اصطلاحی تعریف:
فقہ کی ایک سے زائد تعریفات پائی جاتی ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں ان میں سے معروف درج ذیل ہیں
· ایسا علم جس میں اُن شرعی احکام سے بحث ہوتی ہو جن کا تعلق عمل سے ہے اور جن کو تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے﴿۶﴾ ـ
عموماً علمِ فقہ کی وہی تعریف کی جاتی ہے جو درج بالا سطور میں موجود ہےـ علاوہ ازیں مختلف فُقَھَاء نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں جو تقریبا انہی تعریفات سے قریب ترین ہیں یا انہی نکات کو بیان کرتی ہیںـ
· اصول الفقة کلمة مرکبة من کلمتين، يقصد منها مجموعة القواعد و القوانين الکلية التی ينبنی عليها استنباط الاحکام الفقهية من الادلة الشرعية۔ و هو بهذا المفهوم يعتبر قانون الفکر الاسلامی، و معيار الاستنباط الصحيح۔﴿7﴾
حقیقت میں لفظ "اصول فقہ" دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے قوانین اور قواعد و ضوابط کا مجموعہ جس کی بنیاد پر شرعی دلائل سے قانونی احکام اخذ کیے جاتے ہیں۔ اس مفہوم میں اس کا مطلب "فکر اسلامی کا قانون" ہے اور یہی احکام کو صحیح طور پر اخذ کرنے کا معیار ہے۔
· ایک اور صاحب علم لکھتے ہیں:
The science of Source Methodology in Islamic Jurisprudence Usul al Fiqh has been defined as the aggregate, considered per se, of legal proofs and evidence that, when studied properly, will lead either to certain knowledge of a Shari'ah ruling or to at least a reasonable assumption concerning the same; the manner by which such proofs are adduced, and the status of the adducer ﴿8﴾.
خُلاصه کلام یہ ہے کہ علم فقہ میں صرف ان مسائل سے بحث کی جاتی ہے جو محض بندوں کے افعال سے تعلق رکھتے ہوں جیسے نماز، روزہ، نکاح ، طلاق، خرید و فروخت اور جرائم وغیرہ ـ بالفاظ دیگر اس علم میں صرف ایسے احکام شامل ہیں جو عبادات اور معاملات سے متعلق ہوں اور ایسے احکام کا اس میں کوئی دخل نہیں جو عقائد و ایمانیات سے تعلق رکھتے ہوںـ
کہ فقہ احکام شرعیہ فرعیہ کے اس علم کو کہتے ہیں جو احکام کی اول ہ مفصلہ سے حاصل ہو۔ احکام فرعی وہ ہیں جن کا تعلق عمل سے ہوتا ہے او راحکام اصلی وہ ہیں جن کا تعلق اعتقاد سے ہوتا ہے۔
امام راغب اصفہانی کے نزدیک فقہ کا مطلب کسی چیز کے باطن کو جاننا اور اس کا گہرا عل حاصل کرنا۔
فقہ حنفی کی مشہورالدر المختار میں ہے : فقہ مسائل کے یاد رکھنے کا نام ہے اور حفظ مسائل کا کمتر مرتبہ یہ ہے کہ تین مسائل یاد ہوں ﴿9﴾
قرآن مجید نے بھی اس لفظ کو فہم دقیق کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔
صدر اسلام میں یہ لفظ شرعی احکام کے فہم کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا خواہ وہ احکام نظری ہوں یا عملی اور خود ان احکام کو بھی فقہ کہنے کی مثال اس حدیث سے ملتی ہے جس میں آپۖ نے فرمایا ہے۔ رب حامل فقہ الی من ھوافقہ منہ ۔ البتہ دور آئمہ میں علوم کی اشاعت اور تخصصات کے وجود میں انے کی وجہ سے اس لفظ کا اطلاق شریعت سے احکام کے استنباط کے علم اور ان عملی شرعی کے مجموعہ تک ہو کر رہ گیا خواہ وہ قران و سنت پر مبنی ہوں یا اجتہاد شرعی کے ذریعہ مستنبط شدہ ۔ دور اجتہاد کے بعد کے زمانے کے وہ احکام بھی جو انہی اصول و قواعت پر مستنبط ہوے ہیں فقہ ہی کا حصہ شمار ہوتے ہین ۔ فقہ کے عملی احکام عبادات اور معاملات کی تفصیل سے بحث کرتے ہیں یعنی انسان کے روابط اپنے خالق کے ساتھ ار اپنے ہم جنس افراد کے ساتھ ، ار یہی دو پہلو اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی بقا ار حرکت کا اظہار ہیں اور ان کے ٹھیک ہونے پر ہی انسان کی دنیوی اور آخروی زندگی کی کامیابی کا انحصار ہے ۔ البتہ جو چیز فقہ کے دائرے سے باہر ہے وہ عقائد اور اخلاقیات ہیں۔ شریعت" شریعتہ کے معنی اہل لغت کے نزدیک ہیں " پانی کے گزرنے کا راستہ " یا " وہ جگہ جہاں جا کر پانی پیا جاۓ" ۔ اس سے لفظ شریعت کے یہ معنی مجاز الۓ جاتے ہیں کہ کہ وہ سیدھا راستہ ےہ جنو انسان کو اس کے منبع حیات تک لے جاتا ہے نیز ان اصول و ضوابط کو جو انسان کو شاہراہ حیات پر سیدھا اور منظم طور پر چلنے میں مدد دیتے ہیں ان کو بھی شریعت انہی معنوں میں کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے احکام کو بھی شریعت اسی لۓ کہا گیا ہے کہ جس طرح پانی انسانی زندگی کی بقاء کا سبب ہے اسی طرح یہ شریعت انسان کی اخلاقی ، عقلی اور روحانی زندگی کی بقاء اور صلاح کی ضامن ہے نیز شریعت وہ سیدھا راستہ ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں اور یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر ادمی حق کے منبع تک پہنچتا ہے۔
فقہ کی تعریف میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اس میں عملی احکام سے بحث کی گئی ہے۔ اور یہی تعریف اب ہم نے شریعت کی بھی ہے۔ تو آخر شریعت اور فقہ میں کیا فرق ہے ؟فرق یہ ہے کہ شریعت ان عملی احکام کو کہتے ہیں جو اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیے ہیں خواہ وحی متلوکی صورت میں خواہ وحی غیر متلو کے ذریعے سے رسولۖ کے اعمال و اقوال کی صورت میں ۔ اس کے مقابلے میں فقہ میں نہ صرف ان احکام کو مدون کیا گيا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی کا صریح حکم موجود ہے بلکہ ایسے احکام بھی اس میں شامل ہیں جو اس منصوص احکام کی تفسیر و تشریح ہیں یا جو مجتہدین کی اجتہادی کوششوں کا ثمر ہیں۔ اس بنیادی فرق کی وجہ سے دوسرے بہت سے فرق بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلا شریعت کے احکام قطعی اور یقینی ہیں کیونکہ وہ وحی پر مبنی ہیں جب کہ فقہ کے وہ احکام جو اجتہاد پر مبنی ہیں ظنی ہیں اور ان سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا۔
2 شریعت کے احکام میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی جب کہ فقہ کے اجتہادی احکام وقت اور حالات کے بدلنے کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔
3 شریعت کے احکام میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی جب کہ فقہاء کے اجتہادات پر عمل اختیاری بات ہے الایہ کہ حکومت وقت اپنی قوت نافذہ سے کوئی بات بطور قانون نافذ کر دے۔
4 شریعت سر اسر خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہے اور منزہ عن الخطا ہے جبکہ فقہ میں انسانی عقل اور تدبر کو دخل حاصل ہے اور اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ فقہ کی تعریف نے مکمل مفہوم اختیار کرنے میں کچھ مراحل طے کیے جو مختصرا درج ہیں :
۱۔ جب فقہ شرع کا مترادف سمجھا جاتا ہےاور ہر اس شئی کی معرفت اس میں شامل تھی جو اللہ تعالی نے نازل کی ہو خواہ اس کا تعلق عقیدہ ،اخلاق یا کسی بھی شعبہ سے ہو
۲۔ اس مرحلے میں فقہ کی تعریف میں کچھ وسعت میں تخصیص پیدا ہوئی کیونکہ فنون کی تدوین کی وجہ سے تمام علوم الگ الگ مرتب ہونے لگے تھے اور صرف مسائل کی فہم فقہ کی تعریف میں باقی رہ گئی لیکن اس میں شرعیہ عملیہ کے ساتھ شرعیہ قلبیہ بھی شامل تھی
۳۔ اس مرحلے میں مزید تخصیص کی وجہ سے شرعیہ قلبیہ کو الگ علم کی حیثیت سے مدون کیا گیا لہذا اب صرف عملی مسائل کا نام فقہ رہ گیا ۔