• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قادیانیوں کی اسلامیات کے لیکچرر کی پوسٹوں پر بھرتی۔۔۔۔۔

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
بھائی مکی پاکستانی!

مجھے آپ سے کوئی اختلاف مقصود نہیں اور نہ ہی یہ وقت اس منحوس خبر کے تناظر میں کسی اختلافِ رائے کی اجازت دیتا ہے۔ اللہ ہمیں متحد و متفق رکھے، آمین۔
تاہم میں پیشگی معذرت اور اس وضاحت کے ساتھ کہ مجھے آپ کے چند نکات نے درست سمجھ میں نہ آنے کے باعث قدرے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو ذیل میں نقل کرتا ہوں۔ امید ہے مجھے سمجھنے اور رہنمائی سے نوازیں گے:

اگر غیر مسلم لکھا تو اسلامیات کے لئے بطور امیدوار وہ فارم جمع کروا سکتے تھے۔
آخر کیوں وہ بطور امیدوار فارم جمع کروانے کا حق رکھتے ہیں؟ آئینی طور پر انھیں یہ حق حاصل ہی نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر آئین اس کی اجازت دیتا ہے تو اس ضمن میں آئینی ترامیم پر زور دیا جانا اور رائے عامہ کوہموار کیا جانا چاہیئے۔
کیا پبلک سروس کمیشن کی طرف سے کوئی پابندی تھی۔
کس قسم کی پابندی مراد ہے؟ مزید وضاحت مطلوب ہے۔
اگر مسلم لکھا تو آئین کی خلاف ورزی نھیں کی۔
کیا یہ نقطہ نظر موجودہ آئین کے مطابق ہے؟ اس بارے میں اعتراض سطور بالا میں اٹھا چکا ہوں۔
پاکستان میں کلیدی اور حساس شعبوں میں اور بالخصوص تعلیم کے شعبہ میں قادیانیوں پر کڑی پابندیاں اور حفاظتی اقدامات کے طریق کار ہونا چاہیئں۔

اس تحریر میں جو سوالات میں نے مختلف اشکال میں اٹھائے تھے۔ اس کے اولین مخاطب حکومت ،متعلقہ۔حکومتی ادارے اور مستفید اقلیتی غیر مسلم فرقہ تھے۔
اس کے بعد دوسرے مخاطب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا با الخصوص نظریاتی،دینی رحجان والے افراد۔
اسی طرح وہ دینی رہنماہ اور علما جو ملکی ایوانوں میں بیٹھے ھیں۔
تا کہ اس اہم مسلے پر ان متعلقہ اداروں سے وضاھت طلب کی جائے کہ یہ کیسے ہوا۔
اور اس اقلیتی فرقہ کے افراد سے پوچھا جائے کہ اس مخصوص مضمون کے لئے ان کی نامزدگی کیسے ہوئی۔
لیکن غالبا یہ اہم مسلہ بھی سرد خانے کی نظر ہو گیا۔
نفس مضمون میں کوئی شبہات تھے نہ ہی میرے ذہن میں کوئی ایسی بات تھی۔
شائید آپ کی تشویش اب ختم ہو گئی ہو۔ اللہ کرے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
ماہ فروری کے الاحیاء میں ہمارے دوست سید محمد علی مدیر الاحیاء نے اسی مو ضوع پر فکر انگیز اداریہ رقم کیا ہے-میں کوشش کرتا ہوں کہ اسے یہاں شیئر کیا جاسکے-
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
لیجیے برادرم محمد علی کا اداریہ پیش خدمت ہے-
سید محمد علی

