• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہی مسائل میں اختلاف کی شرعی حیثیت

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
فقہی مسائل میں اختلاف کی شرعی حیثیت​
ان مسائل میں اختلاف کی دو قسمیں ہیں:
1۔اختلاف تنوع 2 :اختلاف تضاد
اختلاف تنوع:

بعض مسائل ایسے ہیں جن میں دو مختلف اقوال ہوتے ہیں اور دونوں ہی شریعت سے ثابت ہوتے ہیں آدمی کو اختیار ہے کہ جو مرضی عمل اختیار کرے مثلاً نماز میں دعائے استفتاع،رکوع اور سجدے کی تسبیحات اور تشہد کی دعائیں،سفر میں روزے کا رکھنا یا نہ رکھنا۔بنو نضیر سے جنگ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے کافروں کے کچھ درخت کاٹے اور کچھ چھوڑ دیے تو اللہ تبارک و تعالی ٰ نے دونوں عمل کو درست قرار دیتے ہوئے فرمایا:
﴿مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىِٕمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ﴾(سورۃ الحشر:۵)
‘‘تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا ، یہ سب اللہ ہی کے اِذن(حکم) سے تھا اور اس لیے کہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے’’
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘‘کہ ہم نے رسول اللہﷺکے ساتھ رمضام میں جہاد کا سفر کیا ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہیں رکھا۔روزہ دار روزہ نہ رکھنے والے پر اعتراض نہ کرتا تھا اور نہ ہی روزہ نہ رکھنے والا روزہ دار پر اعتراض کرتا تھا‘‘(صحیح بخاری:۱۹۴۷،صحیح مسلم:۱۱۱۸)
اسی اختلاف میں افضل اور مفضول کا اختلاف بھی ہے جیسے کہ عورت کی نماز اگرچہ گھر میں افضل ہے لیکن مسجد میں جا کر نماز پڑھنا اس کے لئے جائز ہے۔حج اور عمرہ کے بعد اگرچہ سر کے بال منڈوانا افضل ہے مگر بال کٹوانا بھی جائز ہے۔بعض اوقات آیت یا حدیث کے دو مفہوم نکلتے ہیں اور دونوں ہی معانی پر عمل کرنا جائز ہیں:
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ النَّبِيُّ يَوْمَ الْأَحْزَابِ : " لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ "، فَأَدْرَكَ بَعْضُهُمُ الْعَصْرَ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرِدْ مِنَّا ذَلِكَ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ(صحیح بخاری:۴۱۱۹،صحیح مسلم:۱۷۷۰)
‘‘نبی کریمﷺنےجنگ خندق کے بعد فرمایا تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز بنو قریظہ میں جا کر پڑھے،اب نماز کا وقت راستے میں ہو گیا تو بعض نے کہا کہ جب تک ہم بنو قریظہ پہنچ نہ لیں عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے اور بعضوں نے کہا کہ ہم نماز پڑھ لیتے ہیں کیونکہ آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہم نماز قضا کر دیں۔رسول اللہﷺسے امر کا ذکر کیا گیا۔آپ نے کسی پر خفگی نہیں کی‘‘
گویا بعض صحابہ کرام نے یہ سمجھا کہ رسول اللہﷺکے الفاظ عام ہیں جن کا منشا یہ ہے کہ نماز بنو قریظہ ہاں جا کر ہی ادا کرنی چاہیے۔
اگرچہ ایسا کرنے میں نماز کا وقت ہی کیوں نہ چلا جائے اور بعض نے ان الفاظ کا یہ مطلب سمجھا کہ وہاں جلد پہنچ کر بنو قریظہ کا محاصرہ کر لینا چاہیے۔یہ اس قسم کا اختلاف ہے جس میں دونوں طریقے صحیح ہو تے ہیں البتہ قابل مذمت بات یہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف کی بنا پر جھگڑا کیا جائے۔
اختلاف تضاد:

