• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قادیانیت کے حق میں مولانا وحید الدین خاں سے ایک سوال !

لبید

مبتدی
شمولیت
فروری 23، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
13
امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب الجامع الصغير و زيادته جو میرے پاس ہے اس کی عبارت کچھ یوں ہے :
لو كان بعدي نبي لكان عمر ابن الخطاب ( حم ت ك - عن عقبة بن عامر ، طب - عن عصمة بن مالك )
(الفتح الكبير في ضم الزيادة إلى الجامع الصغير ص 46 دار الكتاب العربي ، بيروت)
راوی پر جرح اگر واقعتا آپ تحقیقی بنیادوں پر کر رہے ہیں تو حدیث کی پوری سند پیش کرکے اس میں مجروح راوی کی تعیین کردیں ۔ سند میں ایک سے زیادہ راوی ہیں پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں ۔ اور اگر اس مجروح راوی کے بارے میں آئمہ کے اقوال پیش کرکے اس کو نا قابل اعتبار ثابت کردیں پھر تو کیا ہی بات ہے۔
بہرصورت چونکہ بہت بڑے بڑے آئمہ فن نے اس حدیث کو ’’ صحیح یا حسن ‘‘ قرار دیا ہے جیسا کہ ذہبی اور ابن شاہین کا حوالہ اوپر میں ذکر کر چکا ہوں ، اس لیے ہمارے نزدیک تو یہ حدیث قابل قبول ہے اگر آپ واقعتا دلائل کے ساتھ آئمہ فن سے اس حدیث کا ضعیف ہونا ثابت کردیں تو بات آگے چل سکے گی ابھی تک تو آپ نے صرف ایک سیوطی کا حوالہ دیا ہے اور وہ بھی غیر درست ہے ۔ اگر آپ مضعفین حدیث کی تلاش میں کامیاب ہو گئے تو پھر اگلا مرحلہ شروع ہوگا کہ کچھ علماء نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور کچھ نے اس کو ضعیف ۔ آپ حدیث کو ضعیف قرار دینے والوں کی بات کو کس بنیاد پر ترجیح دے رہے ہیں ؟
سر دست ہم ایک اور روایت نقل کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آپ اس پر کیا رد عمل کا اظہا رکرتے ہیں :
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن أبي صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن " مثلي ومثل الأنبياء من قبلي، كمثل رجل بنى بيتا فأحسنه وأجمله، إلا موضع لبنة من زاوية، فجعل الناس يطوفون به، ويعجبون له، ويقولون هلا وضعت هذه اللبنة؟ قال: فأنا اللبنة وأنا خاتم النبيين " ( صحیح البخاری رقم 3535)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی نے ایک گھر بنایا اس کی تزیین و آرائش کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ۔ لوگ اس کو دیکھتے اور تعجب کا اظہار کرتے کہ ( اتنا خوبصورت گھر بنایا ہے ) یہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی ؟
پھر حضور نے فرمایا میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں ۔
اب اس نبوی مثال سے ختم نبوت کا مسئلہ روز روش کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ حضور کے تشریف لانے سے پہلے صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی بچی تھی جب حضور آئے تو مکان مکمل ہوگیا اور اب مزید کسی کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔
اور نزول عیسی فی آخر الزمان کو لے کر یہاں اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے ۔
ہاں بحیثیت نبی وہ اس نبوت کی عمارت کا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے بن چکے ہیں ۔
بلکہ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آخری زمانے میں مسیح علیہ السلام وہ آئیں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عمارتِ نبوت کا حصہ بن چکے ہیں ۔
نہ کہ مرزا قادیانی یا کوئی دوسرا تیسرا ۔

قرآن کی کس آیت میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہوگئے ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ و ما قتلوہ و ما صلبوہ و لکن شبہ لہم ۔۔۔ و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ إلیہ ۔
رہا یہ مسئلہ کہ متنبیوں کی تعداد (30 ) ایک خاص زمانے تک پوری ہو چکی ہے لہذا اب جو بھی دعوی نبوت کرے گا وہ جھوٹا نہیں ہوگا تو یہ بات بالکل جہالت پر مبنی ہے
پہلی بات : حضور نے یہ بشارت دی ہے کہ تیس لوگ آئیں گے یہ کہیں نہیں کہا کہ 30 سے زیادہ نہیں آئیں گے ، یعنی 30 کا اثبات ہے اس سے زیادہ کی نفی نہیں ہے ۔
اگر قاعدہ و اصول یہی ہے تو آپ ان لوگوں پر کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے مرزا قادیانی کے بعد بھی دعوی نبوت کیا ہے ؟ کیا وہ بھی پھر سچے نبی ہوں گے ؟ کیونکہ تیس کے عدد سے تو وہ بھی اوپر ہیں آپ کے مطابق ۔
اس حدیث کی ایک توجیہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یوں بیان فرماتے ہیں :
وليس المراد بالحديث من ادعى النبوة مطلقا فإنهم لا يحصون كثرة لكون غالبهم ينشأ لهم ذلك عن جنون أو سوداء وإنما المراد من قامت له شوكة وبدت له شبهة كمن وصفنا وقد أهلك الله تعالى من وقع له ذلك منهم وبقي منهم من يلحقه بأصحابه وآخرهم الدجال الأكبر وسيأتي بسط كثير من ذلك في كتاب الفتن إن شاء الله تعالى ۔ ( فتح الباری ج 6 ص 617 )

