lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,898
- پوائنٹ
- 436
- افلاطون رافضی کا اعتراض تفسیر اور اصولِ تفسیر سے سراسر جھالت پر مبنی ھے اس کی اصل وجہ شیعوں کے پاس علومِ تفسیر نا ھونا ھے تفسیر کے معاملے میں شیعہ ھمیشہ اھلسنت کے محتاج رھے ھیں اس لئے طوسی کی تفسیر سے طبرسی کے مجمع البیان تک آپ کو کثرت سے ان تفاسیر میں اھلسنت مفسرین کےآراء و روایات ملیں گی لیکن یہ کبھی نہیں دیکھا ھو گا کہ امام قرطبی, سے لیکر امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے کسی شیعہ تفسیر کی مدد لی ھو اس بات کا اعتراف تفسیر صافی کے مصنف نے بھی کیا مقدمے میں..
افلاطون کا اصل اعتراض اس روایت پر یہ ھے کہ چونکہ سورۃ برات بخاری اور مفسرین کے مطابق آخری نازل ھونے والی سورۃ ھے تو اس کی آیت نمبر 113 مکے میں کیسے نازل ھوئی؟؟؟
سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنا چاھونگا کہ اھلسنت کے متقدمین اور متاخرین مفسرین اس بات پر متفق ھے کہ یہ آیت جنابِ ابوطالب کے بارے میں نازل ھوئی
دوسری بات افلاطون کی جاھلیت ملاحظہ ھوں اسے اتنا نہیں پتا کہ کوئی ایک ہی آیت دو بار بھی نازل ھو سکتی ھے اب یہی والی آیت لے لیں جس پر اس رافضی نے اعتراض کیا ھے یہ آیت ایک بار جنابِ ابوطالب کے بارے میں نازل ھوئی تو دوسری بار جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے قبر پر ان کے لئے استغفار کی دعا مانگ رھے تھے تب بھی یہ آیت نازل ھوئی ان تمام روایات کو اھلسنت مفسرین اور محققین نے ذکر کیا ھے جس میں امام الواحدی رحمہ اللہ کی کتاب اسباب النزول, امام طبری اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ قابلِ ذکر ھے
یہ رھا جناب افلاطون کا پوسٹ