• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم ِسلف کا انکار گمراہی ہے؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
سلف صالحین کی حیثیت دین میں کلیدی ہے۔ سلف سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے دین براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے۔ وہی قرآن کے مخاطب تھے۔ ان کے فہم کے علاوہ کون یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر قرآن کو سمجھتا ہے۔ ہاں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ جو بات سلف کی طرف منسوب ہے، وہ روایت اور درایت کے اس معیار پر پورا اترتی ہے یا نہیں، جو محدثین نے مرتب کیا ہے۔ اس معاملے میں دو انتہائیں ہیں: ایک انتہا فہم سلف کو نظر انداز کرنا ہے اور دوسری انتہا یہ ہے کہ جو بھی رطب و یابس ان سے منسوب ہو، اسے مان لینا ہے۔ اور جس مسئلے میں صحابہ کرام میں اختلاف نہ ہو، تو پھر اسی فہم کے مطابق دین کو سمجھا جائے گا،اسی بات کو رسول اللہ نے اس طرح بیا ن فرمایا ہے:(ما انا علیہ الیوم و اصحابی)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جزاک الله خیر-

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ" (سنن أبی داود : 5/ 14-15]4607[ ,سنن الترمذ ی : 5/ 44] ٢٦٧٦ [ وقال: حديث حسن صحيح، وسنن ابن ماجہ:1/16 ] ٤٢[)
تم میری سنت اور طریقے کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو،اس کو اچھی طرح تھام لو،اور دانتوں سے دبا کر خوب مضبوطی سے پکڑے رہو،اور دین میں نئی پیدا کردہ چیزوں سے دور رہو، اسواسطے کہ دین میں ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

حافظ بن کثیرؒ(۷۷۴ھ)لکھتے ہیں:
"وأماأهل السنةوالجماعة فيقولون في كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة: هوبدعة؛ لأنه لو كان خيرا لسبقونا إليه، لأنهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير إلا وقد بادروا إليها"۔
(تفسیر ابن کثیر۔تفسیر الاحقاف:۱۱،شاملہ)
ترجمہ:اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ قول وفعل جو حضورﷺ کے صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے کیوں کہ اس(دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔

حضرت حذیفہ ابن الیمانؓ فرماتے ہیں:
"کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔
(الاعتصام:۱/۵۴)
ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ کرام نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ!

2641 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بني إسرائيل حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بني إسرائيل تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً» ، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي»

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت پر بھی وہی کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا اور دونوں میں اتنی مطابقت ہوگی جتنی جوتیوں کے جوڑے میں ایک دوسرے کے ساتھ۔ یہاں تک کہ اگر ان ک میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا کرنے والا آئے گا اور بنو اسرائیل بہتر فرقوں پر تقسیم ہوئی تھی لیکن میری امت تہتر فرقوں پر تقسیم ہوگی ان میں ایک کے علاوہ باقی سب فرقے جہنمی ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ نجات پانے والے کون ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر چلیں گے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے رستے پر چلنے کی توفیق و استقامت دئے رکھے

 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
سلف صالحین کی حیثیت دین میں کلیدی ہے۔ سلف سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے دین براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے۔ وہی قرآن کے مخاطب تھے۔ ان کے فہم کے علاوہ کون یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر قرآن کو سمجھتا ہے۔ ہاں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ جو بات سلف کی طرف منسوب ہے، وہ روایت اور درایت کے اس معیار پر پورا اترتی ہے یا نہیں، جو محدثین نے مرتب کیا ہے۔ اس معاملے میں دو انتہائیں ہیں: ایک انتہا فہم سلف کو نظر انداز کرنا ہے اور دوسری انتہا یہ ہے کہ جو بھی رطب و یابس ان سے منسوب ہو، اسے مان لینا ہے۔ اور جس مسئلے میں صحابہ کرام میں اختلاف نہ ہو، تو پھر اسی فہم کے مطابق دین کو سمجھا جائے گا،اسی بات کو رسول اللہ نے اس طرح بیا ن فرمایا ہے:(ما انا علیہ الیوم و اصحابی)
جزاک اللہ خیراٌ
میں سمجھتا ہوں کہ فہم سلف صالحین قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے چابی ہے اور یہ فلاح اور نجات کی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی کلید بھی ہے۔ اس سلسلے میں حامد کمال الدین صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے ’’آپ کے فہم دین کا مصدر کیا ہے؟‘‘ اگرچہ کتاب کی تحریر بہت مشکل ہے اور کتاب کے لئے انتہائی ثقیل الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن کتاب بہت زبردست اور لائق مطالعہ ہے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
جزاک اللہ خیراٌ
میں سمجھتا ہوں کہ فہم سلف صالحین قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے چابی ہے اور یہ فلاح اور نجات کی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی کلید بھی ہے۔ اس سلسلے میں حامد کمال الدین صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے ’’آپ کے فہم دین کا مصدر کیا ہے؟‘‘ اگرچہ کتاب کی تحریر بہت مشکل ہے اور کتاب کے لئے انتہائی ثقیل الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن کتاب بہت زبردست اور لائق مطالعہ ہے۔
بھائی جان اگر ہو سکے تو شیئر بھی کردیں
جزاک اللہ خیرا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جزاک اللہ خیراٌ
میں سمجھتا ہوں کہ فہم سلف صالحین قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے چابی ہے اور یہ فلاح اور نجات کی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی کلید بھی ہے۔ اس سلسلے میں حامد کمال الدین صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے ’’آپ کے فہم دین کا مصدر کیا ہے؟‘‘ اگرچہ کتاب کی تحریر بہت مشکل ہے اور کتاب کے لئے انتہائی ثقیل الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن کتاب بہت زبردست اور لائق مطالعہ ہے۔
كيا ٓپ مجهے ايك مثال اس بارے مہیا کریں گے کہ فہم سلف کیا ہے؟اور کیااہل حدیث میں ایسے لوگ موجود ہیں جو فہم سلف پر اپنے فہم کو ترجیح دیتے ہیں؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جزاک الله خیر-