بفرض محال اگر قاعدہ و اصول یہی ہے جو آپ نے بیان فرمایا تو آپ ان لوگوں پر کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے مرزا قادیانی کے بعد بھی دعوی نبوت کیا ہے ؟ کیا وہ بھی پھر سچے نبی ہوں گے ؟ کیونکہ تیس کے عدد سے تو وہ بھی اوپر ہیں آپ کے مطابق ۔


جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی تھی ۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی سے محمدی شریعت پر عمل کروانا ہے تو ان کو سکھائیں گے کیسے ؟ تمام تفصیلات سے ہمارا باخبر رہنا ضروری نہیں ۔


سبحان اللہ ! جب ہم آپ سے مرزاقادیانی کے دعوی نبوت کے امکانات پر بات کرتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ امکان ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عیسی نبی اللہ آئے گا ۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو آئے گا اس کا نام عیسی ہے لہذا یہ قادیانی کہاں سے آ گیا ؟ تو آپ کہتے ہیں کہ عیسی تو فوت ہو گئے وہ کیسے آ سکتے ہیں ؟
ایک ہی حدیث میں دو باتیں : نبی کا آنا اور اس کا نام عیسی بن مریم ہونا ۔ آپ پہلی بات کو مانتے ہیں اور دوسری کا انکا رکرتے ہیں کیوں ؟
مجھے اس کی وجہ جو سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ دونوں کا انکا رکرنے سے بھی مرزا قادیانی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور دونوں کو ماننے سے بھی ۔ لہذا تؤمنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض والا شیوہ یہود صرف اس لیے اپنایا جا رہا ہے تاکہ جھوٹے کو سچا ثابت کیا جا سکے ۔
اور ساتھ آپ نے ایک اور شوشہ یہ چھوڑ دیا ہے کہ عیسی علیہ السلام کا آنا یہ قرآن کی آیت ’’و رسولا إلی بنی إسرائیل ‘‘کے خلاف ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جب حضرت عیسی بنی إسرائیل کی طرف آئے تھے اور آپ کے استمرار والے قاعدہ (یہ الگ بات ہے کہ یہ بھی آپ کے سوء فہم کا نتیجہ ہے ) سے اب بھی وہ بنی اسرائیل کے لیے ہی ہیں امت محمدیہ میں نہیں آسکتے تو پھر آپ کے قادیانی کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے ؟
دلیلیں آپ کی بنی إسرائیل کے بنی والی ہیں اور نبی امت محمدیہ میں ثابت کر رہے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ آپ عیسائیوں میں جا کر کوشش کر لیں شاید وہاں آپ کو کوئی کامیابی حاصل ہو جائے ۔ ( لا سمح اللہ )


آپ کو یہ پتہ چل گیا کہ مردہ واپس نہیں آ سکتا لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ نہیں چلا کہ جو فوت ہو جائے وہ واپس نہیں آ سکتا پھر احادیث میں جس نبی کے آنے کا ذکر ہے اس کا نام عیسی بن مریم کیوں ہے ؟
اگر کسی دوسرے نے آنا ہوتا تو نام بھی اسی کا ہوتا ۔
لہذا احادیث میں عیسی بن مریم کا نام ہونا یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ حضرت عیسی زندہ ہیں ( کیونکہ بقول آپ کے مردہ تو آ ہی نہیں سکتا ) اور وہ ہی تشریف لائیں گے ۔


