• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اور اصول فقہ کی تعریفات اور اس کی ارتقاء و اہمیت ﴿قدیم مصادرومراجع﴾

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فقہ اور اصول فقہ کی تعریفات
اور
اس کی ارتقاء و اہمیت
﴿قدیم مصادرومراجع﴾
طالب علم : امجد عبیداللہ
ایم ایس

اشراف:
پروفیسر ڈاکٹر عابدہ شمس
شیخ زید اسلامک سینٹر، جامعہ کراچی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پس منظر:
اس امر پر امت مسلمہ کے تمام علما کا اتفاق ہے کہ ختم نبوت کے بعد اب دین کا تنہا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین دو طریقوں سے عطا فرمایا :
· ایک اللہ تعالیٰ کا براہ راست کلام جو قرآن مجید ہے
· اور دوسری حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت مبارکہ۔
معاشرتی اعتبار سے جب کوئی معاشرہ اپنے ذخیرہ مذہب کو اپنے قوانین کامنبع بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں جوعلم وجود پذیر ہوتا ہے اسے علم فقہ کہتے ہیں کہ اس کے اصول وضوابط کی مدد سے ہم دین کے بنیادی ماخذوں سے قوانین کو حاصل کرتےہے۔ اسلامی معاشرہ میں اصول وضوابط کا محور اللہ تعالی کا کلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی دوامور سے اخذ کیے جاتے ہیں۔لہذا جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس عمل کو اصول فقہ کے نام سے یاد کیے جاتا ہے اس حوالے سے جو سوالات ذہن میں آتے ہیں :
کہ ان اصول وضوابط کو کیسے سمجھا جائے؟

ان اصول وضوابط کو سمجھنے کے لیے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟
قرآن مجید کو سمجھنےکے لیے کن اصولوں کی ضرورت ہے؟
سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟
سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی؟
قرآن اور سنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟
اصول فقہ کی تعریف کیا ہے ؟
اس کا آغاز اور ارتقا کیا ہے اور اس کی تدوین کیسے اور کیوں کر ہوئی ؟
قرآن مجید، سنت اور حدیث میں سے کس ماخذ کو دین کا بنیادی اور کس ماخذ کو ثانوی ماخذ قرار دیا جائے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مروی احادیث کو کیسے سمجھا جائے گا اور ان سے سنت کو کیسے اخذ کیا جائے گا؟
اگر قرآن مجید کی کسی آیت اور کسی حدیث میں بظاہر کوئی اختلاف نظر آئے یا دو احادیث میں ایک دوسرے سے بظاہر اختلاف نظر آئے تو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟
المختصر ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصول فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
فقہ کا معنی و مفہوم
لغوی وضاحت:
لفظ فقہ فہم، سمجھ اور دانش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیساکہ مندرجہ ذیل دلائل سے واضح ہے:

قَالُواْ يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ ۔﴿۱﴾
ترجمہ : انہوں نے کہا اے شعیب!تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں
ـ"
فَمَا لِهَؤُلاء الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا ۔ ﴿۲﴾
ترجمہ : انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں
ـ"
ارشاد باری تعالی ہے کہ :
فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ ۔﴿۳﴾
ترجمہ :ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں
ـ"
حدیث نبوی ہے کہ :
من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین
ترجمہ : "اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتے ہیں ﴿۴﴾
ـ
یہ لفظ عربی گرائمر کے اعتبار سے باب فَقِہَ ، فَقُہَ (سمع،کرم) کا مصدر ہےـ باب تَفَقَّہَ(تفعّل) بھی اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہےـ فَقَّہَ ، اَفُقَہَ (تفعیل، افعال) یہ ابواب ، سکھانا اور سمجھانا،، کے معانی میں مستعمل ہیں ـ لفظِ فقیہ "علمِ فقہ جاننے والے اور بہت سمجھ دار شخص پر بولا جاتا ہےـ اس کی جمع "فُقَھَاءُ" مستعمل ہے ﴿۵﴾
یعنی فقہ کے حقیقی معنی کسی شئی کو کھولنا اور واضح کرنا ہے۔ فقیہ اس عالم کو کہتے ہیں جو احکام شریعہ کو واضح کرے اور ان کے حقائق کا سراغ لگا
ۓ او مغلق و پچیدہ مسائل کو واضح کرے ۔ فقہ کے لغوی معنی کیسی چیز کو جاننا ہے۔ پھریہ علم شریعت کے ساتھ خاص ہو گيا۔
فقہ الشیئ فقھا فھمہ : فقہ (ک) فقاصۃ: علم و کان فقیھا : فقہ (س) فقھا: کسی چیز کا جاننا اور سمجھنا۔ فقہ (ک) فقاھۃ: فقیہ ہونا علم میں غالب ہونا (اقرب الوارد) لغوی طور پر فقہ کا مطلب ہے علم اور فہم
المختصر لفظ فقہ درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے :
۱۔ متکلم کے کلام سے اس کی غرض سمجھنا
۲۔ اشیا دقیقہ کے فہم کا نام فقہ ہے
۳۔ سمجھنا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402

اصطلاحی تعریف:
فقہ کی ایک سے زائد تعریفات پائی جاتی ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں ان میں سے معروف درج ذیل ہیں
· ایسا علم جس میں اُن شرعی احکام سے بحث ہوتی ہو جن کا تعلق عمل سے ہے اور جن کو تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے﴿۶﴾ ـ
عموماً علمِ فقہ کی وہی تعریف کی جاتی ہے جو درج بالا سطور میں موجود ہےـ علاوہ ازیں مختلف فُقَھَاء نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں جو تقریبا انہی تعریفات سے قریب ترین ہیں یا انہی نکات کو بیان کرتی ہیںـ
· اصول الفقة کلمة مرکبة من کلمتين، يقصد منها مجموعة القواعد و القوانين الکلية التی ينبنی عليها استنباط الاحکام الفقهية من الادلة الشرعية۔ و هو بهذا المفهوم يعتبر قانون الفکر الاسلامی، و معيار الاستنباط الصحيح۔﴿7﴾
حقیقت میں لفظ "اصول فقہ" دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ اس کا مطلب ہے قوانین اور قواعد و ضوابط کا مجموعہ جس کی بنیاد پر شرعی دلائل سے قانونی احکام اخذ کیے جاتے ہیں۔ اس مفہوم میں اس کا مطلب "فکر اسلامی کا قانون" ہے اور یہی احکام کو صحیح طور پر اخذ کرنے کا معیار ہے۔

· ایک اور صاحب علم لکھتے ہیں:
The science of Source Methodology in Islamic Jurisprudence Usul al Fiqh has been defined as the aggregate, considered per se, of legal proofs and evidence that, when studied properly, will lead either to certain knowledge of a Shari'ah ruling or to at least a reasonable assumption concerning the same; the manner by which such proofs are adduced, and the status of the adducer ﴿8﴾.