غفلت یا سازش​


کچھ ہی دنوں قبل پنجاب پبلک سروس کمیشن کے نتایج منظر عام پر آے۔ بعض دوستوں کے توجہ دلانے پر تحریری امتحان میں کامیاب ہونے والوں کی فہرست کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسلامیات کے ممکنہ لیکچراروں میں 18 ’ہستیاں‘ ہمارے وطن کے مرزائی باسیوں کی ہیں۔ ناظرین ملاحظہ کرنا چاہیں تو ویب سائٹ کا عنوان کچھ یوں ہے:
WRITTEN RESULTS
ویسے تو گزشتہ کئی برسوں سے نالایق حکومتوں نے اس قادیانی ٹولے پر منصب و اعزاز کے متعدد دروازوں کو کھول رکھا ہے۔ CSS اور PCS کے اداروں پر ان کی گرفت ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کے کئی شعبوں پر یہ فرقۂ زنا دقہ پوری طرح حاوی ہے۔ پراگندہ افکار کے وسیع پیمانے پر پھیلائو کے لیے یہ لوگ اخبارات اور رسایل و جراید کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر روزنامہ ’الفضل‘ اور ہفت روزہ ’لاہور‘ اور ماہنامہ ’البدر‘ باقاعدگی سے شایع ہوتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کے ملازم، میزبانوں کی صورت میں اور بڑی سطح کے صحافیوں اور مبصروں کے روپ میں ہر وقت دین و مذہب کے خلاف نفرت آمیز ماحول پیدا کرنے اور اپنے لامذہب نظریات کی آبیاری کے لیے جلوہ گر رہتے ہیں۔ لیکن حیرت اس پر ہے کہ ’اسلامیات‘ جیسا خالص مذہبی علم بھی قادیانی معلموں کے سپرد کیا جارہا ہے!!! یہ بات جانتے ہوے بھی کہ ہمارے نصاب میں ’الاحزاب‘ جیسی مایہ ناز سورتیں داخل ہیں۔ خدا جانے کہ ’ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘ جیسے ناقابل تسخیر براہین کی تعلیم دیتے ہوے یہ قادیانی معلم تشریحات کے نام پر کیسی کیسی تحریفات کی مذموم مثالیں قایم کریں، قرآنی آیات اور عالی قدر فرموداتِ نبویﷺ کے ساتھ کیا کچھ استہزا ہو اور بحث و تمحیص کے عنوان سے عقیدہ و فکر اسلامی کے رد و بدل کا کیا انداز رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نونہالانِ ملّت جوان ناشائستہ اور بدآموز معلمین کے زیر سایہ تربیت لے کر معاشرے میں اتریں گے تو ختم نبوت کے حوالے سے ان کے تخریبی ذہن اور دین و مذہب سے عامیانہ وابستگی کا کفارہ کون ادا کرے گا؟ قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت اُس کا نظام تعلیم سامنے رکھ کر دی جاتی ہے۔ تعلیم کے سب ہی عناصر اہم ہیں مگر اِس میں کیا تردد ہے کہ اُستاذ مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے، اُس کے افکار اور ذاتی رجحانات ہی کے ذریعے سے ایک طالب علم اپنے مقاصد و اہداف کی معرفت حاصل کرتا اور اُن کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ ہمارے یہاں نظام تعلیم پہلے ہی دانش مندی، روحانیت، مقصد حیات اور اِخلاص جیسے بنیادی اوصاف سے محروم ہے۔ اگر شعبہ اسلامیات کی صورت میں دین کو جزوی طور پر حصہ دار بنایا بھی گیا ہے تو اب اِس کے تحفظ و بقا کے لیے خود اِس کے قاتلوں کا انتخاب کس حکمت پر مبنی ہے؟ ذرا تصور کیجئے کہ ابتدائی مرحلے میں یہ معمولی لیکچرار اپنی ملازمت کے ارتقائی سفر میں جب با اختیار عہدوں پر متمکن ہوں گے تو اُن لوگوں سے کیا کچھ روا رکھیں گے جو آئین پاکستان اور شریعت کی رو سے حقیقی مسلمان ہے۔ اول تو مسلمانوں کو اسلامیات کی اِس ملازمت کے لیے نااہل قرار دیا جاے گا اور اگر کوئی منتخب ہو بھی گیا تو جس کفریہ ماحول میں اِسلامیات کی درس و تدریس جاری ہوگی، وہاں رویوں کے تعفن اور برتائو کی کراہت ختم نبوت کے کس چراغ کو فروزاں رہنے دے گی؟ کیونکہ اِن حضرات کی جرأت کا یہ عالم ہے کہ خلاف دستور اپنی عبارتوں اور خطاب و بیان میں اہل اسلام کو کافر کہتے ہوے ذرا بھی نہیں ٹھٹھکتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نظام تعلیم میں بالعموم اور شعبہ اسلامیات میں بالخصوص قادیانی کافروں کو تدریس کے مواقع فراہم کرنا اپنوں کی بے جا غفلت اور عیار استعماری حکومتوں کی گھنائونی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہ حرکت ہر اعتبار سے تمرد و بغاوت کی حد تک خلاف قانون اور مجرمانہ ہے۔
اگر قوم اس پر بھی خاموش رہنا چاہتی ہے اور مذہبی روایات سے برگشتہ، بے قیمت اور مغرب نواز چند دانشوروں کی آرا کے مطابق، رواداری کی آڑ میں اس مسئلے کو ناقابل تعرض سمجھتی ہے تو بہتر ہوگا کہ ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مذہبی موت کی آغوش میں چلے جائیں۔ لادینیت کی ان شاہراہوں پر گامزن ہوجائیں جن پر چلنے والوں کے لیے مادی دلآویزی اور دنیوی عیش ومسرت ہی اصل مقصد حیات ہے اور پھر رسول اللہ ﷺ سے تعلق داری کے جھوٹے دعوئوں کی بھی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ خود کو فخریہ مسلمان کہلانے کی بھی حاجت نہیں، کیونکہ جس مسلمان معاشرے کی تہوں میں مذہبی جوش نہ رہا ہو، جس کی اسلامی اقدار کو ہر سطح پر پامال کیا جارہا ہواور جس کے افراد میں کوئی مابہ الامتیاز ایسا نہ ہو جو اس مذکورہ ’تعلیمی گراوٹ‘ کا قضیہ معلوم ہو جانے کے بعد صداے احتجاج بلند کرسکے اور تحفظ ِ ختم نبوت کے حوالے سے اس قدر قلاش اور بے نوا ہوچکا ہو تو اسے دین کے نام پر زندہ رہنے کا کیا حق ہے؟ اسے اپنی حیثیت کا تعین کرنا چاہیے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، پاکستانی معاشرہ ابھی زندہ ہے، روحِ اسلام بیدار ہے اور قادیانیوں کے خلاف اپنے بزرگوں کی قربانیوں اور جدوجہد کی داستانیں تاریخ کے ضیا بار اوراق پر مرتسم ہیں اور اسلام اور محمدﷺ سے وفاداری کا عہد و پیمان ہمیں یاد ہے تو اس مذموم اقدام کے خلاف عملی احتجاج کے لیے نکلیں، اہل بست و کشاد کو ذمہ داری کا احساس دلائیں اور یہ تجویز پیش کریں کہ سرکاری وثیقہ جات کا دوبارہ جائزہ لیا جاے اور فی الفور نظام تعلیم کے تصفیے کو یقینی بنایا جاے اور خاص طور پر شعبہ اسلامیات میں اِن کافروں کی تقرریوں پر پابندی عاید کی جاے۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
بھائی مکی پاکستانی!

