• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم سلف

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
تحریر :
بن الحسن محمدی حفظہ اللہ


اہل حدیث کی خصوصیات میں سے خصوصی شرف و امتیاز یہ ہے کہ وہ سلف صالحین کے منہج و فہم کے علمبردار ہیں۔ وہ اپنی عقل و دانش کی بنیاد پر قرآن و حدیث کو نہیں سمجھتے، بلکہ سلف صحابہ کرام اور ائمہ دین و محدثین کے فہم پر اکتفا کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے مفاہیم و معانی اور مطالب معین کر تے ہیں۔ بعض لوگ اس پر بہت سے سطحی اشکالات وارد کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو سلف کی تقلید ہوئی اور اہل حدیث تو تقلید کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ ہاں! اگر اسے لغوی طور تقلید، جس کا اطلاق کبھی پیروی پر بھی ہو جاتا ہے، کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن فہم سلف کا التزام اصطلاحی تقلید، یعنی تقلید شخصی نہیں کہلا سکتا جو کہ مذموم و ممنوع ہے۔ یہ تو سلف صالحین کے اجماعی و اتفاقی منہج وہ فہم کی پیروی ہے، جو کہ سبیل المومنین اور واجب الاتباع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلف کی پیروی اہل حدیث کا شعار ہے۔
جو شخص یا گروہ شرعی نصوص کو صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فہم و اجتہاد کے مطابق نہیں سمجھتا، وہ پکا گمراہ ہے۔ سلف صالحین کی پیروی درحقیقت رشد و ہدایت اور حق و صداقت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو امت کو انتشار و افتراق سے بچا سکتی ہے اور معاشرے کو صحیح اسلامی عقائد پر استوار کر سکتی ہے۔
◈ امامِ اندلس، محمد بن وضاح قرطبی رحمہ اللہ (199-286 ھ) فرماتے ہیں:
فعليكم بالاتباع لأئمة الهدى المعروفين، فقد قال بعض من مضى : كم من أمر، هو اليوم معروف عند كثير من الناس، كان منكرا عند من مضي، و متحبب اليه بما يبغضهٔ عليه، و متقرب اليه بما يبعدهٔ منه، وكل بدعة عليها زينة و بهجة .
’’تم پر معروف ائمہ ہدایت کی پیروی لازم ہے۔ سلف میں سے ایک شخص نے فرمایا: بہت سے کام آج اکثر لوگوں میں رائج ہیں، لیکن سلف کے ہاں وہ منکر تھے۔ بہت سے کام آج لوگوں کو محبوب ہیں لیکن سلف کے ہاں مبغوض تھے۔ بہت سے کام آج لوگوں کے تقرب کا ذریعہ ہیں، لیکن یہی کام سلف سے دوری کا باعث تھے۔ ہر بدعت (ظاہری طور پر) خوبصورت اور پُررونق نظر آتی ہے۔‘‘ [البدع والنهي عنها، ص : 89]

◈ قاضی شریک بن عبد اللہ رحمہ اللہ (177 ھ) فرماتے ہیں:
أما نحن، فقد أخذنا ديننا هذا عن التابعين، عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فهم عمن أخذوا .
’’ہم نے تو اپنا یہ دین تابعین سے لیا ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے لیا اور صحابہ کرام نے کس سے لیا ( یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں)۔‘‘ [كتاب الأسماء والصفات للبيهقي:، 949 وسنده صحيح]