اس امت کے اہل علم میں فقہی عملی مسائل میں اختلاف ہمیشہ رہا ہےان مسائل میں حق اگرچہ ایک ہی بات ہوتی ہے اور باقی سب اقوال غلط ہوتے ہیں
اس لیے یہ کہنا تو غلط ہے کہ جس اہل علم کا قول چاہو اختیار کر لو بلکہ ان مسائل میں کتاب و سنت کو ہی دیکھنا ہو گااگر یقین ہو جائےکہ فلاں قول قرآن و سنت کے مطابق ہے تو اسے اختیار کرنا واجب ہےاور باقی اقوال کو چھوڑ دیا جائے گا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
فقہی اختلافات کی بنیاد پر افتراق کرنا درست نہیں​
مسائل کے ان اختلافات کی بنیاد پر آپس میں دشمنی اور افتراق کرنا درست نہیں۔کیونکہ فقہی اور اجتہادی امور میں صحابہ کرام کا بھی اختلاف ہوا۔کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اجتہادات مختلف ہوئے اور بعض اوقات اللہ اور اس کے رسول کی بات کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف ہوا مگر ان میں وحدت اوراخوت برقرار رہی سلف کے مابین باہمی محبت و ہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔البتہ اگر مجتہد کوشش کے باوجود صحیح فیصلہ پر نہ پہنچا تو اس کے لیے غلطی کے باوجود اجر ہے۔
نبی کریمﷺنے فرمایا:
‘‘جب کوئی حاکم اجتہاد کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے اور صحیح نتیجے پر پہنچتا ہے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے اور جب وہ اجتہاد کرتے ہوئے غلط فیصلہ کرتا ہے تو بھی اسے اکہراثواب مل جاتا ہے’’(صحیح بخاری:۷۳۵۲،صحیح مسلم:۱۷۱۶)
اس اختلاف میں مجتہد مخطئ کے لئے بھی ایک اجر ہے مگر غلطی میں اس کی پیروی نہیں کی جائے گی اور جو شخص یہ جانتا ہوکہ اس مسئلہ میں اس عالم نے خطا کی اور اس کے باوجود وہ اس کی اس مسئلہ میں پیروی کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:جمہور علماء نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اجتہاد کرتے ہوئے خطا کرنے والا گنہگار نہیں کیو نکہ نبی رحمتﷺنے دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی گنہگار قرار نہیں دیا اور اگر مجتہد مخطئ گنہگار ہوتا تو آپﷺضرور اس کی پکڑ کرتے‘‘(فتح الباری۴۱۰/۷)
صحابہ کرام،تابعین،ائمہ حدیث اور فقہاء کرامکا اختلاف اسی قسم کا ہے۔
آج جہالت کے پھیل جانے کی وجہ سے امتِ مسلمہ میں اختلاف کی نوعیت اور اس کی نسبت سے سمجھ اور اس پر عمل یعنی شرعی رویہ مفقود ہے۔اس کی جگہ افراط و تفریط کے انفرادی اوراجتماعی اسلوب اپنائے جا رہے ہیں۔
بعض لوگ حق کو کسی ایک فقہی مذہب یا اپنے امام کی فقہ تک محدود کرلیتے ہیں حدیثِ رسول کو قبول کرنے کی بجائے اس کی تاویلات ہی کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیتے ہیں بلکہ پچھلی چند صدیوں کے بزرگوں سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ان کی ہر بات حتمی سمجھی جا رہی ہے۔پچھلی تین،چار سالوں کے بزرگوں کے نظریات کی پانبدی کی اور کروائی جا رہی ہے۔دوسری طرف امام ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ائمہ حدیثکے بعض فقہی اختلافات کا ذکر کر کےانہیں کتاب و سنت کے مخالف قرار دیتے ہوئے اسلام ہی سے خارج قرار دیا جا رہا ہے انہیں فرقہ پرست اور شرک فی الرسالت کا مرتکب گردانا جا رہا ہے حالانکہ کے ان ائمہ کرام کے وہی عقائد ہیں جو کتاب و سنت نے بیان کئے اور جس پر صحابہ اور تابعین تھے۔الحمدللہ ان ائمہ اربعہ اور ان جیسے اہل علم کے درمیان اصولِ دین میں کوئی نزاع نہیں ہے۔بلکہ یہ اختلافات ان امور میں ہوتے ہیں جو کہ اجتہادی ہیں۔فروعات کے فہم کا اختلاف صحابہ تک میں ہوا ہے۔امت کے بڑے بڑے محدثین،مفسرین اورفقہاء خود حنفی،شافعی،مالکی و حنبلی اور اہل حدیث کا مذہب رکھتے تھے۔ان امور میں ان کے درمیان کوئی تعصب نہیں تھا۔
افسوس کے آج فقہی امور پر بحث و مناظرہ کرتے ہوئے علماء کرام کی عزت و آبروکی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ایک مسلمان عالم کی ذمہ داری ہے کہ فقہی امور میں تنقید کرتے وقت احسن انداز اختیار کرے۔ان فقہی امور میں اختلاف کرنے والوں سے وہ رویہ نہ رکھے جو کہ ایک ملحد،کافرومشرک یا کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کے منافی امور کےمرتکب شخص سے رکھنا واجب ہے۔
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اجتہادی مسائل میں اختلاف صحابہ کے دور سے لے کر آج تک واقع ہوتا آیا ہے۔سب سے پہلے جو اختلاف ہوا وہ خلفائے راشدین مہدیین کے زمانے میں ہوا پھر صحابہ کے سب ادوار میں رہا۔پھر تابعین میں ہوا۔ان میں سے کسی نے بھی اس پر کسی کو معیوب نہ جانا۔صحابہ کے بعد والوں میں بھی اسی طرز پر اختلاف ہوا اور اس میں توسیع بھی ہوئی’’(الاعتصام از امام ابو اسحاق الشاطبی۸۰۹)
امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘وامالاختلاف فی (الاحکام)فاکثر من ان ینضبط ولو کان کل ما اختلف مسلمان فی شئی تھاجرا۔لم یبق بین المسلمین عصمۃ ولا اخوۃ’’(فتاوی ابن تیمیہ۲۴/۱۷۳)
مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں،اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کرلی جاتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا’’
رسول اللہﷺکی وفات کے بعد صحابہ کرام مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔مدینہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ،زید بن ثابت اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ لوگوں کو دین سکھلانے لگے،تابعین کے دور میں سعید بن مسیب،عروہ بن زبیر،پھر امام زہری اور یحییٰ بن سعد آئے۔
پھر امام مالک رحمہ اللہ ان سب کا علم مدون کردیا۔مکہ مکرمہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے دینی حلقہ قائم کیا۔ان سے عکرمہ،مجاہد اور عطارحمہ اللہ نے دین سیکھ کر پھیلایا۔پھر سفیان بن عیینہ اور مسلم بن خالد آئے اور آخر کار محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ نے ان سے منقول شدہ احادیث اور فتاوی جمع کر دئیے۔عراق اور کوفہ میں سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین کا روشن کیا۔ان کے شاگرد علقمہ بن قیس اور قاضی شریح نے یہ دین ابراہیم نخعی اور پھر حماد بن سلیمان سے ہوتے ہوئے امام ابو حنیفہ نعمان رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمدوغیرہ تک وہ فتاوی آئے۔
جب خلیفہ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ مؤطا مالک کو سب مسلم خطوں میں نافذ کر دیا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ نے جوجواب دیا
وہ ہمارے لیے قابل غور ہے۔امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے الفاظ یو ں نقل کرتے ہیں:
اصحاب رسولﷺملکوں کے اندر بکھر گئے تھے۔اب ہر قوم ان کے علم سے وہ چیز لے چکی ہے جوان کو صحابہ سےپہنچی تھی۔(مجموع الفتاوی)
امام ذہبی رحمہ اللہ یوں نقل کرتے ہیں:
‘‘اے امیر المومنین ایسا مت کیجیے کیونکہ اس سے قبل لوگوں کے ہاں اقوال پہنچے ہوئے ہیں۔ان کو احادیث اور روایات ملی ہوئی ہیں۔اصحاب رسول اور دیگر اہل علم کے اختلاف سے ہر قوم کو جو چیز پہنچی وہ اس کو لے چکی اور اس کو معمول بنا کر بطور دین اختیار کر چکی ہے۔اب لوگ جس بات کے قائل ہو چکے اس سے ان کو ہٹانا شدید بات ہے۔لہٰذا لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ہر ملک کے لوگوں نے جو کچھ اختیار کیا ہے ان کو اسی پر رہنا دیجئے’’(سیر اعلام النبلاء)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اجتہادی اختلاف کی بنا پر تکفیر نہیں کرنی چاہیے
اجتہادی مسائل کا اختلاف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوکبھی صحابہ نے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی۔دیکھیے عائشہ،معاویہ اور علیکے مابین اختلاف نے کتنی شدت اختیار کی مگر اس کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان ہی سمجھا۔ملاحظہ فرماہیں:
عن رباع بن ھارث قال:انا لبواد،وان رکبتی لتکادتمس رکبۃ عمار بن یاسر اذ أقبل رجل فقال:کفر واللہ أھل الشام۔فقال عمار:لا تقل ذلک،فقبلتنا و احدۃ،ونبینا واحد،ولکنھم قوم مفتونون،فحق علینا قتالھم حتی یر جعواالی الحق
رباح بن حارث کہتے ہیں ہم عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک وادی میں تھے(عمار بن یاسرسیدنا علیرضی اللہ عنہ کے ساتھی تھےاورآپ کے بارے میں نبی کریمﷺنے یہ خبر دی تھی کہ آپ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔چنانچہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے)ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم!اہل شام(معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی)کافر ہوگئے۔عماررضی اللہ عنہ نے کہا:ایسا مت کہو،ہمارا قبلہ ایک ہے،نبی ایک ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ وہ فتنہ زدہ لوگ ہیں جن سے قتال کرنا ہم پر واجب ہےیہاں تک کے وہ حق کی طرف لوٹ آئیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
لا تقولوا:کفر أھل الشام۔قولوا:فسقوا،قولوا:ظلموا
‘‘یہ نہ کہو کہ اہل شام نے کفر کیا،کہو انہوں نے فسق کیا،ظلم کیا’’(منھاج السنہ۵/۲۴۶)
یاد رہے کہ جنگ جمل و صفین میں گنتی کے چند صحابہ نے شرکت کی تھی۔ان کا مقصد بھی جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ ان دو گروہوں میں اصلاح کروانا تھا۔ان جنگوں کو بھڑکانے میں اصل کردار منافقین اور سبائی پارٹی کا تھا۔
قال عبداللہ بن الامام احمد:حدثنا أبی،حدثنا اسماعیل یعنی ابن علیۃ،حدثنا ایوب السختیانی،عن محمد بن سیرین،
قال:ھاجت الفتنۃ و أصحاب رسول اللہﷺ عشرۃآلاف،فما حضرھا منھم مائۃ،بل یبلغوا ثلاثین(السنۃ للخلال۴۴۶/۱)
امام ابن تیمیہ اس روایت کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:
و ھذاالاسناد من اصح اسناد علی وجہ الارض(منھاج السنہ۲۳۶/۶)
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعامل:مصنف:ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290

