• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ حنفی کے کرم فرما

Zakir afridi

رکن
شمولیت
فروری 25، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
53
رئیس المناظرین ، وکیل احناف ، متکلم اسلام ، ترجمان اہل سنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمه الله
بسم الله الرحمن الرحیم
اسلامی علوم میں فقہ وہ جامع علم ہے جس کی بنیاد کتاب الله ، سنت رسول الله صلی الله علیه وسلم ، اجماع امت محمدیہ اور قیاس شرعی پر ہے - ان چاروں بنیادوں پر ایک ایسی عظیم الشان عمارت ہے جس میں انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک تمام پیش آنے والے مسائل کے احکام نہایت آسان ترتیب سے مرتب ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ فقہ سے بے نیاز ہو کر نہ کوئی شخص نماز کا مکمل طریقہ بیان کرسکتا ہے اور نہ حج کا اور نہ ہی دیگر احکام تفصیلی طور پر بیان کرسکتا ہے - فقہ حنفی کی عظمت سے قرآن و حدیث لبریز ہیں - آج کے دور میں جس طرح قرآن پاک سات مشہور و متواتر قرأتوں کے ذریعہ دنیا میں پہنچا ہے اسی طرح سنت نبوی صلی الله علیه وسلم چار فقہی مذاہب کے واسطہ سے امت کو ملی ہے
جس طرح سات قرأتوں میں سے کوئی شخص کسی ایک قرأت پر ساری عمر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو پورا قرآن پاک پڑھنے کا ثواب ملے گا - ایک قرأت کو مقرر کرنے میں نہ اس کے ثواب میں کمی آئے گی اور نہ ہی اسے کسی قسم کا گناہ ہوگا - اس طرح جو شخص چاروں ائمہ میں سے کسی ایک کے مذہب پر عمر بھر عمل کرتا رہے گا ، اس کو سنت پر عمل کرنے کا پورا پورا ثواب ملے گا - یہ سنت نبوی صلی الله علیه وسلم پر عمل کرنے کا آسان ترین اور محفوظ و محکم طریقہ ہے
جس طرح الله تعالی نے حضرات انبیاء علیهم السلام کے ذریعہ دنیا کو ہدایت سے نوازا ، لیکن ہمارے نبی اکرم حضرت محمد صلی الله علیه وسلم ساری دنیا کے لئے مینارۂ نور بن کر آئے اور سب نبیوں سے افضل قرار پائے
اسی طرح چار ائمہ فقہ کے ذریعہ امت محمدیہ کو سنت نبویہ کی روشنی ملی - مگر امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمهم الله کا فیض بعض علاقوں میں محدود رہا - ان کے مقلدین چند خاص خاص علاقوں میں پائے جاتے ہیں ، مگر حضرت امام ابو حنیفه رحمه الله کے ذریعہ سے سنت نبوی کا نور دنیا کے کونے کونے تک پہنچا
اس لئے بلاخوف تردید یہ بات کہی جاتی ہے کہ پوری دنیا میں اسلام کا کلمہ ، خدا کا قرآن ، نبی صلی الله علیه وسلم کا فرمان ، امام صاحب رحمه الله اور ان کے مقلدین کے ذریعہ پہنچا - اسی لئے وہ دنیائے اسلام میں امام اعظم کے لقب سے نوازے گئے - احناف کی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے نبی صلی الله علیه وسلم بھی ساری دنیا کے نبی اور ہمارے امام ابو حنیفه رحمه الله بھی ساری دنیا کے فقہی امام
☆ اسی لئے امام عبدالله داؤد الخریبی رحمه الله [ھ213] فرمایا ‎کرتے تھے: مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز میں الله تعالی سے امام ابو حنیفه رحمه الله کے لئے دعا کیا کریں اور فرمایا کہ انہوں نے سنت اور فقہ کو مسلمانوں کے لئے محفوظ فرمایا ہے [تاریخ بغداد ‎صفحہ 342 جلد نمبر13 ، البدایہ والنهایہ صفحہ نمبر 107 جلد نمبر10]
جس فقہ حنفی کے مطابق دنیا بھر میں سنت نبوی صلی الله علیه وسلم کا نور پھیلا اور ہزاروں محدثین ، لاکھوں فقہاء اور کروڑہا عوام آج تک اسی فقہ کے مطابق ارکان اسلام ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور صدیوں تک یہ فقہ حرمین شریفین اور تمام اسلامی دنیا میں بلاشرکت غیرے بطور اسلامی قانون نافذ رہی ہے ، اس فقہ کی اس عظمت پر بعض لوگوں نے اپنی جہالت سے اور بعض لوگوں نے حسد کی بنیاد پر اعتراضات بھی کئے - ان اعتراضات میں ان کی جہالت و حسد کی کارگزاری تھی - مگر الله تعالی کا ارادہ یہ تھا کہ امام ابو حنیفه رحمه الله کے مداحین اور مقلدین کے نیک اعمال کا ثواب جس طرح امام صاحب رحمه الله کو پہنچ رہا ہے ، ان کے حاسدین کی نیکیاں بھی امام صاحب کے لئے بلندی درجات کا سبب بنیں
☆ نعیم بن حماد :: امام اعظم رحمه الله کے کرم فرماؤں میں یہ شخص پیش پیش تھا اور امام صاحب کے حسد میں اتنا آگے بڑھ گیا تھا کہ تقویت سنت کے لئے جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا اور امام ابو حنیفه رحمه الله کی توہین میں جھوٹی حکایات بنایا کرتا تھا [تہذیب التهذیب صفحہ نمبر 463 جلد نمبر10] مشہور غیر مقلد عالم مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنی کتاب تاریخ اہل حدیث صفحہ 68 تا 70 ، اس نعیم بن حماد کے بارہ میں جھوٹی حدیثیں بنانے اور جھوٹی حکایات گھڑنے کا ذکر کئی کتابوں سے کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس نے حنفیوں کے رد میں بہت سی کتابیں لکھیں [تاریخ اہل حدیث صفحہ69]
