• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فیصلہ کا ایک طریق+حریص ترین قوم

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۞ وَلَقَدْ جَاۗءَكُمْ مُّوْسٰى بِالْبَيِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِـجْلَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ۝۹۲ وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ۝۰ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا۝۰ۭ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا۝۰ۤ وَاُشْرِبُوْا فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْعِـجْلَ بِكُفْرِھِمْ۝۰ۭ قُلْ بِئْسَمَا يَاْمُرُكُمْ بِہٖٓ اِيْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۹۳ قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۹۴ وَلَنْ يَّـتَمَنَّوْہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِــمِيْنَ۝۹۵ وَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوۃٍ۝۰ۚۛ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا۝۰ۚۛ يَوَدُّ اَحَدُ ھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَۃٍ۝۰ۚ وَمَا ھُوَبِمُزَحْزِحِہٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ۝۰ۭ وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۝۹۶ۧ
اور بے شک موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس کھلے نشان لے کے آچکا پھر تم نے اس کے پیچھے بچھڑا بنالیا اور تم ظالم ہو۔۱؎ (۹۲)اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا اور تمہارے اوپر طور(پہاڑ) اونچا کیا کہ قوت سے پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے اور سنو۔ وہ بولے ہم نے سنا اور نہ مانا۲؎ اور کفر کے سبب ان کے دلوں میں تو بچھڑا سمایا ہوا تھا۔ تو اگر تم مومن ہوتو تمہارا ایمان تمہیں بری بات سکھلارہا ہے۔(۹۳)توکہہ اگر اور لوگوں کے سوا تم کو خالص اللہ کے پاس آخرت کا گھر ملتا ہے تو تم اپنی موت کی آرزو کرو ۔ اگر تم سچے ہو۔۳؎ (۹۴) اور وہ یہ (موت کی )آرزو ہرگز نہیں کریں گے۔ بہ سبب اس کے جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو جانتا ہے۔(۹۵) اور تو انھیں اور سب آدمیوں کی نسبت(دنیوی) زندگی پر زیادہ حریص پائے گا اور مشرکین (عرب میں )سے بھی ایک ایک چاہتا ہے کہ ہزار برس کی عمر پائے حالاں کہ اتنا جتنا کچھ اسے عذاب سے نہ بچائے گا اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ دیکھتا ہے۴؎۔ (۹۶)
۱؎ موسیٰ علیہ السلام معجزات ونبوت کے تمام آلات سے مسلح ہوکر آئے لیکن تم نے پھر بھی نہ مانا اور گوسالہ پرستی شروع کردی۔ معلوم ہوتا ہے مصر میں گائے کی پرستش کا عام رواج تھا۔ جیسا کہ آج کی اثری تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے۔مصر کے قدیم معابد میں سے اس قسم کی کثیر التعداد تصویریں نکلی ہیں جن سے ان کا ذوقِ بت پرستی ظاہر ہوتا ہے۔
۲؎ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کے معنی یہ نہیں کہ وہ ایک دم سنتے بھی تھے اور انکار بھی کردیتے تھے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی ساری مذہبیت سماع تک محدود تھی۔ جہاں عمل کا وقت ہوتا، وہ یکسر عصیاں ہوجاتے۔سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کی ساری تاریخ مذہبیت کی پوری پوری اور صحیح تفسیر ہے ۔ ہمیشہ وہ باتوں اور موشگافیوں کے شائق رہے اور عمل سے بیزار۔مختصر سے مختصر لفظوں میں یہودیوں کی ذلت ونفسیات کا جو مرقع قرآن حکیم نے ان دو لفظوں میں کھینچا ہے وہ ناقابل اضافہ ہے۔
۳؎ یہودیوں کا تفاخر دینی مشہور ہے ۔ وہ کہتے تھے آسمان کی بادشاہت میں ہمارے سوا اور کسی کا حصہ نہیں۔ بہشت کے دروازے صرف بنی اسرائیل کے لیے کھولے جائیں گے۔ قرآن نے اس غرور کو بار بار توڑا ہے اور ایک آخری طریق فیصلہ یہ پیش کیا ہے کہ تم موت کی خواہش کرو ۔ یعنی جھوٹے کے لیے ہلاکت کی دعا کرو۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔ اس صورت میں معلوم ہوجائے گا کہ تمہیں اپنے سچا اور پاکباز ہونے پر کتنا یقین ہے۔

یہ طریق فیصلہ ایک شدید تیقن، محکم اور مضبوط ایمان کی خبر دیتا ہے جو نبی اسلام کے سینے میں موجود تھا۔ دلائل وبراہین سے جب فیصلہ نہ ہوسکے۔ افہام وتفہیم کے تمام دروازے جب بند ہوجائیں۔ تو اس وقت بھی یہی ایک صورتِ فیصلہ باقی رہ جاتی ہے کہ اپنے آپ کو رب عادل کے عتبۂ حق وانصاف پر جھکادیاجائے۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ خدا پر ایمان واثق ہو۔ اس پر اور اس کی عدالت پر پورا پورا وثوق اور یقین ہو۔ ایک کمزور ایمان والا انسان کبھی اس قسم کے فیصلے کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے پہلے سے اعلان فرمادیا کہ یہودیوں کو اپنی سیہ کاریوں کے سبب ان سے کبھی اس نوع کے ایمان طلب فیصلے پر لبیک کہنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ تاریخ شاہد ہے ۔ تیرہ صدیاں گزرنے پر بھی یہ قوم اس کے جواب کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ یہ چیلنج یہودیوں سے مخصوص نہیں۔ جنگ خدا پرست اور باطل پرست گروہ کے درمیان ہے ۔ پس ہروہ شخص جو حق والوں کا مقابلہ کرنا چاہے، آخری طریق فیصلہ کے لیے آمادہ ہوسکتا ہے ۔ خدا کا نہ ٹلنے والا وعدہ ہے ۔حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْ مِنِیْنَ۔
۴؎ حق وباطل میں، شرک وتوحید میں ایک متمائز فرق ہے ۔ مشرک وباطل پرست کی خواہشیں بے انتہا ہوتی ہیں اور موحد حق پرست انسان بالطبع قانع ہوتا ہے ۔ یہودیوں کی دنیاپرستی قرآن حکیم کے ان الفاظ سے واضح ہوتی ہے ۔ سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَ کّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ۔ کہ پرلے درجے کے جھوٹے اور سود خوار ہیں۔آج بھی یہودی سودخواری میں اس درجہ مشہور ہے کہ مغربی ممالک میں یہودی اور سودخوار باہم مترادف لفظ ہیں۔قرآن حکیم نے یہاں انھیں احرص الناس قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہزار سال کی عمر بھی یہ پائیں تو بھی دین کے لیے یہ کچھ نہ کرسکیں گے۔
حل لغات
(بِئْسَمَا) بہت برا۔{لَنْ یَّتَمَنَّوْا}مصدر تَمَنِّی۔ خواہش،آرزو اور چاہت{اَحْرَصَ} حریص ترین۔{یَوَدُّ} مصدر ود۔ دوستی ۔ محبت۔(اَلْفَ) ایک ہزار(مُزَحْزِحٌ) ہٹانے والا۔ دور کرنے والا۔
 
Top