فقہی اختلافات کی بنیاد پر افتراق کرنا درست نہیں​

مسائل کے ان اختلافات کی بنیاد پر آپس میں دشمنی اور افتراق کرنا درست نہیں۔کیونکہ فقہی اور اجتہادی امور میں صحابہ کرام کا بھی اختلاف ہوا۔کسی مسئلہ میں قرآن و حدیث کی صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اجتہادات مختلف ہوئے اور بعض اوقات اللہ اور اس کے رسول کی بات کا مفہوم سمجھنے میں اختلاف ہوا مگر ان میں وحدت اوراخوت برقرار رہی سلف کے مابین باہمی محبت و ہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔
کاش ہم میں بھی یہ ہو جائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ڈاکٹر حمید اللہ عبد القادر کے ایک مضمون ’ سلفیت کے حقیقی علمبردار ‘ سے اقتباس :
مولانا (عطاء اللہ حنیف بھوجیانی) رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر تھا ، کسی ایک بزرگ نے ( وہ بھی عالم تھے ) یہ کہا کہ اصول میں وارد شدہ نصوص میں لچک نا ممکن ہے ، مگر فروعی ( مسائل ) کے اندر وارد شدہ نصوص کے اندر لچک ( وسعت ) ہے ، یعنی اس میں اپنی ذاتی آراء سے ان کو رد کیا جاسکتا ہے ، اس پر مولانا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ بالکل درست نہیں ، جب فروع میں لچک پیدا کریں تو پھر اصول کیسے محفوظ رہیں گے ؟
(مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی حیات و خدمات ص 515 )
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
غلط فہمی : -

