• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم قرآن (ترجمہ و تفسیر)

شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ﴿٦٨
انہوں نے کہا اے موسیٰ دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی ہمارے لئے اس کا حلیہ بیان کر دے، آپ نے فرمایا سنو وہ گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو، نہ بچہ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ۔

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ﴿٦٩

وہ پھر کہنے لگے کہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ فرمایا وہ کہتا ہے وہ گائے زرد رنگ کی ہو، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے والا اس کا رنگ ہو۔

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِن شَاءَ اللَّـهُ لَمُهْتَدُونَ ﴿٧٠

وہ کہنے لگے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں اس کی مزید حلیہ بتلائے، اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا، اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہو جائیں گے۔

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ ﴿٧١

آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں، وہ تندرست اور بےداغ ہو۔ انہوں نے کہا، اب آپ نے حق واضح کر دیا گو وہ حکم برادری کے قریب نہ تھے، لیکن اسے مانا اور وہ گائے ذبح کر دی (١
٧١۔١ انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کوئی سی بھی ایک گائے ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا لیکن انہوں نے حکم الٰہی پر سیدھے طریقے سے عمل کرنے کی بجائے میخ نکالنا شروع کر دی اور طرح طرح کے سوال کرنے شروع کر دیئے، جس پر اللہ تعالٰی بھی ان پر سختی کرتا چلا گیا۔ اس لئے دین میں سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّ۔هُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ﴿٧٢
جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا، پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پوشیدگی کو اللہ تعالٰی ظاہر کرنے والا تھا (١
٧٢۔١ یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالٰی نے اس قتل کا راز فاش کر دیا حالانکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر کیا گیا تھا مطلب یہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالٰی اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے خلوت یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کرو تاکہ وہ کسی وقت ظاہر ہو جائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو بلکہ اس کے احترام و وقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔

فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّ۔هُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٧٣
ہم نے کہا اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو ( وہ جی اٹھے گا) اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقلمندی کے لئے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، (١)
٧٣۔١ مقتول کے دوبارہ جی اٹھنے سے ثابت کرتے ہوئے اللہ تعالٰی روز قیامت تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اعلان فرما رہا ہے۔ قیامت والے دن دوبارہ مردوں کو زندہ ہونا منکرین قیامت کے لئے ہمیشہ حیرت کا باعث رہا ہے اس لئے اللہ تعالٰی نے اس مسئلے کو بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی پانچ مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ ایک مثال(ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ )2۔بقرہ:64) البقرہ ۵٦میں گزر چکی ہے ۔ دوسری مثال یہی قصہ ہے ۔ تیسری مثال دوسرے پارے کی آیت نمبر۲٤۳ آیت (مُوْتُوْا ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ )2۔بقرہ:243) چوتھی آیت نمبر۲۵۹ آیت (فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَ۔ةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ )2۔بقرہ:259) اور پانچویں مثال اس کے بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طیور اربعہ ( چار چڑیوں ) کی ہے۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚوَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٧٤
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے (١) بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں (٢) اور تم اللہ تعالٰی کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔
٧٤۔١ یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہو گیا دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر توبہ اور استغفار کا جذبہ۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل تباہی کا اندیشہ زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔
٧٤۔٢ پتھروں کی سنگینی کے باوجود ان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور جو کیفیت ان پر گزرتی ہے اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک اور احساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔ آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا )17۔ الاسراء:44) بنی اسرائیل ۔٤٤
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ 75؀
(مسلمانوں) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں۔ (۱)
٧٥۔١ اہل ایمان کو خطاب کر کے یہودیوں کے بارے کہا جا رہا ہے کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے حالانکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فرق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی جانتے بوجھتے تحریف کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعا امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بد قسمتی سے قرآن اور حدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالٰی اس جرم سے محفوظ رکھے۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴿٧٦
جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو اپنی ایمانداری ظاہر کرتے ہیں (١) اور جب آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں وہ باتیں پہنچاتے ہو جو اللہ تعالٰی نے تمہیں سکھائی ہیں، کیا جانتے نہیں یہ تو اللہ تعالٰی کے پاس تم پر ان کی حجت ہو جائے گی۔
٧٦۔١ یہ بعض یہودیوں کے منافقانہ کردار کی نقاب کشائی ہو رہی ہے کہ وہ مسلمانوں میں تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے لیکن جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو اس بات پر ملامت کرتے کہ تم مسلمانوں کو اپنی کتاب کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جس سے رسول عربی کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اس طرح تم خود ہی ایک ایسی حجت ان کے ہاتھ میں دے رہے ہو جو وہ تمہارے خلاف بارگاہ الٰہی میں پیش کرینگے۔

أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ﴿٧٧

کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی ان کی پوشیدگی اور ظاہر داری کو جانتا ہے (١
٧٧۔١ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم بتلاؤ کہ اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے اور سب باتوں کو تمہارے بتلائے بغیر بھی مسلمانوں پر ظاہر فرما سکتا ہے۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ ﴿٧٨
ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں (١
٧٨۔١ یہ ان کے اہل علم کی باتیں تھیں رہے ان کے ان پڑھ لوگ، وہ کتاب (تورات) سے بےخبر ہیں لیکن وہ آرزوئیں ضرور رکھتے ہیں اور گمانوں پر ان کا گزارہ ہے جس میں انہیں ان کے علماء نے مبتلا کیا ہوا ہے مثلا ہم تو اللہ کے چہتے ہیں۔ ہم جہنم میں اگر گئے بھی تو صرف چند دن کے لئے اور ہمیں ہمارے بزرگ بخشوا لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے آج کے جاہل مسلمانوں کو بھی علماء سوء و مشائخ سوء نے ایسے ہی حسین جالوں اور پرفریب وعدوں پر پھنسا رکھا ہے۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ﴿٧٩
ان لوگوں کے لئے ـ "ویل" ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالٰی کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ہلاکت اور افسوس ہے (١
٧٩۔٢ یہ یہود کے علماء کی جسارت اور خوف الہی سے بےنیازی کی وضاحت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اللہ کی کی طرف سے ہیں۔ حدیث کی رو سے ویل جہنم کی ایک وادی بھی ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ ایک کافر کو اس کی تہ تک گرنے میں چالیس سال لگیں گے۔(احمد ،ترمذی ،ابن حبان والحاکم بحوالہ فتح القدیر) بعض علماء نے اس آیت سے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ۔ آیت کا مصداق صرف وہی لوگ ہیں جو دنیا کمانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کرتے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّـهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨٠
یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو چند روز جہنم میں رہیں گے، ان سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کا کوئی پروانہ ہے (١) اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالٰی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا بلکہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو (٢) جنہیں تم نہیں جانتے۔
٨٠۔١یہود کہتے تھے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور ہزار سال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گے اس حساب سے صرف سات دن جہنم میں رہیں گے۔ کچھ کہتے تھے کہ ہم نے چالیس دن بچھڑے کی عبادت کی تھی، چالیس دن جہنم میں رہیں گے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے عہد لیا ہے۔ اللہ تعالٰی کیساتھ اس طرح کا کوئی عہد نہیں ہے۔
٨٠۔٢ یعنی تمہارا یہ دعویٰ ہے ہم اگر جہنم گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے، تمہاری اپنی طرف سے ہے اور اس طرح تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں خود بھی علم نہیں ہے۔ آگے اللہ تعالٰی اپنا وہ اصول بیان فرما رہا ہے۔ جس کی رو سے قیامت والے دن اللہ تعالٰی نیک و بد کو ان کی نیکی اور بدی کی جزا دے گا۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴿٨١
یقیناً جس نے برے کام کئے اور اس کی نافرمانیوں نے اسے گھیر لیا اور وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٨٢
اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنتی ہیں جو جنت میں ہمیشہ رہیں گے (١
٨٢۔١ یہ یہود کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے جنت یا جہنم کا اصول بیان کیا جا رہا ہے، جس کے نامہء اعمال میں برائیاں ہی برائیاں ہونگی، یعنی کفر اور شرک، اور جو مومن گنہگار ہونگے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا وہ چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے ان کے گناہ معاف فرما کر بطور سزا کچھ عرصہ جہنم میں رکھنے کے بعد یا نبی کی شفاعت سے ان کو جنت میں داخل فرما دے گا جیسا کہ یہ باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور اہل سنت کا عقیدہ ہے۔
 
شمولیت
جنوری 31، 2015
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
71
وَإِذۡ أَخَذۡنَا مِيثَـٰقَ بَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ لَا تَعۡبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلۡوَٲلِدَيۡنِ إِحۡسَانً۬ا وَذِى ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡيَتَـٰمَىٰ وَٱلۡمَسَـٰڪِينِ وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسۡنً۬ا وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّڪَوٰةَ ثُمَّ تَوَلَّيۡتُمۡ إِلَّا قَلِيلاً۬ مِّنڪُمۡ وَأَنتُم مُّعۡرِضُونَ (٨٣)
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا، نمازیں قائم رکھنا اور زکوۃ دیتے رہا کرنا، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور منہ موڑ لیا۔

وَإِذۡ أَخَذۡنَا مِيثَـٰقَكُمۡ لَا تَسۡفِكُونَ دِمَآءَكُمۡ وَلَا تُخۡرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَـٰرِكُمۡ ثُمَّ أَقۡرَرۡتُمۡ وَأَنتُمۡ تَشۡہَدُونَ (٨٤)

اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا (قتل نہ کرنا) اور آپس والوں کو جلاوطن مت کرنا، تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے (۲)۔
۲۔ ان آیات میں پھر وہ عہد بیان کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سےلیا گیا ، لیکن اس سے بھی انہوں نے اعراض ہی کیا۔ اس عہد میں اولا صرف ایک اللہ کی عبادت کی تاکید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین دعوت رہی ہے ( جیساکہ سورۃ الانبیاء آیت وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ)21۔ الانبیاء:25) اور دیگر آیات سے واضح ہے ) اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اللہ کی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے واضح کردیا گیا کہ جس طرح اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے اسی طرح اس کے بعد والدین کی اطاعت بھی بہت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے اس کے بعد رشتے دارون ، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور حسن گفتار کا حکم ہے ۔ اسلام میں بھی ان باتوں کی بڑی تاکید ہے ، جیساکہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہے ۔ اس عہد میں اقامت صلوۃ اور ایتائے زکوۃ کا بھی حکم ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں پچھلی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہیں۔ جن سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ اسلام میں بھی یہ دونوں عبادتیں نہایت اہم ہیں حتی کہ ان میں سے کسی ایک کے انکار یا اس سے اعراض کو کفر کے مترادف سمجھا گیا ہے ۔ جیساکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مانعین زکوۃ کے خلاف جہاد کرنے سے واضح ہے۔
 
Top