• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مفتی کی خصوصیات

علم وصداقت: علم اور مسئلے کا صحیح حل پیش کرنا مفتی کی اولین خصوصیات میں سے ہے۔ مفتی بننے کا مقام ایک طویل علمی وتحقیقی تجربہ کا متقاضی ہوتا ہے۔ اور وسعت نظری کا بھی۔ وہ شخص مفتی کہلانے کا کبھی مستحق ہی نہیں رہا جو مذہبیت کا شکار ہوکر صرف اپنے ہی خول میں محدود رہا اور دیگر فقہاء وعلماء کی وقیع آراء کو یا اجتہاد کو کوئی وزن نہ دے سکا۔ اسلاف میں طویل عرصہ کی تدریس اور سالہا سال علماء وفقہاء سے علم حاصل کرنے کے باوجود افتاء کے مقام پر فائز ہونے کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ چند سالہ صحبت علمی اور معمولی سا ادراک پالینے سے فتویٰ نویسی یا افتاء کے عادی نہیں تھے۔ اور نہ ہی اس سلسلے میں وہ مخالف کی خبر لینے میں مشتعل نفسیات کے مالک تھے۔ ان کے مقام عالی اور مرتبے کی عظمت کو دیکھ کر لوگ ان کے فتاویٰ کی قدروقیمت جانتے تھے کہ یہ منصف مزاج ہیں فتوی دینے میں معتدل طبیعت کے مالک ہیں اورمسلکی تعصب کا شکار ہوئے بغیر فتویٰ دیا کرتے ہیں۔

اس لئے جو مفتی شرعی مسئلہ بتانا چاہتا ہے اس کے پاس کم از کم مسئلہ کا صحیح علم ہو اور ساتھ ہی ایمان و سچائی کا مادہ بھی۔ وہ قرآن مجید کی آیات اور صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے بزرگوں کے اقوال یا غیر صحیح احادیث سے گریز کرے کیونکہ یہ علم وصداقت نہیں۔ مفتی جو اقتباس بھی بتانا چاہے من وعن بتائے یا اس کی تلخیص کر دے۔ مگر اس میں تحریف یا تغیر نہ کرے۔ روایت اور فتویٰ دونوں کے لئے ایسی وصف کا ہونا بنیادی طور پر مسلم ہے۔ مفتی حق گوئی سے نہ تو دنیوی مصلحتوں کو سامنے رکھے اور نہ ہی دنیوی فتنوں کے خوف سے گھبرائے بلکہ حق بات کو واضح کردے۔

اخلاق و کردار: مفتی اپنے معاملات میں درستی وراستی اختیار کرے۔ اندر ، باہر ، کھلے چھپے ہر حال میں دل کو زبان کے مطابق اور ظاہر وباطن کویکساں رکھنے والا بنے۔ اگر حکومت کا ایک نمائندہ بڑی قدر سے دیکھا جا سکتا ہے اور اسے عزت واکرام کے لائق سمجھا جاتا ہے۔ تو خالق کائنات کا یہ پیغامبر کتنے بلند مرتبہ والا ہونا چاہیے۔اپنے منصب کی توقیر کرنا مفتی کے لئے فرض ہے۔ وہ اپنے مرتبے کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے۔ دینوی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر یا دینوی فتنوں سے گھبرا کر حق بات کو غیر واضح بیان نہ کرے اور نہ ہی حق کے بیان سے کبھی ہچکچائے۔

فہم و فراست: صحیح اور سچا فتوی وہی مفتی دے سکتا ہے جو صاحب فراست ہو۔ مسئلہ کو صحیح ادراک کرنا مفتی کی فراست کا امتحان ہوتا ہے۔ اس لئے وہ سب سے پہلے مسئلہ کی تہہ تک پہنچے اور پھر اس کا حکم کتاب اللہ وسنت رسول اللہ میں تلاش کرے۔ پھر اپنے فہم اور حکم کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھے۔ مطابقت ہو تو پھر بیان کرے ورنہ غلط قیاس سے ہر ممکن بچے۔ اگر نصوص(texts)موجود ہیں اور قابل فہم ہیں تو اپنی طرف سے بات کو طول نہ دے۔ بس انہی کو بیان کر دے۔اگر نصوس (texts)موجود نہیں تو رائے وقیاس-میں محمود رائے سے فتویٰ دینے کی اجازت ہے مگر محمودرائے بناتے وقت بھی تمام ائمہ فقہاء کے فتاویٰ واقوال سے اولاً مستفید ہو جائے۔