◈ شیخ الاسلام، ابوالعباس، احمد بن عبدالحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728 ھ) فہم سلف کو اختیار کرنے کی ضرورت کو یوں بیان کرتے ہیں:
ومن تدبر كلام أئمة السنة المشاهير فى هذا الباب، علم أنهم كانوا أدق الناس نظرا، وأعلم الناس فى هذا الباب بصحيح المنقول، وصريح المعقول، وأن أقوالهم هي الموافقة للمنصوص والمعقول، ولهذا تأتلف ولا تختلف، وتتوافق ولا تتناقض، والذين خالفولهم لم يفهموا حقيقة أقوال السلف والأئمة، فلم يعرفوا حقيقة المنصوص والمعقول، فتشعبت بهم الطرق، وصاروا مختلفين فى الكتاب، مخالفين للكتاب، وقد قال تعالى : وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ [2-البقرة:176]
’’جو اس بارے میں مشہور ائمہ سنت کے کلام پر غور کر ے گا، اسے بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ وہ ( علوم دینیہ پر) سب لوگوں سے زیادہ گہری نظر رکھتے تھے اور اس بارے میں صحیح منقول اور صریح منقول دلائل کا سب سے بڑھ کر علم رکھنے والے تھے۔ ان کے اقوال نقلی و عقلی دلائل کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باہم ملتے جلتے ہیں، مختلف نہیں ہوتے اور باہم موافق ہیں، متناقض نہیں ہوتے۔ جن لوگوں نے ان کی مخالفت کی ہے، وہ سلف اور ائمہ دین کے اقوال کو سمجھ نہیں پائے، نہ وہ نقلی و عقلی دلائل کی حقیقت کو جان سکے ہیں۔ اس طرح وہ گمراہ ہو کر وحی الٰہی میں اختلاف کا شکار ہو گئے اور اس کے مخالف بن گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ اور جن لوگوں نے کتاب (وحی) میں اختلاف کیا ہے، وہ دور کی گمراہی میں جا پڑے۔‘‘ [دره تعارض العقل والنقل:301/2]

✿ قرآن کریم میں فہم سلف کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ [4-النساء:59]
’’اے ایمان والو! اللہ، اس کے رسول اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو‘‘۔
اولی الامر کے اول مصداق صحابہ کرام و تابعین اور ائمہ محدثین ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری صحابہ و تابعین اور ائمہ محدثین کے فہم و منہج کے مطابق کرو۔

✿ نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ [2-البقرة:137]
’’(میرے نبی کے صحابہ!) اگر یہ لوگ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہوں گے اور اگر وہ اس سے پھر گئے تو وہ گمراہی میں ہوں گے۔‘‘

✿ مزید فرمایا:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [9-التوبة:100]
’’مہاجرین اور انصار میں سے پہلے سبقت لے جانے والوں اور ان کی احسان کے ساتھ پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گیا ہے اور وہ اس سے راضی ہو گئے ہیں۔‘‘
↰ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا جس طرح مہاجرین و انصار صحابہ کرام کے لیے ہے، اسی طرح ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو ان صحابہ کرام کا اتباع کرتے ہیں۔
صحابہ کرام کا اتباع ان کے فہم و اجتہاد میں کرنا ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خارجیوں سے مناظرہ کرتے ہوئے اسی فہم صحابہ ہی کو دلیل بنایا تھا۔
◈ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
أتيتكم من عند صحابة النبى صلى الله عليه وسلم، من المهاجرين والأنصار، لأبلغكم ما يقولون، المخبرون بما يقولون، فعليهم نزل القرآن، ولهم أعلم بالوحي منكم.
’’میں تمہارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی طرف سے حاضر ہو ا ہوں تاکہ تمہیں ان کی بات پہنچاؤں۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو (قرآنی و حدیثی دلائل) وہ بیان کرتے ہیں، ان سے باخبر ہیں، ان پر قرآن کریم نازل ہوا اور یہ لوگ وحیِ الہیٰ کو تم سے بڑھ کر جانتے ہیں۔‘‘ [المستدراك على الصحيحين لالحاكم : 151، 150/1، ح :2656، وقال : هذا حديث صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبي، وسنده حسن]
↰ امت کے جہالت و ضلالت اور اندھی تقلید سے نکلنے کے لیے فہم سلف کی پیروی ضروری ہے۔ جس طرح اہل سنت و الجماعت کا گروہ قرآن و سنت کو معیارِ حق قرار دیتا ہے، اسی طرح اس کا ہر فرقہ چار و ناچار قرآن و سنت کو فہم سلف کے مطابق سمجھنے کو ضروری قرار دیتا ہے، یوں یہ امت کا اجماعی فیصلہ ہے، لیکن جس طرح قرآن و سنت پر ہر دعویدار عمل نہیں کرتا، اسی طرح فہم سلف کو بھی صرف اہل حدیث ہی صحیح معنوں میں قبول کرتے ہیں۔