خُلاصه کلام یہ ہے کہ علم فقہ میں صرف ان مسائل سے بحث کی جاتی ہے جو محض بندوں کے افعال سے تعلق رکھتے ہوں جیسے نماز، روزہ، نکاح ، طلاق، خرید و فروخت اور جرائم وغیرہ ـ بالفاظ دیگر اس علم میں صرف ایسے احکام شامل ہیں جو عبادات اور معاملات سے متعلق ہوں اور ایسے احکام کا اس میں کوئی دخل نہیں جو عقائد و ایمانیات سے تعلق رکھتے ہوںـ
کہ فقہ احکام شرعیہ فرعیہ کے اس علم کو کہتے ہیں جو احکام کی اول ہ مفصلہ سے حاصل ہو۔ احکام فرعی وہ ہیں جن کا تعلق عمل سے ہوتا ہے او راحکام اصلی وہ ہیں جن کا تعلق اعتقاد سے ہوتا ہے۔
امام راغب اصفہانی کے نزدیک فقہ کا مطلب کسی چیز کے باطن کو جاننا اور اس کا گہرا عل حاصل کرنا۔
فقہ حنفی کی مشہورالدر المختار میں ہے : فقہ مسائل کے یاد رکھنے کا نام ہے اور حفظ مسائل کا کمتر مرتبہ یہ ہے کہ تین مسائل یاد ہوں ﴿9﴾
قرآن مجید نے بھی اس لفظ کو فہم دقیق کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔
صدر اسلام میں یہ لفظ شرعی احکام کے فہم کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا خواہ وہ احکام نظری ہوں یا عملی اور خود ان احکام کو بھی فقہ کہنے کی مثال اس حدیث سے ملتی ہے جس میں آپۖ نے فرمایا ہے۔ رب حامل فقہ الی من ھوافقہ منہ ۔ البتہ دور آئمہ میں علوم کی اشاعت اور تخصصات کے وجود میں انے کی وجہ سے اس لفظ کا اطلاق شریعت سے احکام کے استنباط کے علم اور ان عملی شرعی کے مجموعہ تک ہو کر رہ گیا خواہ وہ قران و سنت پر مبنی ہوں یا اجتہاد شرعی کے ذریعہ مستنبط شدہ ۔ دور اجتہاد کے بعد کے زمانے کے وہ احکام بھی جو انہی اصول و قواعت پر مستنبط ہوے ہیں فقہ ہی کا حصہ شمار ہوتے ہین ۔ فقہ کے عملی احکام عبادات اور معاملات کی تفصیل سے بحث کرتے ہیں یعنی انسان کے روابط اپنے خالق کے ساتھ ار اپنے ہم جنس افراد کے ساتھ ، ار یہی دو پہلو اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی بقا ار حرکت کا اظہار ہیں اور ان کے ٹھیک ہونے پر ہی انسان کی دنیوی اور آخروی زندگی کی کامیابی کا انحصار ہے ۔ البتہ جو چیز فقہ کے دائرے سے باہر ہے وہ عقائد اور اخلاقیات ہیں۔ شریعت" شریعتہ کے معنی اہل لغت کے نزدیک ہیں " پانی کے گزرنے کا راستہ " یا " وہ جگہ جہاں جا کر پانی پیا جاۓ" ۔ اس سے ل‍فظ شریعت کے یہ معنی مجاز الۓ جاتے ہیں کہ کہ وہ سیدھا راستہ ےہ جنو انسان کو اس کے منبع حیات تک لے جاتا ہے نیز ان اصول و ضوابط کو جو انسان کو شاہراہ حیات پر سیدھا اور منظم طور پر چلنے میں مدد دیتے ہیں ان کو بھی شریعت انہی معنوں میں کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے احکام کو بھی شریعت اسی لۓ کہا گیا ہے کہ جس طرح پانی انسانی زندگی کی بقاء کا سبب ہے اسی طرح یہ شریعت انسان کی اخلاقی ، عقلی اور روحانی زندگی کی بقاء اور صلاح کی ضامن ہے نیز شریعت وہ سیدھا راستہ ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں اور یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر ادمی حق کے منبع تک پہنچتا ہے۔
فقہ کی تعریف میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اس میں عملی احکام سے بحث کی گئی ہے۔ اور یہی تعریف اب ہم نے شریعت کی بھی ہے۔ تو آخر شریعت اور فقہ میں کیا فرق ہے ؟فرق یہ ہے کہ شریعت ان عملی احکام کو کہتے ہیں جو اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے انسانوں کی ہدایت کے لیے نا
زل کیے ہیں خواہ وحی متلوکی صورت میں خواہ وحی غیر متلو کے ذریعے سے رسولۖ کے اعمال و اقوال کی صورت میں ۔ اس کے مقابلے میں فقہ میں نہ صرف ان احکام کو مدون کیا گيا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی کا صریح حکم موجود ہے بلکہ ایسے احکام بھی اس میں شامل ہیں جو اس منصوص احکام کی تفسیر و تشریح ہیں یا جو مجتہدین کی اجتہادی کوششوں کا ثمر ہیں۔ اس بنیادی فرق کی وجہ سے دوسرے بہت سے فرق بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلا شریعت کے احکام قطعی اور یقینی ہیں کیونکہ وہ وحی پر مبنی ہیں جب کہ فقہ کے وہ احکام جو اجتہاد پر مبنی ہیں ظنی ہیں اور ان سے علم یقینی حاصل نہیں ہوتا۔
2 شریعت کے احکام میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی جب کہ فقہ کے اجتہادی احکام وقت اور حالات کے بدلنے کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔
3 شریعت کے احکام میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جا سکتی جب کہ فقہاء کے اجتہادات پر عمل اختیاری بات ہے الایہ کہ حکومت وقت اپنی قوت نافذہ سے کوئی بات بطور قانون نافذ کر دے۔
4 شریعت سر اسر خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہے اور منزہ عن الخطا ہے جبکہ فقہ میں انسانی عقل اور تدبر کو دخل حاصل ہے اور اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ فقہ کی تعریف نے مکمل مفہوم اختیار کرنے میں کچھ مراحل طے کیے جو مختصرا درج ہیں :
۱۔ جب فقہ شرع کا مترادف سمجھا جاتا ہےاور ہر اس شئی کی معرفت اس میں شامل تھی جو اللہ تعالی نے نازل کی ہو خواہ اس کا تعلق عقیدہ ،اخلاق یا کسی بھی شعبہ سے ہو
۲۔ اس مرحلے میں فقہ کی تعریف میں کچھ وسعت میں تخصیص پیدا ہوئی کیونکہ فنون کی تدوین کی وجہ سے تمام علوم الگ الگ مرتب ہونے لگے تھے اور صرف مسائل کی فہم فقہ کی تعریف میں باقی رہ گئی لیکن اس میں شرعیہ عملیہ کے ساتھ شرعیہ قلبیہ بھی شامل تھی
۳۔ اس مرحلے میں مزید تخصیص کی وجہ سے شرعیہ قلبیہ کو الگ علم کی حیثیت سے مدون کیا گیا لہذا اب صرف عملی مسائل کا نام فقہ رہ گیا ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فقیہ کی تعریف