غیر متعصب ہو: تعصب اگر حق کے لئے ہو تو ایسا تعصب ممدوح ہے ورنہ باطل کا ساتھ دینے کے لئے ہو تو یہ باطل ہے۔حق کا میزان قرآن وصحیح حدیث وسنت ہے یاجو بھی ان کے موافق ہو۔ مگرجو ان کے مخالف ہے وہ باطل تعصب ہے۔اس لئے مفتی متعصب وتنگ نظر نہ ہو او ر نہ ہی محدود علم وسوچ کا مالک ہو۔ وہ صحیح فتوی دیتے وقت تمام ائمہ ہدیٰ کے اجتہادات وفتاویٰ سے مستفید ہو۔ پھر جسے بھی قرآن وسنت کے دلائل سے اقرب پائے اس کے مطابق وہ فتویٰ دے دے۔ اس کا ذہن تقلیدی نہ ہو اس لئے کہ مقلد مفتی فتوی دینے کا اولا تو استحقاق ہی نہیں رکھتا دوسرا یہ کہ وہ مقلد ہونے کی وجہ سے جانب داری کو ترک نہیں کرسکتا اوریووں وہ درست فتوی دے ہی نہیں سکتا۔ اور اگر وہ فتوی دے بھی دے تو ایسے مقلد مفتی کے فتویٰ کی علماء کے ہاں کوئی حیثیت نہیںہے کیونکہ یہ فتویٰ تو پہلے ہی سے موجود تھا۔ اس مفتی کا اس میں کیا کمال ہے کہ اسے مفتی کہا جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرآن وحدیث کا عالم ہو: قرآن وحدیث کے خلاف کسی کا قول ہو تو مفتی کو اس کی طرف مائل نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ اس قول کی وج حدیث کا نہ ملنا ہے یا اس سے صحیح و ضعیف کی پہچان میں غلطی ہو گئی ہو گی۔ یہی اسلاف کی خطائوں اور غلطیوں کا عذر ہے اور معتدل رائے ہے۔ حدیث خواہ حجازی ہو یا کوفی ، یمنی ہو یا شامی یا مصری ۔ اگروہ صحیح ہو تو مفتی اس کے مطابق ہی فتوے دے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:

وَلَو بَلَغَہُ الْحَدیثُ فَاعْتَمَدَ۔ فَکَذَالِکَ عَنْ مُحَمَّدٍ لأِنَّ قَولَ الرَّسُولِ لاَیَنْزِلُ عَنْ قَولِ الْمُفْتِیِّ۔اگر عالم کو حدیث ملے تو اس پر وہ اعتماد کرے۔ امام محمد کے نزدیک یہی درست طرز عمل ہے۔ کیونکہ فرمودہ ء رسول مفتی کے قول سے کم تر نہیں ہو سکتا۔
امام شافعیؒ سے پوچھا گیا کہ مفتی کون ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:

اللہ کے دین میں فتویٰ دینا صرف اسی کے لئے جائز ہے جو کتاب اللہ کا ماہر ہو، احادیث پر بھی اس کی نظر کامل ہو، قرآن و حدیث کی وضاحت کے لئے کام آنے والے دیگر فنون یعنی لغت وشعر کا بھی عالم ہو۔ ان فنون کا پھر نہایت انصاف کے ساتھ استعمال کرتاہو۔ لوگوں کے اختلاف پر بھی اس کی نگاہ ہو اور استنباط کا ملکہ بھی رکھتاہو۔ جس شخص میں یہ اوصاف جمع ہوں وہ شریعت پر گفتگو کرنے اور حلال وحرام کے فتوے دینے کا اہل ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ (اعلام الموقعین -ص۴۹)

امام احمد ؒ سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
’’جب کوئی فتویٰ دینے کے عہدے پر آنا چاہتا ہو تو اس کے لئے قرآن، احادیث اور ان کی اسانید -کا عالم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ اس کیلئے فتویٰ دینا جائز نہیں‘‘۔

جو مفتی قرآن وحدیث سے استفتاء کا جواب مزین کرتا ہے اس کا فتوی اس قابل ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ ایسا فتویٰ جس میں غیر مستند کتب کے حوالے ہوں اور قرآن وسنت سے مستفاد نہ ہوں ، ان کی حیثیت ایک رائے کی ہو سکتی ہے جسے مانا بھی جاسکتا ہے اور نہیں بھی بشرطیکہ معاملہ سخت نہ ہو۔ اکثر علماء نے مفتی کیلئے اجتہادکی شرط ضروری قراردی ہے یعنی وہ مجتہد ہو۔ اس صورت میں مقلد کے فتوی کو نہ فتوی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے مفتی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ایسی شرط درست نہیں کیونکہ افتائ، علم فقہ کی ایک فرع(Branch) ہے ۔ یعنی جس میں فقہاء نے جزئی واقعات کے بارے میں فروعی احکام بیان کئے ہیں تا کہ بعد میں آنے والے قوت ِ استباط سے محروم لوگ ان سے مستفید ہو سکیں۔ چونکہ اس میں کسی اجتہادی کاوش کا دخل نہیں اس لئے مقلد بھی مفتی ہو سکتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فتویٰ نویسی کا اسلوب:
اسلاف میں فتوی نویسی یا افتاء کا اسلوب بہت سہل، مختصراور سادہ تھا۔واضح زبان اور تحریر میں گیرائی و گہرائی کے ساتھ جامعیت ہوتی تھی۔ مخاطب کی رعایت الدین یسر کی روشنی میں کی جاتی تھی۔ اولاً تو کوشش یہی ہوتی کہ صورت مسئولہ کی وضاحت کو قرآن مجید سے تلاش کر کے اسے حدیث رسول سے مزین کر دیا جائے۔ بصورت دیگر احادیث رسول سے سائل کی تشفی کرا دی جاتی۔ صحابہ کرام ؓ کے فتاوی ہمیں ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ اسلاف کے اسی منہج کوسامنے رکھ کر فتویٰ نویسی کے اسلوب کویوںمتعین کیا جا سکتا ہے۔

