• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فوت شدگان کی طرف سے صدقہ.....

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
فوت شدگان کی طرف سے صدقہ.....

فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں لیکن صدقہ کے بجائے دعا کرنا افضل ہے کیونکہ نبی ﷺنے اپنے اس ارشاد میں ہماری اس طرف رہنمائی فرمائی ہے:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ(صحیح مسلم:1631)
’’انسان جب فوت ہوجاتاہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتاہے ہاں البتہ تین طرح کا عمل باقی رہتاہے (1)صدقہ جاریہ(2)وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہو(3)وہ نیک اولاد جواس کے لیے دعا کرتی ہو۔‘‘
اس حدیث میں آپ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے صدقہ کرتی ہے یا نماز پڑھتی ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنی کسی میت کی طرف سے صدقہ دے تویہ بھی صحیح ہے کیونکہ رسول اللہﷺ سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اسے جائزقرار دیا تھا۔(صحیح بخاری1388/صحیح مسلم1004)
بعض لوگ رمضان کی راتوں یا مخصوص راتوں میں جانور ذبح کرتے ہیں اور بہت سی ایسی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں سرمایہ دار ہی شرکت کرتے ہیں تو یہ مشروع نہیں ہے اور نہ سلف صالح سے اس طرح ثابت ہے ۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ یہ تو درحقیقت محض کھانے پینے اور مل کر بیٹھنے کے بہانے ہیں۔بعض لوگوں کا جو یہ تصور ہے کہ تقرب الٰہی کے لیے ضروری ہے کہ جانور خود ذبح کیا جائے اور وہ بازار سے گوشت خرید کر پکانے کی نسبت خود (اپنے ہاتھ سے ) ذبح کرنے کو افضل قرار دیتے ہیں تو یہ خلاف شرع ہے کیونکہ تقرب الٰہی کے حصول کے لیے شریعت نے جن ذبیحوں کا حکم دیا ہے وہ صرف قربانی،ہدی اور عقیقہ ہیں ، لہذا رمضان میں یا ان کی اپنی خاص کردہ راتوں میں تقرب الٰہی کے حصول کی نبت سے جانور ذبح کرنا سنت نہیں ہے۔
(فتاویٰ اسلامیہ ج2:ص224)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
جزاک اللہ وحید بھائی عمدہ بات کی طرف توجہ دلائی ہے ۔لیکن اگر فتاوی اسلامیہ کی جلددوئم کا صفحہ نمبر بھی دےدیں تاکہ اگر کوئی بھائی اصل کتاب سے مطالعہ کرنا چاہے تو اس کےلیے تلاش کرنا آسان ہوجائے۔شکریہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ ساجد بھائی۔ ہمارے یہاں تو قرآن خوانی، تیجہ، دسواں، چالیسواں، برسی وغیرہ پر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنے میں عار تو رہی ایک طرف، فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ اوردوسری طرف جس طریقے سے میّت کو فائدہ ہونے کی توقع ہے ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب منتظمین و یوزرز کے لئے بھی اس فورم اور ویب سائٹ کو صدقہ جاریہ بنا دے۔ اور ہماری نیتوں کو ریاکاری و تکبر سے بچا کر خالص اللہ رب العالمین کی رضا کے لئے دعوت کا کام بھرپور طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
جزاک اللہ شاکربھائی
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ہماے ہاں تیجا، چوتھا اور چالیسواں وغیرہ کے نام سے برادری ، محلے والوں،امراء اور اصحاب حیثیت لوگوں کو جو کھانا بطور رسم کھلایا جاتا ہے اور اس کو ایصال ثواب سمجھا جاتا ہے تو اس کے غلط ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے بلکہ ’فتاوی رضویہ‘ میں بھی ایسے کھانے اور رسم کو ناجائز کہا گیا ہے لیکن اس حدیث سے استدلال میں مجھے ایک شبہ ہے۔
حدیث میں ’انقطع عنہ عملہ‘کے الفاظ ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ میت سے اس کا اپنا عمل منقطع ہو جاتا ہے جبکہ میت سے اس کے غیر کا عمل منقطع ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے مذکورہ بالا روایت خاموش ہے۔
کوئی بھائی اگر کوئی علمی نقطہ بیان کرنا چاہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
لیکن اس حدیث سے استدلال میں مجھے ایک شبہ ہے۔
حدیث میں ’انقطع عنہ عملہ‘کے الفاظ ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ میت سے اس کا اپنا عمل منقطع ہو جاتا ہے جبکہ میت سے اس کے غیر کا عمل منقطع ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے مذکورہ بالا روایت خاموش ہے۔
کوئی بھائی اگر کوئی علمی نقطہ بیان کرنا چاہیں۔
عمل کے بارے میں اصول یہی ہے کہ ہر انسان کو اس کا عمل فائدہ مند ہوتا ہے، نہ کہ کسی غیر کا، (اسی لئے دعا وغیرہ میں انبیاء کرام﷩ اور اولیاء عظام﷭ کا صدقہ دینا صحیح نہیں)، فرمان باری ہے: ﴿ وأن ليس للإنسان إلا ما سعى وأن سعيه سوف يرى ﴾ ... سورة النجم دوسرے کے جس جس عمل کے ایصال ثواب کی صحیح وصریح دلیل شریعتِ اسلامیہ میں ملتی رہے گی وہ جائز ہوتا جائے گا، جبکہ باقی اعمال اس اصل کے مطابق منع رہیں گے۔
جہاں تک کسی کیلئے دعا کرنے کا معاملہ ہے تو وہ بالکل صحیح ہے، اور دوسرے کو اس سے فائدہ ہوتا ہے، جس کے شریعت اسلامیہ میں بکثرت دلائل موجود ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔میں یہ چاہ رہا ہوں کہ باہمی مکالمہ سے یہ واضح ہو جائے کہ یہ حدیث عدم ایصال ثواب کی دلیل ہے یا نہیں؟
2۔اس حدیث کے عدم ایصال ثواب پر دلالت کے بارے اگر کوئی نقطہ بیان ہو جائے کیونکہ عدم ایصال ثواب کے لیے عموما یہی روایت بیان کی جاتی ہے۔اگر تو یہ روایت دلیل بن سکتی ہے تو اس میں دلیل کا کون سا پہلو ہے؟ جس کی بنیاد پر اس روایت کو دلیل بنانا چاہیے۔یہ سوال الجھن کا باعث ہے؟
3۔کچھ دوسرے دلائل عدم ایصال ثواب پر دال ہو سکتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
علوی بھائی کی بات کا جواب نہیں ہے کیا کسی کے پاس؟
 
Top