کہل کے حوالے سے میں نے جو بات کی تھی یہ قول ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت نقل کیا ہے :
قال الحسن بن الفضل: وكهلا يعني ويكلم الناس كهلا بعد نزوله من السماء وفي هذه نص على أنه سينزل من السماء إلى الأرض ويقتل الدجال.
اور اس قول کی کی تائید ان متواتر احادیث سے ہوتی ہے جن میں نزول عیسی کی پیشین گوئی ہے ۔
اس حدیث کا راوی مشرح بن ھاعان ہے جس نے خانہ کعبہ پر پتھر برسائے ۔،تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال۔۔۔ اب تو کوئی راہ فرار نہیں۔۔ترمذی اور مشکوۃ میں لکھا ہے کہ ھذا حدیث غریب۔۔۔جبکہ دوسری حدیث میں حضرت عمر کو محدث قرار دیا گیا ہے۔۔
جناب اس حدیث میں واضح لکھا ہوا ہے کہ من قبلی نہ کہ صرف انبیائ ۔تو مراد ہوئی مجھ سے پہلے ورنہ اس بات کی کیا وجہ؟؟نیز جب اپکے عقیدہ کے مطابق عیسی آءیں گے تو انکی انیٹ کو اٹھا کر نبی کریم کے بعد رکھا جائے گا؟؟
جناب فرمایا ابوبکر خیرالناس الا ان یکون نبی کہ ابوبکر سب سے افضل ہے اس امت میں سواَئے کہ کوئی نبی ہو۔۔۔۔۔
قرآن کی آیت واضح ہے کہ قد خلت من قبلہ الرسل۔۔۔نیز تمام لوگ قتل تو نہیں ہوتے طبعی موت بھی کچھ چیز ہے۔۔اور توفی میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔۔۔۔۔
یہ تیس والی حدیث اپ نے پیش کی میں نے نہیں اور اب خود ہی رد کیا۔جناب نبی پاک کا مطلب یہ تو تھا نہیں کہ جو کوئی بھی آئے گا وہ جھوٹا ہی ہوگا؟؟ عیسی نبی نہیں ہونگے جبکہ وہ کہتے ہیں کہ و جعلنی نبیا اب اپکا عقیدہ ہو گا کہ وہ نبی نہں جبکہ قرآن کہہ رہا ہوگا کہ جعلنی نبیا کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا مگر لوگ کہیں گے نہیں یہ غلط ہے جو ہم کہہ رہے وہ ٹھیک ہے۔۔نعوذباللہ
جناب اگر اللہ انکو شریعت سیکھائے گا تو مراد ہے کہ دوبارہ وحی ہو گی؟؟مطلب شریعت دوبارہ نازل ہوگی۔۔یا کوئی مولوی سیکھائے گا؟؟
جناب مجھ پر الزام لگانے سے پہلے یہ تو سوچ لیتے کہ آپ بھی نہین مانتے کہ نبی آئے گا بلکہ صرف عیسی آئیں گے جبکہ حدیث موجود ہے جہاں تک نام کا سوال ہے تو ملاحظہ ہو "اطلاق اسم الشئی علی ما یشابھہ فی اکثر خواصہ و صفاتہ جائز حسن"۔تفسیر الکبیر۔کسی چیز کا نام دوسری چیز پر جس صفات اور خواص میں مشابہت رکھے جائز اور احسن ہے۔۔مثلا عرب کہتے ہیں رئیت حاتما ۔جواھر البلاغہ۔کہ میں نے حاتم کو دیکھا جبکہ مراد اس سے ہوتی ہے کہ سخی آدمی کو دیکھا۔۔
مجھے پتا چلا قرآن سے کیونکہ فرمایا کہ و حرام علی قریۃ اھلکناھا انھم لا یرجعون۔۔اپ قرآن پڑھتے تو یہ بات نہ کرتے۔
جناب قرآن نے صرف کہل کا لفظ استعمال کیا اور لغت کہتی ہے کہ ۳۰ سے ۴۰ سال کا عرصہ اور عیسی عہ کا رفع ۳۳ سال میں ہوا تو وہ کہل کے ۳ سال کلام کر گئے۔۔نیز قرآن مجید میں کہیں یہ عبارت نہیں لکھی جو آپ نے پیش کی یہ آپکی اپنی تفسر کی کتاب میرے لئے قابل حجت نہیں۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لبید جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے آپ کی ایک ایک بات کا اقتباس لے کر علیحدہ سے اس پر گفتگو کی ہے ۔ دوسری طرف آپ ہیں ایک ہی دفعہ پوری پوسٹ کا اقتباس (حالانکہ اس اقتباس کی یہاں ایک فیصد بھی ضرورت نہیں ) لیتے ہیں اور پھر نیچے مہمل کلام بغیر زمام و خطام چھوڑ کے چلتے بنتے ہیں ۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر آپ واقعتا بحث کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی اگر بہت اچھا نہیں تو کم از کم جس طرح آپ کا مقابل لکھتا ہے اتنا ضرور کر لیں ورنہ مجھے بحث سے معذور سمجھیں ۔ تہذیب و ترتیب کے لیے اور بہت سا مواد ہے جو طالبان علم کا منتظر ہے لہذا آپ کی بے سرو پا باتوں کو پہلے مرتب کرنا پھر ان کوسمجھنا اور پھر ان کا جواب لکھنا بہر صورت میرے جیسے کم حوصلہ شخص کے لیے مشکل ہے ۔
میں نے لکھا تھا :
امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب الجامع الصغير و زيادته جو میرے پاس ہے اس کی عبارت کچھ یوں ہے :
لو كان بعدي نبي لكان عمر ابن الخطاب ( حم ت ك - عن عقبة بن عامر ، طب - عن عصمة بن مالك )
(الفتح الكبير في ضم الزيادة إلى الجامع الصغير ص 46 دار الكتاب العربي ، بيروت)
راوی پر جرح اگر واقعتا آپ تحقیقی بنیادوں پر کر رہے ہیں تو حدیث کی پوری سند پیش کرکے اس میں مجروح راوی کی تعیین کردیں ۔ سند میں ایک سے زیادہ راوی ہیں پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں ۔ اور اگر اس مجروح راوی کے بارے میں آئمہ کے اقوال پیش کرکے اس کو نا قابل اعتبار ثابت کردیں پھر تو کیا ہی بات ہے۔
بہرصورت چونکہ بہت بڑے بڑے آئمہ فن نے اس حدیث کو '' صحیح یا حسن '' قرار دیا ہے جیسا کہ ذہبی اور ابن شاہین کا حوالہ اوپر میں ذکر کر چکا ہوں ، اس لیے ہمارے نزدیک تو یہ حدیث قابل قبول ہے اگر آپ واقعتا دلائل کے ساتھ آئمہ فن سے اس حدیث کا ضعیف ہونا ثابت کردیں تو بات آگے چل سکے گی ابھی تک تو آپ نے صرف ایک سیوطی کا حوالہ دیا ہے اور وہ بھی غیر درست ہے ۔ اگر آپ مضعفین حدیث کی تلاش میں کامیاب ہو گئے تو پھر اگلا مرحلہ شروع ہوگا کہ کچھ علماء نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور کچھ نے اس کو ضعیف ۔ آپ حدیث کو ضعیف قرار دینے والوں کی بات کو کس بنیاد پر ترجیح دے رہے ہیں ؟
لہذا آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ زیادہ نہیں کم ازکم
1 امام سیوطی کی تضعیف کا حوالہ دیتے ۔
2 مجروح راوی کا تعین کرنا ۔ وہ آپ نے کردیا ۔ (یہاں مزید آپ کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن محسوس ہوتا ہے آپ اس کو نہیں نبھا سکیں گے )
3۔ جن لوگوں نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے اس کا جواب ۔ جو آپ نہیں بنا سکے ۔
ہاں آپ نے جو لکھا ہے :
اس حدیث کا راوی مشرح بن ھاعان ہے جس نے خانہ کعبہ پر پتھر برسائے ۔،تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال۔۔۔ اب تو کوئی راہ فرار نہیں۔۔ترمذی اور مشکوۃ میں لکھا ہے کہ ھذا حدیث غریب۔۔۔جبکہ دوسری حدیث میں حضرت عمر کو محدث قرار دیا گیا ہے۔۔
اس کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں :
پہلی بات :

