حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
فقہ حنفی میں ایسے کتنے ہی مسائل ہیں ، جن واقع ہونا عادۃ محال ہے،اگر فقاہت نام ہے قرآن وحدیث کے علاوہ دیگرعلوم کا جس طرح مروجہ فقہ کی کتاب میں مذکور ہیں ، جیسے :اگر کتا بکری کے ساتھ جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والی چیز کا نام کیا ہونا چاہیے اور وہ چیز حلال ہے یا حرام ؟
اسی طرح ایسے مسائل کے بارے میں سوالات جنکا رونما ہونا عادہ محال ہے ، صحابہ کرامؓ تو ایسے مسائل کے بارے میں جواب دینے سے گزیز کرتے تھے جو وقوع پذیر نہیں ہوتے تھے ـ امام دارمی نے اپنی سنن کے مقدمہ (ص 47 ج 1) میں اور حافظ ابن حجر ے فتح الباری(ص 66 ج 13) میں اس سلسلے میں متعدد آثار نقل کئے ہیں ـ
اسی طرح ایسے مسائل کے بارے میں سوالات جنکا رونما ہونا عادہ محال ہے ، صحابہ کرامؓ تو ایسے مسائل کے بارے میں جواب دینے سے گزیز کرتے تھے جو وقوع پذیر نہیں ہوتے تھے ـ امام دارمی نے اپنی سنن کے مقدمہ (ص 47 ج 1) میں اور حافظ ابن حجر ے فتح الباری(ص 66 ج 13) میں اس سلسلے میں متعدد آثار نقل کئے ہیں ـ
بلکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے تو اس نوعیت کی جسارت کو اسباب فتن میں شمار کیا ہے ـ چنانچہ اپنی معرکتہ الاراء تصنیف ازالتہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء کی فصل پنجم میں اسباب فتن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ـ 'عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں : کہ جو واقعہ ہوا نہیں اس کے بارے میں سوال مت کیا کرو کیونکہ میں نے عمرؓ سے سنا '' يلعن من سأل عما لم يكن " کہ وہ اس شخص پر لعنت کرتے تھے جو ایسی بات کرے معاملے میں سوال کرتا جو ابھی واقع نہیں ہوئی ہوتی تھی ،
اس کے بعد انہوں نے دارمی کے حوالے سے ان آثارکو نقل کیا ہے، جن کی طرف ابھی اشارہ کر آئے ہیں ـ حافظ ابن حجررحمہ اللہ بھی رقمطراز ہیں :'هفتم تعمق مردم درمسائل فقهيه وتكلم برصور مفروضة كه هنوز واقع نه شده است وسابق اين معني راجانز نمي داشتند الخ(ازالة مترجم : ص 499 وج 1)''فتنہ کے دور میں ہونے والا ساتواں عمل یہ ہے کہ مسائل فقہیہ میں غور و خوض کرنا اور مسائل کی فرضی صورتیں جو ابھی واقع نہیں ہوئیں (اپنے ذہن سے تراش کرلوگوں کے سامنے ) بیان کرنا، پہلے حضرات اسے جائز نہیں سمجھتےتھے ''
بلاشبہ اس بارے میں فقہا اہل رائے کا مشغلہ بڑا ہی وسیع و عجیب رہا ہے ـ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں ـ مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہوثبت عن جممع من السلف كراهة تكلف المسائل التي يستحيل وقوعها عادة أو يندر جدا(فتح الباري : ص 407 ، ج 10)''کہ سلف کی ایک جماعت ان مسائل کے بارے میں تکلف کو مکرہ سمجھتی ہے جن کا واقع ہونا عادہ محال ہے یا بہت شاذ و نادر ہیں ''
غور فرمایا آپ نے کہ سلف میں جو بات ناپسند تھی فتنہ کے دور میں وہی خوب سے خوب ترہوتی چلی گئی ـع" کتب فقہ میں بعض ایسے مسائل مندرج ہیں کہ محال عادی ہے ( البرهين القاطعة ص 13)
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا