لبید
مبتدی
- شمولیت
- فروری 23، 2012
- پیغامات
- 11
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 13
اس حدیث کا راوی مشرح بن ھاعان ہے جس نے خانہ کعبہ پر پتھر برسائے ۔،تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال۔۔۔ اب تو کوئی راہ فرار نہیں۔۔ترمذی اور مشکوۃ میں لکھا ہے کہ ھذا حدیث غریب۔۔۔جبکہ دوسری حدیث میں حضرت عمر کو محدث قرار دیا گیا ہے۔۔امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب الجامع الصغير و زيادته جو میرے پاس ہے اس کی عبارت کچھ یوں ہے :
لو كان بعدي نبي لكان عمر ابن الخطاب ( حم ت ك - عن عقبة بن عامر ، طب - عن عصمة بن مالك )
(الفتح الكبير في ضم الزيادة إلى الجامع الصغير ص 46 دار الكتاب العربي ، بيروت)
راوی پر جرح اگر واقعتا آپ تحقیقی بنیادوں پر کر رہے ہیں تو حدیث کی پوری سند پیش کرکے اس میں مجروح راوی کی تعیین کردیں ۔ سند میں ایک سے زیادہ راوی ہیں پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں ۔ اور اگر اس مجروح راوی کے بارے میں آئمہ کے اقوال پیش کرکے اس کو نا قابل اعتبار ثابت کردیں پھر تو کیا ہی بات ہے۔
بہرصورت چونکہ بہت بڑے بڑے آئمہ فن نے اس حدیث کو ’’ صحیح یا حسن ‘‘ قرار دیا ہے جیسا کہ ذہبی اور ابن شاہین کا حوالہ اوپر میں ذکر کر چکا ہوں ، اس لیے ہمارے نزدیک تو یہ حدیث قابل قبول ہے اگر آپ واقعتا دلائل کے ساتھ آئمہ فن سے اس حدیث کا ضعیف ہونا ثابت کردیں تو بات آگے چل سکے گی ابھی تک تو آپ نے صرف ایک سیوطی کا حوالہ دیا ہے اور وہ بھی غیر درست ہے ۔ اگر آپ مضعفین حدیث کی تلاش میں کامیاب ہو گئے تو پھر اگلا مرحلہ شروع ہوگا کہ کچھ علماء نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور کچھ نے اس کو ضعیف ۔ آپ حدیث کو ضعیف قرار دینے والوں کی بات کو کس بنیاد پر ترجیح دے رہے ہیں ؟
سر دست ہم ایک اور روایت نقل کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آپ اس پر کیا رد عمل کا اظہا رکرتے ہیں :
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن أبي صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن " مثلي ومثل الأنبياء من قبلي، كمثل رجل بنى بيتا فأحسنه وأجمله، إلا موضع لبنة من زاوية، فجعل الناس يطوفون به، ويعجبون له، ويقولون هلا وضعت هذه اللبنة؟ قال: فأنا اللبنة وأنا خاتم النبيين " ( صحیح البخاری رقم 3535)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی نے ایک گھر بنایا اس کی تزیین و آرائش کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ۔ لوگ اس کو دیکھتے اور تعجب کا اظہار کرتے کہ ( اتنا خوبصورت گھر بنایا ہے ) یہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی ؟
پھر حضور نے فرمایا میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں ۔
اب اس نبوی مثال سے ختم نبوت کا مسئلہ روز روش کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ حضور کے تشریف لانے سے پہلے صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی بچی تھی جب حضور آئے تو مکان مکمل ہوگیا اور اب مزید کسی کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔
اور نزول عیسی فی آخر الزمان کو لے کر یہاں اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے ۔
ہاں بحیثیت نبی وہ اس نبوت کی عمارت کا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے بن چکے ہیں ۔
بلکہ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آخری زمانے میں مسیح علیہ السلام وہ آئیں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عمارتِ نبوت کا حصہ بن چکے ہیں ۔
نہ کہ مرزا قادیانی یا کوئی دوسرا تیسرا ۔
قرآن کی کس آیت میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہوگئے ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ و ما قتلوہ و ما صلبوہ و لکن شبہ لہم ۔۔۔ و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ إلیہ ۔
رہا یہ مسئلہ کہ متنبیوں کی تعداد (30 ) ایک خاص زمانے تک پوری ہو چکی ہے لہذا اب جو بھی دعوی نبوت کرے گا وہ جھوٹا نہیں ہوگا تو یہ بات بالکل جہالت پر مبنی ہے
پہلی بات : حضور نے یہ بشارت دی ہے کہ تیس لوگ آئیں گے یہ کہیں نہیں کہا کہ 30 سے زیادہ نہیں آئیں گے ، یعنی 30 کا اثبات ہے اس سے زیادہ کی نفی نہیں ہے ۔
اگر قاعدہ و اصول یہی ہے تو آپ ان لوگوں پر کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے مرزا قادیانی کے بعد بھی دعوی نبوت کیا ہے ؟ کیا وہ بھی پھر سچے نبی ہوں گے ؟ کیونکہ تیس کے عدد سے تو وہ بھی اوپر ہیں آپ کے مطابق ۔
اس حدیث کی ایک توجیہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یوں بیان فرماتے ہیں :
وليس المراد بالحديث من ادعى النبوة مطلقا فإنهم لا يحصون كثرة لكون غالبهم ينشأ لهم ذلك عن جنون أو سوداء وإنما المراد من قامت له شوكة وبدت له شبهة كمن وصفنا وقد أهلك الله تعالى من وقع له ذلك منهم وبقي منهم من يلحقه بأصحابه وآخرهم الدجال الأكبر وسيأتي بسط كثير من ذلك في كتاب الفتن إن شاء الله تعالى ۔ ( فتح الباری ج 6 ص 617 )
بفرض محال اگر قاعدہ و اصول یہی ہے جو آپ نے بیان فرمایا تو آپ ان لوگوں پر کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے مرزا قادیانی کے بعد بھی دعوی نبوت کیا ہے ؟ کیا وہ بھی پھر سچے نبی ہوں گے ؟ کیونکہ تیس کے عدد سے تو وہ بھی اوپر ہیں آپ کے مطابق ۔
جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی تھی ۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی سے محمدی شریعت پر عمل کروانا ہے تو ان کو سکھائیں گے کیسے ؟ تمام تفصیلات سے ہمارا باخبر رہنا ضروری نہیں ۔
سبحان اللہ ! جب ہم آپ سے مرزاقادیانی کے دعوی نبوت کے امکانات پر بات کرتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ امکان ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عیسی نبی اللہ آئے گا ۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو آئے گا اس کا نام عیسی ہے لہذا یہ قادیانی کہاں سے آ گیا ؟ تو آپ کہتے ہیں کہ عیسی تو فوت ہو گئے وہ کیسے آ سکتے ہیں ؟
ایک ہی حدیث میں دو باتیں : نبی کا آنا اور اس کا نام عیسی بن مریم ہونا ۔ آپ پہلی بات کو مانتے ہیں اور دوسری کا انکا رکرتے ہیں کیوں ؟
مجھے اس کی وجہ جو سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ دونوں کا انکا رکرنے سے بھی مرزا قادیانی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور دونوں کو ماننے سے بھی ۔ لہذا تؤمنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض والا شیوہ یہود صرف اس لیے اپنایا جا رہا ہے تاکہ جھوٹے کو سچا ثابت کیا جا سکے ۔
اور ساتھ آپ نے ایک اور شوشہ یہ چھوڑ دیا ہے کہ عیسی علیہ السلام کا آنا یہ قرآن کی آیت ’’و رسولا إلی بنی إسرائیل ‘‘کے خلاف ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جب حضرت عیسی بنی إسرائیل کی طرف آئے تھے اور آپ کے استمرار والے قاعدہ (یہ الگ بات ہے کہ یہ بھی آپ کے سوء فہم کا نتیجہ ہے ) سے اب بھی وہ بنی اسرائیل کے لیے ہی ہیں امت محمدیہ میں نہیں آسکتے تو پھر آپ کے قادیانی کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے ؟
دلیلیں آپ کی بنی إسرائیل کے بنی والی ہیں اور نبی امت محمدیہ میں ثابت کر رہے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ آپ عیسائیوں میں جا کر کوشش کر لیں شاید وہاں آپ کو کوئی کامیابی حاصل ہو جائے ۔ ( لا سمح اللہ )
آپ کو یہ پتہ چل گیا کہ مردہ واپس نہیں آ سکتا لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ نہیں چلا کہ جو فوت ہو جائے وہ واپس نہیں آ سکتا پھر احادیث میں جس نبی کے آنے کا ذکر ہے اس کا نام عیسی بن مریم کیوں ہے ؟
اگر کسی دوسرے نے آنا ہوتا تو نام بھی اسی کا ہوتا ۔
لہذا احادیث میں عیسی بن مریم کا نام ہونا یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ حضرت عیسی زندہ ہیں ( کیونکہ بقول آپ کے مردہ تو آ ہی نہیں سکتا ) اور وہ ہی تشریف لائیں گے ۔
کہل کے حوالے سے میں نے جو بات کی تھی یہ قول ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت نقل کیا ہے :
قال الحسن بن الفضل: وكهلا يعني ويكلم الناس كهلا بعد نزوله من السماء وفي هذه نص على أنه سينزل من السماء إلى الأرض ويقتل الدجال.