٭… جواب با حوالہ ہو۔ یعنی کتاب کانام، جلد نمبر اور صفحہ نمبر بھی لکھا جائے۔

٭…حوالوں میں قرآن مجید اور احادیث رسول کوہر صورت میں فوقیت ہو۔ کیونکہ سوال کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتوی طلب کیا جائے۔ یہ ناانصافی ہو گی کہ جواب خاص مکتب فکر کا دے دیا جائے۔

٭…احادیث ِ رسول میں بھی صحیح احادیث کاانتخاب ہو۔ ضعیف احادیث و اقوال علماء و فقہاء سے اجتناب کرنا چاہیے۔

٭… صحیح حدیث اگر مل جائے تو متأخر فقہاء کے تائیدی فتاوٰی بھی نقل ہوسکتے ہیں ورنہ حدیث پرہی اکتفاء کیا جائے۔

٭…اگر صحیح حدیث نہ ہو تو ضعیف حدیث یا اقوال فقہاء کے مطابق فتویٰ ناگزیر صورت میںدیا جا سکتا ہے۔

فتویٰ نویسی کی ایک مختصر تاریخ:
رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اہل اسلام کے لئے ایک ایسا سر چشمہ تھی جس سے وہ ہمہ وقت اپنی دینی ودنیاوی پیاس بجھاتے تھے۔ اچانک پیش آنے والا واقعہ ہو یا عرصہ بیشتر کا ، اس کا حل آپ ﷺسے ہی مانگا کرتے تھے۔ بعض اوقات آپ ؐ فوراً جواب عنایت فرما دیتے۔ اور اگر اس سلسلے میں کوئی ربانی ہدایت نہ ہوتی تو وحی کا انتظار فرماتے۔ اور وحی کے بعد آپ ؐ سائل کو جواب دیتے۔ شرعی مسئلہ بتانے میں پیارے رسول ﷺ بھی بڑے محتاط تھے۔ آپ ؐ کے جوابات (فتاویٰ) وحی الٰہی سے ہی ہوتے تھے۔

رسول اکرم ﷺ کے فتاوی کو اگر بغور دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ آپﷺ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ بہت ہی مختصر الفاظ میں بیشمار احکامات کو سمو دیا ہے۔ یہ الفاظ بڑی گہرائی و گیرائی رکھتے ہیں۔ یہ فتاوی آپﷺ کی پیروی کرنے‘ انہیں فیصلہ کن ماننے‘ اور اپنے تمام ترجھگڑوں اور اختلافات کو مٹانے و ختم کرنے میں قرآن کی مانند ہیں۔ آپ ؐ کے بعد منصب فتویٰ پر آپ ؐ کے اصحاب فائز ہوئے جو اسلام کے ستون اور کلام اللہ وسنت رسول اللہ کی عملی تصویر تھے۔ طہارت قلب ، وسعت علم، بے تکلفی اور واضح نقطہ نظر رکھنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ دین کے سب سے زیادہ سچے خیرخواہ ، خداترسی میں یکتا یہ بندگان خدا فتوی دینے میں بھی بہت محتاط تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دین میں وسعت پیدا کرنے او ر حد درجہ احتیاط سے قدم اٹھانے کا کام ان سے لیا۔ انکی تعداد ایک سو تیس سے کچھ اوپر تھی جن میں خواتین بھی تھیں۔ أعلام الموقعین میں امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ان کا مختصر حال لکھا ہے۔

یہ سب حضرات زبانی اور تحریری دونوں طریقوں سے فتوی جاری کرتے تھے۔ مدینہ سے باہر جہاں بھی رہے لوگ اپنے مسائل انہی کے پاس لاتے۔مزید برآں سنت رسول ؐ سے واقف ہونے کے لئے بھی ان کے حلقوں سے مستفید ہوتے۔ یہ سلسلہ تقریبا ً حضرت انسؓ بن مالک کی وفات یعنی پہلی صدی ہجری کے آخر تک چلتا رہا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تابعین کے دور میں فتویٰ :
اسی دوران تابعین کی ایک نسل تیار ہو کے اپنی علم وفضل سے دنیا کو نواز رہی تھی۔ ان میں انہی حضرات صحابہ ؓ کے شاگردوں میں سعید بن المسیب ، عروۃ بن الزبیر و دیگر فقہاء شامل ہیں۔ جنہیں فقہاء سبعہ کہا جاتا ہے۔ جن کو منظوماً کسی نے یوں پیش کیا گیا ہے۔

إِذَا قِیْلَ مَنْ فِی الْعِلْمِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ رِوَایَتُہُمْ لَیْسَتْ عَنِ الْعِلْمِ خَارِجَۃٌ
فَقُلْ ہُمْ عُبَیدُ اللہِ ، عُرْوَۃُ ، قَاسِمٌ سَعِیدٌ ، أَبُوبَکْرٍ، سُلَیْمَانُ، خَارِجَۃُ
جب تم سے یہ پوچھا جائے کہ علم کے وہ سات سمندر کون ہیں جن کی روایت ہی یقین واذعان بخشتی ہے۔ تو تم کہو وہ حضرات عبید اللہؒ، عروۃؒ، قاسمؒ، سعیدؒ، ابوبکرؒ، سلیمانؒ اور خارجہ ؒہیں۔

