر تم اللہ کے رسول کی مدد نہ کروگے تو( کچھ پروا نہیں اللہ اس کا مدد گار ہے) اس نے اپنے رسول کی مدد کی اس وقت کی تھی جب کافروں نے اسے( اس حال میں گھر سے) نکالا تھا- جب کہ دو (آدمیوں) میں دوسرا وہ تھا (اور) دونوں غار(ثور) میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: غمگین نہ ہو،یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
(التوبہ:٤٠،الکتاب ص ١١٧)

سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
صحبت اور مال کے لحاظ سے سے، ابوبکر کا مجھ پر سب سے زیادہ احسان ہے اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو اپنا خلیل بناتا لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور محبت کافی ہے۔ دیکھو! مسجد( نبوی) کی طرف تمام دروازے کھڑکیاں بند کردو سوائے ابوبکر کے دروازے کے۔
( صحیح بخاری:٣٦٥٤ و صحیح مسلم:٢٣٨٢)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہﷺ نے (صحابہ سے) پوچھا:
آج کس نے روزہ رکھا ہے؟ ابوبکر نے فرمایا: میں نے، آپﷺ نے پوچھا: آج کون جنازے کے ساتھ گیا ہے؟ ابوبکر نے فرمایا: میں گیا تھا، آپﷺ نے پوچھا: کہ آج کس نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ ابوبکر نے فرمایا: میں نے، آپ ﷺ نے پوچھا: آج کس نے کسی مریض کی بیمار پرسی کی ہے؟ ابو بکر نے فرمایا: میں نے،
تو رسول اللہﷺنے فرمایا:
(( ما اجتمعن في امري إلا دخل الجنۃ ))
یہ چیزیں جس انسان میں جمع ہو جائیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔
(صحیح مسلم: ١٠٢٨وبعد ح ٢٣٨٧)

سیدنا ابوموسیٰ الااشعری سے روایت ہے کہ نبیﷺایک باغ میں موجود تھے۔

ایک آدمی آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺنے فرمایا:
((افتح لہ وبشرہ بالجنۃ ))
اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوشخبری دو۔
یہ ابو بکر (الصدیق رضی اللہ عنہ) تھے جو باغ میں داخل ہوئے تھے۔
(صحیح بخاری:٣٦٩٣ و صحیح مسلم:٢٤٠٤)
ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
(( أبوبکر فی الجنۃ )) ابوبکر جنتی ہیں۔
( سنن الترمذی:٣٧٤٧، وإسنادہ صحیح، و صححہ ابن حبان، الاحسان: ۶۹۶۳ )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ایک دفعہ نبی ﷺ، ابوبکر، عمر اور عثمان( رضی اللہ عنہم) احد پہاڑ پر چڑھے تو (زلزلے کی وجہ سے) پہاڑ ہلنے لگا۔ آپﷺ نے اس پر اپنا پاؤں مار کر فرمایا:
(( اثبت أحد ، فإنما علیک نبي و صدیق و شھیدان ))
اے اُحد! رک جانا تیرے اوپر (اس وقت) صرف نبی، صدیق اور دو شہید موجود ہیں۔
(صحیح بخاری:٣٦٨٦)

سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“لو وزن إيمان أبي بكر بإيمان أهل الأرض لرجح به “
اگرابو بکر (صدیق) کا ایمان اور زمین والوں کے ایمان کو باہم تولا جائے تو ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کا ایمان بھاری ہوگا۔
( کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد:۸۲۱ وسندہ حسن، شعب الایمان للبیہقی:۳۶ عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث للصابونی ص ۷۱،۷۰ ح۱۱۰ / وفضائل ابی بکر لخیثمہ الاطرابلسی ص ۱۳۳)

سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل بہت زیادہ ہیں جن کی تفصیل کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں، امام اہلسنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو ابوبکر و عمر عائشہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو گالیاں دیتا ہے؟
تو انھوں نے فرمایا: میں اسے اسلام پر (مسلمان) نہیں سمجھتا۔
(السنۃ للخلال ص۴۹۳ ح ۷۷۹ وسندہ صحیح)
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد( امام احمد رحمہ اللہ) سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو کسی صحابی کو گالی دیتا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: میں ایسے شخص کو اسلام پر نہیں سمجھتا ہوں۔
(السنۃ للخلال ح ۷۸۲ وسندہ صحیح)
ثقہ فقیہ عابد تابعی امام مسروق بن الاجدع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“حب أبي بكر و عمر معرفة فضلھا من السنة”
ابوبکر و عمر سے محبت اور ان کی فضیلت ماننا سنت ہے ۔
(کتاب العلل ومعرفۃ الرجال۱۷۷/۱ ح۹۴۵ وسندہ حسن، شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ لللالکائی۲۳۲۲)