فقیہ وہ ھوتا ھے ، جو اللہ کے احکام اور دین کے مسائل کو قرآن کی آیتوںاور روایات سے سمجھتے ھوئے ان سے استدلال کرے یعنی دلیل لائے اور جو بھی مسئلہ پیش آئے اس میں دین اور مذہب کے نظریہ کو پھچان سکے اور اسے بیان کر سکے ۔ دین شناسی کے اس مقام تک پھونچنے کے لئے ضروری ھے کہ ایک شخص ایک طولانی مدت تک حوزہ علمیہ میں ان علوم کو حاصل کرے جو دین کے مسائل میں ماھر ھونے کے لئے اسکی مدد کر سکیں ۔
جو اس درجہ اور مقام تک پھونچ جاتا ھے کہ اسلامی مسائل کو عقلی و نقلی استدلال کے ذریعہ سمجھ جائے ، اسےمجتہد اور ” فقیہ “ کھتے ھیں اور علم اور فقہ کے اس درجہ اور مرتبہ کو ” اجتھاد “ کھتے ھیں ۔
عموماً ھر شخص کسی بھی مسئلہ میں اس مسئلہ کا علم رکھنے والے اور ماھر شخص کی طرف رجوع کرتا ھے ۔ مثلاً بیماری میں ڈاکٹر ، مکان کی تعمیر میں انجینیر اور مستری اور مشینوں کے خراب ھوجانے کی صورت میں ، اس کا علم اور مہارت رکھنے والے شخص کی طرف رجوع کیا جاتا ھے ۔ سامنے کی بات ھے کہ اگر انسان خود دین میں ماھر نہ ھو اور اس کا علم نہ رکھتا ھو ، تو اپنا دینی وظیفہ جاننے اوراس پر عمل کرنے کے لئے فقھا کی طرف رجوع کرے اور ان سے سوال کرے ۔ شریعت کے مسائل میں شرعی دلیلوں کی بنیاد پر مجتہدکی نظر کو فتویٰ کھتے ھیں اور لوگوں کے فقھا کی طرف رجوع کرنے اور انکے فتوے پر عمل کرنے کو ” تقلید “ کھتے ھیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اصول فقہ کی تعریف :
یعنی اسلامی فقہ کے ماخذوں سے قوانین اخذ کرنے کے علم کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ:
یہ قانون کے ثبوت کے حصول کا ایسا مجموعہ ہے جس کا اگر صحیح طور پر مطالعہ کی جائے تو اس کی بنیاد پر شریعت کے کسی حکم کا واضح طور پر تعین کیا جا سکتا ہے یا کم از کم ایک قابل قبول حد تک شریعت کے کسی حکم کے بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ اس طریقے کا نام ہے جس کی بنیاد پر یہ ثبوت اکٹھا کیا جاتا ہے اور اسی سے ثبوت اکٹھا کرنے والے کی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے۔یا اس کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے جیسا کہ علامہ محمود احمد غازی اپنے محاضرات میں بیان کرتے ہیں :
اصول فقہ سے مراد وہ اصول و قواعد اور ضوابط ہیں جن سے کام لے کر ایک فقہیہ قرآن مجید اور سنت رسول اور شریعت کے دوسرے مآخذ سے فقہی احکام معلوم کرتا ہے اور روز مرہ پیش آنے والے عملی مسائل کے لیےتفصیلی ہدایات مرتب کرتا ہے ۔
یعنی شریعت کے عملی احکام کو ان کے تفصیلی دلائل سے معلوم کرنے میں جو قواعد و ضوابط ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں ان کے مجموعے کا نام اصول فقہ ہے ۔﴿10﴾

اصول فقہ کا موضوع
اصول فقہ کے یہ اصول عقل عام کی روشنی میں اخذ کیے گئے ہیں۔ اصول فقہ کےبعض اصولوں کا ماخذ "اصول حدیث" کا فن ہے جس کے اصول بھی عقل عام کی روشنی میں اخذ کیے گئے ہیں۔ ان اصولوں کا تعلق بالخصوص حدیث سے ہے۔ اسی طرح قرآن مجید سے متعلق اصول، "اصول تفسیر" کے فن سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ اصول فقہ کا موضوع میں عام طور پر ان موضوعات کا مطالعہ کیا جاتا ہے:
· قرآن مجید کو سمجھنے کے اصول
· زبان و بیان کے اصول
· حلال و حرام سے متعلق احکام معلوم کرنے کا طریق کار
· دین کے عمومی اور خصوصی نوعیت کے احکامات کے تعین کا طریق کار
· دین کے ناسخ و منسوخ احکامات کے تعین کا طریق کار (یہ تمام مباحث بنیادی طور پر اصول تفسیر کے فن کا حصہ ہیں لیکن ان کے بنیادی مباحث اصول فقہ میں بھی بیان کیے جاتے ہیں۔)
· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت اور حدیث کو سمجھنے کا طریق کار
· رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کردہ احادیث کو پرکھنے اور ان کی چھان بین کرنے کا طریق کار (یہ بالعموم علم اصول حدیث کا موضوع ہے لیکن اس کے بنیادی مباحث اصول فقہ میں بھی بیان کیے جاتے ہیں۔)
· اجماع (امت کے اتفاق رائے) کے ذریعے بنائے گئے قوانین کی حیثیت
· قیاس و اجتہاد کا طریق کار
· اختلاف رائے سے متعلق اصول
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس کی اہمیت اور ضرورت:
اِس علم کے بنیادی موضوعات ہوئے: مصادرِ تشریع کا علم پانا، پھر یہ جاننا کہ اِن مصادر سے استفادہ کرنا کیونکر ہے، یعنی ’قواعدِ استنباط‘، اور پھر استفادہ کرنے والے شخص کے احوال سے واقفیت یعنی یہ دیکھنا کہ مجتہد کون ہے اور جس چیز میں اجتہاد ہو رہا ہے وہ کیا ہے، کب اجتہاد ہوتا ہے اور کب نہیں ہوتا، مجتہد کی شروط کیا ہیں اور اجتہاد کے ضوابط کی کیا ہیں؟
اصول فقہ‘ ہی وہ علم ہے جس سے نصوصِ شریعت کی تفسیر کرنے کے قواعد معلوم کئے جاسکتے ہیں اور جس سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ جو چیز نصوص سے سمجھی جا رہی ہے آیا وہ صحیح ہے یا نہیں۔
اب یہ قواعد نہ ہوں تو ایک فقیہ شریعت کی نصوص کیسے سمجھ سکتا ہے؟ جبکہ نصوص - جیساکہ اہل علم بیان کرتے ہیں - اپنے اسلوب میں یا ایک عالم اور مجتہد کیلئے اپنے واضح ہونے میں ایک ہی درجے پر نہیں۔ نصوص کے اندر ’عام‘ آتا ہے، ’خاص‘ آتا ہے۔ نصوص میں ’مطلق‘ ہے، ’مقید‘ ہے۔ ’نص ہے، ’ظاہر‘ ہے۔ ’محکم‘ ہے، ’متشابہ‘ ہے۔ پھر نصوص کے اندر ایسی نصوص ہیں کہ کوئی ’قطعی الثبوت‘ ہے تو کوئی ’قطعی الدلالۃ‘، کوئی ’ظنی الثبوت‘ ہے تو کوئی ’ظنی الدلالۃ‘۔۔ ہر کسی کے ساتھ معاملہ مختلف ہوتا ہے اور کسی کی تحلیل کا طریقہ دوسری سے مختلف ہوتا ہے۔

امام قرافی اپنی عظیم کتاب ”الفُرُوق“ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