ان سات فقہاء کے علاوہ دیگر تابعین بھی مفتی تھے۔ جنہوں نے اپنی علمی وسعت و بصیرت کی وجہ سے جگہ جگہ اس خلا کو پر کیا ۔ مکہ ، بصرہ، کوفہ، شام، مصر اور یمن میں یہ سب لوگ اس منصب پر فائز معاشرے کی دینی واصلاحی راہنمائی میں مصروف رہے۔ ان تمام کا منہج فتوی وافتاء قرآن وسنت کے بعد صحابہ کرام ؓ کے اجماعی فیصلے اوربعد میں انفرادی فتوؤں پر مبنی تھا۔ اپنی بات یا کلام لکھے جانے کو بہت مکروہ سمجھتے تھے۔ اور اس پر بڑی سختی سے قائم تھے۔ یہ مسلک بھی تھا کہ فتوی پایا اور اس کے خلاف صحابہ ؓ میں سے کسی کا فتوی نہیں ہے۔ تو بس اسی پر قناعت کر لی جائے۔ اور اپنی اجتہادی کوشش سے باز رہا جائے۔

زمانہ خیر کے بعد فتویٰ:
دوسری صدی ہجری میں قرون اولیٰ کے اس منہج میں اہل علم کے درمیان کچھ اصولی اور عقلی بنیادوں پر اختلافات رونما ہوئے۔ اس طرح اصولی نقطہ نظر کی تبدیلی سے فقہاء کے درمیان دو گروہ ہو گئے۔

 وہ گروہ جو استنباط مسائل میں یا افتاء میں احادیث وفتاوی صحابہ ؓ کی بنیاد پر فتوی دیتا تھا اور مفروضہ مسائل میں شرعی حکم بیان کرنے سے مجتنب تھا۔ یہ محدثین کی جماعت تھی جس میں حجازی علماء وفقہاء کی غالب اکثریت تھی۔

‚ دوسرے گروہ کے نمائندے فقہاء عراق تھے جن کی غالب اکثریت تھی جنہوں نے بعض قواعد بنائے اور انہی کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل اور مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کو مفروضی شکل میں تحریر کر دیا۔ اس کی وجہ غالبا ً یہی بیان کی جا سکتی ہے کہ اہل عراق کے ان فقہاء کے پاس صحیح احادیث کم تھیں۔ باقی موضوع احادیث کیلئے تو عراق ایک ٹکسال تھا۔ یہ فقہاء کسی بھی حدیث کو قبول کرنے میں محتاط تھے اس لئے ان کے ہاں رائے اور قیاس کا استعمال بکثرت تھا۔ جنہیں بعد میں کتب فقہ میں اور کتب فتاویٰ میں جگہ دے دی گئی۔

بعد کی نسلوں میں انہی کے متبعین اور مقلدین نے اپنے اپنے مسلک کی توجیہ وتائید میں کتب لکھیں۔ اور یوں دو انتہائیں سامنے آ گئیں۔ ایک نصوص میں اتنا منہمک ہوا کہ تفقہ نظر انداز ہو گیا اور دوسرا اصول و فروع میں اتنا گم ہوا کہ نصوص اسے نظر نہ آئیں۔ انہی میں کچھ ایسے مجتہدین بھی ظاہر ہوئے جنہوں نے نصوص اور تفقہ کو باہم ساتھ لیا اور جمود وسابقہ منہج آراء وقیاس سے آزاد ہو کر سلف صالحین کے اس منہج کو اپنایا جو اجتہادی تھا۔ انہوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کا علاج کیا اور بخوبی کیا۔ اس طائفہ کے سرخیل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ تھے۔ ان کے اس طریقہء کار کا اثر مصر وشام اور دیگر بلاد عربیہ پر خاصا ہوا۔ ایسی روشن فکر نے جمود وقیاسات کی دیواریں توڑ دیں اور ہر جگہ نصوص وتفقہ سے استفادہ کا رحجان بڑھا اور بہتر نتیجہ دیکھنے میں آیا۔

خلافت عثمانیہ نے جب ۱۲۸۶ھ؁ میں مجلۃ الاحکام العدلیہ کی تدوین کی تو پہلی بار مذاہب اربعہ سے ہٹ کر بعض مسائل میں امام ابن شبرمہ کے مسلک پہ فتوی بھی دیا گیا۔ ۱۹۲۹ھ؁ اور ۱۹۳۶ھ؁ میں مصر نے بھی اسی ڈگر پہ چلنے کی کوشش کی۔ برصغیر میں بھی بڑے بڑے علماء نے اپنے اپنے مسلک سے ہٹ کر دیگر مسالک پر فتوے دیے۔ اور اس کی تائید میں کتب لکھیں۔ جن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شامل ہیں اوران کی اولاد وتلامذہ کی کثیر تعداد شامل ہے۔ پاکستان میں بھی بیشتر عائلی مسائل کا نفاذ انہی اجتہادی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جن میں اکثر مستحسن ہیں اور بعض دین سے جہالت پر مبنی اور خواہشات کا پلندہ ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
افتاء کی نوعیتیں:
اسلاف میں افتاء کی نوعیتں-وقت ، زمانہ اور تحقیق کے اعتبار سے بدلتی رہیں۔ کہیں اجتہاد ہوا تو سابقہ مسائل نظر انداز کرنا پڑے۔ یا ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ کہیں دلیل ملی تو اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرنا پڑا اور کہیں اپنے محترم استاد کی رائے سے بھی مختلف رائے اس معذرت کے ساتھ دینا پڑی کہ اگر آج میرے استاد بھی حیات ہوتے تو اس دلیل اور حجت کو پا کر اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔ یہ سب انداز، کتب فقہ میں اور ہم عصر فقہاء کی کتب فتاوی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