مشرح بن ہا عان المعافری نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی تھی اس کی دلیل آپ نے کہا کہ میزان الاعتدال اور تہذیب التہذیب لکھی ہوئی ہے ۔
ان دونوں حضرات کی دلیل ابو جعفر العقیلی کی کتاب الضعفاء کی درج ذیل حکایت ہے :
حدثنا محمد بن إسماعيل قال: حدثنا الحسن بن علي قال: حدثنا موسى بن داود قال: بلغني أن مشرح بن هاعان، كان ممن جاء مع الحجاج , ونصب المنجنيق على الكعبة (ج 4 ص 222 )
یہ حکایت باسند نہیں ہے کیونکہ موسی بن داؤد الضبی الکوفی کو کس نے یہ بات بتائی ؟اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ لہذا
1
یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ ابن ہاعان سنگ باری میں شامل تھا اس کے لیے پہلے کوئی صحیح دلیل لے کر آئیں ورنہ اس دعوی بلادلیل کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔
2
اگر جدلاً مان بھی لیا جائے کہ وہ سنگ باری میں شریک تھا تو جن أئمہ نے اس سنگ باری کے واقعہ کو ذکر کیا ہے انہوں نے اس بات کو مشرح پر جرح کی بنیاد نہیں بنایا لہذا خود اما عقیلی نے ایک اور جگہ پر مشرح کو ذکر کیا ہے اور اس کی روایت پر اس واقعہ کو بنیاد بنا کر جرح نہیں کی ملاحظہ فرمائیں (کتاب الضعفاء للعقیلی ج 3 ص 84 )
حافظ ابن حجر نے اس راوی کو مقبول قرار دیا ہے (تقریب التہذیب ) اگر یہ اس واقعہ کی وجہ سے مجروح ہوتا تو حافظ اس کو ضعیف قرار دیتے ۔
حافظ ذہبی (صاحب میزان الاعتدال ) نے اس کو ثقہ قراردیا ہے ملاحظہ فرمائیں ( الکاشف رقم 5456 )
اس کے علاوہ بھی بہت سارے آئمہ نے اس کو ثقہ قراردیا ہے مثلا
العجلی فی الثقات رقم 1728 احمد بن حنبل نے اس کو ’’ معروف ‘‘ کہا اور ابن معین نے ’’ ثقہ ‘‘ کہا ( کما فی الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم ج 8 ص 432 ) ۔
ایک طرف بڑے بڑے اساطین علم اس کی توثیق کر رہے ہیں دوسری طرف آپ اس کو نا قابل اعتبار قرار دے رہے ہیں وہ بھی ایک غیر ثابت حکایت کی بنیاد پر ۔
دوسری بات :

