جزاک اللہ۔ بڑا عجیب حیلہ لکھا ہے۔
ویسے اگر کوئی ایسا کر ہی لے تو کیا حکم ہے؟ زکاۃ لازم ہوگی یا نہیں؟
عجیب حیلہ سے کیا مراد ہے؟
آپ اس سے متفق ہیں کہ زکوٰۃ واقعی ساقط ہو جائے گی؟
یا آپ غیرمتفق ہیں۔
اہل حدیث کا مؤقف اس ضمن میں تو کوئی عالم ہی بیان فرما سکتے ہیں۔ محدث فتویٰ پر قریب قریب ایک فتویٰ جو ملا ہے، وہ پیش خدمت ہے:
اپنی دی ہوئی زکوٰۃ بطور ہدیہ قبول کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کوئی شخص اپنی زکوٰۃ کسی مستحق کو دے دے اور پھر وہ اسی کو بطور ہدیہ دے دے تو کیا وہ اسے قبول کر سکتا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب آدمی کسی مستحق کو زکوٰۃ دے، پھر وہ اسی رقم کو بطور ہدیہ مزکی کو دے دے تو
اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ دونوں کے درمیان اس سلسلے میں کوئی خفیہ منصوبہ بندی نہ ہو اور
زیادہ احتیاط اس بات میں ہے کہ وہ اس کو
قبول نہ کرے۔
وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام
زکوٰۃ کے مسائل
محدث فتویٰ
اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اہلحدیث کے نزدیک ایسے حیلہ سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوگی۔
ویسے بھی جو حیلہ بیان کیا گیا ہے، اس میں اور یہود کے یوم سبت کو مچھلیوں کے شکار کی ممانعت سے بچنے کے لئے کئے جانے والے حیلہ میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ یہود نے بھی حکم کے منشاء کو مدنظر نہ رکھا، اور بظاہر حکم کی خلاف ورزی بھی نہ کی۔ یہی صورت یہاں بھی ہے۔
اگر نیت، اخلاص اور دیگر قلبی عبادات کی کوئی اہمیت اسلام میں نہ ہوتی، تو شاید یہ حیلہ جائز و درست قرار پاتا۔ ورنہ تو دراصل یہ شریعت کی پابندی نہیں، بلکہ اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش (نعوذباللہ) میں خود دھوکہ میں مبتلا ہونا ہے۔