السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ باور کرایا جاتا ہے کہ قرآن ظنی الدلالہ ہے،
یہ کس نے کہا ہے کہ قرآن ظنی الدالہ ہے؟ یا یہ اپنی ظن ِ باطل سے اخذ کیا ہے؟ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ یہ بات ظنِ باطل سے اخذ کی گئی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بتلائیے کس نے یہ کہا ہے؟ اور ثبوت پیش فرمائیں!
بات دراصل یہ ہے کہ قرآن کی آیت کا اطلاق کرنے میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ جو مفہوم کسی نے اخذ کیا ہے! یاد رہے ممکن ہو سکتا ہے، لازم نہیں!
یعنی اس کی ایک ہی عبارت کے مختلف مطالب ہو سکتے ہیں)
یہ بات تو قرآن میں ہے، کیا اس سے آپ کو کوئی اختلاف ہے؟ قرآن عربی زبان میں ہے، اور عربی زبان میں ایک لفظ کا مختلف معنی و مطالیب و مفہوم میں استعمال ہونا بہت عام و معروف ہے، بلکہ دنیا کی ہر زبان میں ایسا ہوتا ہے، فتدبر!
چنانچہ کسی ایک مفہوم کے تعین کے لیے حدیث (خبرِ احاد) سے فیصلہ کرایا جانا ضروری قراد دے دیا گیا۔
اب جو تعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیت کا بتلایا ہے اسے کیوں قبول نہ کیا جائے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلایئے ہوئے مفہوم کو چھوڑ کر کسی کا اپنے ظن سے بالکل یہاں تو ظنِ باطل سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے مفہوم کو چھوڑ کر ہے، اپنا مفہوم اخذ کرنا یہ یہ بھی ظن ہی ہے، اور وہ بھی ظنِ باطل!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے مفہوم کو تو صاحب نے اگے ظنی قرار دے دیا، اور اپنے اٹکل پچّو کو کیا وہ اللہ کی نازل کردہ وحی سمجھتے ہیں! کہ ان کا ظنِ باطل سے اخذ کردہ مفہوم معتبر سمجھا جائے!
جب کہ خود احادیث سے علمِ ظنی (یعنی احتمالی، غیر یقینی علم) حاصل ہوتا ہے۔
جب کوئی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے، اور پھر بھی کوئی اسے یقینی علم نہ سمجھتا ہو، تو اس شخص کا ایمان ضرور غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے!
باقی احادیث سے استدلال کا وہی معاملہ ہے جو قرآن کا ہے!
گویا ظنی سے ظنی کی قطعیت طے کی جائے گی۔
اسے کہتے ہیں، علم الکلام میں بے لگام گھوڑے دوڑانا!
اب کوئی پوچھے کہ زنا کی سزا میں چار گواہوں میں سے ہر ایک کی الگ الگ گواہی تو کفایت نہیں کرتی! زنا کے معاملے میں ایک شخص آکر گواہی دے تو اس کی گواہی تو نا قابل قبول ٹھہرے گی، اور اسی تین گواہی بھی اجائیں تو وہ سزا دینے کے لئے نا قابل قبول ہوں گی، اور جب گواہی مل جائے تو زنا کی سزا قائم کر دی جائے گی!
یہاں یہ اٹکل پچّو کے گھوڑے دوڑانے والے کہیں گے کہ ''گویا ناقابل قبول گواہی نے تین نا قابل قبول گواہیوں کو قابل قبول ٹھہرا دیا'' ۔ فتدبر!!
یہ قرآن کو کالعدم قرار دینے کے مترادف ہے۔
یہ قران کو کالعدم قرار دینے کے مترادف نہیں، بلکہ قرآن سے ظنِ باطل ، اور اٹکل پچّو کے گھوڑے دوڑا کر باطل مفہوم کو کا لعدم قرار دینا ہے!!