مگر ہمارے یہاں فتویٰ کی ایک اور قسم رائج ہو گئی ہے جو یقینی طور پر غیر شرعی ہے۔ کہ فلاں ملک اسلام دشمن ہے یا فلاں شخص فلاں دشمن کا ایجنٹ ہے اس کی مصنوعات کو خریدنا جائز نہیں وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کا فتویٰ حقیقتاً فتویٰ نہیں وہ یک طرفہ طور پر ہدایت جاری کرنا ہے اور اس قسم کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار ایک قائم شدہ حکومت کو ہے نہ کہ کسی مفتی کو۔

فتویٰ کا دائرہ اور اس کی اہمیت:
فتوی کی ہمارے دین میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس لئے کہ جس فتویٰ کو علم وصداقت سے صادر کیا جائے وہ ایک حجت ہے۔ جس کے بعد آدمی کے پاس کوئی عذر نہیں رہتا۔ مگر اسے قانوناً نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا دائرہ انتہائی محدود ہے۔اس لئے کہ فتوی شریعت کے جزئی یا غیرمنصوص معاملے میں صرف ایک عالم کی رائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کسی بھی حال میں قضاء کا قائم مقام نہیں بن سکتا۔ یہ دراصل دونوں جانب یعنی مفتی اور مستفتی کی خدا خوفی کا معاملہ ہے۔ خداخوفی نہ ہو تو مفتی، قاضی سے بھی زیادہ گناہ گار ہوتاہے۔ اس لئے کہ مفتی کوفی الفور جواب دیناپڑتا ہے اور قاضی کو سوچنے اورغور کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ قاضی کی بہ نسبت مفتی زیادہ سلامت رہتا ہے۔ مفتی اپنے فتوے کو لازم ونافذ تو نہیں کرتا صرف وہ سائل کا جواب دیتا ہے ۔ جو اگر چاہے تو قبول کر لے یا رد کردے۔ مگر قاضی کا فیصلہ اٹل ہوتاہے اور نافذ بھی۔ مزید یہ کہ قاضی کے حق میں جو وعید آئی ہے وہ مفتی کے حق میں نہیں۔اس لئے مفتی کو فتوی دیتے وقت قاضی بننے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔

مذہبی بنیاد پر دیا جانے والا فتوی جس میں آراء و قیاس یا بزرگوں کی باتیں ہوں۔ ہمیشہ تعصب پر مبنی فتوی ہوتا ہے۔ جسے ایک معتدل آدمی ماننے سے انکاری ہوتا ہے۔ مفتی کو چائیے کہ وہ فتویٰ دیتے وقت سائل کے مسئلے کو سمجھے اور اپنے مسلکی خول سے باہر آ کر دیگر فقہاء کرام ؒکی آراء سے بھی سائل کو آگاہ کرے۔ اور پھر بعد میں جو حق کے قریب بات ہو اس کی روشنی میں جواب دے۔ہمارے ایک معاصر دانش ور نے کتنا صاف ستھرا تجزیہ کیا ہے ان کا کہنا ہے:

یاد رکھئے
! فتوی شریعت کی عملی صورت نہیں وہ کسی جزئی معاملہ میں ایک عالم کی رائے تو ہو سکتی ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ شریعت مقدس ہے مگر فتوی مقدس نہیں خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم کا فتوی ہی کیوں نہ ہو۔نیز ایسے مفتی کو ہمیشہ امام شافعی ؒ کا یہ قول یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری رائے درست ہے احتمال خطاء کے ساتھ اور دوسروں کی رائے خطا ہے احتمال صحت کے ساتھ۔مثال کے طور پر امام ابوحنیفہؒ نے فتوی دیا کہ ایک غیر عربی داں ایرانی نو مسلم نماز میں سورہ فاتحہ فارسی زبان میں پڑھ سکتا ہے صاحبین(قاضی ابویوسف اور امام محمد) نے اس سے اختلاف کیا بعد کو امام ابوحنیفہؒ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتوی اپنے آخری درجہ تک پہنچ کر بھی صرف ایک انسانی رائے ہے۔ وہ کسی بھی درجہ میں مقدس شریعت کا کوئی لازمی حصہ نہیں۔ شریعت کی حقانیت کو جانچنے کا معیار اللہ ورسول کا کلام ہے۔ کوئی انسانی کلام اس کا معیار نہیں بن سکتا، کیونکہ انسان کا کلام ایک اضافی کلام ہے وہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور درست بھی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فتاویٰ کی تاریخی اہمیت :
گو کتب فتاوی، فقہاء کے ہاں تیسرے درجے کی کتب شمار ہوتی ہیں۔مگر ان فتاوی کی بلاشبہ اہمیت غیر معمولی ہے۔ مثلاً:

l ماضی کے مختلف ادوار میں مسلمانوں کے سماجی ، سیاسی ،تمدنی اور فکری حالات کا علم ہوتاہے۔

l فتاویٰ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کو کب اور کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور فقہاء وقت کا موقف کیا رہا۔