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ" (سنن أبی داود : 5/ 14-15]4607[ ,سنن الترمذ ی : 5/ 44] ٢٦٧٦ [ وقال: حديث حسن صحيح، وسنن ابن ماجہ:1/16 ] ٤٢[)
تم میری سنت اور طریقے کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو،اس کو اچھی طرح تھام لو،اور دانتوں سے دبا کر خوب مضبوطی سے پکڑے رہو،اور دین میں نئی پیدا کردہ چیزوں سے دور رہو، اسواسطے کہ دین میں ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

حافظ بن کثیرؒ(۷۷۴ھ)لکھتے ہیں:
"وأماأهل السنةوالجماعة فيقولون في كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة: هوبدعة؛ لأنه لو كان خيرا لسبقونا إليه، لأنهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير إلا وقد بادروا إليها"۔
(تفسیر ابن کثیر۔تفسیر الاحقاف:۱۱،شاملہ)
ترجمہ:اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ قول وفعل جو حضورﷺ کے صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے کیوں کہ اس(دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔

حضرت حذیفہ ابن الیمانؓ فرماتے ہیں:
"کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔
(الاعتصام:۱/۵۴)
ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ کرام نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔
آج کتنے ہی ایسے کاموں کو رد کر دیا گیا جو صحابہ کرام کے دور میں ہوتے تھے ،آخر ایسا کیوں ہے؟جب دوسری طرف ہمارا یہ دعوی ہے کہ جو کام صحابہ کے دور میں نہ ہو وہ بدعت ہے، اور جو صحابہ کے دور میں ہو اس کے بارے کیا خیال ہے ؟ آیا اس کو یہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،یا یہ ان کا فہم ہے…؟مثلا صحابہ کرام عید کی نماز میں چھ تکبیریں بھی ثابت ہیں ، تو کیا یہ ان کا فہم ہے؟ اسی طرح جمعے کے خطبے کے دوران صحابہ کرام دو رکعت پڑھے بغیر بیٹھ جاتے تھے،صحابہ سے ایک رات میں قرآن مجید ختم کرنا ثابت ہے، اور صحابہ سے داڑی کٹوانا بھی ثابت ہے، وغیرہ وغیرہ
ایسی چیزوں کے بارے ہمارا کیا خیال ہے؟
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
محترم بھائی حافظ عمران الٰہی صاحب : یہ جو جناب نے چند نکات فہم صحابہ کہ کر ذکر کئے ہیں ، انہیں واضع کریں کہ جناب کیا کہنا چاہتے ہیں ان کے بارے؟
(1)مثلا صحابہ کرام عید کی نماز میں چھ تکبیریں بھی ثابت ہیں ، تو کیا یہ ان کا فہم ہے؟یہ لکھ کر کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ چھ تکبیریں کہنا صحابہ کا فہم تھا اس کی دلیل کوئی نہیں تھی؟یا دلیل تو چھ تکبیروں یا چھ سے زائد کی بھی موجود تھی،لیکن صحابہ کرام نے چھ کو سنت سمجھا؟اسی طرح خطبہ اور داڑھی والی بات میں بھی یہی کہنا چاہتے ہیں؟یا کوئی اور مطلب ہے آپ کا۔دوسری بات یہ عرض کرونگا کہ اس دھاگہ کو بحث برائے بحث کی نظر نہ کیا جائے جو بات "فہم سلف صالحین " چل رہی ہے اسے ہی آگے بڑھایا جائے
ایک بات کی تصیح کر لیں کہ آپ نے لکھا ہے"اور صحابہ سے داڑی کٹوانا بھی ثابت ہے، وغیرہ وغیرہ"غالبا" آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ایک مشت سے زائد کٹوایا کرتے تھے
بعض کم فہم اسکا یہ مطلب نہ لے لیں کہ صحابہ کرام سے داڑھی صاف کیا کرتے تھے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم بھائی حافظ عمران الٰہی صاحب : یہ جو جناب نے چند نکات فہم صحابہ کہ کر ذکر کئے ہیں ، انہیں واضع کریں کہ جناب کیا کہنا چاہتے ہیں ان کے بارے؟
