شیعہ کا علامہ ملا باقر مجلسی رقم طراز ہے جس نے ابن ابی الحدید سے نقل کیا:
وقال المجلسي نقلاً عن ابن أبي الحديد في شرح نهج البلاغة: اختلف الناس في إسلام أبي طالب فقال الإمامية والزيدية: ما مات إلا مسلماً وقال بعض شيوخنا المعتزلة بذلك منهم : الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما، وقال أكثر الناس من أهل الحديث والعامة ومن شيوخنا البصريين وغيرهم: مات على دين قومه ويرون في ذلك حديثاً مشهوراً : إن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال عند موته: قل يا عم كلمة أشهد لك بها غداً عند الله تعالى، فقال: لولا أن تقول العرب أن أبا طالب جزع عند الموت لأقررت بها عينك، وروي إنه قال: أنا على دين الأشياخ ! وقيل: إنه قال: أنا على دين عبد المطلب وقيل غير ذلك .
وروى كثير من المحدثين أن قوله تعالى:{ مَا كَانَ لِلنَّبِىّ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلىِ قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيم وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيم لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبِيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لّلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ} [ التوبة : 113-114]، أنزلت في أبي طالب لأن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم استغفر له بعد موته .
ورووا أن قوله تعالى:{ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} نزلت في أبي طالب .
ورووا أن علياً(ع) جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم! بعد موت أبي طالب فقال له: إن عمك الضال قد قضى فما الذي تأمرني فيه ؟ واحتجوا به لم ينقل أحد عنه أنه رآه يصلي، والصلاة هي المفرقة بين المسلم والكافر، وأن علياً وجعفرا لم يأخذا من تركته شيئا .
ورروا عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: إن الله قد وعدني بتخفيف عذابه لما صنع في حقي وإنه في ضحضاح من نار . ورووا عنه أيضاً إنه قيل له: لو استغفرت لأبيك وأمك فقال: لو استغفرت لهما لاستغفرت لأبي طالب فإنه صنع إليّ ما لم يصنعا ،و أن عبد الله وآمنة وأبا طالب في حجرة من حجرات جهنم . انظر كل ذلك في البحار (( 35 / 155 )) .
وقت کی قلت کی وجہ ہم اس کا مکمل ترجمہ نہیں کرتے لیکن اس سے جو ثابت ہوتا ہے وہ آپ کے شامنے پیش کرتے ہیں:
ابو طالب کے اسلام لانے میں شیعہ علماء آپس میں اختلاف ہے شیعہ امامہ اور زیدیہ نے کہا کہ وہ مسلمان ہو کرفوت ہوئے اور بعض معتزلہ شیوخ جس میں الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما اور اکثرلوگ أهل الحديث میں سے اور العامة میں سے اورہمارے مشائخ بصرہ والے وغيرھم یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی قوم والوں کے دین پر فوت ہوا تھا یعنی جس پر قریش تھے اس پر وہ مشھور حدیث روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے چچا کلمہ کہ دومیں کل کو اللہ کے حضور آپ کے حق میں گواہ رہوں گا۔ اس پر ابو طالب نے کہا اگر مجھے اس کا ڈر نہ ہوتا کہ عرب یہ نہ کہیں کہ ابو طالب موت کے وقت ڈر گیا تو میں کلمہ کا اقرار کر لیتا۔ اور بعض نے روایت کہ کہ ابو طالب نے کہا میں اپنے بڑوں کے دین پر ہوں اور بعض نے کہا انہوں نے کہا میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔
اور بہتے سے محدثین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ قرآن کی یہ آیت:
{ مَا كَانَ لِلنَّبِىّ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلىِ قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيم وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيم لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبِيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لّلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ}
[ التوبة : 113-114]
"پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں۔ تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں" – "اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کا سبب تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔ کچھ شک نہیں کہ ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل تھے"
یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی جب آپ ﷺ ابو طالب کیلئے ان کی وفات کے بعد دعا کر رہے تھے.
اور یہ بھی روایت کی کہ :{ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} اے محمدﷺ تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے [سورۃ القصص : 56 ] ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی
اور یہ بھی روایت کی کہ علی "ع" اپنے والد کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا: آپ کے چچا گمراہی کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اور نہ ہی کسی نے اسے کبھی نماز پڑھتے دیکھا کیونکہ نماز مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرتی ہے، اور جو وہ مرنے کے بعد چھوڑ گئے تھے اس میں سے علی اور جعفر نے کچھ بھی نہ لیا۔
اور یہ بھی روایت کی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ میرے چچا کو ہلکا عذاب دیا جائے گا جو انہوں نے میرے حق میں کیا تھا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہو گا.
اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبداللہ اور آمنہ "یعنی آپ ﷺ کے والدین" اور ابو طالب جہنم کے حجروں میں سے ایک حجرے میں ہونگے۔
شیعہ کتاب: بحارالانوار / جلد35 / صفحہ 155