آپ نے کہا کہ ترمذی نے اس حدیث کو ’’ حدیث غریب‘‘ لکھا ہے ۔ عرض ہے کہ یہ کون سی جرح ہے ۔ حدیث غریب ہونا یہ کوئی جرح نہیں ہے ۔اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ترمذی نے اس کو ’’ حسن غریب ‘‘ لکھا ہے صرف ’’ غریب ‘‘ نہیں لکھا ۔
غریب کا عام طور پر معنی یہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کی سند میں یا کسی طریق میں ایک راوی رہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کوئی جرح نہیں ہے ۔
چونکہ یہ حدیث صحیح اور قابل اعتبار ہے لہذا بہت سارے آئمہ کرام نےاس کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کی مثلا احمد بن حنبل نے ’’ فضائل الصحابہ ‘‘ اور ’’ مسند ‘‘ میں امام رویانی نے اپنی ’’ مسند ‘‘ میں ، آجری نے ’’ الشریعہ ‘‘ میں ، ابن شاہین نے ’’ شرح مذاہب أہل السنۃ ‘‘ میں ، لالکائی نے ’’شرح اصول اعتقاد أہل السنۃ ‘‘میں ، ابو نعیم الأصبہانی نے ’’ فضائل الخلفاء الأربعۃ ‘‘ میں ، امام بیہقی نے ’’ المدخل إلی سنن الکبری ‘‘ میں ،
بلکہ امام ذہبی نے تلخصیص المستدرک میں اس پر واضح الفاظ میں ’’ صحیح ‘‘ کا حکم لگایا ہے ۔
اگر مزید تلاش کیا جائے تو اس طرح کے کئی حوالے مل سکتے ہیں ۔
اس سب کے باوجود آپ اس حدیث کو ضعیف قرارد دینے پر تلے ہوئے ہیں آخر کیوں ؟

لبید نے کہا :
جبکہ دوسری حدیث میں حضرت عمر کو محدث قرار دیا گیا ہے ۔
اب پتہ نہیں اس عبارت سے آپ کیا مراد لینا چاہتے ہیں اور حدیث جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا پتہ نہیں کس جگہ ہے ؟
ہاں ایک بات ذہن میں رکھ لیں اگر آپ کی مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جرح ہے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی عجیب بات نہیں کہ آپ نے ’’ محمد رسول اللہ ‘‘ کی ختم نبوت کا خیال نہ رکھ کر حضور کی توہین کی ہے تو صحابہ تو پھر بعد کی بات ہے ۔ جس طرح ہم ’’ ختم نبوت ‘‘ کے حوالےسے آپ کے موقف کی نقاب کشائی کرسکتے ہیں تو ’’ شان صحابہ ‘‘ کا دفاع بھی ہمارا فرض ہے ۔

لبید نے کہا :
جناب اس حدیث میں واضح لکھا ہوا ہے کہ من قبلی نہ کہ صرف انبیائ ۔تو مراد ہوئی مجھ سے پہلے ورنہ اس بات کی کیا وجہ؟؟نیز جب اپکے عقیدہ کے مطابق عیسی آءیں گے تو انکی انیٹ کو اٹھا کر نبی کریم کے بعد رکھا جائے گا؟؟
آپ کے اس اعتراض کا جواب ہم وضاحت کے ساتھ پیش کرچکے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی نے ایک گھر بنایا اس کی تزیین و آرائش کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ۔ لوگ اس کو دیکھتے اور تعجب کا اظہار کرتے کہ ( اتنا خوبصورت گھر بنایا ہے ) یہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی ؟
پھر حضور نے فرمایا میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں ۔
اب اس نبوی مثال سے ختم نبوت کا مسئلہ روز روش کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ حضور کے تشریف لانے سے پہلے صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی بچی تھی جب حضور آئے تو مکان مکمل ہوگیا اور اب مزید کسی کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔
اور نزول عیسی فی آخر الزمان کو لے کر یہاں اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے ۔
ہاں بحیثیت نبی وہ اس نبوت کی عمارت کا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے بن چکے ہیں ۔

بلکہ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آخری زمانے میں مسیح علیہ السلام وہ آئیں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عمارتِ نبوت کا حصہ بن چکے ہیں ۔
نہ کہ مرزا قادیانی یا کوئی دوسرا تیسرا ۔
اس اقتباس کو باربار پڑہیں اور اگر کوئی نئی بات کر سکتے ہیں تو کریں ورنہ اپنا اور میرا وقت ضائع نہ کریں ۔ مذکورہ اقتباس میں تین نکات بڑے واضح ہیں :

حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد عمارتِ نبوت میں کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ۔

حضرت عیسی علیہ السلام بحیثیت نبی اس عمارتِ نبوت کا حصہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے بن چکے ہیں ۔ اور اب ان کو نبوت دوبارہ نئے سرے سے نہیں ملے گی کہ ان کے نزول سے اس نبوی مثال پر اعتراض کیا جائے بلکہ وہ اس اعتبار سے محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور متبع ہوں گے ۔

آخری زمانے میں مسیح علیہ السلام وہ آئیں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عمارتِ نبوت کا حصہ بن چکے ہیں ۔ نہ کہ مرزا قادیانی یا کوئی دوسرا تیسرا ۔
پہلے نکتے سے مرزا قادیانی کے دعوی نبوت کی تردید ہوتی ہے جبکہ تیسرے نکتے سے مرزے کے مسیح ہونے کی تردید ہوتی ہے کیونکہ (جیسا کہ آپ کو بھی اس بات کا اعتراف ہے ) مرزا حضور سے پہلے عمارتِ نبوت کی اینٹ نہیں بنا ۔

