رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
البهلول بن حسان بن سنان، أبو الهيثم التنوخي
اسلام علیکم۔
شیخ زبیر علی زئی شفاہ اللہ اس کلپ میں (32:00 – 33:15) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اصحاب الحدیث کی فضیلت پر ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
1- امام خطیب بغدادی قاضی بھلول کے متعلق ان کے پوتے بھلول بن اسحاق بن بھلول سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "كان جدي البهلول بن حسان قد طلب الأخبار، واللغة والشعر، وأيام الناس، وعلوم العرب، فعلم من ذلك شيئا كثيرا، وروى منه رواية واسعة، ثم طلب الحديث، والفقه، والتفسير والسير، وأكثر من ذلك، ثم تزهد إلى أن مات بالأنبار في سنة أربع ومائتين." (تاریخ بغداد: 7/112 واسنادہ حسن)۔"یہ روایت قاضی بھلول بن حسان التنوخی البغدادی نے بیان کی ہے۔ اس کے بعد اوپر ساری سند صحیح ہے۔ قاضی بھلول جو ہیں وہ اپنے زمانے کہ قاضی تھے، شائعر تھے، نیک تھے، ادیب تھے، یہ ثابت ہے۔۔۔ لیکن توثیق ثابت نہیں ہے۔۔ یہ بہت عظیم الشان دلیلوں میں سے تھی۔ اگر کسی بھائی کو قاضی بھلول کی توثیق مل جاے نہ، کوئی ایک بھی توثیق مل جائے، تو پھر ان کا چونکہ قاضی بھی تھے، نیک بھی تھے، شائعر ادیب بھی تھے۔ اس طرح تو جرح بھی کوئی کسی نے کی نہیں ہے، تاریخ بغداد وغیرہ میں ان کے حالات موجود ہیں، تو پھر تو یہ روایت حسن بن جائے گی۔ ابھی تک تو اس پر دل مطمئن نہیں ہے"۔
2- امام عبد العظیم بن عبد القوی المنذری (المتوفی 656) بھلول بن حسان کی ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: "رواه البزار ورواته ثقات" (الترغیب والترہیب: 3/252)۔
3- علامہ نور الدین الہیثمی (المتوفی 807) بھی اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "رواه البزار، ورجاله ثقات" (مجمع الزوائد: 8/176)۔
امام ابو نعیم الاصبھانی نے بھی ان سے اپنی صحیح میں روایت لی ہے لیکن وہ متابعات میں ہے اس لیے میں نے بیان نہیں کی۔
اس کے علاوہ حافظ ابن عبد الہادی نے بھی ان کی روایت تنقیح التحقیق میں بیان کی ہے (3/103 ح 1594)۔ اور میرے خیال سے ابن عبد الہادی صرف صحیح حدیثیں ہی بیان کرتے ہیں واللہ اعلم۔ اس پر کسی عالم کو چیک کرنا چاہیے۔
کفایت اللہ
رفیق طاھر