امام ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین الباقر رحمہ اللہ نے فرمایا:

“ من جھل فضل أبي بكر و عمر رضي الله عنھما فقد جھل السنة”

جس شخص کو ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل معلوم نہیں ہیں وہ شخص سنت سے جاہل ہے۔
(کتاب الشریعۃ للآجری ص۸۵۱ ح۱۸۰۳ وسندہ حسن)
امام جعفر بن محمد الصادق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“برئ الله ممن تبرأ من أبي بكر و عمر “
اللہ اس شخص سے بری ہے جو شخص ابوبکر و عمر(رضی اللہ عنہما) سے بری ہے۔
(فضائل الصحابۃ للامام احمد ۱۶۰/۱ح۱۴۳وإسنادہ صحیح)

امام ابو جعفر محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ بیماری کی حالت میں فرماتے تھے:


“ اللھم إني أتولیٰ أبابکر و عمر وأجھما، اللھم إن کان في نفسي غیر ھٰذا فلا نا لتني شفاعۃ محمد ﷺ یوم القیامۃ “

اے اللہ میں ابوبکر و عمر کو اپنا ولی مانتا ہوں اور ان دونوں سے محبت کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر میرے دل میں اس کے خلاف کوئی بات ہو تو قیامت کے دن مجھے محمدﷺ کی شفاعت نصیب نہ ہو۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر ۲۲۳/۵۷ وسندہ حسن)
امام ابو اسحاق (السبیعی) رحم اللہ نے فرمایا:
“بغض أبي بكر و عمر من الكبائر”
ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے بغض کرنا کبیرہ گناہ (کفر) ہے ۔
(فضائل الصحابۃ لعبداللہ بن احمد ۲۹۴/۱ ح ۳۸۵ وسندہ صحیح)

اے اللہ! ہمارے دلوں کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے اور اس محبت کو اور زیادہ کر دے۔
آمین

[الحدیث :١۴]
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
(سیدنا) عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت


ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے دُعا کر رہے تھے:
((اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ:‏‏‏‏ بِأَبِي جَهْلٍ،‏‏‏‏ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ))
اے اللہ! ان دو آدمیوں: ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تیرے نزدیک محبوب ہے، اس کے ذریعہ اسلام کو عزت دے یعنی اسے مسلمان کر دے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
کہ عمر (رضی اللہ عنہ) اللہ کے نزدیک محبوب ترین تھے۔
(سُنن الترمذی:۳۶۸۱ وسندہ حسن، وقال الترمذی:”ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب”)
اس نبوی دُعا کے نتیجے میں مرادِ رسول امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب عمر (رضی اللہ عنہ) نے اسلام قبول کر لیا تو ہم اس وقت سے برابر عزت میں (غالب) رہے۔
(صحیح بخاری:۳۶۸۴)

عوام الناس میں یہ مشہور ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے نکلے تو کسی نے بتایا کہ تمھاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو گئے ہیں۔ )سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے) جاکر انھیں خوب مارا، بعد میں مسلمان ہو گئے۔
یہ روایت طبقات ابن سعد (۲۶۷/۳۔۲۶۸) سُنن دارقطنی (۱۲۳/۱ ح۴۳۵) و دلائل النبوۃ للبیہقی (۲۱۹/۲، ۲۲۰) وغیرہ میں موجود ہے۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس کا راوی قاسم بن عثمان البصری جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
امام دارقطنی نے کہا: “لیس بالقوي“ اس سلسلے کی تمام روایات ضعیف و مردود ہیں دیکھئے سیرۃ ابن ہشام (۳۶۷/۱۔۳۷۱ بلا سند) والسیرۃ النبویۃ للذہبی (ص ۱۷۶۔۱۸۱)

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ نبی ﷺ بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کی تلاوت سُنی تو دل پر اثر ہوا اور مسلمان ہو گئے۔

(مسند احمد ۱۷/۱ ح ۱۰۷، اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( إِنَّهُ قَدْ كَانَ فِيمَا مَضَى قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ وَإِنَّهُ إِنْ كَانَ فِي أُمَّتِي هَذِهِ مِنْهُمْ فَإِنَّهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ))
بےشک اگلی امتوں میں محدثون (جنھیں الہام و کشف حاصل تھا) ہوتے تھے اور اگر اس اُمت میں اُن میں سے سے کوئی (محدث) ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔
(صحیح بخاری:۳۴۶۹)
اس حدیث سے دو مسئلے ثابت ہوئے:
۱: سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہ بڑی فضیلت اور شان والے ہیں۔
۲: اُمتِ مسلمہ میں کسی کو بھی کشف یا الہام نہیں ہوتا۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