l ہر زمانہ و علاقے کے رسم ورواج اور مروجہ بدعات و خرافات کی تصویر بھی ان کتابوں سے نظر آتی ہے۔

l علماء کے فتاویٰ پر عوام کا رد عمل کیا ہوتا تھا۔

l مفتیان کرام کی سلاطین وامراء اور طلبہ وعوام سے تعلقات کیسے تھے۔

l ہر زمانے میں کن علماء کو فتویٰ نویسی یا افتاء کے مناصب ملے یا شہرت نصیب ہوئی۔

l ان کے علم وفہم اور بصیرت کا کیا حال تھا۔

اسی طرح دیگر اہم باتیںجو تذکرہ نگاری اور سوانحی خاکوں کی مدد گار ہو سکتی ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
آج کے فتاویٰ:
ہمارے یہاںہر مسلک کے فتاوی میں مسلکی چھاپ نمایاں ہوتی ہے۔ اور اسی نقطہ نظر کی تائید کیلئے اپنے مسلک کی فقہی کتب سے اقتباسات ماخوذ ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں مسئلے کی مختلف صورتیں اور ان کے مختلف جوابات تحریر کئے جاتے ہیں۔ اور بعض فتاوی میں جواب کی علت بتانے کے لئے قیاس اور عقلی توجیہات کا سہارا بھی لیاجا تا ہے۔ مگر عموما ًکتاب وسنت سے نصوص پیش کرنے کا اہتمام کم ہی ہوتا ہے۔ اگر کہیں احادیث کا ذکر ہوتابھی ہے تو:

اولاً: ان میں صحیح، ضعیف اورمرفوع وموقوف کے درمیان کوئی تمیز نہیں ہوتی۔

ثانیاً: صحیح حدیث اگر ہو بھی سہی تو اس کا استدلال غیر محل میں ہوتا ہے۔

ثالثاً: سارا زور مذہب کے مطابق مسائل کی تخریج یا اپنے مسلک کے مختلف علماء کے متعارض اقوال کے درمیان تطبیق وترجیح میں صرف ہوتا ہے۔ حالانکہ ان اقوال میں باہم اتنا اختلاف ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

رابعاً: دوسرے مذاہب کے علماء کے اقوال دلیل کے بغیر درج کر دیے جاتے ہیں۔ ان پر تسلی تب ہوتی ہے جب ان مآخذ کی طرف رجوع کر لیا جائے۔

ایسے فتوے عموماً مذہبی بنیادوں پر دیے جاتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ اپنے مذہب کا آدمی اسے قبول کر لے مگر یہ اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ تفریق بین المسلمین کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مفتی کارعب ودبدبہ بھی فروعی مسائل میں پڑ کے جاتا رہتا ہے۔ایسے فتویٰ کی حیثیت کیاباقی رہ جاتی ہے وہ عوام کی توجہ یا عدم توجہ پریا ردعمل پر مبنی نتیجہ ہوتاہے۔ جسے مفتی حضرات خود جان لیتے ہیں۔ اس لئے خواہ کسی کی رائے سے بھی ہو، اور اس میں مذہبی عصبیت کا عنصر بھی ہو ایسا فتوی بالکل نہ دیا جائے ورنہ وہ ایک مذموم کوشش ہوگی۔ ہاں مفتی اگر بے بس ہو جائے تو بوقت ضرورت اجتہاد کر کے رائے سے کام نکال لے۔ لیکن کسی کو یہ مت کہے کہ اس کا ماننا لازم ہے اور نہ ہی اس پر عمل ضروری بتائے۔ حضرت عمر ؓ نے قاضی شریح کو یہ لکھا:

جب کوئی مسئلہ آپ کتاب اللہ میں پالیں تو اسی کے مطابق فیصلہ دیجئے۔دوسری طرف توجہ ہی نہ کیجئے۔ پھر سنت کو ٹٹولیے ان دونوں میں نہ ملے تو جہاں صحابہ ؓ اجماع کریں اس سے فیصلہ کیجئے۔ اور اگر اتفاق سے ایسا مسئلہ سامنے آ جائے جس کا ذکر نہ قرآن میں ہو اورنہ ہی حدیث میں اور نہ ہی آپ سے پہلے کسی نے اس مسئلہ میں گفتگو کی ہو۔ اس صورت میں اگر آپ چاہیں تو اپنی رائے سے اجتہاد کر لیجئے اور اگر توقف کر سکیں تو ضرور کیجئے۔ میرے نزدیک آپ کا پیچھے ہٹ جانا بہ نسبت آگے بڑھنے اور اجتہاد و رائے دینے کے زیادہ بہتر ہے۔

