• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فلاطون رافضی کے صحیح بخاری کی روایت اور کفرِ ابوطالب پر اعتراض کا تحقیقی جائزہ

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

خلاصہ یہ ھے کہ اگر بخاری میں سورۃ توبة کی آیت نمبر 113 کی شانِ نزول یوں ھے کہ یہ مکہ میں نازل ھوئی تو یہ کوئی قابل حیرت بات نہیں ایک آیت دو بار نازل ھوسکتی ھے اور یہ اعتراض محض جھالت پر مبنی ھے کیونکہ یہ بات شیعہ و اھلسنت دونوں کے کتب, علما, مفسرین سے ثابت ھو گئی ...والحمد اللہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
دوسری بات یہ بھی ثابت ھے کہ اس نے کہا میں دینِ عبدالمطلب پر ھوں.


21.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابوطالب کے متعلق دو باتوں میں سے ایک بات (شیعہ کتب کی تاریکی میں) صحیح ہے۔ یا تو وہ لوگوں کی بے عزتی کے خوف سے اسلام قبول نہیں کر رہا تھا، یا پھر وہ شرک کا اظہار اور ایمان کا اخفاء کرتا تھا۔ دونوں صورتوں میں اس کو مشرک کرنے پر کوئی ملامت نہیں ہونی چاہئیے۔ جس شخص نے ساری عمر ایمان کو چھپایا اور شرک کا اظہار کیا، آج شیعوں کو کہاں سے وحی نازل ہوگئی کہ وہ مومن تھا؟


3.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
شیعہ کا علامہ ملا باقر مجلسی رقم طراز ہے جس نے ابن ابی الحدید سے نقل کیا:

وقال المجلسي نقلاً عن ابن أبي الحديد في شرح نهج البلاغة: اختلف الناس في إسلام أبي طالب فقال الإمامية والزيدية: ما مات إلا مسلماً وقال بعض شيوخنا المعتزلة بذلك منهم : الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما، وقال أكثر الناس من أهل الحديث والعامة ومن شيوخنا البصريين وغيرهم: مات على دين قومه ويرون في ذلك حديثاً مشهوراً : إن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال عند موته: قل يا عم كلمة أشهد لك بها غداً عند الله تعالى، فقال: لولا أن تقول العرب أن أبا طالب جزع عند الموت لأقررت بها عينك، وروي إنه قال: أنا على دين الأشياخ ! وقيل: إنه قال: أنا على دين عبد المطلب وقيل غير ذلك .
وروى كثير من المحدثين أن قوله تعالى:{ مَا كَانَ لِلنَّبِىّ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلىِ قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيم وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيم لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبِيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لّلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ} [ التوبة : 113-114]، أنزلت في أبي طالب لأن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم استغفر له بعد موته .
ورووا أن قوله تعالى:{ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} نزلت في أبي طالب .
ورووا أن علياً(ع) جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم! بعد موت أبي طالب فقال له: إن عمك الضال قد قضى فما الذي تأمرني فيه ؟ واحتجوا به لم ينقل أحد عنه أنه رآه يصلي، والصلاة هي المفرقة بين المسلم والكافر، وأن علياً وجعفرا لم يأخذا من تركته شيئا .
ورروا عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: إن الله قد وعدني بتخفيف عذابه لما صنع في حقي وإنه في ضحضاح من نار . ورووا عنه أيضاً إنه قيل له: لو استغفرت لأبيك وأمك فقال: لو استغفرت لهما لاستغفرت لأبي طالب فإنه صنع إليّ ما لم يصنعا ،و أن عبد الله وآمنة وأبا طالب في حجرة من حجرات جهنم . انظر كل ذلك في البحار (( 35 / 155 )) .