اے عمر! بےشک شیطان تجھ سے ڈرتا ہے۔
(سُنن الترمذی: ۳۶۹۰ وقال:”ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب” اس کی سند حسن ہے)
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں دیکھ رہا ہوں کہ جنات کے شیطان اور انسانوں کے شیطان سب (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ سے بھاگ گئے ہیں۔
(الترمذی:۳۶۹۱) وقال:”ھٰذا حدیث حسن صحیح غریب” وسندہ حسن)

آپ ﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،
اے (عمر) ابن الخطاب! تو جس راستے پر چل رہا ہو تو شیطان اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر بھاگ جاتا ہے۔
(صحیح بخاری:۳۶۸۳ وصحیح مسلم:۲۳۹۶/۲۲ وأضواء المصابیح:۶۰۲۷)

ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(( اِنَّ ﷲَ جَعَلَ الࣿحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلࣿبِہٖ ))
بےشک اللہ نے عمر (رضی اللہ عنہ) کے دل و زبان پر حق جاری کر رکھا ہے۔
(صحیح ابن حبان، موارد:۲۱۸۴ وسندہ صحیح )
بعض اوقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت میں قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں جنھیں موافقاتِ عمر کہتے ہیں۔ دیکھئے صحیح بخاری (۴۰۲، ۴۴۸۳) و صحیح مسلم (۳۳۹۱/۲۴)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:(( لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ))
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔
(سُنن الترمذی:۳۶۸۶ وقال:”ھٰذا حدیث حسن غریب” اس کی سند حسن ہے)

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا۔ میرے سامنے لوگ پیش ہو رہے تھے۔ کسی کی قمیص سینے تک تھی اور کسی کی اس سے نیچے۔ جب میرے سامنے عمر بن خطاب پیش کئے گئے تو وہ اپنی (لمبی) قمیص کو گھسیٹ رہے تھے۔ لوگوں نے پوچھا:
یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا: دین، یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین میں (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد) سب لوگوں سے زیادہ مقام رکھتے ہیں۔
(دیکھئے صحیح البخاری:۳۶۹۱ وصحیح مسلم: ۳۳۹۰/۱۵)

نبی کریم ﷺ نے جنّت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا محل دیکھا تھا۔
( صحیح البخاری:۵۲۲۶، ۷۰۲۴ وصحیح مسلم: ۲۳۹۴/۲۰)

آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنّتی کہا۔
(الترمذی:۳۷۴۷ وسندہ صحیح)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہے فضائل بہت زیادہ ہیں،
ان فضائل کو جمع کر کے قارئین کے سامنے پیش کرنا ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے۔ تفصیل کے لئے امام احمد بن حنبل کی کتاب “ فضائل الصحابۃ ” اور
ابن جوزی کی “فضائل عمر بن الخطاب“ وغیرہ کتابیں پڑھیں۔

آخر میں امیرالمومنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا آخری منظر پیشِ خدمت ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر ایک کافر مجوسی ابولؤلؤ فیروز نے حملہ کر کے سخت زخمی کر دیا تھا۔
اسلام کے سُنہری دور اور فتنوں کے درمیان دروازہ ٹوٹ گیا تھا۔ آپ کو دودھ پلایا گیا تو وہ انتڑیوں کے راستے سے باہر آ گیا۔ اس حالت میں ایک نوجوان آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کا ازار ٹخنوں سے نیچے ہے تو آپ نے فرمایا:
(( اِبْنَ أَخِي ارْفَعْ ثَوْبَكَ فَإِنَّهُ أَبْقَى لِثَوْبِكَ وَأَتْقَى لِرَبِّكَ ))
بھتیجے اپنا کپڑا ( ٹخنوں سے) اوپر کر، اس سے تیرا کپڑا بھی صاف رہے گا اور تیرے رب کے نزدیک یہ سب سے زیادہ تقوے والی بات ہے۔
(صحیح البخاری:۳۷۰۰)
سبحان اللہ !
اپنے زخموں کی فکر نہیں بلکہ آخری وقت بھی نبی کریم ﷺ کی سنت کو سر بلند کرنے کی ہی فکر اور جذبہ ہے۔ رضی اللہ عنہ

اے اللہ! ہمارے دلوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے۔
یااللہ! جو بدنصیب و بےِایمان لوگ امیرالمومنین شہید رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے ہیں، ان لوگوں کی بدنصیبیاں و بےایمانیاں ختم کر کے ان کے دلوں کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے۔
جو پھر بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بُغض پر اَڑا رہے ایسے شخص کو دنیا و آخرت کے عذاب سے ذلیل و رسوا کر دے۔

امیرالمومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کا نام عمر رکھا تھا۔
دیکھئے تقریب التہذیب (۴۹۵۱)

معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے تھے۔

وما علینا إلا البلاغ
[الحدیث:۱۵]
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت


نبی ﷺ اور ابوبکر عمر و عثمان (رضی اللہ عنھم اجمعین) احد کے پہاڑ پر چڑھے تو (زلزلے کی وجہ سے) احد کانپنے لگا۔ آپ (ﷺ) نے اس پر پاؤں مار کر فرمایا: اُحد رک جا! تیرے اوپر (اس وقت) ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید(موجود) ہیں۔
(صحیح البخاری:۳۶۸۶)

سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(( افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ ))
اس کے لیئے دروازہ کھول دو اور جنت کی خوشخبری دے دو اور (یہ بھی بتادو) کہ انھیں ایک مصیبت (اور آزمائش)پہنچے گی۔ تو میں نے انھیں (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ) بتا دیا۔ پھر (انھوں نے) اللہ کی حمد بیان کی اور کہا اللہ المستعان، اللہ مددگار ہے ۔
(البخاری: ۳۴۹۳ ومسلم:۲۴۰۳/۲۸)

مشہور حدیث میں آیا ہے کہ پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (( وعثمان فی الجنۃ )) اور عثمان جنت میں(جنتی) ہیں ۔
(الترمذی: ۳۷۴۷ وسندہ صحیح)

سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ جہاد (جیش العسرۃ ) کی تیاری کر رہے تھے تو (سیدنا) عثمان (رضی اللہ عنہ) اپنی آستین میں ایک ہزار دینار لے آئے اور انھیں آپ ﷺ کی جھولی میں ڈال دیا۔
میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ انھیں جھولی میں الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے:
(( ماضر عثمان ما بعد الیوم ))
آج کے بعد عثمان جو بھی عمل کریں گے انھیں نقصان نہیں ہو گا۔
( احمد ۶۳/۵ ح ۲۰۹۰۶، وقال: “حسن غریب” وسندہ حسن)

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنی بیوی اور نبی کریم ﷺ کی بیٹی (رقیہ رضی اللہ عنہا) کی شدید بیماری کی وجہ سے غزوۂ بدر میں شامل نہ ہوسکے تو نبی ﷺ نے فرمایا:((إن لك اجر رجل ممن شهد بدرا وسهمه))
تیرے لیئے بدر میں حاضر ہونے والے آدمی کے برابر اجر اور مال غنیمت ہے۔
(صحیح البخاری:۳۱۳۰)

سیدنا رقیہ رضی اللہ عنہا غزوۂ بدر کے دوران میں فوت ہوگئیں۔
(الاصابۃ ص ۱۶۸۷ت۱۱۸۵۱ تراجم النساء)

ابو حبیبہ رحمہ اللہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، آپ محاصرے میں تھے۔

ابو حبیبہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد تم فتنے اور اختلاف میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ کسی نے پوچھا:یا رسول اللہ ﷺ ! پھر ہم کیا کریں ؟
آپ صلی اللہ ﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :
(( علیکم بالأمین (بالأمیر) وأصحابہ ))
تم (اس) امین (امیر) اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑ لینا۔
( مسند احمد۴۳۵/۲ والموسوعۃ الحدیثیۃ ۲۱۹/۱۴، ۲۲۰ ح۸۵۴۱ وسندہ حسن وصححہ الحاکم ۹۹/۳، ۴۳۳/۴ ووافقہ الذہبی)

سیدنا مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے بعد کے) فتنوں کا ذکر کیا، اتنے میں ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے وہاں سے گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ شخص اس دن ہدایت پر ہوگا۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو وہ عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ) تھے۔
(سُنن الترمذی:۳۷۰۴ وقال: “ھٰذا حدیث حسن صحیح” وسندہ صحیح)

بیعتِ رضوان کے موقع پر جب کفارِ مکہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو روک لیا تھا تو سیدنا و محبوبنا نبی کریم ﷺ نے بیعتِ رضوان لی۔

آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کے بارے میں فرمایا: (( ھٰذہ ید عثمان )) یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا: یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔
(صحیح البخاری:۳۶۹۹)
ابو سہلہ رحمہ اللہ مولیٰ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہے کہ جب (باغیوں کے محاصرے والے دنوں میں) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ (ان باغیوں سے) جنگ کیوں نہیں کرتے ؟
تو انھوں نے جواب دیا: بیشک رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا اور میں اس پر صابر (شاکر) ہوں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۴۵/۱۲ ح۳۲۰۲۸ وسندہ صحیح، والترمذی:۳۷۱۱ وقال: “ھٰذا حدیث حسن صحیح)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ خطبے کے دوران یہ آیت پڑہی:
{ إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ }
بیشک وہ لوگ جن کے مقدر میں ہماری طرف سے بھلائی ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔
(الانبیاء:۱۰۱)
(پھر )سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“عثمان منھم” عثمان رضی اللہ عنہ انھی میں سے ہیں
(مصنف ابن ابی شیبہ ۵۲/۱۲ ح۳۲۰۴۳ وسندہ صحیح)

سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے کے سامنے (سیدنا) عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: یہ امیر المومنین(علی رضی اللہ عنہ) آرہے ہیں وہ تمہیں بتائیں گے۔
پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو فرمایا:
کہ عثمان ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ }
وہ ایمان لائے اور نیک اعمال کیئے پھر ایمان کے ساتھ تقوے والا راستہ اختیار کیا پھر تقوے اور احسان والا راستہ اختیار کیا اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
[المائدہ:۹۳] (مصنف ابن ابی شیبہ ۵۴/۱۲ ح۳۲۰۵۱ وسندہ صحیح)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں ہاتھ اٹھا کر فرماتے تھے کہ “ اللھم إني أبرا إلیک من دم عثمان “
اے اللہ میں عثمان (رضی اللہ عنہ) کے خون سے بری ہوں۔
(فضائل الصحابۃ للامام احمد ۴۵۲/۱ ح۷۲۷ وسندہ حسن)

رسول اللہ ﷺ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ

(( یا عثمان إن اللہ عزوجل عسیٰ أن یلبسک قمیضاً، فإن أرادک المنافقون علیٰ خلعہ فلا تخلعہ حتّی تلقاني ))
اے عثمان! عنقریب اللہ عزوجل تجھے ایک قمیص (خلافت کی) پہنائے گا۔ پس اگر اسے اتارنے کے لیے تیرے پاس منافقین آجائیں تو میری ملاقات (وفات و شہادت) اسے نہ اتارنا۔
(مسند احمد ۸۶/۶، ۸۷ ح۲۵۰۷۳ وسندہ صحیح،الموسوعۃ الحدیثیۃ ۱۱۳/۴۱)

جمہور اہلِ سنت کے نزدیک سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ افضل ہیں اہلِ سنت کے مشہور ثقہ امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ(متوفی ۱۲۵ھ) سے پوچھا گیا کہ آپ علی سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا عثمان سے ؟
انھوں نے جواب دیا عثمان سے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر۳۳۴/۴۱ وسندہ صحیح)

الحمداللہ اہلِ سنت دونوں سے محبت کرتے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مومن یا مسلم کے دل میں علی اور عثمان کی محبت اکٹھی نہیں ہوسکتی،
سن لو کہ ان دونوں کی محبت میرے دل میں اکٹھی ہے ۔
(تاریخ دمشق ابن عساکر ۳۳۲/۴۱ وسندہ صحیح)
حافظ لابن عساکر نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حالات سندوں کے ساتھ لکھے ہیں۔

اے اللہ! ہمارے دلوں کو سیدنا عثمان و سیدنا علی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی محبت سے بھر دے۔