اگر مجتہد کوشش کے باوجود صحیح فیصلہ پر نہ پہنچا تو اس کے لیے غلطی کے باوجود اجر ہے۔
نبی کریمﷺنے فرمایا:
اس اختلاف میں مجتہد مخطئ کے لئے بھی ایک اجر ہے
ازالہ : -
ہر فرقہ یہی کوشش کرتا ہے کہ قرآن اور حدیث نبوی میں جو باتیں اس کے خلاف ہیں ، ان میں تحریف کر دی جائے تاکہ ہمارا فرقہ محفوظ رہے -
یہ عمل یہود و نصاریٰ والا ہے
الله تعالیٰ فرماتا ہے :


اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ

کیا پس تم توقع رکھتے ہو کہ وہ ایمان لے آئیں گے تمہاری (دعوت) پر حالانکہ یقینا ایک گروہ ایساہے ان میں (جو) سنتے ہیں اللہ کا کلام پھر بدل ڈالتے ہیں اسے اس کے بعد کہ سمجھ لیتے ہیں اسے حالانکہ وہ جانتے ہیں۔

(البقرہ -75)

فرقے اجتہاد کو ثابت کرنے کے لئے ایک حدیث نبوی کا مطلب بدل کر پیش کرتے ہیں جس کا ہم جائزہ لیں گے اور حق بات قارئین کے سامنے رکھیں گے - ان شاء الله
یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم میں ہے :

َحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ الْمَکِّيُّ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا بَکْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ فَقَالَ هَکَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ

عبداللہ بن یزید، حیوۃ، یزید بن عبداللہ بن الہاد، محمد بن ابراہیم بن حارث، بسربن سعید، ابوقیس عمرو بن عاص کے آزاد کردہ غلام حضرت عمروبن عاص سے روایت کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر حکم دے اور اس اجتہاد سے کام لے اور غلط ہو تو اس کو ایک ثواب ملے گا، یزید بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے یہ حدیث ابوبکر بن عمرو، بن حزم سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بواسطہ حضرت ابوہریرہ (رض) اسی طرح بیان کی ہے اور عبدالعزیز بن مطلب نے عبداللہ بن ابی بکر سے انہوں نے ابوسلمہ سے انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی کی مثل نقل کیا ہے۔
(صحیح بخاری و مسلم )

قارئین ! مندرجہ بالا حدیث میں لفظ " حاکم " وارد ہوا ہے - لفظ عالم نہیں - اس حدیث کا اطلاق حاکم یا خلیفۃ المسلمین یا قاضی پر تو ہوتا ہے لیکن اس حدیث کا اطلاق کسی عالم پر کر دینا صحیح نہ ہو گا -
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حاکم یا قاضی یا خلیفۃ المسلمین وغیرہ کو ایک قسم کی آسانی دی ہے - کیونکہ اس کی حکومت یا امارت میں بعض مقدمات ایسے بھی آتے ہیں جو بالکل نئے ہوتے ہیں - ان مقدمات پر فیصلہ کرتے وقت اگر حاکم اجتہاد کرتا ہے خواہ فیصلہ صحیح ہو یا غلط تو حاکم کو ہر صورت میں اجر ملے گا-
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ حاکم کا فیصلہ جو اس نے فریقین کے درمیان کیا ہو گا وہ فیصلہ ہو گا قانون نہیں ہو گا -اس فیصلہ کو شریعت کی حیثیت حاصل نہ ہو گی بلکہ وہ بطور فیصلہ عارضی ہو گا اور ہنگامی طور پر اس کو تسلیم کر لیا جائے گا - پھر اس حاکم کے بعد دوسرا حاکم جو اس حکومت کا والی ہو گا تو وہ اس بات کا مکلف نہیں ہو گا کہ جو فیصلے سابقہ حکومت میں ہو چکے ہیں وہ ان کے مطابق ہی فیصلہ کرے بلکہ وہ آزاد ہو گا -
برخلاف اس کے آج فرقوں کے ہاں ان کے مجتہد کا فیصلہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور پھر شریعت میں شامل ہو جاتا ہے -جبکہ مجتہد کو قرآن مجید اور سنّت رسول کے مطابق مسئلہ بتانا چاہیے نہ کہ مسائل سازی کرنا ، شریعت سازی کرنا ، مسائل گھڑ گھڑ کر لوگوں کو بتانا -

