محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
مفتی کی خصوصیات
علم وصداقت: علم اور مسئلے کا صحیح حل پیش کرنا مفتی کی اولین خصوصیات میں سے ہے۔ مفتی بننے کا مقام ایک طویل علمی وتحقیقی تجربہ کا متقاضی ہوتا ہے۔ اور وسعت نظری کا بھی۔ وہ شخص مفتی کہلانے کا کبھی مستحق ہی نہیں رہا جو مذہبیت کا شکار ہوکر صرف اپنے ہی خول میں محدود رہا اور دیگر فقہاء وعلماء کی وقیع آراء کو یا اجتہاد کو کوئی وزن نہ دے سکا۔ اسلاف میں طویل عرصہ کی تدریس اور سالہا سال علماء وفقہاء سے علم حاصل کرنے کے باوجود افتاء کے مقام پر فائز ہونے کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ چند سالہ صحبت علمی اور معمولی سا ادراک پالینے سے فتویٰ نویسی یا افتاء کے عادی نہیں تھے۔ اور نہ ہی اس سلسلے میں وہ مخالف کی خبر لینے میں مشتعل نفسیات کے مالک تھے۔ ان کے مقام عالی اور مرتبے کی عظمت کو دیکھ کر لوگ ان کے فتاویٰ کی قدروقیمت جانتے تھے کہ یہ منصف مزاج ہیں فتوی دینے میں معتدل طبیعت کے مالک ہیں اورمسلکی تعصب کا شکار ہوئے بغیر فتویٰ دیا کرتے ہیں۔
اس لئے جو مفتی شرعی مسئلہ بتانا چاہتا ہے اس کے پاس کم از کم مسئلہ کا صحیح علم ہو اور ساتھ ہی ایمان و سچائی کا مادہ بھی۔ وہ قرآن مجید کی آیات اور صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے بزرگوں کے اقوال یا غیر صحیح احادیث سے گریز کرے کیونکہ یہ علم وصداقت نہیں۔ مفتی جو اقتباس بھی بتانا چاہے من وعن بتائے یا اس کی تلخیص کر دے۔ مگر اس میں تحریف یا تغیر نہ کرے۔ روایت اور فتویٰ دونوں کے لئے ایسی وصف کا ہونا بنیادی طور پر مسلم ہے۔ مفتی حق گوئی سے نہ تو دنیوی مصلحتوں کو سامنے رکھے اور نہ ہی دنیوی فتنوں کے خوف سے گھبرائے بلکہ حق بات کو واضح کردے۔
اخلاق و کردار: مفتی اپنے معاملات میں درستی وراستی اختیار کرے۔ اندر ، باہر ، کھلے چھپے ہر حال میں دل کو زبان کے مطابق اور ظاہر وباطن کویکساں رکھنے والا بنے۔ اگر حکومت کا ایک نمائندہ بڑی قدر سے دیکھا جا سکتا ہے اور اسے عزت واکرام کے لائق سمجھا جاتا ہے۔ تو خالق کائنات کا یہ پیغامبر کتنے بلند مرتبہ والا ہونا چاہیے۔اپنے منصب کی توقیر کرنا مفتی کے لئے فرض ہے۔ وہ اپنے مرتبے کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے۔ دینوی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر یا دینوی فتنوں سے گھبرا کر حق بات کو غیر واضح بیان نہ کرے اور نہ ہی حق کے بیان سے کبھی ہچکچائے۔
فہم و فراست: صحیح اور سچا فتوی وہی مفتی دے سکتا ہے جو صاحب فراست ہو۔ مسئلہ کو صحیح ادراک کرنا مفتی کی فراست کا امتحان ہوتا ہے۔ اس لئے وہ سب سے پہلے مسئلہ کی تہہ تک پہنچے اور پھر اس کا حکم کتاب اللہ وسنت رسول اللہ میں تلاش کرے۔ پھر اپنے فہم اور حکم کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھے۔ مطابقت ہو تو پھر بیان کرے ورنہ غلط قیاس سے ہر ممکن بچے۔ اگر نصوص(texts)موجود ہیں اور قابل فہم ہیں تو اپنی طرف سے بات کو طول نہ دے۔ بس انہی کو بیان کر دے۔اگر نصوس (texts)موجود نہیں تو رائے وقیاس-میں محمود رائے سے فتویٰ دینے کی اجازت ہے مگر محمودرائے بناتے وقت بھی تمام ائمہ فقہاء کے فتاویٰ واقوال سے اولاً مستفید ہو جائے۔
غیر متعصب ہو: تعصب اگر حق کے لئے ہو تو ایسا تعصب ممدوح ہے ورنہ باطل کا ساتھ دینے کے لئے ہو تو یہ باطل ہے۔حق کا میزان قرآن وصحیح حدیث وسنت ہے یاجو بھی ان کے موافق ہو۔ مگرجو ان کے مخالف ہے وہ باطل تعصب ہے۔اس لئے مفتی متعصب وتنگ نظر نہ ہو او ر نہ ہی محدود علم وسوچ کا مالک ہو۔ وہ صحیح فتوی دیتے وقت تمام ائمہ ہدیٰ کے اجتہادات وفتاویٰ سے مستفید ہو۔ پھر جسے بھی قرآن وسنت کے دلائل سے اقرب پائے اس کے مطابق وہ فتویٰ دے دے۔ اس کا ذہن تقلیدی نہ ہو اس لئے کہ مقلد مفتی فتوی دینے کا اولا تو استحقاق ہی نہیں رکھتا دوسرا یہ کہ وہ مقلد ہونے کی وجہ سے جانب داری کو ترک نہیں کرسکتا اوریووں وہ درست فتوی دے ہی نہیں سکتا۔ اور اگر وہ فتوی دے بھی دے تو ایسے مقلد مفتی کے فتویٰ کی علماء کے ہاں کوئی حیثیت نہیںہے کیونکہ یہ فتویٰ تو پہلے ہی سے موجود تھا۔ اس مفتی کا اس میں کیا کمال ہے کہ اسے مفتی کہا جائے۔