• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضیل بن سلیمان النمیری، ابو سلیمان البصری

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اسم: فضيل بن سليمان النميرى ، أبو سليمان البصرى
طبقہ : 8 : من الوسطى من أتباع التابعين
وفات: 183 ھ
روی لہ:البخاری - مسلم - ابو داود - ترمذی - نسائی - ابن ماجہ
شیوخ و اساتذہ: ابو حازم الاعرج، عمرو بن ابی عمرو، موسی بن عقبہ، خثیم بن عراک، وغیرہم۔
تلامذہ: علی بن المدینی، خلیفہ بن خیاط، احمد بن عبدہ، احمد بن المقدام، نصر الجھضمی، عمرو الفلاس، محمد بن موسی الحرشی، وغیرہم۔
رتبہ: صدوق حسن الحدیث۔
أقوال الأئمة الجرح والتعديل
جارحین:
1- امام یحیی بن معین (المتوفی 233) فرماتے ہیں: "ليس بثقة" (تاریخ ابن معین رویۃ الدوری: 4/226)
ایک اور جگہ پر فرمایا: "ليس بشيء" (سؤالات ابن الجنید: 1/434)
2- امام ابو زرعہ الرازی (المتوفی 264) فرماتے ہیں: "لين الحديث" (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 7/73)
3- امام ابو حاتم الرازی (المتوفی 275) فرماتے ہیں: "ليس بالقوى يكتب حديثه" (ایضا)
4- امام ابو عبد الرحمن النسائی (المتوفی 303) فرماتے ہیں: "لَيْسَ بِالْقَوِيّ" (الضعفاء والمتروکین للنسائی: 1/88، وعمل الیوم واللیلہ للنسائی: 1/402، و سنن النسائی الکبری: 6/159 )
5- امام ابو حفص عمر بن شاہین (المتوفی 385) نے انہیں اپنی کتاب تاریخ اسماء الضعفاء والکذابین (1/156) میں ذکر کرنے کے بعد محض امام یحیی بن معین کی جرح پر ہی اعتماد کیا اور اپنا کوئی فیصلہ ذکر نہیں کیا۔
6- حافظ ابن الجوزی (المتوفی 597) نے انہیں اپنی کتاب الضعفاء والمتروکین (3/9) میں ذکر کیا۔
7- امام شرف الدین النووی (المتوفی 676) فرماتے ہیں: "فَفِي سَنَدِهَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ" (المجموع شرح المھذب: 11/338)
8- ابن حجر ذکر کرتے ہیں کہ ابن قانع (المتوفی 351) فرماتے ہیں: "ضعيف" (تہذیب التہذیب: 2/292)
اس کی سند نا معلوم ہے۔
9- حافظ ابن حجر ذکر کرتے ہیں کہ صالح بن محمد بن جزرہ (المتوفی 293) نے کہا: "منكر الحديث روى عن موسى بن عقبة مناكير
اس جرح کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر ثابت بھی ہوتی تو بھی جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے، اور بہت سے ائمہ جن میں امام بخاری بھی شامل ہیں انے ان کی موسی بن عقبہ سے روایت سے حجت لی ہے۔
نوٹ: ابو داود کی جرح ابو عبید الآجری کی وجہ سے ثابت نہیں۔
معدلین:
1- امام محمد بن اسماعیل البخاری (المتوفی 256) نے ان سے اپنی صحیح میں حجت پکڑی ہے۔ (دیکھیں صحیح البخاری: ح 483, 1535, 1545, 1731, 2338, 2525, 2854, 3152, 3247, 3826, 4307, 4468, 4521, 4936, 5132, 5935, 6414, 6551, 6705, 6849, 7039, 7345, 7357)
حافظ ابن الملقن فضیل کے متعلق فرماتے ہیں: "لَكِن احتجَّ بِهِ الشَّيْخَانِ" (البدر المنیر: 1/397)
2- امام مسلم بن الحجاج النیساپوری (المتوفی 261) نے فضیل سے اپنی صحیح میں حجت پکڑی ہے (دیکھیں، صحیح مسلم: ح 1091، 1196، 2065)۔
اسی لئے امام ذہبی فرماتے ہیں: "ووثقه مسلم" (دیوان الضعفاء: 1/321)
3- امام ابو عیسی الترمذی (المتوفی 279) نے فضیل کی کئی احادیث اور ان کی اسانید کی تصحیح و تحسین کی ہے۔ آپ کے مختلف الفاظِ توثیق درج ذیل ہیں:
"هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه" (ح 1325)
"هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه" (ح 3856)
"هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه" (ح 3926)
4- امام ابن خزیمہ (المتوفی 311) نے ان کی احادیث سے حجت پکڑی ہے۔ (دیکھیں صحیح ابن خزیمہ ح 62، 1875، 2190، 2405، 2735، 3009، 4/221)
5- امام ابو بکر البزار (المتوفی 313) ان کی بیان کردہ ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: "إِسْنَادُهُ حَسَنًا وَمَتْنُهُ غَرِيب" (مسند البزار - البحر الزخار: 6/273)
6- امام ابن حبان (المتوفی 354) نے انہیں اپنی کتاب الثقات (7/316) میں ذکر کیا اور اپنی صحیح میں ان سے روایات بھی لیں۔
7- امام ابو عوانہ الاسفرائینی (المتوفی 316) نے ان کی روایات اپنی صحیح میں درج کیں (دیکھیں صحیح ابو عوانہ: ح 2228, 2496, 2497, 4827, 5129)۔
8- امام ابن مندہ الاصبھانی (المتوفی 395) ان کی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "هذا اسناد صحيح لم يخرجوه" (الایمان لابن مندہ: 2/572)
کتاب الایمان لابن مندہ کے محقق نے اس کے حاشیہ میں کہا: "إسناده صحيح كما قال المصنف، لأن أكثر المضعفين لفضيل من الطبقة المشددة، والله أعلم"