↰ ان سطور میں ہم بعض حنفی حضرات کی وہ آراء ذکر کرنا چاہتے ہیں جن میں فہم سلف کی ضرورت و اہمیت اور تقلید کی مذمت بیان ہوئی ہے:
➊ علامہ، محمد بن علی بن محمد، ابن ابوالعز، حنفی رحمہ اللہ (731-792 ھ) فرماتے ہیں:
وكيف يتكلم فى أصول الدين من لا يتلقاه من الكتاب والسنة، وإنما يتلقاه من قول فلان؟ وإذا زعم أنه يأخذه من كتاب الله لا يتلقي تفسير كتاب الله من أحاديث الرسول، ولا ينظر فيها، ولا فيما قاله الصحابة والتابعون لهم بإحسان، المنقول إلينا عن الثقات النقلة، الذين تخيرهم النقاد، فانهم لم ينقلوا نظم القرآن وهده، بل نقلوا نظمه ومعناه ولا كانوا يتعلمون القرآن كما يتعلم الصبيان، بل يتعلمونهٔ بمعانيه، ومن لا يسلك سبيلهم فانما يتكلم برايه، ومن يتكلم برايه وما يظنه دين الله، ولم يتلق ذلك من الكتاب فهو مأثوم وإن أصاب، ومن أخذ من الكتاب والسنة فهو مأجور وإن أخطأ، لكن إن أصاب يضاعف أجرة.
’’وہ شخص اصول دین کے بارے میں کلام کیسے کر سکتا ہے جس نے یہ اصول کتاب و سنت سے اخذ نہ کیے ہوں، بلکہ کسی شخص کے قول سے لیے ہوں۔ اگر وہ قرآن کریم سے ان اصولوں کے اخذ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو قرآن کریم کی تفسیر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے نہیں لیتا۔ وہ نہ احادیث کو دیکھتا ہے، نہ صحابہ و تابعین کے ان اقوال میں غور کرتا ہے جنہیں ہم تک ان ثقہ راویوں نے پہنچایا ہے جن کو نقاد محدثین نے منتخب کیا تھا۔ صحابہ و تابعین (کے اقوال اس لیے ضروری ہیں کہ انہوں) نے صرف قرآن کریم کے الفاظ نقل نہیں کیے، بلکہ اس کا معنیٰ بھی نقل کیا ہے۔ وہ قرآن کریم کو اس طرح نہیں سیکھتے جس طرح بچے (صرف لفظاً) سیکھتے ہیں، بلکہ وہ قرآن کریم کو اس کے معانی سمیت سیکھتے تھے۔ جو شخص ان کے راستے پر نہیں چلے گا، وہ اپنی رائے سے بات کرے گا اور جو شخص اپنی رائے سے بات کرے گا اور اسے اللہ کا دین سمجھے گا، حالانکہ اس نے یہ رائے وحی سے نہیں لی ہو گی، وہ اگر درست فیصلہ بھی کرے گا تو گناہگار ہو گا۔ اس کے مقابلے میں جو شخص کتاب و سنت سے مسئلہ اخذ کرے گا، اگرچہ وہ غلطی پر ہو، اسے اجر ملے گا۔ اگر وہ درستی پر ہوا تو اسے دو اجر ملیں گے۔‘‘ [شرح العقيدة الطحاوية، ص : 196,195]

یعنی صرف کتاب و سنت کا دعویٰ مبہم ہے، کیونکہ ہر گمراہ فرقہ بھی کتاب و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا مدعی ہے۔ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ کتاب و سنت کو فہم سلف کے مطابق سمھجا جائے اور وحی الہیٰ سے ایسا کوئی مسئلہ اخذ نہ کیا جائے، سلف جس کے مخالف ہوں۔
➋ علامہ، احمد بن عبدالرحیم، المعروف بہ شاہ ولی اللہ، دہلوی حنفی (1114-1176 ھ) فہم سلف کو فرقہ ناجیہ کا منہج قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
الفرقة الناجية لهم الآخذون فى العقيدة والعمل جميعا، بما ظهر من الكتاب والسنة وجرى عليه جمهور الصحابة والتابعين، وإن اختلفوا فيما بينهم فيما لم يشتهر فيه نص، ولا ظهر من الصحابة اتفاق عليه، استدلالا منهم ببعض ما هنالك، أو تفسيرا لمجمله، وغير الناجية كل فرقة انتحلت عقيدة خلاف عقيدة السلف أو عملا دون أعمالهم
فرقہ ناجیہ (جنتی گروہ) وہ لوگ ہیں جو عقیدہ و عمل دونوں میں وہ بات لیتے ہیں جو کتاب و سنت سے ظاہر ہو اور جس پر جمہور صحابہ و تابعین عمل کرتے ہیں۔ ہاں ! جن مسائل میں کوئی شرعی نص معروف نہ ہو، نہ اس سلسلے میں صحابہ کرام کا کوئی اتفاق سامنے آیا ہو، اس میں فرقہ ناجیہ کے لوگ بعض آثار سے استدلال کرتے ہوئے یا مجمل نصوص کی تفسیر کرتے ہوئے آپس میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس غیر ناجیہ گروہ ہر وہ فرقہ ہے جو ایسے عقیدے سے منسوب ہو جو سلف صالحین (صحابہ و تابعین) کے خلاف ہے یا ایسا عمل اپنائے جو سلف سے ثابت نہیں۔‘‘ [حجة الله البالغة:170/1]