پس شریعتِ محمدیہ - اللہ تعالیٰ اِس کی رفعت وعظمت کو اور بھی بڑھائے - مشتمل ہے کچھ اصول پر اور کچھ فروع پر۔ شریعت کے ”اصول“ دو طرح کے ہیں۔ ”اصول“ کی ایک قسم اُس چیز کیلئے بولی جاتی ہے جسے ”اصولِ فقہ“ کہتے ہیں، اور اِس میں غالب طور پر وہ خاص قواعد ہی آتے ہیں جو (شریعت کے) عربی الفاظ سے وجود میں آنے والے احکام کو ضبط دینے کیلئے ہیں یا ان احوال کو ضبط دینے کیلئے جو اِن الفاظ کو پیش آسکتے ہیں مثل نسخ اور ترجیح، جیسے مثلاً یہ قاعدہ کہ ’امر وجوب کو ثابت کرنے کیلئے ہوتا ہے‘ یا یہ کہ ’نہی تحریم کو ثابت کرنے کیلئے ہوتی ہے‘۔۔ (’الفاظ‘ سے متعلقہ قواعد) کے علاوہ پھر (دوسری قسم کے قواعد) ہیں جیسے قیاس کا حجت ہونا، خبر واحد یا مجتہد کی صفات وغیرہ سے متعلقہ مباحث۔۔﴿۱۱﴾
چنانچہ نصوص کو سمجھنے کے یہ قواعد نہ ہوں تو کوئی بھی جاہل یا کوئی بھی نیم عالم یا کوئی بھی بد دیانت شخص نصوص کی جیسے چاہے تفسیر کر لیا کرے!
صرف ایک مثال دکھانے کیلئے، سورۃ الحشر میں آتا ہے: للفقراءالمہاجرین الذین آخرجوا من دیارہم و اَموالہم یعنی ”فقرائے مہاجرین کیلئے جو نکال دیے گئے اپنے گھروں سے اور مالوں سے“ ۔ یہاں اصول فقہ کے علماء بتائیں گے کہ یہاں ایک ’عبارۃ النص‘ ہے اور ایک ’اشارۃ النص‘۔ ’عبارتِ نص‘ اس بات پر دلیل ہے کہ اموالِ فَیءٍ میں فقرائے مہاجرین کا حق ہے، کیونکہ آیت آئی ہی ان کا یہ حق بیان کرنے کیلئے ہے۔ البتہ ’اشارہء نص‘ سے دلیل یہ نکلتی ہے کہ ان اموال سے جو وہ پیچھے مکہ میں چھوڑ آئے ہیں اور جن پر کفار نے قبضہ کر لیا ہے اب ان کی ملکیت زائل ہو چکی ہے، کیونکہ قرآن نے ان کیلئے ”فقراء“ کا لفظ بولا ہے! حنفیہ کے عظیم اصولی عالم امام سرخسی یہاں اِس دلیل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”فقیر“ وہ ہوتا جو ”مالک“ نہ ہو، نہ کہ وہ شخص جس کو اپنے مال پر دسترس نہ ہو۔ چنانچہ یہاں سے فقہی مباحث کا ایک لمبا سلسلہ چل کھڑا ہوتا ہے۔۔!
2) فہمِ نصوص کے بعد پھر استنباط اور اجتہاد کے قواعد آتے ہیں۔ مسائل اخذ کرتے وقت وہ کو کونسے اصول ہیں جو ایک فقیہ کے پیش نظر ہوتے ہیں، یہ بات آپ کو اصولِ فقہ کا ایک عالم ہی بتا سکتا ہے۔ یہی نہیں کہ جو مسائل شریعت سے اخذ کرلئے گئے، بلکہ آج کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کا شریعت میں حکم ڈھونڈنے کیلئے کیا کیا لوازم اختیار کرنا ہوں گے اور ان میں اجتہاد کیونکر ہوگا، یہ اصول فقہ کا ایک عالم ہی جانتا ہے۔ کچھ نئے پیش آمدہ مسائل پر شریعت کی منشا کا تعین کرنے کی کوشش کے وقت بڑے بڑے عالموں کی بس ہو جاتی ہے، کیونکہ اِن حدود اور ضوابط کا ادراک دراصل انہی کو ہوتا ہے، سو معاملے کی نزاکت بھی انہی کو معلوم ہوتی ہے۔
3) استنباطِ احکام کے علاوہ پھر مقاصدِ شریعت کا تعین ہے، جن کو سمجھا جانا بھی ضروری ہے، اسلامی معاشرے میں ان کا تحفظ اور پاسبانی کرنا بھی ایک خاص نظر اور بصیرت چاہتا ہے، اور حالات پر ان کی تطبیق بھی ایک خاص اہلیت کی متقاضی ہے۔ مقاصدِ شریعت کی معرفت اور ان کا بیان حفظِ دین کے اہم ترین وسائل میں آتا ہے۔ شریعت اصل میں آئی ہی ان ضروریاتِ خمس کے تحفظ ونگہبانی کیلئے: دین، نفس، عقل، آبرو اور مال۔ ”شیخِ مقاصد“ امام شاطبی کہتے ہیں ہر شریعت میں یہی اساسِ عمران رہی ہے، یہ خلل کا شکار ہو جائیں تو دنیا کے مصالح بھی خطرے میں پڑ جائیں اور آخرت کی نجات بھی۔ اب مقاصدِ شرع کا صحیح صحیح ادراک ایک ایسی چیز ہے کہ اجتہاد کے ارکان میں شمار ہوتی ہے اور یہ ایک ایسی عظیم اہلیت ہے جو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔
4) جدل اور مناظرہ کے بہت سے ضوابط بھی اصول فقہ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔
5) مصادرِ تلقی کا ضبط اور تعین بھی اصول فقہ کو جاننے پر انحصار کرتا ہے۔ جتنی بھی بدعات اور اہواءنکلی ہیں وہ یہیں پر کوئی خلل واقع ہوجانے کے باعث نکلی اور امت کے اندر پھیلی ہیں۔ چنانچہ عقل کا نقل کے ساتھ کیا رشتہ ہے اور ہر دو کے مابین تعلق کا کیا صحیح نسبت تناسب ہے، اور یہ کہ عقل کو نقل پر حکم بنانا کس قدر سنگین ہے، اور جہاں نقل ہی کی ضرورت ہے وہاں عقل کو بیچ میں لے کر آنا کس قدر نقصان دہ ہے، اِن مباحث کا صحیح ادراک بھی آپ کو علمِ اصول کے مباحث پڑھ کر ہی ہوسکتا ہے۔
6) اس سلسلہ میں سب اہم جو بات مجھے کہنا ہے وہ یہ کہ خاص آج کے دور میں نوازل (ایسے مسائل جو اس سے پہلے امت کو پیش نہ آئے ہوں) اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کا کوئی حدوحساب ہی نہیں۔ لہٰذا آج ہمیں یہ جاننے کی جس قدر ضرورت ہے اتنی اس سے پہلے شاید کبھی نہ رہی ہو کہ اپنے دور کے مسائل و معاملات کے ساتھ پورا اترنا اور شریعت سے ان کیلئے راہنمائی لینا ہرگز ہرگز کوئی بازیچہء اطفال نہیں۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ امر ہے۔ یہ خاص ضوابط پر انحصار کرتا ہے۔ اِس عمل کے خاص رجال ہیں۔ متعین تقاضے ہیں۔ غرض استنباطِ احکام ومسائل باقاعدہ ایک پروسیجر ہے، جس کو اول سے لے کر آخر تک چل لینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بس۔۔۔۔ یہ رتبہء بلند ملا جس کو مل گیا!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فقہ اور اصول فقہ کے فن کا تاریخی ارتقاء و آغاز:
