ہمیشہ احناف کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ اہل حدیث مجتہدین کو مقلد بنا کر پیش کرتے ہیں ان کا مقصد یہ ہوت اہے کہ ہم مقلد ہیں تو دوسرے لوگ بھی ہماری طرح عقل سے پیدل ہیں ، لو جی ان کا ایک اور جھوٹ آپ کے سامنے ہے، جو اوپر ذکر کر دیا گیا ہے، اب اس کی حقیقت آپ کے سامنے ہے، اس کو پڑھ کر انصاف کی بات کریں:
:مذہبی فی الفقہ مذھب الامام احمد بن حبنل رحمہ اللہ و لیس علی سبیل التقلید ولکن علی سبیل الاتباع فی الاصول التی سار علیھا،اما مسائل الخلاف فمنھجی فیھاھو ترجیح ما یقتضی الدلیل ترجیحہ والفتوی بذلک سواء وافق ذلک مذھب الحنابلۃ ام خالفہ، لان الحق احق بالاتباع و قد قال اللہ عز وجل:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء:۵۹)
رجمہ:فقہ کے بارے میرا مذہب وہی ہے جو امام احمد بن حنبل کا مذہب ہے، لیکن یہ تقلید کی بنا پر نہیں ہے بلکہ ان اصول کی پیروی کی اتباع کی وجہ سے جن پر امام صاحب چلے ہیں ، لیکن اختلافی مسائل میں میرا منھج وہی ہے جو دلیل کی وجہ سے راجح ہو اور میرا فتوی اسی راجح مسلک پر ہوگا خواہ حنابلہ کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ حق بات قرآن و سنت کی پیروی کرنا ہے، اس لیے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنی اور اپنے رسول کی پیروی کا حکم دیا ھے:. اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے"
یہ صرف ایک بات نہیں ہے جسے یہ لوگ مکہ کے اہل حدیثوں کی جانب منسوب کرتے ہیں بلکہ ایسی بہت ساری چیزیں ہیں اور اس کے لیے اس عنوان سے اشتہار بھی بنایا ہے: مکے مدینے والوں سے غیر مقلدین کے اختلافات
لیکن سب جھوٹ کا پلندہ ہے