امام احمدؒ نے امام شافعی ؒ سے سوال کیا کہ رائے وقیاس کی بنا پر کچھ کہنا کہاں تک جائز ہے؟۔ انہوں نے جواب میں کہا: بوقت ضرورت ، بقدر ضرورت ، نہ زائد اور نہ ہی اسے شاخ در شاخ لے جانا جائز، نہ اسے پھیلانا جائز اور نہ اسے بڑھانا جائز۔ یہی سلف کا طریقہ رہا۔ (اعلام الموقعین-ص ۶۲) سائل کو بھی علماء نے یہ نصیحت کی ہے کہ وہ مفتی سے سوال کرتے وقت کچھ معیارات ضرور قائم کرے۔ مثلا: مسئلہ پوچھنے والا اپنے عالم سے گزارش کرے کہ براہ مہربانی مجھے اس مسئلے کا جواب قرآن وسنت کی رو سے دیا جائے اور دوسرے ائمہ حضرات کی رائے سے بھی مطلع فرمائیں تاکہ میں اپنی سہولت کے مطابق جس کی رائے پر چاہوں عمل کر سکوں۔ علماء کو بھی چاہیے کہ وہ دیانتداری سے سب کی آراء پوچھنے والے کو بتا دیں۔ اس طرح وہ خود بھی خطأ کے احتمال سے محفوظ رہیں گے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مفتی بدلتا رہے:
شرعی مسائل کی صحیح معلومات کے لئے اور دوسرے علماء و فقہاء کے علم سے مستفید ہونے کے لئے سائل ضرور اپنے سمئلے کے بارے میں دو تین مفتی حضرات کی رائے لے لے۔ تا کہ کسی کے محدود علم میں خود محدود نہ ہو جائے۔ پہلے لوگ مفتی کیا مجتہد بھی بدل دیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ ہوں یا بعد کے اسلاف ان کی اکثریت متفق تھی کہ اگر فقہاء وعلماء موجود ہوں تو کسی سے بھی فتوی لیا جا سکتا ہے۔ شرح مسلم الثبوت:۶۳ میں ہے:
اَْجْمَعَ الصَّحَابَۃُ عَلَی أَنَّ مَنِ اسْتَفْتٰی أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ أَمِیرَیِ الْمُؤمِنِینَ فَلَہُ أَنْ یَسْتَفْتِیَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ وَمُعَاذَبْنَ جَبَلٍ وَغَیرَہُمَاوَیَعْمَلَ بِقَوْلِہِمْ مِنْ غَیرِ نَکٍیرٍ۔ یہ اجماع صحابہ ہے کہ کوئی اگر حضرات ابو بکر وعمر جو اہل ایمان کے امیر ہیں۔ ان سے فتوی پوچھے تووہ حضرت ابوہریرۃ اور حضرت معاذ بن جبل اور ان کے سوا دوسروں سے فتویٰ پوچھ کر بھی بغیر کسی ملامت کے عمل کر سکتا ہے۔

شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ فرماتے ہیں:

قاَلَ ابْنُ الْہُمَامِ فِي آخِرِ التَّحْرِیرِ: کَانُوا یَسْتَفْتُونَ مَرَّۃً وَاحِدًا وَمَرَّۃً غَیرَہُ، غَیرَ مُلْتَزِ مِینَ مُفْتِیاًوَاحِداً۔ابن الہمام -التحریر-کے آخر میں لکھتے ہیں: لوگ کبھی کسی سے فتویٰ پوچھتے تھے اور کبھی کسی سے ۔ کسی ایک مفتی کا التزام نہیں تھا بلکہ بدلتے رہتے تھے۔
احناف میں بھی قدرے اس پر عمل ہے۔ ردالمختار میں لکھا ہے: عبادات میں فتویٰ ہمیشہ امام ابو حنیفہ ؒ کے قول پر ہو گا۔ مسائل ذوی الارحام میں امام محمد ؒ کے قول پر اور مسائل وقف، قضاء اور شہادات میں امام ابو یوسف ؒ کے قول پر اور سترہ مسئلوں میں امام زفر ؒ کے قول پر فتوی ہو گا۔ مگر امام صباغی ؒ حنفی اس کے خلاف ہیں۔ وہ نماز میں امام ابو حنیفہ ؒ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے ، باقی مسائل خواہ عبادات ہوں یا غیر عبادات سب میں امام ابویوسف ؒ اور امام محمد ؒ کے قول پرفتویٰ دیا کرتے تھے۔ (روالمختار-جلد ۱/۵۳، ۱۶۱ جلد ۳/۴۰۵)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
غلط فتویٰ کی سنگینی:
مفتی -فتوی دینے سے قبل جانبین کے حالات کا بھی اچھی طرح جائزہ لے۔ محض سائل کے سوال پر اکتفاء کر کے فتوی دینے کا شوق پورا نہ کرے۔ کیونکہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ والی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس میں مفتی کا بھی شرح صدر ہوتا ہے اور فریق ثانی بھی مفتی کے مقام او رتقدس کا احترام کرتا ہے۔ ورنہ مفتی حضرات کی سادگی فریق ثانی پر جب نمایاں ہوتی ہے تو مقام واحترام تو کجا لوگ دین کو اور اہل دین کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لئے یہ اسلام کا طریقہ نہیں کہ کوئی شخص محض کسی کی مخالفت میں ذہن میں کوئی بات لائے۔ اس کو سوال بنائے یا اس قسم کا ایک مضمون استفتاء کیلئے بنائے کہ:

