• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فیض القرآن الکریم

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام جو درحقیقت علوم و معارف کا خزانہ ہے اس پر جتنا تفکر و تدبر کیا جائے اتنے ہی حقائق سامنے آتے رہتے ہیں درج ذیل سلسلہ انہی قرآنی حقائق کے حوالے سے ہے جو میں نے اپنے اساتذہ کرام حفظہم اللہ و رحمہم اللہ بالخصوص والد محترم ڈاکٹر محمد سعید الظفر فیض رحمہ اللہ سے حاصل کیے ہیں۔
اگر اس میں کہیں کوئی خامی ، کمی یا نقص ہو تو احباب سے درخواست ہے اصلاح فرمائیں
بفضلہ تعالی روزانہ ایک فائدہ بیان کروں گا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
قرآن مجید میں غور و فکر چند امور کے تحت کیا جائے تو ہی مناسب ہو گا
فرامین رسالت، اقوال صحابہ، اقوال لغت، ان تینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاق و سباق پر غور کیا جائے
یہ بات واضح رہے کہ قرآن مجید میں غور و فکر کی بنیاد محض اپنی رائے ہی ہو تو ایسی کیفیت میں گمراہی کے سو فیصد امکانات ہوتے ہیں یعنی تفکر وتدبر بھی کرنا ہے تو حدود و قیود کے اندر رہ کر
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
رحمن کو رحیم پر مقدم کیوں کیا گیا ہے؟
جبکہ رحمن میں معنوی اور لفظی طور پر بہ نسبت رحیم کے وسعت پائی جاتی ہے اور ادبی اسلوب تو یہ ہے کہ ادنی سے اعلی کی طرف جایا جاتا ہے لیکن یہاں اعلی سے ادنی کی طرف بیان کیا جا رہا ہے؟
رحمن کے معنی ہیں جس کے لیے صفت رحمت ثابت ہو چکی ہو اور رحیم سے یہ مقصود ہے کہ رحمت کا اثر بندوں تک پہنچ چکا ہے جیسا کہ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 43 میں ہے : اور وہ اہل ایمان پر رحیم ہے ۔
اسی طرح سورۃ توبہ اآیت نمبر 117 میں ہے کہ :
یقینی طور پر اللہ تعالی ان پر شفقت کرنے والا اور رحیم ہے۔
  1. سب سے پہلے تو یہ واضح ہو کہ قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے اور یہ قاعدہ کہ ادنی سے اعلی کی طرف بیان کیا جائے ضروری نہیں کہ اس کا مکمل انطباق قرآن مجید پر ہو
  2. رحمن اور رحیم دونوں رحمت (رحم) سے مشتق ہے اور رحمت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک عام ہے جو سب کے لیے خواہ مومن ہو یا کافر ہے اور دوسری قسم جو اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے۔ رحمٰن پہلے معنی کو شامل ہے کہ اللہ کی رحمت عام ہے۔ مومن ہو یا کافر‘ نیک ہو یا بد سب کو اللہ نے پیدا کیا اور سب کو اپنی رحمتوں کے سائیے میں گھیرے ہوئے ہے۔ اور رحیم دوسری قسم کیلئے خاص ہے۔یعنی صرف ایمان والوں کیلئے ہے ۔ تو اِن دونوں میں عام خاص کی نسبت ہویٴ یعنی جو رحمٰن ہوگا وہ رحیم ضرور ہوگا لیکن رحیم کیلئے رحمٰن ہونا ضروری نہیں۔ جبکہ لفظ ’رحمن‘ کا اطلاق اللہ کے علاوہ کسی پر نہیں ہوتا۔ اور رحیم کا استعمال مخلوق کے لیے بھی کیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان کے لیے شفیق اور رحیم ہیں لَقَدْ جَآءَكُمْ رَ‌سُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِ‌يصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَ‌ءُوفٌ رَّ‌حِيمٌسورۃ توبہ 128
  3. اس آیت ِکریمہ میں ربّ ِرحیم کے دو صفاتی ناموں رؤف اور رحیم کا استعمال حضورصلی اللہ علیہ وسلم سرورِ کائنات کے لیے فرمایا گیا ہے۔ رحیم کی جمع رُحماء ہے جس کا استعمال حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ؓ کے لیے ہوا ہے: مُّحَمَّدٌ رَّ‌سُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ‌ رُ‌حَمَآءُ بَيْنَهُمْ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جیسا کہ بیان کیا گیا کہ رحمن صرف اللہ تعالی کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی بعض اقوال کے مطابق اسم ذاتی ہے لہذا اسی کو مقدم رکھا گیا تو دو ایسے کلمات جس میں ایک کا استعمال خالق اور مخلوق دونوں کے لیے ہے تو اسے آخر میں بیان کرنا ہی بہتر ہے اور یہ اسلوب عرب بھی استعمال کیا کرتے تھے کہ پہلے اہم پھر اس سے کم اہم
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
رحمن کو رحیم پر مقدم کیوں کیا گیا ہے؟