یہ شخص [228ھ] میں فوت ہوا - یاد رہے کہ تبع تابعیں کا دور [220ھ] تک ہے اور اس دور میں فقہ حنفی دنیا بھر میں پھیل چکی تھی - خلیفہ واثق بالله نے [222ھ] میں جو وفد سد ذوالقرنین کی تحقیق کے لئے بھیجا تھا اس نے واپس آکر بتایا تھا کہ وہاں کے سب باشندے مسلمان ہیں اور حنفی مذہب کے پابند ہیں - البتہ عباسی حکومت سے ناآشنا ہیں - اس دور میں نعیم بن حماد نے فقہ حنفی کے رد میں کتابیں لکھی جن کا تانا بانا جھوٹی احادیث اور جھوٹی حکایات سے بنایا گیا
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ دور خیر القرون میں امام صاحب رحمه الله اور ان کی فقہ کے خلاف اگر کوئی معقول اور سچے اعتراضات مل سکتے تو بے چارے نعیم بن حماد کو خدا کے نبی پر جھوٹ بولنے کا کبیرہ گناہ اپنے سر نہ لینا پڑتا اور نہ جھوٹی کہانیاں گھڑنی پڑتیں
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ دور خیر القرون کے آخر تک کوئی معقول اور صحیح اعتراض امام صاحب رحمه الله اور ان کی فقہ پر نہیں ہوسکا - ہاں علمی اختلاف بالکل الگ بات ہے
یہ حاسدانہ کاروائی کرنے والا شخص نعیم بن حماد اہل سنت والجماعت کے خلاف قرآن پاک کو مخلوق کہتا تھا - وہ گرفتار ہوا اور اسے حکومت وقت نے ہتھکڑیوں سے باندھ کر ایک گھڑے میں پھینک دیا جہاں وہ مرگیا ، نہ اس کو کفن نصیب ہوا اور نہ نماز جنازہ نصیب ہوئی [تاریخ بغداد صفحہ 314 جلد نمبر13]
☆ آج کل جو غیرمقلدین جھوٹی حدیثوں اور جھوٹی کہانیوں کی بناء پر امام صاحب رحمه الله اور فقہ حنفی کے خلاف پر زور پروپیگنڈہ کرکے شیعوں اور منکرین حدیث کے ہاتھوں کو مضبوط کررہے ہیں ، انہیں نعیم بن حماد کے انجام سے درس عبرت لینا چاہئے اور اپنے مشہور غیر مقلد عالم حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی کی نصیحت کو آویزہ گوش بنانا چاہئے - وہ فرمایا کرتے تھے: "جو شخص ائمہ دین اور خصوصآ امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا" - [تاریخ اہل حدیث صفحہ 437] کیونکہ چاند کا تھوکا منہ پر آتا ہے - نعیم بن حماد امام صاحب رحمه الله اور فقہ حنفی کا ایک بال بھی بیکا نہ کرسکا ، البتہ اپنے انجام کو پہنچ گیا
عالم باعمل فاضل اکمل حضرت مولانا تجمل حسین صاحب بہاری لکھتے ہیں کہ "ایک غیر مقلد عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب آروی مکہ مکرمہ گئے اور قبلہ عالم حضرت مولانا سید شاہ محمد علی صاحب مونگیری رحمه الله بھی وہیں تھے - مولانا محمد ابراہیم صاحب نے کہا کہ جناب رسول الله صلی الله علیه وسلم کی مجلس خواب میں اور مجلس مبارک میں حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله بھی تشریف فرما تھے - جناب رسالت مآب صلی الله علیه وسلم نے مجھے فرمایا تم ان یعنی امام ابو حنیفه رحمه الله سے بدظن ہو ، قصور معاف کراؤ - میں نے امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے قدموں میں گر کر معاف کرایا [کمالات رحمانے صفحہ17]
☆ امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمه اللہ :: فقہ حنفی کے کرم فرماؤں میں ایک بزرگ امام ابوبکر ابن ابی شیبه رحمه اللہ ہیں ، ان ‎کا وصال 235ھ میں ہوا - انہوں نے حدیث کے ایک بہت بڑی کتاب "مصنف" مرتب فرمائی ہے جو حال ہی میں 16 جلدوں میں شائع ہوئی ہے - ہمارے غیر مقلد دوست اس کتاب کو طبقہ ثالثه کی کتاب کہہ کر ناقابل اعتماد بنایا کرتے ہیں ، مگر اس کی ایک جلد میں حضرت امام صاحب رحمه الله کے فقہی مسائل پر اعتراضات کئے گئے ہیں - ان کو یہ حضرات خوب اچھالتے ہیں - لیکن اس کتاب کے بارہ میں دو باتیں بہت اہم ہیں
☆ اس کتاب میں تیس [30] ہزار سے زائد صحابه رضی الله عنهم اور تابعیں رحمهم الله کے فقہی فتاوی درج ہیں ، جن میں نہ فتوی دینے والے صحابی اور تابعی نے اپنے فقہی مسئلہ کی دلیل میں قرآن پاک کی کوئی آیت پیش کی ہے اور نہ ہی کوئی حدیث پیش کی ہے اور نہ فتوی پوچھنے والوں نے دلیل کا مطالبہ کیا ہے ، جس سے معلوم ہوا کہ دور صحابه و تابعین میں فقہاء بلاذکر دلیل فتوی دیتے تھے اور باقی لوگ بلامطالبہ دلیل ان فقہی فتؤوں پر عمل کرتے تھے اور اس متواتر طرز عمل پر کسی سے انکار ثابت نہیں ، اسی کو تقلید کہتے ہیں - جس سے معلوم ہوا کہ دور صحابه رضی الله عنهم ، تابعین اور تبع تابعیں رحمهم الله میں تقلید متواتر اور بلانکیر جاری تھی - کوئی منکر تقلید غیر مقلد نہ تھا