آمین

[الحدیث:۱۶]
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت


رسول اللہ ﷺ نے خیبر والے دن فرمایا:(( لأ عطین ھٰذہ الرایۃ غذاً رجلاً یفتح اللہ علٰی یدیہ، یحب اللہ ورسولہ و یحبہ اللہ ورسولہ ))
میں کل ضرور اُس آدمی کو یہ جھنڈا دوں گا، جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس ہے رسول (محمدﷺ) اس سے محبت کرتے ہیں۔
جب صبح ہوئی تو سب لوگ سویرے سویرے ہی رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئے،
ہر آدمی یہ چاہتا تھا کہ جھنڈا اسے ملے۔ آپ (ﷺ) نے پوچھا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا: یا رسول اللہ! وہ آنکھوں ہے درد میں مبتلا ہیں۔ آپ نے فرمایا: انھیں بلا لاؤ۔
جب (سیدنا) علی (رضی اللہ عنہ) آئے تو آپ (ﷺ) نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک ڈالا تو وہ (فوراً) اس طرح ٹھیک ہو گئے جیسے کبھی بیمار ہی نہیں تھے۔ آپ (ﷺ) نے (سیدنا) علی (رضی اللہ عنہ) کو جھنڈا دیا اور فرمایا: اللہ کی قسم اگر تیری وجہ سے ایک آدمی بھی ہدایت پر آجائے تو تیرے لئے یہ مالِ غنیمت کے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
(صحیح البخاری:۲۹۴۲ وصحیح مسلم: ۲۴۰۶/۳۴)
اللہ تعالیٰ نے غزوۂ خیبر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا کتنا بلند مقام ہے کہ اللہ اور رسول ان سے محبت کرتے ہیں۔
مشہور جلیل القدر صحابی اور فاتح قادسیہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے علی (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا:
(( أنت مني بمنزلۃ ھارون من موسیٰ، إلا أنہ لا نبي بعدي ))
تیری میرے ساتھ وہی منزلت ہے جو ہارون کی موسیٰ (علیھم السلام) سے ہے إلا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
(البخاری:۳۷۰۶ و مسلم: ۲۴۰۴/۳۰)
اس حدیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن یاد رہے کہ اس کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات (اللہ) کی قسم ہے جس نے دانہ پھاڑا (فصل اُگائی) اور مخلوقات پیدا کیں، میرے ساتھ نبی امی ﷺ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میرے ( علی رضی اللہ عنہ کے) ساتھ محبت صرف مومن ہی کرے گا اور (مجھ سے) بغض صرف منافق ہی رکھے گا۔
(مسلم: ۷۸/۱۳۱)
معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مومنین محبت کرتے ہیں اور بغض کرنے والے منافق ہیں۔
تمام اہلِ سنت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور پیار کرتے ہیں۔
یاد رہے محبت کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کا درجہ بڑھا کر مشکل کشا اور حاجت روا بنا دے یا آپ کے عظیم الشان ساتھیوں اور صحابہ اکرام کو برا کہنا شروع کر دے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں خوب فرمایا ہے کہ
“میرے بارے میں دو (قسم کے) شخص ہلاک ہو جائیں گے (۱) غالی (اوپر محبت میں ناجائز ) افراط کرنے والا، اور (۲) بغض کرنے والا حجت باز“
(فضائل الصحابۃ للامام احمد ۵۷۱/۲ ح۹۶۴ إسنادہ حسن الحدیث: ۴ص۱۵)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول یہ ہے کہ
“ایک قوم (لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ (اندھا دھند) محبت کرے گی حتیٰ کہ وہ میری (افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض رکھے گی حتیٰ کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہو گی“
(فضائل الصحابۃ ۵۶۵/۲ وإسنادہ صحیح، و کتاب السنۃ لابن ابی عاصم: ۹۸۳ وسندہ صحیح/ الحدیث:۴ص۱۵)
چونکہ ان دونوں اقوال کا تعلق غیب سے ہے لہٰذا یہ دونوں اقول حکماً مرفوع ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ باتیں بتائی ہوں گی۔ واللہ اعلم
معلوم ہوا کہ دو قسم کے گروہ ہلاک ہو جائیں گے:
(۱) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اندھا دھند محبت کر کے آپ کو خدا، مشکل کشا اور حاجت روا وغیرہ سمجھنے والے یا دوسرے صحابہ کو برا کہنے والے لوگ مثلاً غالی قسم کے روافض وغیرہ۔
(۲) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے لوگ مثلاً خوارج و نواصب وغیرہ۔
تنبیہ: حکیم فیض عالم صدیقی (ناصبی) وغیرہ نے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں جو گستاخیاں کی ہیں ان تمام سے اہلِ حدیث بری الذمہ ہیں۔

اہلِ حدیث کا ناصبیوں اور رافضیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہلِ حدیث کا راستہ کتاب و سنت والا راستہ ہے اور یہی اہلِ سنت ہیں۔

سیدنا امیر المومنین عمر رضی الہ عنہ نے فرمایا کہ
نبی ﷺ نے اس حالت میں وفات پائی کہ
آپ (ﷺ) علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد (بن ابی وقاص) اور عبدالرحمٰن (بن عوف رضی اللہ عنہم اجمعین) سے راضی تھے۔

(البخاری:۳۷۰۰)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جب یہ آیت { نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ } ہم اپنی اولاد لے آئیں اور تم اپنی اولاد لے آؤ (آل عمران:۶۱) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنھم) کو بلایا۔
پھر فرمایا: (( اللھم ھٰؤلاء أھلي ))
اے اللہ! یہ میرے اہل (اہلِ بیت) ہیں۔
(صحیح مسلم: ۲۴۰۴/۳۲ و دارالسلام: ۶۲۲۰)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
نبی ﷺ نے چادر کے نیچے فاطمہ، حسن، حسین اور علی (رضی اللہ عنھم) کو داخل کر کے فرمایا:

{ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّـٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْـرًا }
اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اے اہلِ بیت تم سے نجاست دور کر دے اور تمھیں خوب پاک و طاہر کر دے۔
[الاحزاب:۳۳] (صحیح مسلم:۲۴۲۴)
ان صحیح احادیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہے۔ یاد رہے کہ امہات المومنین بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“ نساءہ من أھل بیتہ “ آپ کی بیویاں آپ کے اہلِ بیت میں سے ہیں۔
(صحیح مسلم: ۲۴۰۸ و دارالسلام: ۶۲۲۵)
عمومِ قرآن بھی اسی کا مؤید ہے۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(( إن علیاً مني وأنا منہ وھو ولي کل مؤمن ))
بےشک علی مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں اور وہ ہر مومن کے ولی ہیں۔
(الترمذی: ۳۷۱۲ وإسنادہ حسن)
یعنی رسول اللہ ﷺ علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ ہر مومن علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے۔

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی ﷺ نے فرمایا:

((من کنت مولاہ فعلي مولاہ ))جس کا میں مولیٰ ہوں تو علی اس کے مولیٰ ہیں۔
(الترمذی:۳۷۱۳ وسندہ صحیح )
نبی کریم ﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(( أنت أخونا و مولانا ))
تو ہمارا بھائی اور مولیٰ ہیں۔
(البخاری:۲۶۹۹)
آپ ﷺ نے سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
(( ھٰذا مني وأنا منہ )) یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
(صحیح مسلم: ۲۴۷۲/۳۱ و دارالسلام:۶۳۵۸)
بعض روافض کا حدیثِ ولایت سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافتِ بلافصل کا دعویٰ کرنا ان دلائل سابقہ و دیگر دلائل کی رُد سے باطل ہے۔

ایک دفعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے تو
نبی کریم ﷺ نے آپ کےلئے دُعا فرمائی:

(( اللھم عافہ أو اشفہ )) اے اللہ اسے عافیت یا شفا عطا فرما۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں اس کے بعد کبھی بیمار نہیں ہوا۔

(سُنن الترمذی: ۳۵۶۴ وقال: “ھٰذا حدیث حسن صحیح” وإسنادہ حسن)
مشہور تابعی ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے آپ (امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ) کو منبر پر کھڑے دیکھا۔ آپ کا سر اور داڑھی سفید تھی۔
(کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی۶۲۱/۲ وسندہ صحیح، تاریخ دمشق۱۷/۴۵ مصنف عبدالرزاق ۱۸۸/۳، ۱۸۹ ح۵۲۶۷)
اس سے معلوم ہوا کہ بالوں کو مہندی یا سرخ رنگ لگانا واجب (فرض) نہیں ہے۔

سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:“ ارقبوا محمداً ﷺ في أھل بیتہ “
(سیدنا) محمد ﷺ کی رضا مندی آپ کے اہلِ بیت (کی محبت) میں تلاش کرو۔
(البخاری:۳۷۱۳)
یعنی جو شخص سیدنا علی، سیدنا حسین، سیدنا حسن اور تمام اصحابۂ اکرام سے محبت کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ نبی کریم ﷺ کا ساتھی ہو گا۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“ أول من أسلم علي “ سب سے پہلے علی(رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے تھے۔
ابراہیم نخعی (تابعی صغیر) نے صحابئ رسول کے اس قول کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے
ابوبکر الصدیق (رضی اللہ عنہ) مسلمان ہوئے تھے۔
(الترمذی:۳۷۳۵ وقال: “ھٰذا حدیث حسن صحیح” وسندہ صحیح)
یعنی بچوں میں سب سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے اور مردوں میں سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے مسلمان ہوئے تھے۔
واللہ اعلم

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ “أول من أسلم علي رضي اللہ عنہ”
سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تھے۔
(معجم الصحابۃ للبغوی ج۴ص۳۵۷ج۱۸۱۰ وسندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ“ کرنا نتحدث أن أفضل (أقصیٰ) أھل المدینۃ علي بن أبي طالب “
ہم باتیں کرتے تھے کہ اہلِ مدینہ میں سب سے افضل (اقصیٰ) علی بن ابی طالب ہیں۔
(فضائل الصحابۃ للامام احمد۶۰۴/۲ح۱۰۳۳ وسندہ صحیح)

غزوۂ خیبر کے موقع پر مرحب یہودی کی للکار کا جواب دیتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