◈ نیز فرماتے ہیں:
إن الأمة اجتمعت على أن يعتمدوا على السلف فى معرفة الشريعة، فالتابعون اعتمدوا فى ذلك على الصحابة، وتبع التابعين اعتمدوا على التابعين، وهكذا فى كل طبقة اعتمد العلماء على من قبلهم، والعقل يدل على حسن ذلك، لأن الشريعة لا تعرف إلا بالنقل والاستنباط، والنقل لا يستقيم إلا بأن تأخذ كل طبقة عمن قبلها بالاتصال، ولا بد فى الاستنباط أن تعرف مذاهب المتقدمين، لئلا يخرج عن أقوالهم، فيخرق الإجماع.
’’ امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ شریعت کو سمجھنے کے سلسلے میں اپنے سلف پر اعتماد کرتی ہے۔ تابعین کرام نے صحابہ پر اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا، اسی طرح ہر طبقے کے اہل علم نے اپنے سے پہلے لوگوں پر اعتماد کیا۔ عقل بھی اس طریقے کو اچھا سمجھنے پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ شریعت کی معرفت نقل (روایت) اور استنباط دو چیزوں سے ہوتی ہے۔ جس طرح روایت صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہر طبقہ اپنے سے پہلے طبقے سے اتصال کے ساتھ لے، اسی طرح استنباط میں بھی ضروری ہے کہ متقدمین کے مذاہب بخوبی معلوم ہوں تاکہ کوئی استنباط سلف کے اقوال سے خارج ہو کر اجماع امت کا مخالف نہ ہو جائے۔‘‘ [عقد الجيد فى أحكام الاجتهاد والتقليد، ص: 36] ]

➌ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی (1292-1352 ھ) کہتے ہیں:
’’ قرآن کریم کی تقریر کو سمجھنے کا سب سے زیادہ قابل اعتماد راستہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور صحابہ و تابعین کا تعامل ہے۔‘‘
➍ جناب شبیر احمد عثمانی، دیوبندی فلسفی (م: 1369 ھ) لکھتے ہیں:
تمسك بالقرآن (قرآن کریم کو لازم پکڑنے) کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراء و اہوا کا تختہ مشق بنا لیا جائے، بلکہ قرآن کریم کا مطلب وہ ہی معتبر ہو گا، جو احادیث صحیحہ اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خلاف نہ ہو۔‘‘ [تفسير عثمائي، مسل:81، تحت سورۂ بقره:107]

➎ حافظ محمد ادریس کاندھلوی، دیوبندی (م: 1394 ھ) لکھتے ہیں:
’’ اس لیے کتاب و سنت کا مفہوم اور جو علوم کتاب و سنت سے ماخوذ اور مستفاد ہوں گے، وہ وہی ہوں گے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھے ہیں۔ ہر بدعتی اور گمراہ اپنے فاسد عقائد کو اپنے زعم اور خیال میں کتاب و سنت ہی سے ماخوذ ہونے کا مدعی ہے، لہٰذا کتاب و سنت کے وہی معانی اور مفاہیم معتبر ہوں گے، جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھے ہیں۔ اس کے خلاف کسی مفہوم کا اعتبار نہ ہو گا۔ جو شخص صحابہ کرام کے خلاف کتاب و سنت کا کوئی مفہوم بیان کرے، بس یہی اس کے گمراہ اور بے عقل ہونے کی دلیل ہے۔ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہیں سمجھے تو یہ نیم عربی داں اور یہ نیم انگریزی خواں کہاں سے سمجھ گیا؟ یہ نیم کی قید اس لیے لگائی کہ پورا عربی داں تو وہی سمجھے گا، جو صحابہ و تابعین اور سلف صالحین نے سمجھا اور پورا انگریزی داں جو عربی سے بالکل بے خبر ہو گا، سو اگر وہ عاقل اور دانا ہو گا تو وہ کتاب و سنت کے بارے میں کچھ لب کشائی نہ کرے گا۔ اس لیے کہ عاقل اور دانا اس کتاب کے مطلب بیان کرنے پر کبھی جرات نہیں کر سکتا، جس کتاب کی وہ زبان نہ جانتا ہو۔ جس طرح ایک عربی زبان کا فاضل اور ادیب انگریزی قانون کی شرح کے بارے میں لب کشائی نہیں کر سکتا، اسی طرح ایک انگریزی داں قرآن و حدیث کی تفسیر پر لب کشائی نہیں کر سکتا اور محض ترجمہ دیکھ کر اپنے کو قانون داں سمجھنا بھی نادان ہونے کی دلیل ہے۔‘‘ [عقائد اسلام ص:166]