امام ابن ابی شیبه رحمہ اللہ نے فقہ حنفی سے جو اختلاف فرمایا ہے ، اس کا تجزیہ یہ ہے
عنایہ شرح ھدایہ میں ہے کہ فقہ حنفی کے مسائل کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے - امام موصوف نے صرف ایک سو پچیس مسائل میں اختلاف کیا ہے - اگر بالفرض ان کے اعتراضات کو من و عن مان لیا جائے تو بھی فقہ حنفی میں صواب و خطاء کی نسبت یہ ہوئی کہ [10160] دس ہزار ایک سو ساٹھ مسائل میں صواب اور ایک مسئلہ میں ایک اجر کے مستحق ہیں اور شاید کسی بڑے سے بڑے محدث کے بارہ میں بھی صواب و خطاء کی یہ نسبت ثابت نہ کی جاسکے
ہم نے جب ان مسائل کو دیکھا تو تقریبآ 60 مسائل وہ ہیں جن میں دونوں طرف احادیث ہیں - امام ابن ابی شیبه رحمه اللہ کے نزدیک ان کی رائے میں ایک حدیث راجح ہے ، اور امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے نزدیک دوسری راجح ہے - حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله خود فرماتے ہیں: اذا صح الحدیث فهو مذھبی [شامی ج1] تو جس حدیث کو انہوں نے اختیار کیا وہ صحیح ہے - امام سفیان ثوری رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفه رحمه الله صرف صحیح حدیث لیتے جو نہایت ثقہ راویوں سے ہوتی اور آپ کو ناسخ منسوخ کی بہت پہچان تھی اور یہ بھی پوری تحقیق کرتے کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے آخری فعل کی جستجو کریں اور ساتھ ہی عام علماء کی موافقت کا بھی خیال رکھتے [صمیری ص 66 ، الخیرات الحسان ص 30] یعنی متعارض احادیث میں امام صاحب رحمه الله اس حدیث کو لیتے جس کو خود امام صاحب اور باقی شیوخ حدیث بھی صحیح مانتے اور منسوخ کے مقابلہ میں ناسخ اور آخری زمانہ کی احادیث کو لیتے اور ظاہر ہے کہ امام ابن ابی شیبه رحمه اللہ نے نہ تو صحت حدیث میں اتنی کوشش فرمائی اس لئے محدثین نے ان کی کتاب کو طبقہ ثالثه میں رکھا اور نہ ہی ناسخ و منسوخ کی اتنی تحقیق فرمائی
اس لئے ان ساٹھ مسائل میں امام صاحب رحمه الله کی مختار احادیث اعلی درجہ کی صحیح اور آخری عمر کی احادیث ہیں ، تو ان کے لئے راجح ہونے میں کوئی شبہ نہیں - ان کے علاوہ تقریبآ ایک درجن مسائل وہ ہیں جن میں امام ابن ابی شیبه رحمه اللہ نے خبر واحد پیش کی ہے اور امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله نے قرآن کی نص سے استدلال کیا ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن پاک سے استدلال ہی راجح ہے
تقریبآ ڈیڑھ درجن مسائل میں امام ابن ابی شیبه رحمه اللہ نے خبر واحد سے استدلال کیا ہے ، جبکہ امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله نے حدیث مشہور پر اپنے مسئلہ کی بنیاد رکھی ہے اور ظاہر ہے کہ حدیث مشہور کے مقابلہ میں خبر واحد کو ترجیح نہیں دی جاسکتی - تقریبآ ڈیڑھ درجن مسائل وہ ہیں جن میں امام ابن ابی شیبه نے ان مسائل کا رد کیا ہے جو سرے سے امام صاحب رحمه الله سے ثابت ہی نہیں ، نہ فقہ حنفی کی متد اول کتابوں میں موجود ہیں - اس میں امام ابن ابی شیبه رحمه الله سے خطاء ہوئی
تقریبآ دس مسائل ایسے ہیں جن میں فہم حدیث میں اختلاف ہے - امام ابن ابی شیبه رحمه الله نے اور معنی سمجھا ہے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله نے اور معنی سمجھا ہے - ظاہر ہے کہ بوقت اختلاف فہم محدث کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ فہم فقیہ کا اعتبار ہوتا ہے - خود حضور صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں: رب حامل فقه غیر فقیه - اور محدثین خود کہتے ہیں کہ ہم پنساری ہیں اور فقہاء طبیب ہیں [جامع بیان العلم ص 131 ج2 ، ذیل الجواہر ص 485 ج2 ، مناقب موفق ص 163 ج1 ، الخیرات الحسان ص61] اور امام ترمذی رحمه الله فرماتے ہیں: فقہاء حدیث کے معانی [سمجھنے] میں بڑے عالم ہیں [ترمذی ص 118 ج1] اور امام ابو حنیفه رحمه الله کا مجتہد ہونا اجماع امت سے ثابت ہے
البتہ چھ سات مسائل میں مناقشہ جاری ہے ، جس میں امام صاحب رحمه الله برابر ہیں - یہ ہے امام ابن ابی شیبه رحمه الله کے اعتراضات کی کل کائنات - اب خدا کی طرف سے مقبولیت کا یہ حال ہے کہ ابن ابی شیبه رحمه الله کے کتاب لکھنے کے بعد بھی آج تک کروڑہا مقلدین امام ابو حنیفه رحمه الله کے موجود ہیں اور امام ابن ابی شیبه رحمه الله کا ایک بھی مقلد دنیا میں نہیں ہوا
علامہ عبدالقادر قرشی رحمه الله ، علامہ قاسم قطلوبغا رحمه الله اور علامہ کوثری رحمه الله نے ابن ابی شیبه رحمه الله کے اس حصہ کا تفصیلی رد لکھا ہے جو قابل دید ہے - حضرات غیر مقلدیں کے جماعتی پرچہ "الاعتصام" میں ہے: امام اعظم رحمه الله نے بے شک اپنے زمانے کے مقتضیات تمدن کو سامنے رکھ کر قرآنی طریقہ شوری کے ذریعہ اسلامی قوانین اور فقہ کی تدوین فرمائی اور حقیقت میں یہ عظیم الشان کام تھا - اس کی عظمت اور ضرورت کا انکار ناممکن ہے [8 جولائی 1960ء ص5 کالم1]