آغاز اسلام میں جب فقہائے اسلام فقہ اور اس کے قوانین اور ضوابط کو مرتب کر رہے تھے تو اس وقت جب کوئی مسئلہ درپیش آتا تھا تو اس کو تحریر کر لیا جاتا تھا اور ہر صحابی کے پاس اس کے سوالات اور جوابات کا سلسلہ موجود تھا جو ان کے شاگردوں کے توسط سے آگے منتقل ہوا اس اعتبار سے سید نا علی ،سید نا عبداللہ بن مسعود ، سید نا عمر فاروق ، سید عبداللہ بن عمر ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم جمیعا وغیرہ صحابہ کے پاس اپنے اجتہادات جمع ہوتے گئے او ر ان کے شاگردوں یعنی تابعین کرام ان کو مرتب کرتے گئے اور آگے آنے والے ادوار میں کتابی شکل میں اسے ترتیب دینے میں اس ابتدائی ذخیرہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے پہلی صدی ہجری تک یہ کام مکمل ہو گیا تھا جیسا کہ آگے تفصیل بیان کی جائے گی اور اس طرح ہر آنے والے دور میں اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا جیسے جیسے وقت گرزتا گیا اور مسائل کی کثرت کی وجہ سے ان فقہی قوانین اور اصولوں کو باقاعدہ مدون کیا جانے لگا اور مختلف لوگوں نے اپنی توجیہات کے مطابق اسے ترتیب دیا اور دوسری اور تیسری صدی ہجری میں چاروں معروف فقہی طرق وجود میں آچکے تھے
عہد رسالت و صحابہ کرام کا دور اول(0-60 )
چونکہ اصول فقہ کے علم کا انحصار بنیادی طور پر علم فقہ ہی پر ہے اس وجہ سے اصول فقہ کا ارتقاء، فقہ کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اللہ تعالی کی وحی کی بنیاد پر دینی احکام جاری فرماتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وحی سے کوئی حکم نہ ملنے کی صورت میں آپ اجتہاد فرماتے۔ بعد میں اللہ تعالی کی جانب سے بذریعہ وحی اس اجتہاد کی توثیق کر دی جاتی یا اگر کسی تغیر و تبدل کی ضرورت پیش آتی تو اس بارے میں آپ کو وحی کے ذریعے رہنمائی فراہم کر دی جاتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے تربیت یافتہ اصحاب میں بہت سے ایسے تھے جو آپ کی حیات طیبہ ہی میں فتوی (دینی معاملات میں ماہرانہ رائے) دینا شروع کر چکے تھے۔ ظاہر ہے ایسا حضور کی اجازت کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ ان صحابہ میں سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، علی، عائشہ، عبدالرحمٰن بن عوف، عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم کے فتاوی مشہور ہیں۔ ان کے فتوی دینے کا طریق کار یہ تھا کہ جب ان کے سامنے کوئی صورت حال پیش کی جاتی تو وہ اس کا موازنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے پیش آ جانے والی صورتحال سے کرتے اور ان میں مشابہت کی بنیاد پر حضور کے فیصلے کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنا دیتے۔
خلافت راشدہ کے دور میں بھی یہی طریق کار جاری رہا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کوئی مقدمہ لایا جاتا تو سب سے پہلے آپ قرآن میں دیکھتے۔ اگر اس صورتحال سے متعلق کوئی حکم آپ کو ملتا تو آپ اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے۔ اگر قرآن سے کوئی واضح حکم نہ ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سابق فیصلوں کی طرف رجوع فرماتے۔ اگر اس میں بھی کوئی بات نہ ملتی تو صحابہ کے اہل علم کو جمع کر کے ان کی رائے لیتے اور ان کے اتفاق رائے (اجماع) کی بنیاد پر فیصلہ کر دیتے۔ اگر صحابہ کے اہل علم میں کسی معاملے میں اتفاق رائے نہ ہو پاتا تو پھر آپ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کر دیتے﴿۱۲﴾ عہد صدیقی کی بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس دور میں قانون سازی اجماع اور قیاس کا استعمال کافی بڑے پیمانے پر کیا گیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ آپ کے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے ہر اہم مسئلے میں غور و فکر کرنے کے لئے مجتہد صحابہ کی ایک غیر رسمی کمیٹی بنائی جس میں اجتماعی طور پر غور و فکر کر کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اس کمیٹی کے اکثر فیصلے اجماع کے ذریعے طے پاتے۔ سیدنا عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے دور میں بھی یہی طریق کار رائج رہا۔ یہ دونوں حضرات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مشاورتی کمیٹی کے اہم ترین رکن تھے۔ اپنے دور خلافت میں انہوں نے بھی اسی طریق کار پر عمل کیا۔ فقہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خاص میدان تھا۔ آپ نے عدالتی معاملات میں بہت سے فیصلے جاری فرمائے جن کی بنیاد پر آپ کے فتاوی کی ایک ضخیم کتاب تیار کی جا سکتی ہے۔
حکومت سے ہٹ کر انفرادی طور پر بھی بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں فقہی اور قانونی معاملات میں فتاوی جاری کیا کرتے تھے۔ یہ فتاوی اگرچہ قانون نہ تھے لیکن لوگ ان صحابہ پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے اجتہادات کی پیروی کرتے۔ سیدنا عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں بہت سے صحابہ مفتوحہ ممالک میں پھیل گئے اور مقامی آبادی کو دین کی تعلیم دینے لگے۔ یہ حضرات لوگوں کے سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیتے اور فتاوی جاری کرتے۔ اس دور پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں:

فرای کل صحابی ما یسرہ اللہ لہ من عبادتہ و فتاواہ و اقضیتہ، فحفظا و عقلا و عرف لکل شییء وجھا من قبل حفوف القرائن بہ فحمل بعضھا علی الاباحہ و بعضھا علی النسخ، لامارات و قرائن کانت کافیۃ عندہ، و لم یکن العمدۃ عندھم الا وجدان الاطمئنان و الثلج من غیر التفات الی طرق الاستدلال، کما تری الاعراب یفھمون مقصود الکلام فیما بینھم و تثلج صدروھم بالتصریح و التلویح و الابما من حیث لا یشعرون۔
و نقضی عصرہ الکریم و ھم علی ذلک، ثم انھم تفرقوا فی البلاد، و صار کل واحد مقتدی ناحیۃ من النواحی، فکثرت الوقائع و دارت المسائل، فاستفتوا فیھا، فاجاب کل واحد حسبما حفظہ او استنبط، و ان لم یجد فیما حفظہ او استنبط ما یصلح للجواب اجتھد برایہ، و عرف العلۃ التی ادار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیھا الحکم فی منصوصاتہ، فطرد الحکم حیثما و جدھا لا یالو جھدا فی موافقۃ غرضہ علیہ الصلوۃ والسلام۔