جبکہ رحمن میں معنوی اور لفظی طور پر بہ نسبت رحیم کے وسعت پائی جاتی ہے اور ادبی اسلوب تو یہ ہے کہ ادنی سے اعلی کی طرف جایا جاتا ہے لیکن یہاں اعلی سے ادنی کی طرف بیان کیا جا رہا ہے؟
بھائی جان، کیا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کو اعلیٰ اور دوسری کو ادنیٰ قرار دیا جانا درست ہے؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بھائی جان، کیا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کو اعلیٰ اور دوسری کو ادنیٰ قرار دیا جانا درست ہے؟
جزاکم اللہ خیرا
یہاں اعلی سے مراد عموم اور ادنی سے مراد خصوص ہے
یا تعبیر کو تبدیل کر کے اس طرح لکھا جا سکتا ہے
دونوں صفات میں سے جو رحمت کے حوالے سے زیادہ بلیغ ہو اسے رحمت کے حوالے سے کم بلیغ پر مقدم کیوں رکھا گیا ہے حالانکہ ادبی اسلوب تو یہ ہے کہ مدح میں ادنی سے اعلی کی طرف جایا جائے کیوں کہ اعلی کے ذکر کے بعد ادنی کا ذکر کوئی فائدہ نہیں دیتا
اس کے ممکنہ جواب میں سے ایک تو یہ ہے کہ دونوں ہم معنی ہیں
دوم یہ کہ لفظ الرحمن ہمیشہ اللہ کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے برخلاف الرحیم کے جیسا کہ میں نے بیان کیا۔
البتہ صفات میں یہ اعلی اور ادنی کی تقسیم نہیں پائی جاتی میں نے اعلی اور ادنی لفظ ادبی اسلوب کے پس منظر میں لکھاتھا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ایاک نعبد و ایاک نستعین
فہم نمبر ایک : نعبد اور نستعین میں جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا؟
نعبد اور نستعین اور کئی مقامات پر جمع کے صیغے پائے جاتے ہیں دراصل یہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادات بالخصوص نماز کی اساس جمع یعنی جماعت پر رکھی گئی ہے لہذا بندہ مومن نماز کی ادائیگی بھی بصورت جماعت ہی ادا کرتا ہے اور یہ اسے سبق ہے اس بات کا کہ ہر قسم کی انفرادیت، علیحدگی، گوشہ نشینی، رہبانیت وغیرہ سب باتیں اسلام میں صحیح نہیں ہیں بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی ابتدا یعنی اذان اور اقامت وغیرہ کے کلمات بھی ، تکبیر تحریمہ سے تسلیم اخیر تک سب اس امر کی دلیل ہیں کہ یہ عبادت دراصل اجتماعی پہلو رکھتی ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فہم نمبر 2: عبادت کو استعانت پر مقدم کیوں رکھا گیا ہے؟
قرآن مجید میں عبادت کے اطلاقات میں سے ایک اطلاق توحید اور اطاعت بھی ہے جیسا کہ سورۃ النساء 63 میں اللہ تعالی کا فرمان یہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
اور سورۃ یاسین 06 میں ہے کہ اے بنی آدم کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی اطاعت نہ کرنا
یعنی عبادت شرک اور نافرمانی کی ضد بھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت الہی کے دوران شرکیہ اور شیطانی خیالات کا آ جانا یا پھر شیطان کا عبادت الہی سے بہکانا عین ممکن ہے بلکہ یہ شیطان کا دعوی بھی ہے لہذا عبادت کے دوران استعانت کی ضرورت ہمہ وقت محسوس ہوتی ہے اور ان دونوں امور کو استقامت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے بلکہ بعض اقوال کے مطابق ایمان و استقامت اس کی بہترین تشریح ہیں۔
اور دوسرا جواب یہ کہ ان دونوں کے درمیان واو ترتیب کے لیے نہیں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین (آل عمران 34) اے مریم اپنے رب کی عبادت کی سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر
اس آیت میں پہلے سجدہ اور پھر رکوع کا ذکر ہے حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے پہلے رکوع اور پھر سجدہ ہے
تیسرا جواب یہ ہے کہ ہمیشہ وسیلہ مقصود پر مقدم ہوتا ہے گویا کہ بندہ مومن کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ جب تم نے استعانت یعنی مدد طلب کرنی ہو یا دعا کرنی ہو تو پہلے اللہ کی عبادت کرو تاکہ تمہاری دعا قبول ہو
اور چوتھا جواب یہ ہے کہ عبادت کا مطلب اگر توحید ہے جیسا کہ بعض مفسرین بیان کرتے ہیں تو اس سے یہ فائدہ سمجھ میں آتا ہے کہ دعا کی قبولیت کا انحصار توحید پر ہے یعنی توحید کی موجودگی ہی دعا کی قبولیت پر دلالت کرتی ہے
 
Top