فلاں دار العلوم یا مثلاً الہدیٰ میں پڑھنا ، یا ان سے مالی تعاون کرنا جائز ہے یا ناجائز ۔ اور پھر مفتی صاحبان اس پر الجواب صحیح کی مہر کے ساتھ تفصیلی جواب دینا شروع کر دیں۔اور جسے چاہیںچھری سے ذبح کرنا شروع کردیں۔عموما ًایسے فتووں میںمصیطربننے کی کوشش کی جاتی ہے جو انتہائی نامناسب ہے۔اولا تو اس قسم کا سوال پوچھنا بھی اسلامی روح کے خلاف ہے اور اس کا جواب دینا بھی اسلامی روح کے خلاف ۔ صحابہ وتابعین کی مثال بتاتی ہے کہ وہ حاکمانہ ہدایات کبھی جاری نہیں کرتے تھے۔ اس کی بجائے وہ دعوت وتبلیغ کا کام کرتے تھے مثلا لوگ اگر سنت رسول کو چھوڑ رہے ہوں یا خواتین کوبے حجاب کیا جارہا ہو یا انہیں فحاشی میں مبتلا کرنے کی کوشش ہو رہی ہو تو صحابہ وتابعین کی سنت کے مطابق، ایسے لوگوں میں دعوت وتبلیغ کا کام کرنا چاہئے نہ کہ بائیکاٹ کا فتوی صادر کرناچاہئے۔ نتیجہ کے اعتبار سے اس قسم کا فتوی سراسر لاحاصل ہے۔ انسان کی اصلاح قلب وذہن کے بدلنے سے ہوتی ہے نہ کہ فتاویٰ جاری کرنے سے۔ اسی طرح دیگر غلط فتوے جو حقائق کو چھپا کر یا تلبیس کے ساتھ دئے جاتے ہیں ان سے بھی مفتی باز رہے۔سنن أبی داؤد میں ہے۔

مَنْ قَالَ عَلَیَّ مَالَمْ أَقُلْہُ قَلْیَتَبَوّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ}دو شخص میرے نام سے وہ بات کہے جو میں نے کہی نہیں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔

لاعلمی پر فتویٰ دینا ایک سنگین گناہ ہے ۔علم کے ہوتے ہوئے غلط فتویٰ دینا اس سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اگر کوئی اپنے مسلمان بھائی کا بھلا کسی اور چیز میں دیکھتا ہے مگر اسے غلط اور الٹا مشورہ دیتا ہے تو یہ بہت بڑی بددیانتی ہے۔ اس لئے جتنا خطرہ مفتی کو اس سلسلے میں ہوتا ہے قاضی کو بھی ہو سکتاہے۔ مگر مفتی کے فتوی کی سنگینی اس اعتبار سے بڑھ جاتی ہے۔ کہ اس فتوی کا مستفتی-اور عوام دونوں پر اثر ہوتاہے۔ جس پر وہ کسی بھی وقت عمل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح صحیح فتوے کا اجراء ثواب میں بہت بڑا اجر رکھتا ہے اسی طرح غلط
فتوے کا اجراء گناہ اور برے نتائج میں بھی بڑا گہرا اثر رکھتا ہے۔فتوؤں میں بغیر علم کے زبان کھولنا قرآنی آیات کی رو سے تمام حرام کاموں میں سب سے بڑھ کر حرام کام ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{قل انما حرم ربي الفواحش ما ظہر منہا۔۔۔۔۔وأن تقولوا علی اللہ مالا تعلمون¢} کہہ دیجئے بلاشبہ میرے رب نے تمام ظاہری اور باطنی فحش کو حرام قرار دیا ہے...اور یہ بھی کہ اللہ پر وہ باتیں چھانٹی جائیں جو تم نہیں جانتے۔

اس باب میں حرمتوں کی ترتیب درج ذیل ہے۔

w فحش کام حرام ہیں ۔ (سب سے ہلکا گناہ)

w گناہ اور ظلم کرنا۔ (ذرا بڑا گناہ)

w اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔( اس سے بڑا گناہ)

w اللہ کا نام لے کر وہ بات کہنا جس کا علم نہ ہو۔ (سب سے بڑا گناہ)

خواہ وہ بات اللہ کے نام یا صفات سے متعلق ہو یا اس کے کام سے۔ یا اس کے دین اور اس کی شریعت کے کسی بھی معاملے میں وہ بات ہو، سب سے بڑا جرم ہے اور سب کو شامل ہے۔ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا:
{ولاتقولوا لما تصف السنتکم الکذب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔¢} اپنی زبان سے جھوٹ موٹ اللہ پر بہتان باندھ کر نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ یاد رکھو! اللہ پر جھوٹ باندھنے والے نجات سے محروم رہتے ہیں۔

یہ وعید ہے ان حضرات کے لئے جو اللہ کے احکام میں جھوٹ اور غلط بات شامل کر دیتے ہیں۔ یا خود سے غلط تاویلات کر کے اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ آدمی کو اللہ کے حرام و حلال کا علم نہ ہو تو اسے کسی بھی صورت میں کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کہنا چاہئے۔ یہ کلمات کہ: اسے اللہ نے حرام کیا ہے یا یہ شریعت میں حلال ہے۔وغیرہ۔ کہنے سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہئے ورنہ ایسا آدمی اللہ کی نظر میں جھوٹا اور ظالم ہے۔ چونکہ تقویٰ، احساس ذمہ داری، محتاط گفتگو، عدم تعصب، علم وبصیرت جیسی صفات ہمارے مفتیان اسلاف میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اس لئے پہلے مفتیان کرام میں او رآج کے مفتیوں میں بڑا فرق ہے۔ جو فضیلت اسلاف کو حاصل تھی اس سے آج کے مفتی محروم ہیں۔إلَّا مَاشَاء اللہُ۔
 
Top