الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
رحمن کو رحیم پر مقدم کیوں کیا گیا ہے؟
جبکہ رحمن میں معنوی اور لفظی طور پر بہ نسبت رحیم کے وسعت پائی جاتی ہے اور ادبی اسلوب تو یہ ہے کہ ادنی سے اعلی کی طرف جایا جاتا ہے لیکن یہاں اعلی سے ادنی کی طرف بیان کیا جا رہا ہے؟
رحمن کے معنی ہیں جس کے لیے صفت رحمت ثابت ہو چکی ہو اور رحیم سے یہ مقصود ہے کہ رحمت کا اثر بندوں تک پہنچ چکا ہے جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 43 میں ہے : اور وہ اہل ایمان پر رحیم ہے ۔
اسی طرح سورۃ توبہ اآیت نمبر 117 میں ہے کہ :
یقینی طور پر اللہ تعالی ان پر شفقت کرنے والا اور رحیم ہے۔
- سب سے پہلے تو یہ واضح ہو کہ قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے اور یہ قاعدہ کہ ادنی سے اعلی کی طرف بیان کیا جائے ضروری نہیں کہ اس کا مکمل انطباق قرآن مجید پر ہو
- رحمن اور رحیم دونوں رحمت (رحم) سے مشتق ہے اور رحمت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک عام ہے جو سب کے لیے خواہ مومن ہو یا کافر ہے اور دوسری قسم جو اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے۔ رحمٰن پہلے معنی کو شامل ہے کہ اللہ کی رحمت عام ہے۔ مومن ہو یا کافر‘ نیک ہو یا بد سب کو اللہ نے پیدا کیا اور سب کو اپنی رحمتوں کے سائیے میں گھیرے ہوئے ہے۔ اور رحیم دوسری قسم کیلئے خاص ہے۔یعنی صرف ایمان والوں کیلئے ہے ۔ تو اِن دونوں میں عام خاص کی نسبت ہویٴ یعنی جو رحمٰن ہوگا وہ رحیم ضرور ہوگا لیکن رحیم کیلئے رحمٰن ہونا ضروری نہیں۔ جبکہ لفظ ’رحمن‘ کا اطلاق اللہ کے علاوہ کسی پر نہیں ہوتا۔ اور رحیم کا استعمال مخلوق کے لیے بھی کیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان کے لیے شفیق اور رحیم ہیں لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌسورۃ توبہ 128
- اس آیت ِکریمہ میں ربّ ِرحیم کے دو صفاتی ناموں رؤف اور رحیم کا استعمال حضورصلی اللہ علیہ وسلم سرورِ کائنات کے لیے فرمایا گیا ہے۔ رحیم کی جمع رُحماء ہے جس کا استعمال حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ؓ کے لیے ہوا ہے: مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