کیا حدیث نبوی اس بات کی اجازت دیتی ہے - ذرا غور فرمائیے -
حدیث سے غلط قسم کا استدلال کر کے لوگوں کو دھوکا دیا جائے ،بے حد افسوس کی بات ہے -
عالم یا مجتہد ، اجتہاد کے سلسلے میں ماجور نہیں ہے بلکہ حاکم وقت اس بات کا حقدار ہے کہ الله تعالیٰ ہر حال میں اس کو اجر و ثواب سے نوازتا ہے -

مزید برآں فیصلہ کرنا اور اجتہاد کرنا دونوں میں بڑا فرق ہے -

فیصلہ فریقین کے درمیان مقدمات میں ہوتا ہے اور یہ چیز جائز ہے -
جبکہ اجتہاد و قیاس فرقوں کے علماء اور فقہاء مسائل میں کرتے ہیں جس کی اجازت الله تعالیٰ نے کسی کو نہیں دی ، لہذا یہ چیز ناجائز ہوئی -
مسائل سازی صرف الله تعالیٰ کا کام ہے - الله تعالیٰ فرماتا ہے


شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ

اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے ‘ اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو کہ قائم کرو دین کو۔ اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بہت بھاری ہے مشرکین پر یہ بات جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے) ُچن لیتا ہے اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔

(شوریٰ -13)

کسی انسان کے لئے یہ چیز جائز نہیں کہ وہ مسائل میں اجتہاد کرے اور پھر اپنے خود ساختہ مسائل کو الله کی طرف منسوب کر دے ، یہ چیز قطعا حرام ہے - الله تعالیٰ نے اس چیز کی اجازت کسی کو نہیں دی بلکہ یہ چیز شرک کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے جو کسی طرح بھی برداشت نہیں کی جائے گی -
الله تعالیٰ فرماتا ہے :

اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ

کیا ان لوگوں نے (اللہ کے) ایسے شریک (بنا رکھے) ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا کوئی ایسا راستہ طے کردیا ہو جس کا اِذن الله نے نہیں دیا ؟ اور اگر ایک قطعی حکم پہلے سے طے نہ ہوچکا ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔ اور ظالموں کے لیے تو بہت دردناک عذاب ہے۔

(شوریٰ -21)

ظاہر ہے کہ یہاں شریک سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ وہ نہ سن سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں وہ کسی کو کوئی قانون یا ضابطہ کیا دیں گے؟
اس سے مراد، انسان یا انسانوں کے گروہ ہی ہو سکتے ہیں ۔ جنہوں نے اللہ کی شریعت کے مقابلہ میں اپنی شریعت چلا رکھی ہو۔ حرام و حلال کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہوں یا لوگوں کے لیے وہ ضابطہ حیات، فلسفے یا نظام پیش کرتے ہوں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں اور پھر انہیں لوگوں میں رائج اور نافذ بھی کرتے ہوں۔ اور ایسے لوگ پارلیمنٹ یا ایوانوں کے ممبر بھی ہوسکتے ہیں۔ خود سر حکمران بھی، آستانوں اور مزاروں کے متولی اور مجاور بھی اور گمراہ قسم کے فلاسفر اور مصنف بھی۔ انہیں ہی طاغوت کہا جاتا ہے۔
الله تعالیٰ کے علاوہ شریعت سازی یا حلال و حرام کا فیصلہ کوئی نہیں کر سکتا -

الله تعالیٰ فرماتا ہے :

وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ

اور مت کہوجس کے متعلق تمہاری زبانیں جھوٹ گھڑتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرو یقیناً جو لوگ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے

(النحل – 116)

یہ امت یہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے لگ چکی ہے جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے -

ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَی قَالَ فَمَنْ
تم پہلی امتوں کی اس طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے، آپ نے فرمایا کہ اور کون ہوسکتا ہے۔


(صحیح بخاری)

شرک کو قرآن مجید میں بدترین گناہ اور سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کے شرک سے محفوظ فرمائے اور ہمیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اپنے نیک انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرمائے !
آمین یا رب العلمین
والحمد لله رب العلمین
 
Top