☆ خطیب بغدادی : آپ 393ھ میں پیدا ہوئے - آپ پہلے حنبلی تھے ، پھر شافعی ہوگئے ، تقلید کے بڑے سختی سے حامی تھے اور انکار تقلید کو بالکل غلط قرار دیتے تھے [الفقیه والمتفقه ص 67 ، 68 ، 69 ج2]
حنفیت کے خلاف بہت تعصب رکھتے تھے - انہوں نے جس طرح اپنی کتابوں میں صحیح احادیث بھی لکھی ہیں اور بہت سے جھوٹی احادیث بھی درج کی ہیں ، محدثین نے صحیح احادیث کو قبول کیا ہے اور موضوعات کو رد کیا ہے - اسی طرح امام اعظم رحمه الله کے بارہ میں بہت سے فضائل بھی جمع کئے ہیں اور بہت سے معائب بھی درج کئے ہیں - اب کوئی عقل مند آدمی ان دونوں رخوں کو صحیح تسلیم نہیں کرسکتا کہ ایک شخص کو اعلی درجہ کا عالم ، مجتہد ، نیک بھی مانا جائے اور [معاذالله] عیسائیوں اور بت پرستوں سے بدتر بھی مانا جائے - خطیب نے تو صرف ان دونوں پہلوؤں کو درج کردیا - اب دیکھنا ہے کہ محدثین نے دونوں پہلوؤں میں سے کس کو قبول کیا ہے اور کس کو رد کیا ہے - تو ‎یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ امام صاحب رحمه الله کے فضائل کے پہلو کو محدثین نے بالاتفاق قبول کیا ہے - حنبلی ، شافعی ، مالکی ، حنفی محدثین اور مؤرخین اس کے بیان میں متفق اللسان ہیں ، اور امام کے معائب کے حصہ کا تمام محدثین نے پر زور رد لکھا - ابن عبدالبر مالکی رحمه الله نے امام صاحب رحمه الله کی صفائی میں اسی دور میں کتاب الانتقاء تحریر فرمائی
خطیب بغدادی کے شاگرد قاضی ابو الیمن نے تاریخ خطیب کا اختصار کیا تو امام صاحب رحمه الله کے فضائل والا حصہ رکھا اور معائب کو مردود کرکے نکال دیا - محدث ابن الجوزی رحمه الله نے "السهم المصیب" میں خطیب کی خوب خبر لی - پھر سبط ابن الجوزی نے دو بڑی جلدوں میں "الانتصار لامام ائمة الامصار" کے نام سے خطیب کا رد لکھا - ملک معظم نے بھی "السهم المصیب فی کبد الخطیب" میں اس کا رد کیا اور علامہ خوارزمی نے "مقدمہ جامع المسانید" میں اس کا رد لکھا - ابن حجر مکی شافعی ، علامہ صالحی ابن خلکان سب نے نفرت کا اظہار کیا - الغرض اہل سنت محدثین و علماء کی نظر میں امام اعظم رحمه الله کی عظمت میں تو کوئی کمی واقع نہیں ہوئی - ان کے مقلدین سے آج بھی دنیا بھری پڑی ہے ، البتہ خطیب کے اس باب کو خطیب کی عزت کو داغ لگادیا - ہاں جس حصے کو علماء اہل سنت والجماعت نے اجماعآ مردود قرار دیا تھا ، اس کو کبھی کبھی شیعہ پڑھ کر اپنے جذبۂ تبراء بازی کی تسکین کرلیتے تھے - ہندوستان [پاک و ہند] میں دور وکٹوریہ میں اس مردود حصہ کو حامد علی شیعہ نے اپنی کتاب "استقصاء الافهام" میں شائع کیا اور محمد جونا گڑھی غیرمقلد نے "تاریخ محمدی" کے نام سے شائع کرکے شیعہ اور منکرین حدیث کو خوش کیا - لیکن حقیقت یہی ہے کہ "نہ کتوں کے بھونکنے سے چاند کی چاندنی کم ہوتی ہے اور نہ ہی مکھیوں کے گرنے سے سمندر ناپاک ہوتا ہے - اسی لئے مولانا داؤد غزنوی فرماتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفه رحمه الله کے حق میں بری رائے رکھنے والے کچھ لوگ تو حاسد ہیں اور کچھ ان کے مقام سے بے خبر ہیں [داؤد غزنوی صفحہ378]
میاں نذیر ‎حسین دہلوی نے فرمایا ہم ایسے شخص کو جو ائمہ دین کے حق میں بے ادبی کرے چھوٹا رافضی جانتے ہیں [تاریخ اہل حدیث ص80] آج کل کے غیر مقلدین کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جب نعیم بن حماد ، اب ابی شیبه اور خطیب جیسے لوگوں کی مخالفت "حنفیت" کا کچھ نہ بگاڑسکی تو آپ حضرات منکرین حدیث اور شیعوں کے ساتھ مل کر جو فقہ کی مخالفت کررہے ہیں ، حنفیت کا کچھ نہیں بگاڑ سکوگے - اس لئے افتراق و انتشار کی تحریک کو ختم کرکے اہل سنت والجماعت کے ساتھ مل کر نظام شریعت [فقہ حنفی] کی کوشش کریں
الله تعالی مجھے اور آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے اور بالخصوص عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ! آمین
تجلیات صفدر صفحہ 634 تا 642 جلد 1
تحریر و ترتیب مضمون
بمعہ پروف ریڈنگ :: ابن محمود علی
مضمون میں کسی لفظ کی غلطی ہوں تو مطلع کریں اور غلطی مضمون لکھنے والے ہی کی ہوگی نہ کہ مصنف کی
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
سارا مضمون "دلائل" سے مزین ھے ۔
جذباتی اور ھر ھر حنفی کے دل پر اثر کرنے والا ۔

یہاں پیش کرنے کی غایت؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ورکاتہ!