“أنا الذي سمتني أمي حیدرۃ “ میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے، میں وہ ( حیدر/شیر ) ہوں۔
(صحیح مسلم:۱۸۰۷ و دارالسلام:۴۷۸)
پھر آپ نے مرحب یہودی کو قتل کر دیا اور فتح خیبر آپ کے ہاتھ پر ہوئی،

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ اور زبیر (رضی اللہ عنھم) حراء (پہاڑ) پر تھے کہ وہ
(زلزلے کی وجہ سے) ہلنے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رک جا، اس وقت تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید (ہی) کھڑے ہیں۔
(صحیح مسلم:۴۱۷ و دارالسلام:۲۶۴۷)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(( من آذی علیاً فقد آذاني ))
جس نے علی (رضی اللہ عنہ) کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔
( فضائل الصحابۃ/زیادات القطیعی:۱۰۷۸ وسندہ حسن ولہ شاہد عند ابن حبان، الموارد:۲۲۰۲ والحاکم۱۲۳/۳ وصححہ ووافقہ الذہبی)
ایک دفعہ (بعض) لوگوں نے (سیدنا) علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا:(( أیھا الناس لا تشکوا علیاً فو اللہ إنہ لأخشن في ذات اللہ أو في سبیل اللہ ))
لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم بےشک وہ اللہ کی ذات یا اللہ کے راستے میں بہت زیادہ خشیت (خوف) رکھتے ہیں۔
(مسند احمد ۸۶/۳ والحاکم۱۳۴/۳ وصححہ ووافقہ الذہبی وسندہ حسن)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے اُمید ہے کہ میں ، عثمان، طلحہ اور زبیر (رضی اللہ عنھم) ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کا ذکر اللہ نے (قرآن مجید میں) کیا ہے۔ { وَنَزَعْنَا مَا فِىْ صُدُوْرِهِـمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِيْنَ } (الحجر:۴۷)
اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہوگی ہم اسے نکال دیں گے اور وہ چارپائیوں پر، بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
( فضائل الصحابۃ/زیادات القطیعی:۱۰۵۷ وسندہ صحیح)
ابو اسحاق السبیعی فرماتے ہیں:
“ رأیت علیاً…… ضخم اللحیۃ “ میں نے علی (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا آپ کی بڑی اور گھنی داڑھی تھی۔
(طبقات ابن سعد۲۵/۳ وسندہ صحیح، یونس بن ابی اسحاق بري من التدلیس)
امام اہلِ سنت: احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے تھے:
“ ماجاء لأحد من أصحاب رسول اللہ ﷺ من الفضائل ماجاء لعلي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ “
جتنے فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے (احادیث میں) آئے ہیں اتنے فضائل کسی دوسرے صحابی کے نہیں آئے۔
(مستدرک الحاکم۱۰۸،۱۰۷/۳ح۴۵۷۲ وسندہ حسن)

مختصر یہ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بدری، من السابقین الاولین، امیر المومنین خلیفۂ راشد اور خلیفۂ چہارم تھے۔ آپ کے فضائل بےشمار ہیں جن کے احاطے کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہے۔
امام ابوبکر محمد بن الحسین للآجری رحمہ اللہ (متوفی ۳۶۰ھ) فرماتے ہیں:
“ جان لو، اللہ ہم اور تم پر رحم کرے، بےشک اللہ کریم نے امیرالمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اعلیٰ فضیلت عطا فرمائی۔ خیر میں آپ کی پیش قدمیاں عظیم ہیں اور آپ کے مناقب بہت زیادہ ہیں۔ آپ عظیم فضیلت والے ہیں۔ آپ جلیل القدر، عالی مرتبہ اور بڑی شان والے ہیں۔
آپ رسول اللہ ﷺ کے بھائی اور چچا زاد، حسن و حسین کے ابا، مسلمانوں کے مردِ میدان،
رسول اللہ ﷺ کا دفاع کرنے والے، ہم پلہ لوگوں سے لڑنے والے، امام عادل زاہد، دنیا سے بے نیاز (اور) آخرت کے طلب گار، متبع حق، باطل سے دور اور ہر بہترین اخلاق والے ہیں۔
اللہ و رسول آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں۔
آپ ایسے انسان ہے کہ آپ سے متقی اور مومن ہی محبت کرتا ہے اور آپ سے صرف منافق بدنصیب ہی بغض رکھتا ہے۔
عقل، علم، بردباری اور ادب کا خزانہ ہیں،
رضی اللہ عنہ “
(الشریعۃ ص۷۱۵،۷۱۴)

اے اللہ! ہمارے دلوں کو سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی اور تمام صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی محبت سے بھر دے۔
آمین

[الحدیث:۱۸،۱۷]



 
Top