لبید نے کہا :
جناب فرمایا ابوبکر خیرالناس الا ان یکون نبی کہ ابوبکر سب سے افضل ہے اس امت میں سواَئے کہ کوئی نبی ہو۔۔۔۔۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا آپ نے یہ روایت پیش کردی ہے لیکن آپ ڈوبیں گے یہ تنکا بھی آپ کے کسی کام کا نہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں :
حدثنا أبو موسى إن شاء الله، ثنا عبد الله بن داود التمار، عن عبد الرحمن ابن أخي محمد بن المنكدر، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، قال: قال عمر: أبو بكر خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال أبو بكر: لئن قلت قلت ذاك، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما طلعت الشمس على رجل خير من عمر» . ( سنن الترمذی رقم 1274 )
آپ کی پیش کردہ بات حدیث رسول نہیں ہے بلکہ حضرت عمر کا قول ہے ۔ اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ یہ روایت ہی سرے سے جھوٹی ہے حافظ ذہبی نے اس کو ’’ شبہ الموضوع ‘‘ قرار دیا ہے ۔ ( تلخیص المستدرک رقم 4508 ) اور میزان الاعتدال آپ کو یاد ہوگی وہاں حافظ ذہبی نے اس پر تبصرہ فرمایا ہے : ہذا کذب ( المیزان ج 2 ص 415 )
بلکہ آپ کو تو زیادہ دور جانے کی ضرورت ہی نہیں خود امام ترمذی نے سنن میں ایک دوسری جگہ پر اس کے بارے میں فرمایا ہے :
هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وليس إسناده بذاك ( سنن الترمذی رقم 3684 ) امام ترمذی کے ’’ غریب ‘‘ کے بارے میں یہاں آپ کا کیا خیال ہے ؟

لبید نے کہا :
قرآن کی آیت واضح ہے کہ قد خلت من قبلہ الرسل۔۔۔نیز تمام لوگ قتل تو نہیں ہوتے طبعی موت بھی کچھ چیز ہے۔۔اور توفی میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔۔۔۔۔
ذرا بات کھل کر کریں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟

لبید نے کہا :
یہ تیس والی حدیث اپ نے پیش کی میں نے نہیں اور اب خود ہی رد کیا۔جناب نبی پاک کا مطلب یہ تو تھا نہیں کہ جو کوئی بھی آئے گا وہ جھوٹا ہی ہوگا؟؟
حدیث تو میں نے ہی پیش کی تھی اور اسے سے مراد کیا ہے وہ بھی میں نے وضاحت سے بیان کردیا تھا ۔ اور اس کے مقابلے میں آپ نے کہاتھا کہ یہ تیس کی تعداد تو فلاں فلاں صدی میں آج سے کئی ہزار سال پہلے پوری ہوچکی ہے تو ہم نے آپ پر یہ اعتراض کیاتھا بہر صورت ایک دفعہ پھر میری بات کو غور سے پڑھیں اور اس کا جواب لکھنے کی کوشش کریں میں نے لکھا تھا :

رہا یہ مسئلہ کہ متنبیوں کی تعداد (30 ) ایک خاص زمانے تک پوری ہو چکی ہے لہذا اب جو بھی دعوی نبوت کرے گا وہ جھوٹا نہیں ہوگا تو یہ بات بالکل جہالت پر مبنی ہے
پہلی بات : حضور نے یہ بشارت دی ہے کہ تیس لوگ آئیں گے یہ کہیں نہیں کہا کہ 30 سے زیادہ نہیں آئیں گے ، یعنی 30 کا اثبات ہے اس سے زیادہ کی نفی نہیں ہے ۔
اگر قاعدہ و اصول یہی ہے تو آپ ان لوگوں پر کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے مرزا قادیانی کے بعد بھی دعوی نبوت کیا ہے ؟ کیا وہ بھی پھر سچے نبی ہوں گے ؟ کیونکہ تیس کے عدد سے تو وہ بھی اوپر ہیں آپ کے مطابق ۔
اس حدیث کی ایک توجیہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یوں بیان فرماتے ہیں :
وليس المراد بالحديث من ادعى النبوة مطلقا فإنهم لا يحصون كثرة لكون غالبهم ينشأ لهم ذلك عن جنون أو سوداء وإنما المراد من قامت له شوكة وبدت له شبهة كمن وصفنا وقد أهلك الله تعالى من وقع له ذلك منهم وبقي منهم من يلحقه بأصحابه وآخرهم الدجال الأكبر وسيأتي بسط كثير من ذلك في كتاب الفتن إن شاء الله تعالى ۔ ( فتح الباری ج 6 ص 617 )
بفرض محال اگر قاعدہ و اصول یہی ہے جو آپ نے بیان فرمایا تو آپ ان لوگوں پر کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے مرزا قادیانی کے بعد بھی دعوی نبوت کیا ہے ؟ کیا وہ بھی پھر سچے نبی ہوں گے ؟ کیونکہ تیس کے عدد سے تو وہ بھی اوپر ہیں آپ کے مطابق ۔
رہی آپ کی یہ بات :
عیسی نبی نہیں ہونگے جبکہ وہ کہتے ہیں کہ و جعلنی نبیا اب اپکا عقیدہ ہو گا کہ وہ نبی نہں جبکہ قرآن کہہ رہا ہوگا کہ جعلنی نبیا کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا مگر لوگ کہیں گے نہیں یہ غلط ہے جو ہم کہہ رہے وہ ٹھیک ہے۔۔نعوذباللہ
اس کا ہم بارہا جواب دے چکے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اب دوبارہ آکر دعوی نبوت نہیں کریں گے ۔ جعلنی نبیا سے یہ مراد نہیں عیسی علیہ السلام آخری زمانے میں آکر پھر دعوی نبوت کردیں گے ۔ بلکہ یہ دلیل آپ کے خلاف ہے کیونکہ جعلنی نبیا کا مطلب ہے کہ حضرت عیسی نبی بن چکے ہیں یعنی دعوی نبوت کرچکے ہیں نزول قرآن سے پہلے پہلے ۔
جبکہ حدیث کے اندر ان کذابوں کا ذکر ہے جو نزول قرآن کے بعد اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قراردینے کے بعد نبی ہونے کا دعوی کریں گے ۔
لہذا نعوذ باللہ پڑھیں اور دل سے پڑھیں اپنے اس عقیدے پر کہ قرآن کی اس آیت ’’ جعلنی نبیا ‘‘ اور ’’ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ‘‘ کے باوجود ایک جھوٹے کو کبھی نبی کہتے ہوا ور کبھی مسیح کہتے ہو ۔