مجھے آپ سے کوئی اختلاف مقصود نہیں اور نہ ہی یہ وقت اس منحوس خبر کے تناظر میں کسی اختلافِ رائے کی اجازت دیتا ہے۔ اللہ ہمیں متحد و متفق رکھے، آمین۔
تاہم میں پیشگی معذرت اور اس وضاحت کے ساتھ کہ مجھے آپ کے چند نکات نے درست سمجھ میں نہ آنے کے باعث قدرے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو ذیل میں نقل کرتا ہوں۔ امید ہے مجھے سمجھنے اور رہنمائی سے نوازیں گے:

اگر غیر مسلم لکھا تو اسلامیات کے لئے بطور امیدوار وہ فارم جمع کروا سکتے تھے۔
آخر کیوں وہ بطور امیدوار فارم جمع کروانے کا حق رکھتے ہیں؟ آئینی طور پر انھیں یہ حق حاصل ہی نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر آئین اس کی اجازت دیتا ہے تو اس ضمن میں آئینی ترامیم پر زور دیا جانا اور رائے عامہ کوہموار کیا جانا چاہیئے۔
کیا پبلک سروس کمیشن کی طرف سے کوئی پابندی تھی۔
کس قسم کی پابندی مراد ہے؟ مزید وضاحت مطلوب ہے۔
اگر مسلم لکھا تو آئین کی خلاف ورزی نھیں کی۔
کیا یہ نقطہ نظر موجودہ آئین کے مطابق ہے؟ اس بارے میں اعتراض سطور بالا میں اٹھا چکا ہوں۔
پاکستان میں کلیدی اور حساس شعبوں میں اور بالخصوص تعلیم کے شعبہ میں قادیانیوں پر کڑی پابندیاں اور حفاظتی اقدامات کے طریق کار ہونا چاہیئں۔

مذکورہ بالا حصہ محترم طاھر صاحب کا ھے ۔جس میں میرے اٹھائے گئے سوالات پر تشویش کا اظھار کیا تھا۔

اس تحریر میں جو سوالات میں نے مختلف اشکال میں اٹھائے تھے۔ اس کے اولین مخاطب حکومت ،متعلقہ۔حکومتی ادارے اور مستفید اقلیتی غیر مسلم فرقہ تھے۔
اس کے بعد دوسرے مخاطب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا با الخصوص نظریاتی،دینی رحجان والے افراد۔
اسی طرح وہ دینی رہنماہ اور علما جو ملکی ایوانوں میں بیٹھے ھیں۔
تا کہ اس اہم مسلے پر ان متعلقہ اداروں سے وضاھت طلب کی جائے کہ یہ کیسے ہوا۔
اور اس اقلیتی فرقہ کے افراد سے پوچھا جائے کہ اس مخصوص مضمون کے لئے ان کی نامزدگی کیسے ہوئی۔
لیکن غالبا یہ اہم مسلہ بھی سرد خانے کی نظر ہو گیا۔
نفس مضمون میں کوئی شبہات تھے نہ ہی میرے ذہن میں کوئی ایسی بات تھی۔
شائید آپ کی تشویش اب ختم ہو گئی ہو۔ اللہ کرے۔


اسی سلسلے میں جناب طاھر الاسلام عسکری کی پوسٹ جو سید محمد علی صاحب کی ھے ۔یھاں چسپاں کی ھے۔

مجھے امید ھے کہ اسی سنگین مسلئے کی اھمیت کے پیش نظر باقی جرائید،اخبارات۔چینلزباالخصوص دینی رسائل اور ٹی وی اس کو پورے
شدومد سے اٹھائیں گئے۔
 

طاہر

مبتدی
شمولیت
جنوری 29، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
0
بھائی مکی پاکستانی!