اسے کہتے ہیں، ''كذب مقدس''
ایسے ہی وکیلوں کے بارے میں ہے کہ:
پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
 
شمولیت
اپریل 18، 2020
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
40
رئیس المناظرین ، وکیل احناف ، متکلم اسلام ، ترجمان اہل سنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمه الله
بسم الله الرحمن الرحیم
اسلامی علوم میں فقہ وہ جامع علم ہے جس کی بنیاد کتاب الله ، سنت رسول الله صلی الله علیه وسلم ، اجماع امت محمدیہ اور قیاس شرعی پر ہے - ان چاروں بنیادوں پر ایک ایسی عظیم الشان عمارت ہے جس میں انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک تمام پیش آنے والے مسائل کے احکام نہایت آسان ترتیب سے مرتب ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ فقہ سے بے نیاز ہو کر نہ کوئی شخص نماز کا مکمل طریقہ بیان کرسکتا ہے اور نہ حج کا اور نہ ہی دیگر احکام تفصیلی طور پر بیان کرسکتا ہے - فقہ حنفی کی عظمت سے قرآن و حدیث لبریز ہیں - آج کے دور میں جس طرح قرآن پاک سات مشہور و متواتر قرأتوں کے ذریعہ دنیا میں پہنچا ہے اسی طرح سنت نبوی صلی الله علیه وسلم چار فقہی مذاہب کے واسطہ سے امت کو ملی ہے
جس طرح سات قرأتوں میں سے کوئی شخص کسی ایک قرأت پر ساری عمر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو پورا قرآن پاک پڑھنے کا ثواب ملے گا - ایک قرأت کو مقرر کرنے میں نہ اس کے ثواب میں کمی آئے گی اور نہ ہی اسے کسی قسم کا گناہ ہوگا - اس طرح جو شخص چاروں ائمہ میں سے کسی ایک کے مذہب پر عمر بھر عمل کرتا رہے گا ، اس کو سنت پر عمل کرنے کا پورا پورا ثواب ملے گا - یہ سنت نبوی صلی الله علیه وسلم پر عمل کرنے کا آسان ترین اور محفوظ و محکم طریقہ ہے
جس طرح الله تعالی نے حضرات انبیاء علیهم السلام کے ذریعہ دنیا کو ہدایت سے نوازا ، لیکن ہمارے نبی اکرم حضرت محمد صلی الله علیه وسلم ساری دنیا کے لئے مینارۂ نور بن کر آئے اور سب نبیوں سے افضل قرار پائے
اسی طرح چار ائمہ فقہ کے ذریعہ امت محمدیہ کو سنت نبویہ کی روشنی ملی - مگر امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمهم الله کا فیض بعض علاقوں میں محدود رہا - ان کے مقلدین چند خاص خاص علاقوں میں پائے جاتے ہیں ، مگر حضرت امام ابو حنیفه رحمه الله کے ذریعہ سے سنت نبوی کا نور دنیا کے کونے کونے تک پہنچا
اس لئے بلاخوف تردید یہ بات کہی جاتی ہے کہ پوری دنیا میں اسلام کا کلمہ ، خدا کا قرآن ، نبی صلی الله علیه وسلم کا فرمان ، امام صاحب رحمه الله اور ان کے مقلدین کے ذریعہ پہنچا - اسی لئے وہ دنیائے اسلام میں امام اعظم کے لقب سے نوازے گئے - احناف کی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے نبی صلی الله علیه وسلم بھی ساری دنیا کے نبی اور ہمارے امام ابو حنیفه رحمه الله بھی ساری دنیا کے فقہی امام
☆ اسی لئے امام عبدالله داؤد الخریبی رحمه الله [ھ213] فرمایا ‎کرتے تھے: مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز میں الله تعالی سے امام ابو حنیفه رحمه الله کے لئے دعا کیا کریں اور فرمایا کہ انہوں نے سنت اور فقہ کو مسلمانوں کے لئے محفوظ فرمایا ہے [تاریخ بغداد ‎صفحہ 342 جلد نمبر13 ، البدایہ والنهایہ صفحہ نمبر 107 جلد نمبر10]
جس فقہ حنفی کے مطابق دنیا بھر میں سنت نبوی صلی الله علیه وسلم کا نور پھیلا اور ہزاروں محدثین ، لاکھوں فقہاء اور کروڑہا عوام آج تک اسی فقہ کے مطابق ارکان اسلام ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور صدیوں تک یہ فقہ حرمین شریفین اور تمام اسلامی دنیا میں بلاشرکت غیرے بطور اسلامی قانون نافذ رہی ہے ، اس فقہ کی اس عظمت پر بعض لوگوں نے اپنی جہالت سے اور بعض لوگوں نے حسد کی بنیاد پر اعتراضات بھی کئے - ان اعتراضات میں ان کی جہالت و حسد کی کارگزاری تھی - مگر الله تعالی کا ارادہ یہ تھا کہ امام ابو حنیفه رحمه الله کے مداحین اور مقلدین کے نیک اعمال کا ثواب جس طرح امام صاحب رحمه الله کو پہنچ رہا ہے ، ان کے حاسدین کی نیکیاں بھی امام صاحب کے لئے بلندی درجات کا سبب بنیں
☆ نعیم بن حماد :: امام اعظم رحمه الله کے کرم فرماؤں میں یہ شخص پیش پیش تھا اور امام صاحب کے حسد میں اتنا آگے بڑھ گیا تھا کہ تقویت سنت کے لئے جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا اور امام ابو حنیفه رحمه الله کی توہین میں جھوٹی حکایات بنایا کرتا تھا [تہذیب التهذیب صفحہ نمبر 463 جلد نمبر10] مشہور غیر مقلد عالم مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنی کتاب تاریخ اہل حدیث صفحہ 68 تا 70 ، اس نعیم بن حماد کے بارہ میں جھوٹی حدیثیں بنانے اور جھوٹی حکایات گھڑنے کا ذکر کئی کتابوں سے کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس نے حنفیوں کے رد میں بہت سی کتابیں لکھیں [تاریخ اہل حدیث صفحہ69]