◈ نیز لکھتے ہیں:
’’ یہ فرقے دھوکا دینے کے لیے اسلام کا اور اللہ کا اور اس کے رسول کا نام لیتے ہیں اور آیات اور احادیث کے وہ معنی بیان کرتے ہیں جو کہ صحابہ کرام اور تابعین اور امت کے علمائے ربانیین کے سمجھے ہوئے کے بالکل برعکس ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ دین وہ ہے جو صحابہ کرام نے سمجھا اور جو اس کے خلاف ہے، وہ کفر اور گمراہی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے دھوکے میں نہ آئیں۔‘‘ [عقائد اسلام ص:183]

➏ جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی (1914-2009 ء) لکھتے ہیں :
’’ اگر انصاف، خدا خوفی اور دیانت کے ساتھ اس بات پر غور کر لیا جائے کہ آخر یہی قرآن و حدیث حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور ائمہ دین و برزگان صالحین کے سامنے بھی تھے۔ ان کا جو مطلب و معنی اور جو تفسیر و مراد انہوں نے سمجھی، وہی حق اور صواب ہے، باقی سب غلط اور باطل ہے۔ پس عوام کا یہ کام ہے کہ ہر باطل پرست اور خواہش زدہ سے یہ سوال کریں کہ فلاں آیت اور فلاں حدیث کی جو مراد تم بیان کر رہے ہو، آیا یہ سلف صالحین سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو صحیح و صریح حوالہ بتاؤ۔ چشمِ ماروشن، دلِ ماشاد۔ ورنہ یہ مراد جو تم بیان کرتے ہو، اس قابل ہے کہ اسے؛ اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں! عوام اس قائدہ اور ضابطہ کے بغیر اور کسی طرف نہ جائیں، پھر دیکھیں کہ حق کس کے ساتھ ہے؟ اور قرآن و حدیث کی مراد کون سی صحیح ہے؟ اگر وہ ایسا نہ کریں گے اور اس میں کوتاہی کریں گے تو ضروریات دین میں غلطی کی وجہ سے کبھی عنداللہ سرخرو نہیں ہو سکیں گے اور اپنی طاقت اور وسعت صرف نہ کرنے کی وجہ سے جو گناہ قرآن و حدیث کی تحریف کرنے والوں کو ملے گا، اس میں ماننے والے بھی برابر کے شریک ہوں گے۔‘‘ [تنقيد متين، ص:180]

◈ نیز لکھتے ہیں:
’’بریلوی حضرات کو ٹھنڈے دل سے غور کر لینا چاہیے کہ جو عقائد اور اعمال انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں اور دن رات جن کی نشر و اشاعت میں وہ کوشاں ہیں، آیا یہ عقائد و اعمال حضرات صحابہ کرا رضی اللہ عنہم و تابعین اور سلف صالحین کے تھے؟ اگر تھے تو نجات انہی میں ہے اور یہ عقائد و اعمال ان کے نہ تھے تو اپنی نجات کی فکر کریں، ایسا نہ ہو کہ کل پچھتانا پڑے۔ ؂ فریب خود کو دئیے اور خود ہی پچھتائے! [تنقيد متين، ص:180]

➐ جناب تقی عثمانی دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں:
’’ قرآن و حدیث کا معاملہ انتہائی نازک ہے۔ ان کی تفسیر و تشریح میں ہر کس و ناکس کی کتابوں سے استفادہ ٹھیک نہیں۔‘‘ [تبصرے، ص:260، 259]