مجھے آپ سے کوئی اختلاف مقصود نہیں اور نہ ہی یہ وقت اس منحوس خبر کے تناظر میں کسی اختلافِ رائے کی اجازت دیتا ہے۔ اللہ ہمیں متحد و متفق رکھے، آمین۔
تاہم میں پیشگی معذرت اور اس وضاحت کے ساتھ کہ مجھے آپ کے چند نکات نے درست سمجھ میں نہ آنے کے باعث قدرے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو ذیل میں نقل کرتا ہوں۔ امید ہے مجھے سمجھنے اور رہنمائی سے نوازیں گے:

اگر غیر مسلم لکھا تو اسلامیات کے لئے بطور امیدوار وہ فارم جمع کروا سکتے تھے۔
آخر کیوں وہ بطور امیدوار فارم جمع کروانے کا حق رکھتے ہیں؟ آئینی طور پر انھیں یہ حق حاصل ہی نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر آئین اس کی اجازت دیتا ہے تو اس ضمن میں آئینی ترامیم پر زور دیا جانا اور رائے عامہ کوہموار کیا جانا چاہیئے۔
کیا پبلک سروس کمیشن کی طرف سے کوئی پابندی تھی۔
کس قسم کی پابندی مراد ہے؟ مزید وضاحت مطلوب ہے۔
اگر مسلم لکھا تو آئین کی خلاف ورزی نھیں کی۔
کیا یہ نقطہ نظر موجودہ آئین کے مطابق ہے؟ اس بارے میں اعتراض سطور بالا میں اٹھا چکا ہوں۔
پاکستان میں کلیدی اور حساس شعبوں میں اور بالخصوص تعلیم کے شعبہ میں قادیانیوں پر کڑی پابندیاں اور حفاظتی اقدامات کے طریق کار ہونا چاہیئں۔

اس تحریر میں جو سوالات میں نے مختلف اشکال میں اٹھائے تھے۔ اس کے اولین مخاطب حکومت ،متعلقہ۔حکومتی ادارے اور مستفید اقلیتی غیر مسلم فرقہ تھے۔
اس کے بعد دوسرے مخاطب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا با الخصوص نظریاتی،دینی رحجان والے افراد۔
اسی طرح وہ دینی رہنماہ اور علما جو ملکی ایوانوں میں بیٹھے ھیں۔
تا کہ اس اہم مسلے پر ان متعلقہ اداروں سے وضاھت طلب کی جائے کہ یہ کیسے ہوا۔
اور اس اقلیتی فرقہ کے افراد سے پوچھا جائے کہ اس مخصوص مضمون کے لئے ان کی نامزدگی کیسے ہوئی۔
لیکن غالبا یہ اہم مسلہ بھی سرد خانے کی نظر ہو گیا۔
نفس مضمون میں کوئی شبہات تھے نہ ہی میرے ذہن میں کوئی ایسی بات تھی۔
شائید آپ کی تشویش اب ختم ہو گئی ہو۔ اللہ کرے۔
بھائی مکی پاکستانی!

السلام و علیکم! بھائی جان آپ کے جواب اور وضاحت کا بہت شکریہ۔ میں نے پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ چند نکات سمجھ میں نہ آنے کے باعث چند نکات پر تشویش لا حق ہوئی۔ مجھے آپ کی اخلاص نیت پر کبھی بھی شائبہ نہیں تھا۔

آپ کی وضاحت سے مجھے آپ کا بیان سمجھنے میں نہ صرف مدد ملی، بلکہ میں اب آپ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات پر الحمد لللہ نہ صرف مطمئن ہوں بلکہ دلی مسرت و افتخار رکھتا ہوں اور ہمہ تن دعا گو ہوں۔ ان شاء اللہ

والسلام و علیکم
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
QUOTE=طاہر;34032]بھائی مکی پاکستانی!

السلام و علیکم! بھائی جان آپ کے جواب اور وضاحت کا بہت شکریہ۔ میں نے پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ چند نکات سمجھ میں نہ آنے کے باعث چند نکات پر تشویش لا حق ہوئی۔ مجھے آپ کی اخلاص نیت پر کبھی بھی شائبہ نہیں تھا۔

جزاکم اللہ خیر۔

مکالمہ کا یھی فائدہ ہوتا ھے۔

امید ھے آپ آئندہ بھی اپنی حسنِ نگاہ ڈالتے رھیں گئے۔
 
Top