- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
جب ہم فقہ حنفی کا مطالعہ کرتے ہیں توہمیں ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع روایات بھی ملتی ہیں جن سے استدلال کرتے ہیں ایسا کیوں اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔مولانا یحیی گوندلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مراکز وضع
اسلام میں وضع حدیث کی ابتداء سبائی پارٹی کی طرف سے ھوئی تھی یہ لوگ مختلف بلاد اسلامیہ میں پھیل گئے تھے البتہ حجاز ان سرگرمیوں سے کسی حد تک محفوظ تھا اس لئے حجاز خصوصاً حرمین شرفین وضع حدیث کے فتنہ سے محفوظ رھے ھیں باقی تقریباً قابل ذکر علاقوں میں خال خال وضع حدیث کے جراثیم پیدا ھو گئے تھے لیکن اس کا اصل مرکز سرزمین عراق تھی اس لئے کہ یہ علاقہ ابتداء سے ھی فتنوں کا گڑھ اور مرکز چلا آ رھا ھے جناب رسول اللہ نے بھی اس علاقہ کو فتنوں اور شیطان کے سینگ کی زمین قرار دیا تھا جس کی تفصیل حدیث کی عام کتابوں میں موجود ھے فتنہ گروں کو اپنے پروگرام کو بام عروج تک پھنچانے کے لئے کسی مرکز کی ضرورت تھی اس کے لئے ان کی نگاہ سرزمین عراق پر پڑی اور اسے اپنے مشن کی آبیاری کے لئے موزوں خیال کیا۔
آئمہ کرام اور محدثین عظام نے اس صورت حال کو بھانپ لیا اور اس فتنے کے تدارک کے لئے مستعد ھو گئے روایات میں تحقیق و تفتیش کا عمل تو حضرت عثمان کی شھادت کے بعد شروع ھو چکا تھا مگر جب اھل عراق سے کوئی روایت نقل ھو کر آتی تو اس میں مزید احتیاط ملحوظ رکھی جاتی ۔ صرف ان آئمہ کرام کی روایت کو قبول کی جاتی جن کی امانت، صداقت اور عدالت اظھر من الشمس تھی اور عام روایات اور یہ صحابہ کرام کے آخری عھد میں ہی شروع ھو چکا تھا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے عراقیوں کی ایک جماعت نے کسی مسئلہ پر استفسار کیا تو انہوں ان کے جواب میں فرمایا :۔
’’ان من العراق قوماً یکذبون ویسخرون۔‘‘ (طبقات ابن سعد:۹/۱۳)
’’ بلا شبہ عراق میں کچھ لوگ ایسے بھی ھیں جو جھوٹ بولتے اور تمسخر اڑاتے ھیں۔‘‘
تابعین نے بھی تجربہ سے معلوم کیا تھا کہ اھل عراق حدیث روایت کرنے کے اھل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی روایت قابل قبول ہے معروف تابعی حضرت طاؤس فرماتے ہیں:’’اذا حدثک العراقی ماءۃ حدیث فاطرح تسعۃ و تسعین ۔‘‘
’’جب کوئی عراقی سو حدیثیں روایت کرے تو ان میں سے ننانوے کو پھینک دو‘‘
tafseel ky luy www.Albisharah.com - www.Albisharah.com
مراکز وضع
اسلام میں وضع حدیث کی ابتداء سبائی پارٹی کی طرف سے ھوئی تھی یہ لوگ مختلف بلاد اسلامیہ میں پھیل گئے تھے البتہ حجاز ان سرگرمیوں سے کسی حد تک محفوظ تھا اس لئے حجاز خصوصاً حرمین شرفین وضع حدیث کے فتنہ سے محفوظ رھے ھیں باقی تقریباً قابل ذکر علاقوں میں خال خال وضع حدیث کے جراثیم پیدا ھو گئے تھے لیکن اس کا اصل مرکز سرزمین عراق تھی اس لئے کہ یہ علاقہ ابتداء سے ھی فتنوں کا گڑھ اور مرکز چلا آ رھا ھے جناب رسول اللہ نے بھی اس علاقہ کو فتنوں اور شیطان کے سینگ کی زمین قرار دیا تھا جس کی تفصیل حدیث کی عام کتابوں میں موجود ھے فتنہ گروں کو اپنے پروگرام کو بام عروج تک پھنچانے کے لئے کسی مرکز کی ضرورت تھی اس کے لئے ان کی نگاہ سرزمین عراق پر پڑی اور اسے اپنے مشن کی آبیاری کے لئے موزوں خیال کیا۔
آئمہ کرام اور محدثین عظام نے اس صورت حال کو بھانپ لیا اور اس فتنے کے تدارک کے لئے مستعد ھو گئے روایات میں تحقیق و تفتیش کا عمل تو حضرت عثمان کی شھادت کے بعد شروع ھو چکا تھا مگر جب اھل عراق سے کوئی روایت نقل ھو کر آتی تو اس میں مزید احتیاط ملحوظ رکھی جاتی ۔ صرف ان آئمہ کرام کی روایت کو قبول کی جاتی جن کی امانت، صداقت اور عدالت اظھر من الشمس تھی اور عام روایات اور یہ صحابہ کرام کے آخری عھد میں ہی شروع ھو چکا تھا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے عراقیوں کی ایک جماعت نے کسی مسئلہ پر استفسار کیا تو انہوں ان کے جواب میں فرمایا :۔
’’ان من العراق قوماً یکذبون ویسخرون۔‘‘ (طبقات ابن سعد:۹/۱۳)
’’ بلا شبہ عراق میں کچھ لوگ ایسے بھی ھیں جو جھوٹ بولتے اور تمسخر اڑاتے ھیں۔‘‘
تابعین نے بھی تجربہ سے معلوم کیا تھا کہ اھل عراق حدیث روایت کرنے کے اھل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی روایت قابل قبول ہے معروف تابعی حضرت طاؤس فرماتے ہیں:’’اذا حدثک العراقی ماءۃ حدیث فاطرح تسعۃ و تسعین ۔‘‘
’’جب کوئی عراقی سو حدیثیں روایت کرے تو ان میں سے ننانوے کو پھینک دو‘‘
tafseel ky luy www.Albisharah.com - www.Albisharah.com