اور اس قول کی کی تائید ان متواتر احادیث سے ہوتی ہے جن میں نزول عیسی کی پیشین گوئی ہے ۔
جناب اس حدیث میں واضح لکھا ہوا ہے کہ من قبلی نہ کہ صرف انبیائ ۔تو مراد ہوئی مجھ سے پہلے ورنہ اس بات کی کیا وجہ؟؟نیز جب اپکے عقیدہ کے مطابق عیسی آءیں گے تو انکی انیٹ کو اٹھا کر نبی کریم کے بعد رکھا جائے گا؟؟
جناب فرمایا ابوبکر خیرالناس الا ان یکون نبی کہ ابوبکر سب سے افضل ہے اس امت میں سواَئے کہ کوئی نبی ہو۔۔۔۔۔
قرآن کی آیت واضح ہے کہ قد خلت من قبلہ الرسل۔۔۔نیز تمام لوگ قتل تو نہیں ہوتے طبعی موت بھی کچھ چیز ہے۔۔اور توفی میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔۔۔۔۔
یہ تیس والی حدیث اپ نے پیش کی میں نے نہیں اور اب خود ہی رد کیا۔جناب نبی پاک کا مطلب یہ تو تھا نہیں کہ جو کوئی بھی آئے گا وہ جھوٹا ہی ہوگا؟؟ عیسی نبی نہیں ہونگے جبکہ وہ کہتے ہیں کہ و جعلنی نبیا اب اپکا عقیدہ ہو گا کہ وہ نبی نہں جبکہ قرآن کہہ رہا ہوگا کہ جعلنی نبیا کہ اللہ نے مجھے نبی بنایا مگر لوگ کہیں گے نہیں یہ غلط ہے جو ہم کہہ رہے وہ ٹھیک ہے۔۔نعوذباللہ
جناب اگر اللہ انکو شریعت سیکھائے گا تو مراد ہے کہ دوبارہ وحی ہو گی؟؟مطلب شریعت دوبارہ نازل ہوگی۔۔یا کوئی مولوی سیکھائے گا؟؟
جناب مجھ پر الزام لگانے سے پہلے یہ تو سوچ لیتے کہ آپ بھی نہین مانتے کہ نبی آئے گا بلکہ صرف عیسی آئیں گے جبکہ حدیث موجود ہے جہاں تک نام کا سوال ہے تو ملاحظہ ہو "اطلاق اسم الشئی علی ما یشابھہ فی اکثر خواصہ و صفاتہ جائز حسن"۔تفسیر الکبیر۔کسی چیز کا نام دوسری چیز پر جس صفات اور خواص میں مشابہت رکھے جائز اور احسن ہے۔۔مثلا عرب کہتے ہیں رئیت حاتما ۔جواھر البلاغہ۔کہ میں نے حاتم کو دیکھا جبکہ مراد اس سے ہوتی ہے کہ سخی آدمی کو دیکھا۔۔
مجھے پتا چلا قرآن سے کیونکہ فرمایا کہ و حرام علی قریۃ اھلکناھا انھم لا یرجعون۔۔اپ قرآن پڑھتے تو یہ بات نہ کرتے۔
جناب قرآن نے صرف کہل کا لفظ استعمال کیا اور لغت کہتی ہے کہ ۳۰ سے ۴۰ سال کا عرصہ اور عیسی عہ کا رفع ۳۳ سال میں ہوا تو وہ کہل کے ۳ سال کلام کر گئے۔۔نیز قرآن مجید میں کہیں یہ عبارت نہیں لکھی جو آپ نے پیش کی یہ آپکی اپنی تفسر کی کتاب میرے لئے قابل حجت نہیں۔۔۔