جزاک اللہ @
محمد نعیم یونس برادر
کسی بھی اقتباس، کالم یا مضمون وغیرہ کو کسی اوپن فورم میں بلا تبصرہ ”پیش“ کرنے کا یہ مطلب کبھی بھی نہیں لیا جاتا (اور نہ لیا جانا چاہئے) کہ پوسٹ کرنے والا نفس مضمون سے اتفاق یا اختلاف بھی رکھتا ہے، جب تک وہ خود اپنے قلم سے اس کی تائید یا تردید نہ کرے۔ میں بنیادی طور پر ایک ”صحافی“ ہوں جو عام لوگوں کے مقابلہ بہت تیز رفتاری سے ”مطالعہ“ کرتے ہیں اور روزانہ اتنا زیادہ مواد ”پڑھ“ لیتے ہیں، جتنا عموماً آٹھ دس افراد مل کر بھی نہیں پڑھ پاتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان بہت سی پڑھی جانے والی تحریروں میں سے چند منتخب تحریری اسی طرح مختلف جگہوں پر مختلف قارئین کی خدمت میں مختلف مقاصد کے تحت پیش کرنا اب میری عادت ثانیہ بن چکا ہے ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ کیونکہ میں صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ”لکھاری“ بھی ہوں۔ واضح رہے کہ 90 فیصد صحافی ”لکھاری“ نہیں ہوتے۔ اخباری دنیا میں ملازمت کرتے ہوئے،رپورٹنگ کرنا، خبروں اور مضامین کا ترجمہ کرنا، ان کی سبنگ اور ایڈیٹنگ کرنا تو ہر صحافی کو آتا ہے لیکن ان میں سے اکثر کو ”تخلیقی مضمون“ لکھنا یا حالات و واقعات پر تجزیاتی تحریر لکھنا، حتیٰ کی اخبارات و جرائد کے لازمی اجزا جیسے اداریہ، کالم اور مراسلات تک لکھنا نہیں آتا، کیونکہ یہ نرے صحافی ہوتے ہیں، لکھاری نہیں۔
کسی پڑھے لکھے اور صاحب رائے لوگوں کی محفل میں ”بلا تبصرہ“ اقتباسات پیش کرنے کا ایک ”فائدہ“ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر پڑھنے والا اس پر ایک الگ انداز میں اپنا ” اوریجنل تبصرہ“ پیش کرتا ہے۔ یوں ”خاموش قارئین“ کو ایک ہی تحریر کے ”مختلف پہلوؤں“ سے آگہی حاصل ہوتی ہے جو ان کی ذہنی نشو ونما میں معاونت کرتی ہے۔ اگر اقتباس کے ساتھ ہی پوسٹ کرنے والا اپنی ”رائے“ بھی لکھ دے تو بعد میں لکھنے والے اسی ایک نکتہ کے گرد کولہو کے بیل کی طرح چکر لگاتے ہوئے اختلاف یا اتفاق کی گردان کرنے لگتے ہیں۔ اور انہیں اپنے ”ذاتی ذہن“ کو استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ مسکراہٹ
امید ہے کہ محترم @
طاہر اسلام صاحب کی ”رنجش“ اور
@ابن داود بھائی کی ”خفگی“ کسی حد تک دور ہوگئی ہوگی۔ مسکراہٹ
ہمارے یوسف ثانی بھائی، کے ساتھ یہ معاملہ میں دوسری بار دیکھ رہا ہوں، کہ بھائی ایک جس مقصد کے لئے لگاتے ہیں، وہ مقصد دوسروں پر واضح نہیں ہوتا، اس میں قصوروار ، ہمارے یوسف ثانی بھائی بھی ہیں، کہ وہ مبہم کیوں رکھتے ہیں!!
@
محمد فیض الابرار