• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فلسفہ وحدت الوجود ۔وحدت الشہود اور حلول

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
فلسفہ وحدت الوجود ۔وحدت الشہود اور حلول

بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت اور ریاضت کے زریعے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ نظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہے ،تصوف کی اصلاح میں اس عقیدہ کو وحدت الوجود کہا جاتا ہے،عبادت و ریاضت میں مزید ترقی کرنے کے بعد انسان کی ہستی اللہ کی ہستی میں مدغم ہو جاتی ہے۔(نعوذباللہ)اور وہ دونوں (اللہ اور انسان)ایک ہو جاتے ہیں۔(نعوذباللہ)اس عقیدے کو وحدت الشہود یا فنا فی اللہ کہا جاتا ہے۔عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی کرنے سے انسان کا آئینہ اور دل اس قدر لطیف اور صاف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات خود اس انسان میں داخل ہو جاتی ہے،جسے حلول کہا جاتا ہے۔(نعوذباللہ)
غور کیا جائے تو ان تینوں اصلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور یہ کہ انسان اللہ کی ذات کا جزء اور حصہ ہے۔(نعوذباللہ)
یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے ۔قدیم و جدید صوفیاء نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لئے بڑی طویل بحثیں کی ہیں ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کے سائنسی دور میں عقل اسے تسلیم کرنے کے لئے قطعا تیار نہیں۔جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث" ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک "عام آدمی کے لئے ناقابل فہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ کہ انسان اللہ میں یا اللہ انسان میں حلول کئے ہوئے ہے۔ناقابل فہم ہے،اگریہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اللہ اور اللہ ہی درحقیقت انسان ہے،اگرامر واقعہ یہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عابد کون ہے ،معبود کون؟ساجد کون ہے مسجود کون؟خالق کون ہے ،خلوق کون؟حاجت مند کون ہے،حاجت روا کون؟مرنےوالا کون ہے ،مارنے والا کون؟زندہ ہونے والا کون ہے اور زندہ کرنے والا کون؟گنہگار کون ہے،اور بخشنے والا کون؟روز جزا حساب لینے والا کون ہے۔اور دینے والا کون؟اور پھر جزا یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں،اور بھیجنے والا کون؟اس فلسفے کو تسلیم کرنے کے بعد انسان ،انسان کا مقصد تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں؟اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں واقعی مسلمانوں کا یہ عقیدہ قابل قبول ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ابن اللہ کیوں قابل قبول نہیں؟مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان اللہ کا جزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جزاء سمجھنا (یا اللہ کی ذات میں مدغم سمجھنا)یا اللہ تعالیٰ کو کسی انسان میں مدغم سمجھناایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے۔عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (جزء)قرار دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو تبصرہ فرمایا اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
""یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا مریم کا بیٹا ،مسیح ہی اللہ ہے۔اے نبی کہو اگر اللہ ،مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہےکہ اس کو اس ارادے سے باز رکھے؟اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور ان سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہیں جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔""(سورہ المائدہ،آیت نمبر 17)
سورہ مریم میں اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہےجو بندوں کو اللہ کا جزء قرار دیتے ہیں ۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔
""وہ کہتے ہیں رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے سخت بیہودہ بات ہے جو تم گھڑ لائے ہو قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لئے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔""(سورہ مریم ،آیت نمبر 88تا91)
بندوں کو اللہ کا جزء قرار دینے پر اللہ تعالیٰ کے اس شدید غصہ اور ناراضگی کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کو اللہ کا جزء قرار دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس بندے میں اللہ تعالیٰ کی صفات تسلیم کی جائیں ۔مثلا یہ کہ وہ حاجت روا اور اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے یعنی شرک فی الذات کا لازمی نتیجہ شرک فی الصفات ہے اور جب کسی انسان میں اللہ تعالیٰ کی صفات تسلیم کر لی جائیں تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اسکی رضا حاصل کی جائے،جس کے لئے بندہ تمام مراسم عبودیت ،رکوع و سجود ،نذر و نیاز،اطاعت و فرمانبرداری،بجا لاتا ہے یعنی شرک فی الصفات کا لازمی نتیجہ شرک فی لعبادات ہے،گویا شرک فی الذات ہی سب سے بڑا دروازہ ہے۔دوسری انواع شرک کا جیسے ہی یہ دروازہ کھلتا ہے ہر نوع کے شرک کا آغاز ہونے لگتا ہےیہی وجہ ہے کہ شرک فی الذات پر اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب اسس قدر بھڑکتا ہے کہ ممکن ہے آسمان پھٹ جائے ۔زمین دولخت ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔

توحید کے مسائل از محمد اقبال کیلانی
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یہ جہلا کا نظریہ ہےاس کی حقیقت کہھچ ہور ہے
اچھا تبصرہ کیا ہے ماشاءاللہ بھائی جان نے۔؟
بھائی کیا وحدت الوجود کے عقیدہ کے کچھ لوگ قائل ہیں یا نہیں ۔؟ اگر ہیں تو پھر آپ ان کی زبانی بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا مراد لیتے ہیں ۔؟ یا لفظ وحدت الوجود کا مطلب کیا ہے ۔؟
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2011
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
65
اسلام علیکم ! فتاوی عزیزی ،از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ،صفحہ ١٢٥ پر کسی سائل نے سوال پوچھا :- مسئلہ وحدت وجود میں علماء کرام کیا فرماتے ہیں ۔جو مسلمان عاقل بالغ وحدت وجود کا اعتقاد رکھے اور یہ کہے کہ ہمہ اوست یعنی سب وہی اللہ تعالی ہے تو اس کلام سے وہ مسلمان کافر ہو جائے گا ۔یا نہیں ؟ آپ علماء کرام اس مسئلہ کا جواب فرمائیں ۔
جواب :- "" وہ لکھتے ہیں "" وحدت وجود اور ہمہ اوست کا ظاہر معنی خلاف شرع ہے ۔جو شخص اس کا قائل ہو اگر اس کا اعتقاد ہو کہ حق تعالی تمام چیزوں میں حلول فرمایا ہے ۔یا اس شخص کا عقیدہ ہو کہ تمام اشیاء اس ذات مقدس کے ساتھ متحد ہے تو اس کلام سے کفر لازم آتا ہے ۔۔۔۔۔۔"" وہ آگے چل کر لکھتے ہیں "" مسئلہ وحدت وجود کا ذکر شرع میں صراحتہ نہیں ،مسئلہ وحدت وجود کی تصریح نہ قرآن شریف میں ہے ،نہ حدیث شریف میں ہے ۔مسئلہ وحدت وجود کی بنا حضرات صوفیاء کے صرف کشف و شہود پر ہے ۔
صفحہ ١٤٨ پر لکھتے ہیں ،عوام کو اس مسئلہ کی تلقین کرنا گویا الحاد کا دروازہ کھولنا ہے ۔
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2011
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
65
۔۔مولانا عبد الباری ندوی " تجدید تصوف و سلوک "" میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے حوالہ سے لکھتے ہیں ۔مسئلہ خواہ وحدت وجود کی صورت میں ہو یا وحدت الشہود کی براہ راست اسلامی تصوف کا کوئی خاص و ضروری جزء بالکل نہیں " بلکہ کلامی و علمی یا عقلی و فلسفیانہ مسئلہ ہے یا بعضوں کے لئے کشفی جو بجائے خود کوئی قطعی حجت نہیں ۔
مولانا عبد الباری اسی کتاب کہ صفحہ ٥٠ پر مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے حوالہ سے لکھتے ہیں :- "" مسئلہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود مسائل کشفیہ ہیں ،کسی نص کے مدلول نہیں ۔ایسے مسائل کے لئے یہی غنیمت ہے کہ وہ کسی نص سے متصادم نہ ہوں یعنی کوئی نص ان کی ثانی نہ ہو ۔جائے ۔
مولانا عبد الباری ندوی فرماتے ہیں ظنی مسئلہ کو نصوص قطعی قرار دینا بہت خطر ناک ہے ۔اس لئے ایسے ظنی و احتمالی مسئلہ کی کسی خاص تعبیر کو خواہ مخواہ قرآن و حدیث کی نصوص سے کھینچ تان کر ثابت کرنے کی کوشش بڑی جسارت اور خطرہ کی بات ہے ۔جس میں تحریف تک کا غلو لوگوں نے کیا ۔
واضح رہے "" مولانا عبد الباری ندوی "" مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مجاز تھے ۔
 

احمد طلال

مبتدی
شمولیت
فروری 14، 2012
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
78
پوائنٹ
0
میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ اس فلسفے پر بحث کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ اس فلسفے پر مختلف لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔ پیتھی ازم اور وحدت الوجود بہت ملتے جلتے نظریات ہیں اور ممکن ہے کہ ان پر تحقیق اور بحث کرتے انسان شرک تک پہنچ جائے۔
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
جزاک اللہ خیرا ارسلان بھائی
احمد طلال
میں تو صرف اتنا کہوں گا کہ اس فلسفے پر بحث کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔
بھائی اگر اس پر بحث نہ کی جائے تو حقیقت کا پتہ کیسے چلے گا؟
 
Top