﴿13﴾
ہر صحابی نے اپنی سہولت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عبادت، فتاوی اور عدالتی فیصلوں کو دیکھا، سمجھا اور انہیں یاد کر لیا۔ انہوں نے شواہد و قرائن کی بنیاد پر آپ کے ہر قول و فعل کی وجہ بھی معلوم کر لی۔ انہوں نے بعض امور کے جائز اور بعض کے منسوخ ہونے کا تعین بھی کر لیا۔ ان کے نزدیک قلبی اطمینان کی اہمیت (موجودہ دور کے) طریق استدلال سے زیادہ تھی۔ جیسا کہ آپ عرب دیہاتیوں کو دیکھتے ہیں کہ کہ وہ کلام عرب کے واضح جملوں اور اشارات سے بات کو سمجھ لیتے ہیں اور انہیں اس پر مکمل اطمینان بھی حاصل ہو جاتا ہے حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ اطمینان کیسے حاصل ہوا ہے۔
اس کے بعد حضور کا مبارک دور گزر گیا اور صحابہ کرام مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ ان میں سے ہر صحابی اپنے شہر کے لوگوں کے لئے راہنما کی حیثیت اختیار کر گیا۔ (چونکہ ملک بہت پھیل گیا تھا اس وجہ سے) کثیر تعداد میں واقعات پیش آنے لگے اور لوگوں کو (دینی امور) دریافت کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ صحابہ کرام اپنے حافظے اور استنباط کی بنیاد پر ان سوالوں کے جواب دیتے اور اگر انہیں اپنے محفوظ علم یا استنباط میں سے اس کا جواب نہ ملتا تو وہ اپنی رائے سے اجتہاد کرتے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے واضح احکام کی وجوہات (علتوں) کو جاننے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ جہاں انہیں وہی وجہ (علت) نظر آتی، وہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مقصد کے مطابق اس پر حکم لگا دیا کرتے تھے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صحابہ کرام کا دوسرا دور (60-90)
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، بڑی عمر کے صحابہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشادات، افعال اور فیصلوں کا براہ راست مشاہدہ کیا تھا، دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے۔ اس وقت تک ان صحابہ کے تربیت یافتہ صحابہ اور تابعین کی بڑی جماعت تیار ہو چکی تھی۔ یہ ان صحابہ کا دور تھا جو عہد رسالت میں ابھی کم عمر تھے۔ ان صحابہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک خصوصی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قریبی صحابہ جیسے سیدنا عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے شاگرد تھے۔ اس دور میں کچھ سیاسی اور مذہبی فتنوں نے جنم لیا جس کے باعث دینی معاملات سے متعلق بھی کچھ مسائل پیدا ہوئے۔ اس دور کی چیدہ چیدہ خصوصیات یہ ہیں:
اہل علم کے ہاں قرآن اور حدیث میں غور و فکر کا سلسلہ جاری رہا۔
احادیث کی نشر و اشاعت کا کام تیز ہوا۔ تابعین میں یہ شوق شدت اختیار کر گیا کہ چونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زیارت نہیں کر سکے، اس وجہ سے آپ کی باتوں کو ہم جس حد تک سن اور سمجھ سکتے ہیں، اس کی کوشش کریں۔
سیاسی اور مذہبی مسائل کے باعث احادیث وضع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے اہل علم کے ہاں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ احادیث کی چھان بین ایک نہایت ہی ضروری کام ہے۔

فقہاء صحابہ کے مختلف شہروں میں پھیل جانے کے باعث اجماع عملی طور پر ممکن نہ رہا۔ اب اجماع ایک شہر کے علماء کے درمیان تو ممکن تھا لیکن پورے عالم اسلام کی سطح پر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔
تابعین کا دور (90-150)
پہلی صدی ہجری کے آخری عشرے (لگ بھگ 730ء) تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ سیدنا سہل بن سعد الساعدی، انس بن مالک اور عامر بن واثلہ بن ابو عبداللہ رضی اللہ عنہم آخر میں وفات پانے والے صحابہ ہیں۔ اب تابعین کا دور تھا۔ اس دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تربیت یافتہ افراد کثرت سے موجود تھے۔ ان میں نافع مولی ابن عمر، عکرمہ مولی ابن عباس، مکہ کے عطاء بن رباح، یمن کے طاؤس بن کیسان، یمامہ کے یحیی بن کثیر، کوفہ کے ابراہیم النخعی، بصرہ کے حسن بصری اور ابن سیرین، خراسان کے عطاء الخراسانی، اور مدینہ کے سعید بن مسیب اور عمر بن عبدالعزیز (رحمھم اللہ) کے نام زیادہ مشہور ہیں۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
فاختلفت مذاہب اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اخذ عنھم التابعون کذلک، کل واحد ما تیسر لہ، فحفظ ما سمع من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و مذاھب الصحابہ و عقلھا، و جمع المختلف علی ما تیسر لہ، و رجح بعض الاقوال علی بعض ۔۔۔۔۔۔فعند ذلک صار لکل عالم من علماء التابعین مذھب علی حیالہ فانتصب فی کل بلد امام، مثل سعید بن المسیب و سالم بن عبداللہ بن عمر فی المدینۃ، و بعدھما الزھری و القاضی یحیی بن سعید و ربیعۃ بن عبدالرحمٰن فیھا، و عطاء بن ابی رباح بمکۃ، و ابراھیم النخعی و الشعبی بالکوفۃ، و الحسن البصری بالبصرۃ، و طاؤس بن کیسان بالیمن، و مکحول بالشام، فاظما اللہ اکبادا الی علومھم فرغبوا فیھا، و اخذوا عنھم الحدیث و فتاوی الصحابۃ و اقاویلھم۔ ﴿14﴾
نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اصحاب کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف پیدا ہو گیا اور تابعین نے حسب توفیق ان کے علوم کو ان سے اخذ کر لیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور صحابہ کرام کے نقطہ ہائے نظر کو سنا اور سمجھا۔ اس کے بعد انہوں نے اختلافی مسائل کو اکٹھا کیا اور ان میں سے بعض نقطہ ہائے نظر کو ترجیح دی۔۔۔۔۔ اس طرح ہر تابعی نے اپنے علم کی بنیاد پر ایک نقطہ نظر اختیار کر لیا اور ان میں سے ہر ایک کسی شہر کا امام (لیڈر) بن گیا۔ مثال کے طور پر مدینہ میں سعید بن المسیب اور سالم بن عبداللہ بن عمر اور ان کے بعد زہری، قاضی یحیی بن سعید اور ربیعۃ بن عبدالرحمٰن، مکہ میں عطاء بن ابی رباح، کوفہ میں شعبی اور ابراہیم النخعی، بصرہ میں حسن بصری، یمن میں طاؤس بن کیسان، شام میں مکحول۔ اللہ تعالی نے لوگوں کے دل میں علوم کا شوق پیدا کر دیا تھا، اس وجہ سے لوگ ان اہل علم کی طرف راغب ہو گئے اور ان سے حدیث اور صحابہ کے نقطہ ہائے نظر اور آراء حاصل کرنے لگے۔
تابعین نے نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کے ریکارڈ کو محفوظ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر شاگرد نے اپنے استاذ صحابی کے عدالتی فیصلوں اور فقہی آراء کو محفوظ کرنے کا اہتمام بھی کیا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے فیصلوں اور احادیث کو محفوظ کرنے کا سرکاری حکم جاری کیا اور فتوی دینے کا اختیار اہل علم تک ہی محدود کیا۔ آپ ابوبکر محمد بن عمرو بن حزم الانصاری کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی جو حدیث بھی آپ کو ملے، اسے لکھ کر مجھے بھیج دیجیے کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ اہل علم کے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ علم بھی ضائع نہ ہو جائے۔"﴿15﴾

تبع تابعین کا دور (150-225)
تابعین کا دور کم و بیش 150 ہجری (تقریباً 780ء) کے آس پاس ختم ہوا۔ اپنے دور میں تابعین کے اہل علم اگلی نسل میں کثیر تعداد میں عالم تیار کر چکے تھے۔ یہ حضرات تبع تابعین کہلاتے ہیں۔ اس وقت تک اصول فقہ کے قواعد اور قوانین پر اگرچہ مملکت اسلامیہ کے مختلف شہروں میں عمل کیا جا رہا تھا لیکن انہیں باضابطہ طور پر تحریر نہیں کیا گیا تھا۔ یہ دور فقہ کے مشہور ائمہ کا دور تھا۔ مملکت اسلامی اب بلوچستان سے لے کر مراکش تک پھیل چکی تھی۔ حکمران اپنے پیشروؤں کی طرح اس درجے کے اخلاقی معیار پر نہ رہے تھے کہ ان سے دینی معاملات میں راہنمائی حاصل کی جاتی۔ اس وقت یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس عظیم سلطنت کے لئے مدون قانون کا مجموعہ تیار کیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کی طرف سے ایک باضابطہ ادارہ بنایا جاتا جس میں پوری امت کے اہل علم کو اکٹھا کیا جاتا اور یہ سب حضرات مل کر قانون سازی کرتے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس وقت دنیا کی قانونی تاریخ میں یہ پیش رفت ہوئی کہ مختلف شہروں میں اہل علم نے قرآن و سنت اور صحابہ و تابعین کی فقہی آراء اور قانونی فیصلوں کی بنیاد پر پرائیویٹ قانون ساز مجالس بنانا شروع کر دیں۔
اس دور میں نقل و حمل اور ابلاغ کے ذرائع اتنے ترقی یافتہ نہ تھے کہ مختلف شہروں کے اہل علم ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے۔ اس وجہ سے ہر شہر کے رہنے والوں نے اپنے شہر کے صحابہ و تابعین کے پھیلائے ہوئے علم، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور صحابہ و تابعین کے فقہا کے اجتہادات شامل تھے، کی پیروی شروع کر دی۔
اہل مدینہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ( 179ھ) کا مکتب فکر وجود پذیر ہوا۔ انہوں نے مدینہ کے فقہاء صحابہ سیدنا عمر، ابن عمر، عائشہ، عبداللہ بن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور فقہا تابعین و تبع تابعین سعید بن مسیب ( 93ھ)، عروہ بن زبیر ( 94ھ)، سالم (وفات 106ھ)، عطاء بن یسار ( 103ھ)، قاسم بن محمد بن ابوبکر ( 103ھ)، عبیداللہ بن عبداللہ ( 99ھ)، ابن شہاب زہری ( 124ھ)، یحیی بن سعد ( 143ھ)، زید بن اسلم ( 136ھ)، ربیعۃ الرائے ( 136ھ) رحمۃ اللہ علیہم کے اجتہادات کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا۔
اسی دور میں بالکل یہی عمل کوفہ میں بھی جاری تھا۔ یہاں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (150ھ) کا مکتب فکر بعینیہ یہی کام کر رہا تھا۔ انہوں نے کوفہ میں قیام پذیر ہو جانے والے فقہاء صحابہ سیدنا عبداللہ بن مسعود اور علی رضی اللہ عنہما اور فقہا تابعین جیسے قاضی شریح ( 77ھ)، شعبی ( 104ھ)، ابراہیم نخعی ( 96ھ) رحمۃ اللہ علیہم کے اجتہادات کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل جاری رکھا۔
اس دور سے پہلے فن تحریر موجود تھا اور قرآن مجید کو باقاعدہ لکھ کر اس کی نشر و اشاعت کی جا چکی تھی لیکن احادیث کو لکھ کر پھیلانے کا سلسلہ عام نہ ہوا تھا۔ جن لوگوں نے احادیث کو باقاعدہ لکھا تھا، اس کی حیثیت بھی شائع شدہ کتاب کی بجائے ذاتی ڈائری کی تھی۔ احادیث کو باقاعدہ مدون کر کے پھیلانے کا سلسلہ اس دور میں شروع ہوا اور امام مالک کی موطاء اس دور کی کتاب ہے جو آج بھی پوری دنیا میں شائع ہو رہی ہے۔ ابن ابی ذئب ( 158ھ)، ابن جریج (150ھ)، ابن عینیہ (196ھ)، سفیان ثوری (161ھ)، اور ربیع بن صبیح (160ھ) کی کتب کا سراغ بھی ملتا ہے۔
امام ابوحنیفہ ، جو کہ ابراہیم نخعی کے شاگرد حماد (وفات 120ھ) اور جعفر صادق ( 148ھ) رحمہم اللہ کے شاگرد تھے، کی تقریباً چالیس افراد پر مشتمل ایک ٹیم تھی جو قرآن و سنت کی بنیادوں پر قانون سازی کا کام کر رہی تھی۔ اس ٹیم میں ہر شعبے کے ماہرین شامل تھے جن میں زبان، شعر و ادب، لغت، گرامر، حدیث، تجارت ، سیاست ، فلسفے ہر علم کے ماہرین نمایاں تھے۔ ہر سوال پر تفصیلی بحث ہوتی اور پھر نتائج کو مرتب کر لیا جاتا۔ امام صاحب نے خود تو فقہ اور اصول فقہ پر کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے فیصلوں کو ان کے شاگردوں بالخصوص امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی علیہما الرحمۃ نے مدون کیا۔ امام ابوحنیفہ اور مالک کے علاوہ دیگر اہل علم جیسے سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد علیہم الرحمۃ یہی کام کر رہے تھے لیکن ان کے فقہ کو وہ فروغ حاصل نہ ہو سکا جو حنفی اور مالکی فقہ کو ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہارون رشید کے دور میں حنفی فقہ کو مملکت اسلامی کا قانون بنا دیا گیا اور مالکی فقہ کو سپین کی مسلم حکومت نے اپنا قانون بنا دیا۔