6.jpg



وقت کی قلت کی وجہ ہم اس کا مکمل ترجمہ نہیں کرتے لیکن اس سے جو ثابت ہوتا ہے وہ آپ کے شامنے پیش کرتے ہیں:

ابو طالب کے اسلام لانے میں شیعہ علماء آپس میں اختلاف ہے شیعہ امامہ اور زیدیہ نے کہا کہ وہ مسلمان ہو کرفوت ہوئے اور بعض معتزلہ شیوخ جس میں الشيخ أبو القاسم البلخي وأبو جعفر الإسكافي وغيرهما اور اکثرلوگ أهل الحديث میں سے اور العامة میں سے اورہمارے مشائخ بصرہ والے وغيرھم یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی قوم والوں کے دین پر فوت ہوا تھا یعنی جس پر قریش تھے اس پر وہ مشھور حدیث روایت کرتے ہیں:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے چچا کلمہ کہ دومیں کل کو اللہ کے حضور آپ کے حق میں گواہ رہوں گا۔ اس پر ابو طالب نے کہا اگر مجھے اس کا ڈر نہ ہوتا کہ عرب یہ نہ کہیں کہ ابو طالب موت کے وقت ڈر گیا تو میں کلمہ کا اقرار کر لیتا۔ اور بعض نے روایت کہ کہ ابو طالب نے کہا میں اپنے بڑوں کے دین پر ہوں اور بعض نے کہا انہوں نے کہا میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔

اور بہتے سے محدثین نے یہ روایت نقل کی ہے کہ قرآن کی یہ آیت:

{ مَا كَانَ لِلنَّبِىّ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُوْلىِ قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَـبُ الْجَحِيم وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيم لأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبِيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لّلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ}

[ التوبة : 113-114]

"پیغمبر اور مسلمانوں کو شایاں نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں۔ تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں" – "اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا تو ایک وعدے کا سبب تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے۔ کچھ شک نہیں کہ ابراہیم بڑے نرم دل اور متحمل تھے"

یہ آیت ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی جب آپ ﷺ ابو طالب کیلئے ان کی وفات کے بعد دعا کر رہے تھے.

اور یہ بھی روایت کی کہ :{ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} اے محمدﷺ تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے [سورۃ القصص : 56 ] ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی
اور یہ بھی روایت کی کہ علی "ع" اپنے والد کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا: آپ کے چچا گمراہی کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اور نہ ہی کسی نے اسے کبھی نماز پڑھتے دیکھا کیونکہ نماز مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرتی ہے، اور جو وہ مرنے کے بعد چھوڑ گئے تھے اس میں سے علی اور جعفر نے کچھ بھی نہ لیا۔
اور یہ بھی روایت کی ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ میرے چچا کو ہلکا عذاب دیا جائے گا جو انہوں نے میرے حق میں کیا تھا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہو گا.
اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبداللہ اور آمنہ "یعنی آپ ﷺ کے والدین" اور ابو طالب جہنم کے حجروں میں سے ایک حجرے میں ہونگے۔
شیعہ کتاب: بحارالانوار / جلد35 / صفحہ 155
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
تفسير القمي : علي بن إبراهيم في تفسيره قوله تعالى: { إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ} [ القصص : 56 ] ، قال: نزلت في أبي طالب فإن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يقول: يا عم قل لا إله إلا الله أنفعك بها يوم القيامة ، فيقول يابن أخي أنا أعلم بنفسي فلما مات شهد العباس بن عبد المطلب عند رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه تكلم بها عند الموت ، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : أما أنا فلم أسمعها منه وأرجوا انفعه يوم القيامة .

تفسير القمي (( 2 / 142 )) , (( القصص ص: 56 ))

تفسیر البرهان (( 3 / 230 ))

ترجمہ:

اللہ تعالی کا یہ قول:

اے محمدﷺ تم جس کو دوست رکھتے ہو اُسے ہدایت نہیں کر سکتے

[سورۃ القصص : 56 ]

کہا کہ یہ آیت ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی جب آپ ﷺ اپنے چچا سے کہ رہے تھے "اے چچا لا الہ الا اللہ پڑھ لو میں اس کے طفیل آپ کو قیامت کے دن نفع پہنچاوں گا" تو انہوں نے کہا میں اپنے نفس کو جانتا ہوں۔ جب ابو طالب فوت ہوئے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب نے فرمایا۔ کیا موت کے وقت انہوں نے کلمہ پڑھا تھا؟ تو رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا: "میں نے تو ان سے کچھ بھی نہیں سنا تھا، اور نہ ہی میں قیامت کے دن اسے نفع پہنچاو گا"

شیعہ کتاب: تفسير القمي (( 2 / 142 )) , (( القصص ص: 56


7.jpg
 
Top