یہ شخص [228ھ] میں فوت ہوا - یاد رہے کہ تبع تابعیں کا دور [220ھ] تک ہے اور اس دور میں فقہ حنفی دنیا بھر میں پھیل چکی تھی - خلیفہ واثق بالله نے [222ھ] میں جو وفد سد ذوالقرنین کی تحقیق کے لئے بھیجا تھا اس نے واپس آکر بتایا تھا کہ وہاں کے سب باشندے مسلمان ہیں اور حنفی مذہب کے پابند ہیں - البتہ عباسی حکومت سے ناآشنا ہیں - اس دور میں نعیم بن حماد نے فقہ حنفی کے رد میں کتابیں لکھی جن کا تانا بانا جھوٹی احادیث اور جھوٹی حکایات سے بنایا گیا
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ دور خیر القرون میں امام صاحب رحمه الله اور ان کی فقہ کے خلاف اگر کوئی معقول اور سچے اعتراضات مل سکتے تو بے چارے نعیم بن حماد کو خدا کے نبی پر جھوٹ بولنے کا کبیرہ گناہ اپنے سر نہ لینا پڑتا اور نہ جھوٹی کہانیاں گھڑنی پڑتیں
اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ دور خیر القرون کے آخر تک کوئی معقول اور صحیح اعتراض امام صاحب رحمه الله اور ان کی فقہ پر نہیں ہوسکا - ہاں علمی اختلاف بالکل الگ بات ہے
یہ حاسدانہ کاروائی کرنے والا شخص نعیم بن حماد اہل سنت والجماعت کے خلاف قرآن پاک کو مخلوق کہتا تھا - وہ گرفتار ہوا اور اسے حکومت وقت نے ہتھکڑیوں سے باندھ کر ایک گھڑے میں پھینک دیا جہاں وہ مرگیا ، نہ اس کو کفن نصیب ہوا اور نہ نماز جنازہ نصیب ہوئی [تاریخ بغداد صفحہ 314 جلد نمبر13]
☆ آج کل جو غیرمقلدین جھوٹی حدیثوں اور جھوٹی کہانیوں کی بناء پر امام صاحب رحمه الله اور فقہ حنفی کے خلاف پر زور پروپیگنڈہ کرکے شیعوں اور منکرین حدیث کے ہاتھوں کو مضبوط کررہے ہیں ، انہیں نعیم بن حماد کے انجام سے درس عبرت لینا چاہئے اور اپنے مشہور غیر مقلد عالم حافظ عبد المنان صاحب وزیر آبادی کی نصیحت کو آویزہ گوش بنانا چاہئے - وہ فرمایا کرتے تھے: "جو شخص ائمہ دین اور خصوصآ امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا" - [تاریخ اہل حدیث صفحہ 437] کیونکہ چاند کا تھوکا منہ پر آتا ہے - نعیم بن حماد امام صاحب رحمه الله اور فقہ حنفی کا ایک بال بھی بیکا نہ کرسکا ، البتہ اپنے انجام کو پہنچ گیا
عالم باعمل فاضل اکمل حضرت مولانا تجمل حسین صاحب بہاری لکھتے ہیں کہ "ایک غیر مقلد عالم مولوی محمد ابراہیم صاحب آروی مکہ مکرمہ گئے اور قبلہ عالم حضرت مولانا سید شاہ محمد علی صاحب مونگیری رحمه الله بھی وہیں تھے - مولانا محمد ابراہیم صاحب نے کہا کہ جناب رسول الله صلی الله علیه وسلم کی مجلس خواب میں اور مجلس مبارک میں حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله بھی تشریف فرما تھے - جناب رسالت مآب صلی الله علیه وسلم نے مجھے فرمایا تم ان یعنی امام ابو حنیفه رحمه الله سے بدظن ہو ، قصور معاف کراؤ - میں نے امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے قدموں میں گر کر معاف کرایا [کمالات رحمانے صفحہ17]
☆ امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمه اللہ :: فقہ حنفی کے کرم فرماؤں میں ایک بزرگ امام ابوبکر ابن ابی شیبه رحمه اللہ ہیں ، ان ‎کا وصال 235ھ میں ہوا - انہوں نے حدیث کے ایک بہت بڑی کتاب "مصنف" مرتب فرمائی ہے جو حال ہی میں 16 جلدوں میں شائع ہوئی ہے - ہمارے غیر مقلد دوست اس کتاب کو طبقہ ثالثه کی کتاب کہہ کر ناقابل اعتماد بنایا کرتے ہیں ، مگر اس کی ایک جلد میں حضرت امام صاحب رحمه الله کے فقہی مسائل پر اعتراضات کئے گئے ہیں - ان کو یہ حضرات خوب اچھالتے ہیں - لیکن اس کتاب کے بارہ میں دو باتیں بہت اہم ہیں
☆ اس کتاب میں تیس [30] ہزار سے زائد صحابه رضی الله عنهم اور تابعیں رحمهم الله کے فقہی فتاوی درج ہیں ، جن میں نہ فتوی دینے والے صحابی اور تابعی نے اپنے فقہی مسئلہ کی دلیل میں قرآن پاک کی کوئی آیت پیش کی ہے اور نہ ہی کوئی حدیث پیش کی ہے اور نہ فتوی پوچھنے والوں نے دلیل کا مطالبہ کیا ہے ، جس سے معلوم ہوا کہ دور صحابه و تابعین میں فقہاء بلاذکر دلیل فتوی دیتے تھے اور باقی لوگ بلامطالبہ دلیل ان فقہی فتؤوں پر عمل کرتے تھے اور اس متواتر طرز عمل پر کسی سے انکار ثابت نہیں ، اسی کو تقلید کہتے ہیں - جس سے معلوم ہوا کہ دور صحابه رضی الله عنهم ، تابعین اور تبع تابعیں رحمهم الله میں تقلید متواتر اور بلانکیر جاری تھی - کوئی منکر تقلید غیر مقلد نہ تھا