یہ دونوں کام ان بزرگوں کی وفات کے بعد بعد ہوئے ورنہ ان اہل علم کی وسعت نظری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے فتاوی اور آرا کو حتمی نہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے سے مختلف رائے کو بھی خندہ پیشانی سے سنا کرتے۔ امام ابو حنیفہ اور مالک کی زندگی میں انہیں متعدد مرتبہ حکومت کی طرف سے یہ پیش کش ہوئی کہ ان کے فقہ کو مملکت کا قانون بنا دیا جائے لیکن انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔
دین کے بنیادی ماخذوں سے متعلق ان اہل علم میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ یہ سب کے سب ہی قرآن اور سنت کو دین کا بنیادی ماخذ مانتے تھے۔ بنیادی ماخذوں کے علاوہ ثانوی مآخذ کے بارے میں ان حضرات میں کچھ اختلاف رائے تھا۔ جیسا کہ امام مالک اہل مدینہ کے عمل کو بہت اہمیت دیتے تھے اور امام ابوحنیفہ استحسان اور عرف و عادت کو اہمیت دیا کرتے تھے۔﴿16﴾
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اہل الرائے اور اہل الحدیث
بعد کے دور میں فقہاء باقاعدہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک گروہ اہل الرائے کا تھا جبکہ دوسرا اہل الحدیث کا۔ اہل الرائے زیادہ تر عراق میں پھیلے جبکہ اہل الحدیث کو حجاز کے علاقے میں فروغ حاصل ہوا۔ اہل الرائے قیاس اور اجتہاد کو زیادہ اہمیت دیتے اور اہل الحدیث، روایات کو۔ اگر غور کیا جائے تو ان ائمہ میں اساسی نوعیت کا کوئی اختلاف موجود نہیں تھا۔ یہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہی کو دین کا ماخذ قرار دیتے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بعض ائمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معلومات کے حصول کے جن ذرائع کو کم اہمیت دیتے تھے، دوسرے انہیں زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اہل الرائے اس بات کے قائل تھے کہ اگر کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو اپنے قیاس کو ترک کر دینا چاہیے۔ اسی طرح اہل الحدیث اس بات کے قائل تھے کہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نت نئے پیدا ہونے والے مسائل میں قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ عقل اور قیاس کو بھی استعمال کرنا چاہیے۔
اہل الرائے اور اہل الحدیث کے اختلاف کی بنیادی وجہ مختلف علاقوں میں رہنا ہے۔ اگر یہ سب حضرات ایک ہی زمانے اور ایک ہی شہر میں ہوتے تو لازماً آپس میں مختلف مسائل پر مکالمہ کرنا ان کے لئے ممکن ہوتا۔ اگرچہ امام ابوحنیفہ اور مالک کے درمیان ایک آدھ مرتبہ ملاقات بھی ہوئی، لیکن ظاہر ہے ایک چند ایک ملاقاتوں میں مسائل کی ایک طویل فہرست پر مکالمہ کرنا ممکن نہ تھا۔ دوسری طرف چونکہ عراق مختلف فرقوں اور سیاسی گروہوں کی چپقلش کا مرکز بنا رہا اور ہر گروہ نے اپنے نظریات کے حق میں جعلی حدیثیں ایجاد کر کے پھیلانا شروع کر دیں، اس وجہ سے اہل الرائے کے ہاں حدیث کو قبول کرنے میں زیادہ احتیاط برتی جانے لگی۔
اہل الرائے اور اہل الحدیث میں اساسی نوعیت کے اتفاق رائے کے باوجود وقت کے ساتھ ساتھ ان گروہوں کے اختلافات میں شدت پیدا ہو گئی اور ہر ایک اپنے اپنے مسلک میں شدت برتنے لگا۔ بعض شدت پسند اہل الرائے، اہل الحدیث پر روایت پسند اور کم عقل ہونے کا الزام لگاتے تو دوسری طرف شدت پسند اہل الحدیث، اہل الرائے کو منکر حدیث کا خطاب دیتے۔
اس اختلاف کا ایک مثبت اثر بھی وجود پذیر ہوا۔ اہل الرائے کی شدت نے اہل الحدیث کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ احادیث رسول کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ محنت کریں۔ ان کی محنت کا نقشہ کھینچتے ہوئے شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
فوقع شیوع تدوین الحدیث والاثر فی بلدان الاسلام، و کتابۃ الصحف و النسخ، حتی قل من یکون من اھل الروایۃ الا کان لہ تدوین او صحیفۃ او نسخۃ من حاجتھم لموقع عظیم، فطاف من ادرک من عظمائھم ذلک الزمان بلاد الحجاز و الشام و العراق و مصر و الیمن و خراسان، و جمعوا الکتب، و تتبعوا النسخ، امعنوا فی التفحص من غریب الحدیث و نوادر الاثر، فاجتمع باھتمام اولئک من الحدیث و الآثار ما لم یجتمع لاحد قبلھم۔۔۔۔و ظھر علیھم احادیث صحیحۃ کثیرۃ لم تظھر علی اھل الفتوی من قبل۔ ﴿17﴾
احادیث کی تدوین کا عمل مملکت اسلامیہ کے مختلف شہروں میں شروع ہو گیا۔ احادیث کی کتابوں کی تصنیف کا عمل شروع ہوا۔ اہل روایت میں سے شائد ہی ایسا کوئی عالم ہو جس نے احادیث کی کتب نہ لکھی ہوں۔ وقت کی ضرورت نے اس کام کی شدید طلب پیدا کر رکھی تھی۔ اہل الحدیث کے جلیل القدر اہل علم نے اس زمانے میں حجاز، شام، عراق، مصر، یمن اور خراسان (ایران و افغانستان) کا سفر کیا اور کتابوں اور نسخوں کو جمع کیا۔ انہوں نے احادیث و آثار کے نوادر (کم روایت کی جانے والی احادیث) کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا اور ایسا ذخیرہ اکٹھا ہو گیا جو اس سے پہلے نہ ہوا تھا۔ ایسی صحیح احادیث کثیر تعداد میں شائع ہو گئیں جو پہلے اہل فتوی کے علم میں نہ تھیں۔
 
Top