◈ نیز لکھتے ہیں: ’’دین کی تشریح و تعبیر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقوشِ قدم میں رہنمائی تلاش کیے بغیر ممکن نہیں۔‘‘ [تبصرے، ص:42]
↰ یہ وہ قیمتی باتیں ہیں جن تقلید ناسدید، جو کہ جہالت و ضلالت کا دوسرا نام ہے، کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ سلف صالحین پر اعتماد اور طائفہ منصورہ سے رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ یہ اصولی باتیں تب ہی بیان کی جاتی ہیں، جب اہل حدیث کے علاوہ کسی دوسرے گروہ سے پالا پڑے، جبکہ اہل حدیث کے مقابلے میں ان کا ذکر تک ممنو ع ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ قیمتی متاع دراصل مسلک اہل حدیث ہے۔ ان زریں اصولی باتوں کی اہل حدیث کے علاوہ کوئی پاسداری نہیں کرتا۔ اس لیے اہل حدیث کے عقائد و اعمال وہی ہیں جو سلف صالحین کے تھے۔ یہ سلف سے سرِمُو انحراف نہیں کرتے۔
یہ اہل حدیث کے حق ہونے کی دلیل و برہان ہے۔ اہل حدیث کے علاوہ کسی بھی فرقے کے پاس باطل اور گمراہی کی سرکوبی کے لیے کوئی سامان نہیں، کیونکہ حق کے ساتھ باطل کا ردّ کیا جا سکتا ہے، نہ کہ باطل کے ساتھ باطل کا۔
مقلدین لوگ جہاں ایک طرف طائفہ منصورہ ائمہ محدثین کی تصریحات کو حق کہتے ہیں، وہاں دوسری طرف فرد واحد کی اجارہ داری قائم کرتے ہوئے تقلید شخصی کو واجب ہونے کا دعویٰ بلند کرتے ہیں جالانکہ تقلید شخصی سلف صالحین کے عقائد و اعمال سے انحراف کا دوسر نام ہے۔ اس کی ایک دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔
قبروں سے فیض اور فہم سلف :

◈ مشہور دیوبندی، محمد بدر عالم، میرٹھی صاحب دارالعلوم دیوبند کے ’’شیخ الحدیث“ انور شاہ کشمیری دیوبندی کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
فقد سألت عنه مرة عن الاستفاضة من أهل القبور، هل يجوز ذلك أم لا؟ فقال لي : أما المحدثون، فلا أراهم يجوزونه، ولكن أجيز أنا، لكونه ثابتا عند أرباب الحقائق.
’’ میں نے ان سے ایک مرتبہ اہل قبور سے فیض حاصل کرنے کے بارے میں سوال کیا کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے مجھے فرمایا : جہاں تک محدثین کرام کا تعلق ہے تو میں نے ان کو اس کے جواز کے قائل نہیں پایا۔ لیکن میں اسے جائز قرار دیتا ہوں، کیونکہ یہ صوفیوں کے نزدیک ثابت ہے “۔ [حاشيه فيض الباري : 434/3 ]

↰ مردوں سے فیض حاصل کرنے کا یہ نسخہ سلف صالحین، یعنی صحابہ و تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی کے پاس نہیں تھا، نہ محدثین کرام کے وہم و گمان میں کبھی گزرا، کشمیری صاحب نے اسے گمراہ اور ملحد صوفیوں کی گھڑنت جانتے ہوئے بھی دین سمجھ بنا لیا ہے۔ کیا فہم سلف کی پاسداری اسی کا نام ہے ؟ یہی بات تو ہمارے بریلوی بھائی بھی کہتے ہیں ان میں اور دیوبندیوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے ؟
تقلید اور فہم سلف :

◈ دیوبندیوں کے ’’سید الطائفہ“ حاجی امداد حسین، المعروف بہ ’’ امدااللہ مہاجر مکی“ قرآن مجید کی معنوی تحریف کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’غیر مقلدین انکار تقلید کرتے ہیں۔ يومنون بالغيب میں (صاف اشارہ بلکہ تصریح) تقلید موجود ہے “۔ [امدادالمشتاق از اشرف على تهانوي ديوبندي، ص : 83 ]

↰ خیرالقرون کے ائمہ اہل سنت، یعنی صحابہ و تابعین اور تبع تابعین میں سے کوئی بھی تقلید کے جواز کا قائل نہیں تھا، نہ کسی نے امداد حسین کی ذکر کردہ اس آیت کریمہ سے تقلید کا اشارہ تا تصریح سمجھی۔ هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين
 
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
83
جزاکم اللہ خیرا، ویسے ابن الحسن محمدی حفظہ اللہ کا مزید تعارف مل جائے تو بہت بہتر ہو۔
 
Top