- شمولیت
- اگست 02، 2016
- پیغامات
- 8
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 4
دھریوں کا مغالطہ اور اسلام کی تعلیمات
( ہم دنیا کو جنت سمجھتے ہیں اس لیے نہ ہمیں ایمان کی ضرورت ہے نہ حیاء کی )
"الحیاء من الایمان "
حیاء ایمان میں سے ہے ۔ آپ غور کیجیئے؟
جنت جیسی جگہ میں جہاں گناہ ثواب کا کوئی تصور نہ ہو گا ۔وہاں سیدنا آدم علیہ السلام جد الانبیاء والانسان اور سیدہ حوا علیھا السلام کے اندر جو جذبہ پیدا ہوا وہ حیاء کا جذبہ تھا ۔ اللہ کا قرآن ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔
فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ (121)
تو دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان پر ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے (بدنوں) پر بہشت کے پتّے چپکانے لگے۔ اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے) بےراہ ہو گئے
ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ (122)
پھر ان کے پروردگار نے ان کو نوازا تو ان پر مہربانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی(سورۃ طہ)
یعنی نافرمانی کے خوف کے باعث توبہ کا جذبہ محسوس کرنے سے قبل جس جذبہ کو سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدہ حوا علیھا السلام نے محسوس کیا " وہ حیاء " تھی ۔ اور چونکہ حیاء ایمان میں سے ہے ایمان ہی کا جز ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام حالت ایمان میں تھے ۔ اور توبہ کی قبولیت سے پہلے جو شرط ہے وہ یہ کہ انسان گناہوں سے شرمندگی کرتا ہو نادم ہو حیاء میں آ جائے ۔ " رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان بھی ہے کہ جب بندے میں حیا ء نہ رہے تو جو چاہے کرے ۔۔۔۔۔
ایمان ، حیاء ،خوف اور توبہ کے جذبات کی ابتداء جد الانبیاء سے ہوئی ۔ تبھی یہ چیزیں انسان کی جبلت و فطرت میں ہیں ۔ اور میرے خیال سے اس کو سائسنی بنیادوں پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے ۔ اور اسی کو میں فلسفہ نقطہ آغاز کہتا ہوں ۔
عبدالسلام فیصل
( ہم دنیا کو جنت سمجھتے ہیں اس لیے نہ ہمیں ایمان کی ضرورت ہے نہ حیاء کی )
"الحیاء من الایمان "
حیاء ایمان میں سے ہے ۔ آپ غور کیجیئے؟
جنت جیسی جگہ میں جہاں گناہ ثواب کا کوئی تصور نہ ہو گا ۔وہاں سیدنا آدم علیہ السلام جد الانبیاء والانسان اور سیدہ حوا علیھا السلام کے اندر جو جذبہ پیدا ہوا وہ حیاء کا جذبہ تھا ۔ اللہ کا قرآن ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔
فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ (121)
تو دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان پر ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ اپنے (بدنوں) پر بہشت کے پتّے چپکانے لگے۔ اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم خلاف کیا تو (وہ اپنے مطلوب سے) بےراہ ہو گئے
ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ (122)
پھر ان کے پروردگار نے ان کو نوازا تو ان پر مہربانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی(سورۃ طہ)
یعنی نافرمانی کے خوف کے باعث توبہ کا جذبہ محسوس کرنے سے قبل جس جذبہ کو سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدہ حوا علیھا السلام نے محسوس کیا " وہ حیاء " تھی ۔ اور چونکہ حیاء ایمان میں سے ہے ایمان ہی کا جز ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام حالت ایمان میں تھے ۔ اور توبہ کی قبولیت سے پہلے جو شرط ہے وہ یہ کہ انسان گناہوں سے شرمندگی کرتا ہو نادم ہو حیاء میں آ جائے ۔ " رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان بھی ہے کہ جب بندے میں حیا ء نہ رہے تو جو چاہے کرے ۔۔۔۔۔
ایمان ، حیاء ،خوف اور توبہ کے جذبات کی ابتداء جد الانبیاء سے ہوئی ۔ تبھی یہ چیزیں انسان کی جبلت و فطرت میں ہیں ۔ اور میرے خیال سے اس کو سائسنی بنیادوں پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے ۔ اور اسی کو میں فلسفہ نقطہ آغاز کہتا ہوں ۔
عبدالسلام فیصل
Last edited by a moderator: