آج کتنے ہی ایسے کاموں کو رد کر دیا گیا جو صحابہ کرام کے دور میں ہوتے تھے ،آخر ایسا کیوں ہے؟جب دوسری طرف ہمارا یہ دعوی ہے کہ جو کام صحابہ کے دور میں نہ ہو وہ بدعت ہے، اور جو صحابہ کے دور میں ہو اس کے بارے کیا خیال ہے ؟ آیا اس کو یہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،یا یہ ان کا فہم ہے…؟مثلا صحابہ کرام عید کی نماز میں چھ تکبیریں بھی ثابت ہیں ، تو کیا یہ ان کا فہم ہے؟ اسی طرح جمعے کے خطبے کے دوران صحابہ کرام دو رکعت پڑھے بغیر بیٹھ جاتے تھے،صحابہ سے ایک رات میں قرآن مجید ختم کرنا ثابت ہے، اور صحابہ سے داڑی کٹوانا بھی ثابت ہے، وغیرہ وغیرہ
ایسی چیزوں کے بارے ہمارا کیا خیال ہے؟
بہتر ہے کہ وہ روایات پیش کیں جائیں کہ کن صحابہ کرام کا موقف عید کی نماز میں چھ تکبیروں کا تھا - وہ کون سے صحابہ کرام تھے جو جمعہ کی نماز سے پہلے دو رکعت نہیں پڑھتے تھے اور کن صحابی نے اپنی داڑھی منڈوائی تھی یا کن صحابی نے ایک رات میں قرآن ختم کیا وغیرہ - ؟؟؟
اس زمن میں حالات و واقعیات کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے - مثال کے طور پر ایک صحابی کو نبی کریم نے ریشم پہننے کی اجازت بھی دی -اس طرح حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کا تہبند اکثر ان کے ٹخنوں سے نیچے رہتا تھا (مجبوری کی وجہ سے) - جس پر آپ صل الله علیہ و الہ وسلم نے ان کو اس معاملے میں باقی لوگوں سے مستثنیٰ قرار دیا وغیرہ -
ویسے بھی اجتہاد کرتے ہوے غلطی ہو جانا انسانی فطرت کے مطابق ہے - لیکن حق واضح ہوجانے کے بعد اس غلطی پر جان بوجھ کر قائم رہنا یقیناً گناہ ہے - جو کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے بعید نہیں- اسی لئے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے عمل کو دین میں حتمی حثیت حاصل ہے - تا وقت ہے کہ وہ نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم کے کسی حکم سے براہ راست تعارض نہ کرے- (واللہ اعلم )-
جیسا کہ حضرت عباس رضی الله عنہ کا نبی کریم کی وفات کے بعد بھی متعہ کو جائز سمجھنا-
یا جسے حضرت علی رضی الله عنہ کا بنو حنفیہ قبیلے کے لوگوں کو ان کو خدا ماننے پر زندہ جلوا دینا -
یا جس طرح موزوں پر مسح کے بارے میں کچھ صحابہ میں اختلاف ہوا وغیرہ -
لیکن بعد میں ان معملات پر صحابہ کا رجوع بھی ثابت ہے - (واللہ اعلم)