9- امام ابو عبد اللہ الحاکم النیسابوری (المتوفی 405) نے ان کی کئی احادیث کی تصحیح کی ہے، مثلا:
"هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولا أعرف له علة ولم يخرجاه" (المستدرک: ح 60)
"هذا حديث صحيح وقد احتجا بجميع رواته ولم يخرجاه" (ح 68)
"صحيح على شرط الشيخين" (ح 82)
"هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه" (ح 86)
"هذا حديث صحيح على شرط الشيخين" (ح 1899)
"صحيح الإسناد" (ح 5708)
"هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه" (7040)
"هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه" (7673)
10- رجال پر اپنے تشدد کے باوجود، امام ابن حزم الاندلسی (المتوفی 456) نے ان سے کتاب المحلی میں احتجاجا حدیث روایت کی ہے (5/284)۔
اس کے علاوہ امام ابن حزم نے ان سے اپنی کتاب حجۃ الوداع (ح 9، 374) میں بھی روایات لی ہیں، اس کتاب میں مقدمہ میں آپ فرماتے ہیں: "ثُمَّ نُثَنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى بِذِكْرِ الْأَحَادِيثِ الْوَارِدَةِ بِكَيْفِيَّةِ مَا ذَكَرْنَاهُ نَحْنُ بِالْأَسَانِيدِ الْمُتَّصِلَةِ الصِّحَاحِ" (1/112)
11- امام ابو نعیم الاصبھانی (المتوفی 430) نے ان سے اپنی صحیح میں روایات لی ہیں (ح 2450, 2747, 2870, 3365, 3424)
12- امام الضیاء المقدسی (المتوفی 643) نے ان کی احادیث سے حجت پکڑی ہے۔ (الاحادیث المختارہ: 1/212, 4/37, 4/155, 4/156, 4/158)
13- حافظ ابو الفضل العراقی امام المنذری (المتوفی 656) سے ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک حدیث بیان کی جسے چند لوگوں نے مرفوع اور چند نے موقوف روایت کیا تھا، اور مرفوع روایت کرنے والوں میں فضیل کا نام ذکر کرنے کے بعدفرماتے ہیں: "وَكُلُّ مَنْ رَفَعَهُ ثِقَةٌ ثَبْتٌ مُحْتَجٌّ بِهِ" (طرح التثریب: 5/43)۔
لیکن یہ قول امام منذری کی کسی کتاب میں نہیں ملا، واللہ اعلم۔
14- امام شمس الدین الذہبی (المتوفی 748) فرماتے ہیں: "وحديثه في الكتب الستة، وهو صدوق" (میزان الاعتدال: 3/361)۔
فضیل پر جرح ذکر کرنے کے باوجود، امام ذہبی فرماتے ہیں: "قلت: قد احتج به الجماعة" (تاریخ الاسلام: 12/331)
اور اسی لئے امام ذہبی نے انہیں اپنے رسالے "من تکلم فیہ وہو موثق" (ص 150) میں بھی ذکر کیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ فضیل ان کے نزدیک کم از کم حسن الحدیث ہے۔
15- حافظ ابن کثیر الدمشقی (المتوفی 774) اس کی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "إسناده حسن، ومتنه غريب" (جامع المسانید والسنن: 10/399)۔
16- حافظ نور الدین الہیثمی (المتوفی 807) اس کی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "جَدُّ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ لَمْ أَعْرِفْهُ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ" (مجمع الزوائد: 6/256) اور اس سند کے بقیہ رجال میں فضیل بھی شامل ہے۔
17- حافظ ابن حجر، امام الساجی (المتوفی 307) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "وكان صدوقا وعنده مناكير" (تہذیب التہذیب: 8/262)
یہ قول ثابت نہیں ہے۔لیکن اگر ثابت ہے تو اس سے تضعیف ثابت نہیں ہوتی۔ حسن الحدیث راوی کی بھی چند منکر روایتیں ہو سکتی ہیں، لیکن اس سے وہ منکر الحدیث نہیں بنتا۔
متعارض اقوال:
1- حافظ ابو الفضل العراقی (المتوفی 806) فضیل کے متعلق فرماتے ہیں: "فَقَدْ ضَعَّفَهُ الْجُمْهُورُ" (طرح التثریب: 2/66)۔
اور دوسری جگہ اسی کی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "وَإِسْنَادُهُمَا صَحِيحٌ" (طرح التثریب: 5/43)۔
2- حافظ ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) ایک جگہ فضیل کے متعلق فرماتے ہیں: "صدوق له خطأ كثير" (التقریب: 5427)
تو دوسری جگہ اس کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں: "وهذا إسناد حسن" (تلخیص الحبیر: 3/101)
اور اس کی ایک اور حدیث کے تحت فرماتے ہیں: "قلت: هذا إسناد حسن" (مختصر زوائد مسند البزار: 1/416)۔
لہٰذا یہ دونوں اقوال ساقط ہیں۔
خلاصہ التحقیق:
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فضیل بن سلیمان صدوق حسن الحدیث راوی ہے۔ اور جیسا کہ کتاب الایمان کے محقق نے کہا: ان پر جرح کرنے والے زیادہ تر محدثین متشدد طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
نوٹ: ابو داود کی جرح ابو عبید الآجری کی وجہ سے ثابت نہیں۔
السلام علیکم و رحمۃاللہ
ابو عبید الآجری کی وجہ سے مطلب سمجھا نہیں
وضاحت کردیں گے تو وجہ سمجھنے میں آسانی ہوگی۔۔
 
Top