(1)مثلا صحابہ کرام عید کی نماز میں چھ تکبیریں بھی ثابت ہیں ، تو کیا یہ ان کا فہم ہے؟یہ لکھ کر کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ چھ تکبیریں کہنا صحابہ کا فہم تھا اس کی دلیل کوئی نہیں تھی؟یا دلیل تو چھ تکبیروں یا چھ سے زائد کی بھی موجود تھی،لیکن صحابہ کرام نے چھ کو سنت سمجھا؟اسی طرح خطبہ اور داڑھی والی بات میں بھی یہی کہنا چاہتے ہیں؟یا کوئی اور مطلب ہے آپ کا۔دوسری بات یہ عرض کرونگا کہ اس دھاگہ کو بحث برائے بحث کی نظر نہ کیا جائے جو بات "فہم سلف صالحین " چل رہی ہے اسے ہی آگے بڑھایا جائے
ایک بات کی تصیح کر لیں کہ آپ نے لکھا ہے"اور صحابہ سے داڑی کٹوانا بھی ثابت ہے، وغیرہ وغیرہ"غالبا" آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ایک مشت سے زائد کٹوایا کرتے تھے
بعض کم فہم اسکا یہ مطلب نہ لے لیں کہ صحابہ کرام سے داڑھی صاف کیا کرتے تھے
یہ تمام چیزیں صحابہ کرام کا فہم ہی ہے،اگر ان میں سے کسی بھی چیز میں صحابہ کرام کا اختلاف ہو گیا تو یہ تو پھر اس پر غور فکر کیا جائے گا، اگر ان میں سے کسی بھی بات میں کسی صحابی کی کوئی نکیر نہ ہو تو یہ اجماع سکوتی ہے، واللہ اعلم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آج کتنے ہی ایسے کاموں کو رد کر دیا گیا جو صحابہ کرام کے دور میں ہوتے تھے ،آخر ایسا کیوں ہے؟جب دوسری طرف ہمارا یہ دعوی ہے کہ جو کام صحابہ کے دور میں نہ ہو وہ بدعت ہے، اور جو صحابہ کے دور میں ہو اس کے بارے کیا خیال ہے ؟ آیا اس کو یہ کہہ کر رد کر دیا جائے گا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،یا یہ ان کا فہم ہے…؟مثلا صحابہ کرام عید کی نماز میں چھ تکبیریں بھی ثابت ہیں ، تو کیا یہ ان کا فہم ہے؟ اسی طرح جمعے کے خطبے کے دوران صحابہ کرام دو رکعت پڑھے بغیر بیٹھ جاتے تھے،صحابہ سے ایک رات میں قرآن مجید ختم کرنا ثابت ہے، اور صحابہ سے داڑی کٹوانا بھی ثابت ہے، وغیرہ وغیرہ
ایسی چیزوں کے بارے ہمارا کیا خیال ہے؟
بہتر ہے کہ وہ روایات پیش کیں جائیں کہ کن صحابہ کرام کا موقف عید کی نماز میں چھ تکبیروں کا تھا - وہ کون سے صحابہ کرام تھے جو جمعہ کی نماز سے پہلے دو رکعت نہیں پڑھتے تھے اور کن صحابی نے اپنی داڑھی منڈوائی تھی یا کن صحابی نے ایک رات میں قرآن ختم کیا وغیرہ - ؟؟؟

اس زمن میں حالات و واقعیات کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے - مثال کے طور پر ایک صحابی کو نبی کریم نے ریشم پہننے کی اجازت بھی دی -اس طرح حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کا تہبند اکثر ان کے ٹخنوں سے نیچے رہتا تھا (مجبوری کی وجہ سے) - جس پر آپ صل الله علیہ و الہ وسلم نے ان کو اس معاملے میں باقی لوگوں سے مستثنیٰ قرار دیا وغیرہ -

ویسے بھی اجتہاد کرتے ہوے غلطی ہو جانا انسانی فطرت کے مطابق ہے - لیکن حق واضح ہوجانے کے بعد اس غلطی پر جان بوجھ کر قائم رہنا یقیناً گناہ ہے - جو کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے بعید نہیں- اسی لئے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے عمل کو دین میں حتمی حثیت حاصل ہے - تا وقت ہے کہ وہ نبی کریم صل الله علیہ و الہ وسلم کے کسی حکم سے براہ راست تعارض نہ کرے- (واللہ اعلم )-

جیسا کہ حضرت عباس رضی الله عنہ کا نبی کریم کی وفات کے بعد بھی متعہ کو جائز سمجھنا-
یا جسے حضرت علی رضی الله عنہ کا بنو حنفیہ قبیلے کے لوگوں کو ان کو خدا ماننے پر زندہ جلوا دینا -
یا جس طرح موزوں پر مسح کے بارے میں کچھ صحابہ میں اختلاف ہوا وغیرہ -

لیکن بعد میں ان معملات پر صحابہ کا رجوع بھی ثابت ہے - (واللہ اعلم)
 
Top