لبید نے کہا :
جناب اگر اللہ انکو شریعت سیکھائے گا تو مراد ہے کہ دوبارہ وحی ہو گی؟؟مطلب شریعت دوبارہ نازل ہوگی۔۔یا کوئی مولوی سیکھائے گا؟؟
یہ اللہ کی ذمہ داری ہے کہ اللہ ان کو کیسے سکھاتے ہیں ہر بات جو اللہ کرےگے اللہ نے ہمیں نہیں بتائی کہ اللہ فلاں کام کس طرح کرے گا ۔ ہمیں جو کچھ قرآن وسنت میں بتایا گیا ہے اس کا ہمیں پتہ ہے ۔
اگر آپ کے علم قرآن یا حدیث صحیح ہے اس سلسلے میں تو ضرور پیش فرمائیں ۔

اور آپ نے یہ جو باتیں کہی ہیں :
ناب مجھ پر الزام لگانے سے پہلے یہ تو سوچ لیتے کہ آپ بھی نہین مانتے کہ نبی آئے گا بلکہ صرف عیسی آئیں گے جبکہ حدیث موجود ہے جہاں تک نام کا سوال ہے تو ملاحظہ ہو "اطلاق اسم الشئی علی ما یشابھہ فی اکثر خواصہ و صفاتہ جائز حسن"۔تفسیر الکبیر۔کسی چیز کا نام دوسری چیز پر جس صفات اور خواص میں مشابہت رکھے جائز اور احسن ہے۔۔مثلا عرب کہتے ہیں رئیت حاتما ۔جواھر البلاغہ۔کہ میں نے حاتم کو دیکھا جبکہ مراد اس سے ہوتی ہے کہ سخی آدمی کو دیکھا۔۔
مجھے پتا چلا قرآن سے کیونکہ فرمایا کہ و حرام علی قریۃ اھلکناھا انھم لا یرجعون۔۔اپ قرآن پڑھتے تو یہ بات نہ کرتے۔
شاید آپ نے میری درج ذیل باتوں کا جواب بنانے کی کوشش کی ہے :
سبحان اللہ ! جب ہم آپ سے مرزاقادیانی کے دعوی نبوت کے امکانات پر بات کرتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ امکان ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عیسی نبی اللہ آئے گا ۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو آئے گا اس کا نام عیسی ہے لہذا یہ قادیانی کہاں سے آ گیا ؟ تو آپ کہتے ہیں کہ عیسی تو فوت ہو گئے وہ کیسے آ سکتے ہیں ؟
ایک ہی حدیث میں دو باتیں : نبی کا آنا اور اس کا نام عیسی بن مریم ہونا ۔ آپ پہلی بات کو مانتے ہیں اور دوسری کا انکا رکرتے ہیں کیوں ؟
مجھے اس کی وجہ جو سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ دونوں کا انکا رکرنے سے بھی مرزا قادیانی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور دونوں کو ماننے سے بھی ۔ لہذا تؤمنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض والا شیوہ یہود صرف اس لیے اپنایا جا رہا ہے تاکہ جھوٹے کو سچا ثابت کیا جا سکے ۔
اور ساتھ آپ نے ایک اور شوشہ یہ چھوڑ دیا ہے کہ عیسی علیہ السلام کا آنا یہ قرآن کی آیت ''و رسولا إلی بنی إسرائیل ''کے خلاف ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جب حضرت عیسی بنی إسرائیل کی طرف آئے تھے اور آپ کے استمرار والے قاعدہ (یہ الگ بات ہے کہ یہ بھی آپ کے سوء فہم کا نتیجہ ہے ) سے اب بھی وہ بنی اسرائیل کے لیے ہی ہیں امت محمدیہ میں نہیں آسکتے تو پھر آپ کے قادیانی کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے ؟
دلیلیں آپ کی بنی إسرائیل کے بنی والی ہیں اور نبی امت محمدیہ میں ثابت کر رہے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ آپ عیسائیوں میں جا کر کوشش کر لیں شاید وہاں آپ کو کوئی کامیابی حاصل ہو جائے ۔ ( لا سمح اللہ )
گزارش ہے کہ ذرا وضاحت سے لکھیں اور اگر آپ خود ان باتوں کوسمجھتے ہیں تو اپنی سمجھ کو ذرا باہر بھی نکالیں تاکہ کوئی سمجھ کر اس پر کچھ کہہ سکے ۔