امام ابن ابی شیبه رحمہ اللہ نے فقہ حنفی سے جو اختلاف فرمایا ہے ، اس کا تجزیہ یہ ہے
عنایہ شرح ھدایہ میں ہے کہ فقہ حنفی کے مسائل کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے - امام موصوف نے صرف ایک سو پچیس مسائل میں اختلاف کیا ہے - اگر بالفرض ان کے اعتراضات کو من و عن مان لیا جائے تو بھی فقہ حنفی میں صواب و خطاء کی نسبت یہ ہوئی کہ [10160] دس ہزار ایک سو ساٹھ مسائل میں صواب اور ایک مسئلہ میں ایک اجر کے مستحق ہیں اور شاید کسی بڑے سے بڑے محدث کے بارہ میں بھی صواب و خطاء کی یہ نسبت ثابت نہ کی جاسکے
ہم نے جب ان مسائل کو دیکھا تو تقریبآ 60 مسائل وہ ہیں جن میں دونوں طرف احادیث ہیں - امام ابن ابی شیبه رحمه اللہ کے نزدیک ان کی رائے میں ایک حدیث راجح ہے ، اور امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله کے نزدیک دوسری راجح ہے - حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله خود فرماتے ہیں: اذا صح الحدیث فهو مذھبی [شامی ج1] تو جس حدیث کو انہوں نے اختیار کیا وہ صحیح ہے - امام سفیان ثوری رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفه رحمه الله صرف صحیح حدیث لیتے جو نہایت ثقہ راویوں سے ہوتی اور آپ کو ناسخ منسوخ کی بہت پہچان تھی اور یہ بھی پوری تحقیق کرتے کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے آخری فعل کی جستجو کریں اور ساتھ ہی عام علماء کی موافقت کا بھی خیال رکھتے [صمیری ص 66 ، الخیرات الحسان ص 30] یعنی متعارض احادیث میں امام صاحب رحمه الله اس حدیث کو لیتے جس کو خود امام صاحب اور باقی شیوخ حدیث بھی صحیح مانتے اور منسوخ کے مقابلہ میں ناسخ اور آخری زمانہ کی احادیث کو لیتے اور ظاہر ہے کہ امام ابن ابی شیبه رحمه اللہ نے نہ تو صحت حدیث میں اتنی کوشش فرمائی اس لئے محدثین نے ان کی کتاب کو طبقہ ثالثه میں رکھا اور نہ ہی ناسخ و منسوخ کی اتنی تحقیق فرمائی
اس لئے ان ساٹھ مسائل میں امام صاحب رحمه الله کی مختار احادیث اعلی درجہ کی صحیح اور آخری عمر کی احادیث ہیں ، تو ان کے لئے راجح ہونے میں کوئی شبہ نہیں - ان کے علاوہ تقریبآ ایک درجن مسائل وہ ہیں جن میں امام ابن ابی شیبه رحمه اللہ نے خبر واحد پیش کی ہے اور امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله نے قرآن کی نص سے استدلال کیا ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن پاک سے استدلال ہی راجح ہے
تقریبآ ڈیڑھ درجن مسائل میں امام ابن ابی شیبه رحمه اللہ نے خبر واحد سے استدلال کیا ہے ، جبکہ امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله نے حدیث مشہور پر اپنے مسئلہ کی بنیاد رکھی ہے اور ظاہر ہے کہ حدیث مشہور کے مقابلہ میں خبر واحد کو ترجیح نہیں دی جاسکتی - تقریبآ ڈیڑھ درجن مسائل وہ ہیں جن میں امام ابن ابی شیبه نے ان مسائل کا رد کیا ہے جو سرے سے امام صاحب رحمه الله سے ثابت ہی نہیں ، نہ فقہ حنفی کی متد اول کتابوں میں موجود ہیں - اس میں امام ابن ابی شیبه رحمه الله سے خطاء ہوئی
تقریبآ دس مسائل ایسے ہیں جن میں فہم حدیث میں اختلاف ہے - امام ابن ابی شیبه رحمه الله نے اور معنی سمجھا ہے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفه رحمه الله نے اور معنی سمجھا ہے - ظاہر ہے کہ بوقت اختلاف فہم محدث کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ فہم فقیہ کا اعتبار ہوتا ہے - خود حضور صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں: رب حامل فقه غیر فقیه - اور محدثین خود کہتے ہیں کہ ہم پنساری ہیں اور فقہاء طبیب ہیں [جامع بیان العلم ص 131 ج2 ، ذیل الجواہر ص 485 ج2 ، مناقب موفق ص 163 ج1 ، الخیرات الحسان ص61] اور امام ترمذی رحمه الله فرماتے ہیں: فقہاء حدیث کے معانی [سمجھنے] میں بڑے عالم ہیں [ترمذی ص 118 ج1] اور امام ابو حنیفه رحمه الله کا مجتہد ہونا اجماع امت سے ثابت ہے
البتہ چھ سات مسائل میں مناقشہ جاری ہے ، جس میں امام صاحب رحمه الله برابر ہیں - یہ ہے امام ابن ابی شیبه رحمه الله کے اعتراضات کی کل کائنات - اب خدا کی طرف سے مقبولیت کا یہ حال ہے کہ ابن ابی شیبه رحمه الله کے کتاب لکھنے کے بعد بھی آج تک کروڑہا مقلدین امام ابو حنیفه رحمه الله کے موجود ہیں اور امام ابن ابی شیبه رحمه الله کا ایک بھی مقلد دنیا میں نہیں ہوا
علامہ عبدالقادر قرشی رحمه الله ، علامہ قاسم قطلوبغا رحمه الله اور علامہ کوثری رحمه الله نے ابن ابی شیبه رحمه الله کے اس حصہ کا تفصیلی رد لکھا ہے جو قابل دید ہے - حضرات غیر مقلدیں کے جماعتی پرچہ "الاعتصام" میں ہے: امام اعظم رحمه الله نے بے شک اپنے زمانے کے مقتضیات تمدن کو سامنے رکھ کر قرآنی طریقہ شوری کے ذریعہ اسلامی قوانین اور فقہ کی تدوین فرمائی اور حقیقت میں یہ عظیم الشان کام تھا - اس کی عظمت اور ضرورت کا انکار ناممکن ہے [8 جولائی 1960ء ص5 کالم1]
☆ خطیب بغدادی : آپ 393ھ میں پیدا ہوئے - آپ پہلے حنبلی تھے ، پھر شافعی ہوگئے ، تقلید کے بڑے سختی سے حامی تھے اور انکار تقلید کو بالکل غلط قرار دیتے تھے [الفقیه والمتفقه ص 67 ، 68 ، 69 ج2]
حنفیت کے خلاف بہت تعصب رکھتے تھے - انہوں نے جس طرح اپنی کتابوں میں صحیح احادیث بھی لکھی ہیں اور بہت سے جھوٹی احادیث بھی درج کی ہیں ، محدثین نے صحیح احادیث کو قبول کیا ہے اور موضوعات کو رد کیا ہے - اسی طرح امام اعظم رحمه الله کے بارہ میں بہت سے فضائل بھی جمع کئے ہیں اور بہت سے معائب بھی درج کئے ہیں - اب کوئی عقل مند آدمی ان دونوں رخوں کو صحیح تسلیم نہیں کرسکتا کہ ایک شخص کو اعلی درجہ کا عالم ، مجتہد ، نیک بھی مانا جائے اور [معاذالله] عیسائیوں اور بت پرستوں سے بدتر بھی مانا جائے - خطیب نے تو صرف ان دونوں پہلوؤں کو درج کردیا - اب دیکھنا ہے کہ محدثین نے دونوں پہلوؤں میں سے کس کو قبول کیا ہے اور کس کو رد کیا ہے - تو ‎یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ امام صاحب رحمه الله کے فضائل کے پہلو کو محدثین نے بالاتفاق قبول کیا ہے - حنبلی ، شافعی ، مالکی ، حنفی محدثین اور مؤرخین اس کے بیان میں متفق اللسان ہیں ، اور امام کے معائب کے حصہ کا تمام محدثین نے پر زور رد لکھا - ابن عبدالبر مالکی رحمه الله نے امام صاحب رحمه الله کی صفائی میں اسی دور میں کتاب الانتقاء تحریر فرمائی
خطیب بغدادی کے شاگرد قاضی ابو الیمن نے تاریخ خطیب کا اختصار کیا تو امام صاحب رحمه الله کے فضائل والا حصہ رکھا اور معائب کو مردود کرکے نکال دیا - محدث ابن الجوزی رحمه الله نے "السهم المصیب" میں خطیب کی خوب خبر لی - پھر سبط ابن الجوزی نے دو بڑی جلدوں میں "الانتصار لامام ائمة الامصار" کے نام سے خطیب کا رد لکھا - ملک معظم نے بھی "السهم المصیب فی کبد الخطیب" میں اس کا رد کیا اور علامہ خوارزمی نے "مقدمہ جامع المسانید" میں اس کا رد لکھا - ابن حجر مکی شافعی ، علامہ صالحی ابن خلکان سب نے نفرت کا اظہار کیا - الغرض اہل سنت محدثین و علماء کی نظر میں امام اعظم رحمه الله کی عظمت میں تو کوئی کمی واقع نہیں ہوئی - ان کے مقلدین سے آج بھی دنیا بھری پڑی ہے ، البتہ خطیب کے اس باب کو خطیب کی عزت کو داغ لگادیا - ہاں جس حصے کو علماء اہل سنت والجماعت نے اجماعآ مردود قرار دیا تھا ، اس کو کبھی کبھی شیعہ پڑھ کر اپنے جذبۂ تبراء بازی کی تسکین کرلیتے تھے - ہندوستان [پاک و ہند] میں دور وکٹوریہ میں اس مردود حصہ کو حامد علی شیعہ نے اپنی کتاب "استقصاء الافهام" میں شائع کیا اور محمد جونا گڑھی غیرمقلد نے "تاریخ محمدی" کے نام سے شائع کرکے شیعہ اور منکرین حدیث کو خوش کیا - لیکن حقیقت یہی ہے کہ "نہ کتوں کے بھونکنے سے چاند کی چاندنی کم ہوتی ہے اور نہ ہی مکھیوں کے گرنے سے سمندر ناپاک ہوتا ہے - اسی لئے مولانا داؤد غزنوی فرماتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفه رحمه الله کے حق میں بری رائے رکھنے والے کچھ لوگ تو حاسد ہیں اور کچھ ان کے مقام سے بے خبر ہیں [داؤد غزنوی صفحہ378]
میاں نذیر ‎حسین دہلوی نے فرمایا ہم ایسے شخص کو جو ائمہ دین کے حق میں بے ادبی کرے چھوٹا رافضی جانتے ہیں [تاریخ اہل حدیث ص80] آج کل کے غیر مقلدین کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جب نعیم بن حماد ، اب ابی شیبه اور خطیب جیسے لوگوں کی مخالفت "حنفیت" کا کچھ نہ بگاڑسکی تو آپ حضرات منکرین حدیث اور شیعوں کے ساتھ مل کر جو فقہ کی مخالفت کررہے ہیں ، حنفیت کا کچھ نہیں بگاڑ سکوگے - اس لئے افتراق و انتشار کی تحریک کو ختم کرکے اہل سنت والجماعت کے ساتھ مل کر نظام شریعت [فقہ حنفی] کی کوشش کریں
الله تعالی مجھے اور آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے اور بالخصوص عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ! آمین
تجلیات صفدر صفحہ 634 تا 642 جلد 1
تحریر و ترتیب مضمون
بمعہ پروف ریڈنگ :: ابن محمود علی
مضمون میں کسی لفظ کی غلطی ہوں تو مطلع کریں اور غلطی مضمون لکھنے والے ہی کی ہوگی نہ کہ مصنف کی
شریعت کا مفہوم فقہ حنفی کب سے ہوگیا۔ دوسری بات یہ ہے نعیم بن حماد کے متعلق یہ سب خرافات صرف اس لیے لکھیں ہیں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ پر جرح کی ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ نعیم بن حماد صحیح بخاری کے راوی ہیں۔
 
Top