لبید نے کہا :
جناب قرآن نے صرف کہل کا لفظ استعمال کیا اور لغت کہتی ہے کہ ۳۰ سے ۴۰ سال کا عرصہ اور عیسی عہ کا رفع ۳۳ سال میں ہوا تو وہ کہل کے ۳ سال کلام کر گئے۔۔نیز قرآن مجید میں کہیں یہ عبارت نہیں لکھی جو آپ نے پیش کی یہ آپکی اپنی تفسر کی کتاب میرے لئے قابل حجت نہیں۔۔۔
ٹھیک ہے ہماری تفسیر کی کتاب آپ کے لیے حجت نہیں ہے ۔ ذرا کوشش کرکے ایسے حوالے دیا کریں کہ مصنفین سارے کے سارے قادیانی ہوں ۔ اگر اس اصول پر عمل شروع ہوا تو آپ کے لیے بہت مشکل ہو جائیگی ۔ ذرا یہ بتائیں کس قادیانی نے لغت پر کتاب لکھی ہے جس سے آپ نے ’’ کہل ‘‘ کا معنی پیش کیا ہے ۔ ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا خضر حیات بھائی۔ لبید صاحب سے یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ جیسے مہد میں کلام کرنا معجزہ تھا، اگر کہل کا کلام معجزہ نہیں۔ بلکہ عمومی معنوں میں کلام ہے جیسا ہر کوئی کرتا ہے تو اسے معجزاتی شان سے قرآن میں بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یہ حدیث غریب ہے اور اسکا ۱ ہی راوی ہے
حدیث غریب کا مطلب پتہ ہے یا بس ایسے ہی لکھ ماراہے ؟
اگر پتہ ہے تو صرف یہ بتلائیں کہ مذکورہ حدیث کیوں غریب ہے؟
نیز یہ بھی بتائیں کہ
کیا ہرغریب حدیث ضعیف ہوتی ہے؟

اور اسکا ۱ ہی راوی ہے اور وہ راوی حجاج کے اس لشکر مین شامل تھا جس نے کعبہ پر سنگ باری کی تھی۔تہذیب التہذیب۔
کس راوی کی بات کررہے ہیں اس کا نام بتلائیں؟
نیز تہذیب کی اصل عبارت پیش کریں ۔
نیز اس کا ثبوت بھی پیش کریں۔

نیز امام سیوطی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
امام سیوطی نے کہاں اس روایت کو ضعیف کہا ہے ان کی کتاب سے حوالہ پیش کریں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جبکہ دوسری حدیث میں حضرت عمر کو محدث قرار دیا گیا ہے۔۔
ناب فرمایا ابوبکر خیرالناس الا ان یکون نبی کہ ابوبکر سب سے افضل ہے
یہ تو کوئی رافضی لگتا ہے۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لبید !
میں آپ سے پہلے ایک گزارش کر چکا ہوں شاید آپ کی نظروں سے اوجھل رہی ہے ملاحظہ فرمائیں :
لبید جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے آپ کی ایک ایک بات کا اقتباس لے کر علیحدہ سے اس پر گفتگو کی ہے ۔ دوسری طرف آپ ہیں ایک ہی دفعہ پوری پوسٹ کا اقتباس (حالانکہ اس اقتباس کی یہاں ایک فیصد بھی ضرورت نہیں ) لیتے ہیں اور پھر نیچے مہمل کلام بغیر زمام و خطام چھوڑ کے چلتے بنتے ہیں ۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر آپ واقعتا بحث کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی اگر بہت اچھا نہیں تو کم از کم جس طرح آپ کا مقابل لکھتا ہے اتنا ضرور کر لیں ورنہ مجھے بحث سے معذور سمجھیں ۔ تہذیب و ترتیب کے لیے اور بہت سا مواد ہے جو طالبان علم کا منتظر ہے لہذا آپ کی بے سرو پا باتوں کو پہلے مرتب کرنا پھر ان کوسمجھنا اور پھر ان کا جواب لکھنا بہر صورت میرے جیسے کم حوصلہ شخص کے لیے مشکل ہے ۔
اور
قابل احترام منتظمین :
انس ، شاکر کلیم حیدر
یہ لبید صاحب صرف پوسٹ کرنے کا شوق رکھتے ہیں ۔
بحث مباحثہ کے اصولوں سے یا تو ناواقف ہیں یا پھر جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں ۔
میں اس سے پہلے بھی ان کو تنبیہ کرچکا ہوں ۔
ان کو کہیں یا تو ہماری باتوں کا جواب دیں یا پھر کہہ دیں کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں اور فورم کے صفحے سیاہ کرنے سے گریز کریں ۔
اگر یہ پھر بھی باز نہیں آتے تو ان کی مشارکات کو پہنچ سے دور رکھیں ۔
جزاکم اللہ خیرا
 
Top